عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

کچھ برادرم راشد کامران کے بارے میں

سنا ہے گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو رگ ظرافت پھڑکی توسوچا راشد بھائی کے بارے میں کچھ سخن آرائی کی جائے۔
محترم راشد بھائی ہمارے دیرینہ “بھائی-دوست” ہیں کیونکہ “دوست-دوست” اپنی مرضی سے بنائے جاتے ہیں – محترم سے ہماری دوستی پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے جو ہماری آدھی اور ان کی ایک  چوتھائی عمر بنتی ہے۔ ہم انہیں ١٩٩٦ سے اس مضمون کی تاریخ اشاعت تک جانتے ہیں، (وکیل صاحب – ہماری وصیت میز کی اوپر والی دراز میں رکھی ہے)۔
راشد بھائی پنجوقتہ لبرل آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو مشرق کا بل ماہر گردانتے ہیں اور شائد اسی بنا پر مسجد سے نکلتے وقت ٹوپی فورا اتار لیتے ہیں کہ دعوی تجدد پر حرف نا آئے۔  جماعت اسلامی سے انہیں وہی پرخاش ہے جو منٹو کو ستر سے اور عصمت چغتائی کو رضائی سے تھی لیکن البرٹ پنٹو کے برعکس راشد بھائی کو غصہ بلکل نہیں آتا۔ نہایت بزلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے ہیں ۔ وقوع سے یاد آیا کہ ان کا جغرافیہ زیادہ تر ٹی وی اور میک بک کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دھول دھپے کے قائل نہیں لیکن یاروں کے یار ہیں لہذا کبھی کبھی ہمارے ساتھ دوڑ بھاگ لیا کرتے ہیں۔ مگر جب سے پچھلی بار کے ٹریل رن (پہاڑی راستوں اور جنگلات کی دوڑ)‌ میںچند مستورات فرنگ نے انکے کندھوں کے سہارے سے دریا پار کئے ہیں، اب یہ شہری میراتھن میں بھی دریاوں کی موجودگی پر اصرار کرتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں، دیکھیں یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے۔
خوش شکل آدمی ہیں، شب دیجور کی پھبتی حاسدوں کی سازش ہے، ان نامرادوں کا منہ کالا۔ اسی وجاہت کی بنا پر شائد اسی بنا پر جامعہ کراچی میں کلاس کی خواتین انہیں راشد بھائی کہ کر بلاتی تھی، شائد اس میں پیری و کہن سالی کا بھی کچھ دخل ہو پر راقم کو بہتان طرازی سے کیا لینا دینا۔
محترم ایپل کے بانی اسٹیو جابس کے بڑے معتقد ہے، انکو اپنا پیرومرشد مانتے ہیں کہ حضرت جابس کی تخلیق کردہ ہر چیز کو انتہائی ادب سے بھاری ہدیہ دے کر خریدتے ہیں اور قصر راشد کی زینت بناتے ہیں۔ اس جامع مجموعہ کی بنا پر ایپل والے ان کے گھر پر اپنا بورڈ لگانے لگے تھے کہ بڑی مشکل سے روکا گیا۔ تجدد کا پائے چوبیں کہ پسندیدہ مشروب ‘موکا’ کافی ٹھرا۔ پچھلی دفعہ معمول کے بلڈ ٹیسٹ میں کیفین کا تناسب اتنا تھا کہ اسے تحقیق کے لئے اسٹار بکس بھیجا گیا اورمحترم کو اعزازی رکنیت ملی۔
