عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

حساب سود و زیاں

میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں‌ کر رہا کہ اگر سن پیدائش یاد رکھنے کا رواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے تو بال سفید ہونا بند ہو جائیں گے۔ یا اگر کیلنڈر ایجاد نہ ہوا ہوتا تو کسی کے دانت نا گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نے بھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کو پہلی بار سیکنڈ، سال۔ اور صدی میں تقسیم کیا، اس نے انسان کو صحیح معنوں میں پیری اور موت کا زائقہ چکھایا۔ وقت کو انسان جتنی بار تقسیم کرے گا، زندگی کی رفتار اتنی تیز اور نتیجتہ موت  اتنی ہی قریب ہوتی چلی جاے گی۔ اب جب کہ زندگی اپنے آپ کو کافی کے چمچوں اور گھڑی کی ٹک ٹک سے ناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کر نا آنے والے نیم روشن عہد کی ظرف پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا ہے جب وہ وقت کا شمار دل کی دھڑکنوں سے کرتا تھا اور عروس نو رات ڈھلنے کا اندازہ کانوں کے موتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کے  جھلملانے سے لگاتی تھی
نہ گھڑے ہے واں نہ گھنٹہ    نہ شمار  وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو!     ہو تمہیں انہیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات کتنی
از مشتاق احمد یوسفی، چراغ تلے ‘سنہ’
Share

5 Comments to حساب سود و زیاں

  1. June 17, 2010 at 8:36 am | Permalink

    بالکل ایسے ہی ان الفاظ کو دو دن پہلے میں نے بھی اتنا ہی پسند کیا تھا کہ جتنا آپ نے۔۔۔۔۔ شاید میں بھی اس اقتباس کو اپنے بلاگ پر لا ڈالتا لیکن موئے واپڈے والوں نے ساتھ نہ دیا۔
    خیر، نہایت دلچسپ، اور مشتاق احمد یوسفی صاحب کو میں پہلی بار پڑھ رہا ہوں آجکل، نہایت دلچسپ لکھتے ہیں۔

  2. June 17, 2010 at 12:12 pm | Permalink

    خوب بہت خوب انتخاب۔ نپے تلے لفظوں کا انتخاب اور با معنی ترتیب یوسفی صاحب جیسے اعلیٰ پائے کے ادیب ہی کے شایا نشان ہوسکتی ہے۔

  3. June 17, 2010 at 8:48 pm | Permalink

    کيا مُشتاق احمد يوسفی صاحب کی يہ باتيں دورِ جديد کے پرستاروں کی سمجھ ميں آ جائيں گی ؟ ميرا تجربہ کہتا ہے نہيں

Leave a Reply to محمداسد

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>