عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

دعوت الی اللہ کا کام اورکچھ شکوک کا ازالہ

(قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ (يوسف: 108
”کہو میرا راستہ یہی ہے: میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے۔ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔
دعوت دین کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی سنت اور مسلمان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں: رسول اللہ نے جب معاذ بن جبل کو اپنا نمائندہ بنا کر یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا: ”تم ایک اہل کتاب قوم کے ہاں جا رہے ہوں۔ اس لئے سب سے پہلی بات جس کی تم ان کو دعوت دو یہ ہونی چاہئے کہ لا الہ الا اﷲ کی شہادت دی جائے“۔ مزید صحیحین میں حدیث ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غزوہٴ خیبر کے موقعہ پر فرمایا تھا : اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اگرایک شخص کو بھی اللہ تعالی ہدایت سے نوا ز د ے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
ہم میں سے وہ لوگ جو ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں وہاں اسلام کی دعوت پھیلانے کے بہت سے مواقع میسر آتے ہیں‌۔ ہر غیر مسلم فرد ایک دعوتی چیلینج کے طور پر موجود ہوتا ہے کہ اسےاحسن طریقے سے توحید و رسالت کا پیغام پہنچایا جاے۔ اپنے رب کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی وحدانیت اور اس کے دین کی صداقت کا یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے میں ہم اپنی تمام کوششیں صرف کریں۔
اقامت دین کے ہر کام کی طرح اس زمن‌ میں بھی شیطان کے وساوس بے شمار ہیں جن سے آج ہمارا یہ سلسلہ کلام وابستہ ہے مثلا
کس دین کی مثال کی طرف دعوت دی جاےِ؟ ہمارے پاس تو کوئی آیڈیل ‘اسٹیٹ’ ہی موجود نہیں جس کی ہم مثال دے سکیں۔ مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
یہ بلکل بے بنیاد وسوسہ ہے۔ آپ جس دین کی طرف دعوت دے رہے ہیں اس کے لئے اللہ کی کتاب واضع دلیل ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بہترین مثال۔ مسلمانوں کی حالت زار یا کسی مثالی ریاست کی غیر موجودگی اپکو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے سے کیونکر روکتی ہے؟ یاد رکھیں کہ اللہ کی دین کی دعوت کسی ملک کی امیگریشن کی دعوت نہیں کہ آپ وہاں کے باغ و گلستاں کی روایات سے لوگوں کومائل کریں۔ یہ تو بندوں کو انکے خالق کی طرف بلانے والی پکار ہے اور آپ کا فرض صرف احسن طریقے سے دعوت دینا ہے، نتائج اسکے دست کار میں ہیں جس ذات باری کی رضا جوئی کے لئے یہ دعوت دی جا رہی ہے۔آپ اپنی طرف سے پوری کوشش جاری رکھیں۔
پہلے ہم خود تو عملی مسلمان بن جائیں یا پہلے (مسلمان آبادی والے ملک کا نام) میں تو اسلام نافذ ہو جاے وغیرہ
یہ عذر بھی عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہے کہ اگر میں معاذ اللہ نماز نہیں پڑھ رہا توروزہ کیوں رکھوں؟ دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف آپکی ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس کے لئے آپ جو چھوٹا سے چھوٹا یا بڑا سے بڑا قدم اٹھائیں گے، اللہ سبحان تعالی آپکو اسکا اجر دیگا۔ دوسروں کو راہ حق کی طرف بلانے کا عمل خود ہی اپنی دعوت اور روش کو درست کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مزید براں اللہ نے آپکو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ آپ کسی ملک میں جہاں آپ نا رہ رہے ہوں‌اسلامی نظام نافذ ہونے تک اپنی دعوت و تبلیغ کو روک دیں۔ اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے میں یہ کیسے ایک امر مانع ہے؟
اس ملک میں تو ہم کھانے کمانے/ پڑھنے کے لئے آئے ہیں، اپنی نسلیں برباد کرنے کے لئے نہیں۔ واپس اپنے وطن جانا ٹھرا تو یہاں کیا کام کرنا؟
یہ بھی شیطان کے وساوس میں سے ایک بڑا وسوسہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ کے دین کی دعوت سے دور رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس غیر مسلم اکثریتی ملک میں آپکے آنے کا کوئ بھی مقصد ہو، یہاں رکنا صرف ایک صورت میں درست ہے اور وہ یہ ہے کہ آپکا بنیادی مقصد دعوت دین ہو۔  ہم سب جانتے ہیں کہ جزائر انڈونیشیا ملایشیا میں اسلام تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جزیرہ عرب اور دیگر ممالک جا کر دین کی دعوت دی۔ اولیاے کرام و مشایخ کا بھی یہ عمل رہا۔ اگر آپ ان غیر مسلموں میں رہ کر، اپنے قول و عمل سے اسلام کی مثال نہیں دکھائیں گے تو اور کون یہ کام کرے گا؟ اللہ نے آپکو اسلام کا سفیر بنایا ہے، اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کرنا آپکا فرض ہے اور اس سے کوتاہ نگاہی یا  عذر تراشی بڑی محرومی۔
لیکن یہ لوگ انتے ترقی یافتہ ہیں، میں انکو کس چیز کی طرف بلاوں؟ اسلام سے انکو کیا فائدہ ہوگا یا انکی زندگی میں کونسی ایسی تبدیلی آجائے گی؟
اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام اس کاینات کی سب سے بڑی سچائی ہے اور یہ لوگ اس سچائ کو نہیں جانتے۔ تمام اسایشوں کے ہوتے ہوے یہ ایک سب سے بڑی محرومی ہے! اور بروز حشر یہ لوگ آپکے خلاف صف آرا ہونگے کہ ہمارے اس مسلمان محلے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والا، ہم جماعت نے ہمیں دعوت دین نہیں دی اور ہم تہی دامن کھڑے ہونگے۔
لیکن یہ انکا ملک ہے، میں ان کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں آنے دیا۔ اب میں یہاں دعوت کا کام کیسے کر سکتا ہوں؟
یہ غالبا مرعوبیت کی انتہا ہے۔ تمام ملک، تمام زمیں، ساری کاینات اللہ کی ہے اور مسلمان ہونے کے تحت یہ آپکا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ مالک اعلی ہے۔ ان غیر مسلم افراد کے احسان کا اس سے بہتر بدلہ کیا ہوگا کہ آپ انہیں اس دین کی طرف دعوت دیں جو انہیں دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابیاں نصیب کرے؟
غیر مسلم ممالک میں دعوت کے طریقے بے شمار اور مختلف النواع ہیں اور ان کے لئے آپکی قریبی دعوت کی تنظیم آپکو اچھی طرح اگاہی دے سکتی ہیں۔مثلا اس زمن میں امریکہ میں ‘واے اسلام’ نامی تنظیم بڑی تندہی‌ سے دعوت دین کا کام کر رہی ہے .اسکولوں کے پروگرام، اوپن مسجد، افراد سے رابطہ، لوکل مارکیٹ، لایبرری، بازار، فئیر،فوڈ بینک، فیسٹیول میں دعوت کے اسٹال جیسے سیکڑوں مواقع میسر ہوتے ہیں جن کو استعمال کرکے دعوت کا کام بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کا خیال رہے کہ دعوت کا کام حکمت سے کیا جاے کہ اگر لوگ آپکی بات نا بھی مانیں تو وہ کم از کم آپ کے رویہ سے اچھا گمان رکہیں۔۔ شروع میں تھوڑی سی جہجک فطری ہے لیکن اللہ کے دین کی دعوت کا کام شروع کیا جاے تو راستے آسان ہوتے جاتے ہیں۔ مذہب سے بیزاری کی وجہ سے مغرب میں ‘پراسلیٹایزیشن’ یا تبدیلی مذہب کی دعوت کوسماجی محفلوں میں برا سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر مذہب پر بات کرنے والا غبی اور ‘آوٹ اف ٹچ’ قرار پاتا ہے۔ ایک داعی کے لئے یہ رکاوٹیں اور خیالات یا رجہانات (پرسیپشن) کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ ان تمام عارضی رکاوٹوں سے ماورا دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بروز حشر ہر فرد کو اپنی استطاعت، صلاحیت  اور کوشش کے لئے جانچا جائے گا۔ کسی پر اسکی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا لیکن اسکے ساتھ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہماری استطاعت کیا ہے۔ ہم ابلاغ کے تمام ذرائع کے ماہر اور دنیاوی معاملات میں ہر قسم کے نت نئے ‘آپٹیمایزڈ’ اصلاح پسند طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جدید انتظامی طریقے استعمال کرکے زیادہ بہتر طریقے سے کام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد اپنی ‘تدابیر’اسٹریٹیجیز کو اینالایز کرتے ہیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہو رہی ہیں‌ اور کس طرح سے پیداوار کو بڑھایا جائے وغیرہ۔ لہذا ہمیں اسی معیار پر دعوت دین کے لئے بھی جانچا جاے گا کہ کیا تم نے اللہ کی طرف بلانے کےلئے اتممام حجت کیا تھا؟ اپنی تمام صلاحیتوں کو بقدر ضرورت برو کار لا ئے تھے؟
کیا بروز حشر ہم اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں؟
Share