ریاست بہار سے تعلق کے باوجود بہت عمدہ اردو نثر لکھتے ہیں، بلکل پتا نہیں لگتا۔ ، جی ہاں کبھی کبھی سرقے کے بغیر بھی۔ اپنی شاعری کو امام دین اور میر کا سنگم قرار دیتے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ ان کی تازہ غزل ہمیں نا سننی پڑئے۔ خود ہی کہا کرتے ہیں کہ “شاعری بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں۔۔”، مزید صرف بالغان کے لئے۔
راشد بھائ کا حافظہ نہائت عمدہ ہے، شعر اور ادھار کبھی نہیں بھولتے۔ ہم کبھی کوئئ شعر اٹک جائے تو انہیں ہی فون ملاتے ہیں۔ انکا ہمارا سامنا ابتداجامعہ کراچی میں ہوا اور ہم ان کے علم و فن کے گرویدہ ہو گئے۔ وسیع المطالعہ ہیں، کل ہی بتا رہے تھے کہ میبل اور میں کا پلاٹ‌ زرا ڈھیلا ہے اور میبل اصل میں ‘سویرے جو کل میری انکھ کھلی’ والے لالا کا بھائی تھا۔ سیاست اور دیگر  اس صنف کے تمام کاموں میں بائیں بازو کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہماری رائے میں‌ کلازٹ کنزرویٹو ہیں، باہرنکلنے کا انتظار ہے لیکن شاید ٹام کروز کے ساتھ اچھی جم رہی ہے۔
ً
ہم چونکہ انکے غیر معنوی لنگوٹیا ہیں اور انہیں جامعہ کے پواینٹ اغوا کرنے کے زمانے سے جانتے ہیں لہذا ہماری راے کو اس کم سخن، نابغہ روزگار ہستی کے بارے میں ہرگز درخور اعتنا نا گردانئے گا۔ آج کل محترمی روزی اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، حاسدوں کا کہنا ہے کہ اس میں روزگار کم اور روزی کا ہاتھ زیادہ ہے۔ شائد یہی منشا ہے کہ رومانیت کی علامت ہسپانوی زبان کے انتہائی رسیا ہیں. بلکل اہل زبان کی طرح بولتے ہیں اگر اہل زبان موجود نا ہوں اور جیسا کہ فراز نے کہا
زبان یار کیلاشی، ما از حرف بیگانہ
اس زمن میں ہمیں گالف والے چیتے اور اپیلیشین ٹریل کا کافی عمل دخل معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال، ہمارے دائی شریک بھائی ہیں اور ہمیں نہایت عزیز۔ اسی لئے اس سے پہلے کہ کوئ اور ہجو معاف کیجیے گا تعارف لکھے، ہم نے ابتدا کی۔ اب یہ مضمون کا اختتام ہے اور یہاں پر عموما دیکھا گیا ہے کہ راقم کہے سنے کی معافی چاھتا ہے لیکن ادارہ اس زمن میں یہ کہے گا کہ اس تمام کی تمام یاوہ گوئی کا بھرپور ذمہ دار ہے اور اگر کسی قاری کو برا لگتا ہے تو لگا کرے۔
باقی یار زندہ صحبت باقی
Share