5 Comments to دعوت الی اللہ کا کام اورکچھ شکوک کا ازالہ

  1. July 9, 2010 at 3:19 am | Permalink

    بہت کارآمد تحریر ہے۔ جزاک اللہ۔

  2. July 9, 2010 at 4:15 am | Permalink

    جزاک اللہ خير

  3. July 9, 2010 at 6:57 am | Permalink

    جزاک اللہ ابو عزام صاحب. انتہائی مفید اور فکر انگیز تحریر لکھی. البتہ آپ کی تحریر کے آخر میں پوچھے گئے سوالات کی بات کی جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا جواب نفی میں ہے. اکثریت کی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں اور جن لوگوں کی ہے ان کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک جم غفیر موجود ہے. 😐

  4. Abdullah's Gravatar Abdullah
    July 10, 2010 at 11:28 pm | Permalink

    ایسے دیکھاجائے تو سارے انسان ہی پردیس میں ہیں اصل دیس تو کہیں اور ہے سو جہاں بھی رہیئے مثال بن کر رہیئے اور جائیے تو مثال پیچھے چھوڑ جائیے اس پر عمل کی کوشش کرتے ہیں اللہ کامیابی عطافرمائے اور غلطیوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے آمین
    ایک عمدہ مضمون کے لیئے جزاک اللہ

Leave a Reply to افتخار اجمل بھوپال

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>