11 Comments to کچھ برادرم راشد کامران کے بارے میں

  1. April 24, 2010 at 10:41 am | Permalink

    Salam Alaikum,
    Masha-ALLAH aap ki thareer waqai rang o booooooo ka khubsoorat imtizaj hein. ALLAH apko mazeed lutf amooz threer likhna ki tofeeq ata farmai aur hazrat rashid hein kaun bohat milna ka ishtiaq hotah hein.

    W’salam
    Muhammad Kashif Ismail

  2. April 24, 2010 at 11:55 am | Permalink

    قبلہ یہ تو آپ نے ٹہرے ہوئے پانی میں کنکرکے بجاے پوری چٹان دے ماری ہے 🙂
    جماعت اسلامی والی بات کی سیاسی درستگی البتہ ضروری ہے کہ جدید مثالوں سے واضح کروں تو جماعت سے اختلاف ویسا نہیں ہے جیسا ٹی پارٹی کا اوبامہ سے ہے۔۔ یہ وضاحت ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کالی شلوار نا پڑھی ہو یا ننھی کی نانی کو بچوں کا ادب سمجھتے ہوں۔ اب “میاؤں” قسم کے انسان نظریاتی اختلاف بھی نا رکھیں تو زندگی میں بچا کیا۔۔

    باقی تو جی پانی پانی کرگئی قلندر کی “ہر” بات۔

  3. April 26, 2010 at 2:07 pm | Permalink

    ننھی کی نانی شاید عصمت کا نقطہ عروج ہے ۔
    راشد صاحب اس قسم کے مضمون کے بہت عرصے کے مستحق تھے سو اب یہ ضرورت پوری ہوئی ۔
    ہاں یار زندہ فضیحت باقی

  4. April 27, 2010 at 5:42 am | Permalink

    گو کہ راشد کامران بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود آپ نے وہ کمی پوری کی ہے جو کوئی “لنگوٹیا” ہی کر سکتا ہے۔ بہت خوب لکھا ہے۔
    راشد بھائی کے ہم پرانے معتقد ہیں، خصوصا ان کی جذباتی نہ ہونے کی عادت بہت بھاتی ہے۔
    ویسے اس تعارف کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے کسی لنگوٹیے کو بلاگنگ کا رخ نہ کرنے دوں بلکہ اگر کوئی رخ کرنے کی کوشش بھی کرے تو اس کا ہر راستہ روکوں کہ کہیں وہ بھی آپ کی طرح ہمیں قلم کی زد میں نہ رکھ لے اور پھر ۔۔۔۔۔ چراغوں میں روشنی نہ رہے 🙂 ۔

  5. April 27, 2010 at 12:06 pm | Permalink

    عمدہ تحریر ہے پڑھ کر مزہ آیا۔ خاص کر راشد کامران صاحب جیسے شخص کے بارے میں کھلی کھلی باتیں پڑھنا اور بھی لطف اندوز ہے۔ اردو بلاگنگ سے متعلق کئی ڈومینز رکھنے 😀 کے علاوہ ان کی جذباتی نہ ہونے والی چیز نے ہمیں بھی بہت متاثر کیا۔ جناب کا اندازہ تحریر تو بس اپنی مثال آپ ہے۔ اور اس شعبہ میں آپ بھی ان کے بھائی، دوست ہونے کا حق بخوبی نباہ رہے ہیں۔ 😉

  6. April 27, 2010 at 9:38 pm | Permalink

    واہ بہت خوب، ممدوح، مدح و مدح نگار تینوں خوب ہیں۔ باقی رہے ہم جیسے مداح تو بقول امیر مینائی، ع۔ پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے۔
    🙂

  7. May 10, 2010 at 10:19 pm | Permalink

    میں راشد صاحب کو اپنا غائبانہ استاد مانتا ہوں
    پر کسی کو بتاتا نہیں
    کہ لوگ کہیں گے کہ شاگرد ایسے ہیں
    تو استاد کیسے ہوں گے؟
    اس تحریر کی تعریف کے لئے لفظ نہیں مل سکے
    جب بھی ملے
    ترنت تعریفی تبصرہ کروں گا

  8. June 17, 2010 at 10:10 am | Permalink

    بھئی راشد بھائی کے مداح تو ہم ہیں ہی اور عرصہ سے شاگردی کا شوق پالے بیٹھے ہیں اس پر طرہ یہ کہ آپ کی یہ تحریر پڑھ کر آپ کو بھی استادی میں لینے کا عزم بنا لیا ہے دیکھئے کب امید بر آتی ہے۔ بس اتنی سی مشکل ہے کہ استاد جواں سال ہمراہ شاگرد پیر سالخوردہ کی جوڑی دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے۔

  9. August 3, 2010 at 11:43 pm | Permalink

    کیا کہنے جناب اور راشد کے بارے میں پڑھ کر واقعی لطف آ گیا اور ایپل سے تعلق کی خوب وضاحت کی ہے ۔

    عرصے سے راشد خاموش ہیں اور کوئی نئی عمدہ تحریر پڑھنے کو نہیں ملی۔

  10. September 9, 2010 at 2:54 am | Permalink

    میرا خیال ہے مجھے بلاگنگ کا خیال ترک کردینا چاہئے
    اتنا عمدہ لکھنے والوں کے درمیان کون مجھ غریب کو پوچھے گا

Leave a Reply to محمد ریاض شاہد

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>