Comments on: دور جدید کا انسان – سطحیت کا فروغ اور ارتکاز کا تنزل http://urdu.adnanmasood.com/2010/07/%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%b7%d8%ad%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%81%d8%b1%d9%88%d8%ba-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b1%d8%aa/?utm_source=rss&utm_medium=rss&utm_campaign=%25d8%25af%25d9%2588%25d8%25b1-%25d8%25ac%25d8%25af%25db%258c%25d8%25af-%25da%25a9%25d8%25a7-%25d8%25a7%25d9%2586%25d8%25b3%25d8%25a7%25d9%2586-%25d8%25b3%25d8%25b7%25d8%25ad%25db%258c%25d8%25aa-%25da%25a9%25d8%25a7-%25d9%2581%25d8%25b1%25d9%2588%25d8%25ba-%25d8%25a7%25d9%2588%25d8%25b1-%25d8%25a7%25d8%25b1%25d8%25aa عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری Fri, 09 Jul 2010 09:16:50 +0000 hourly 1 By: ابو عزام http://urdu.adnanmasood.com/2010/07/%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%b7%d8%ad%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%81%d8%b1%d9%88%d8%ba-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b1%d8%aa/comment-page-1/#comment-154 Fri, 09 Jul 2010 09:16:50 +0000 http://urdu.adnanmasood.com/?p=157#comment-154 محمد ریاض صاحب، افتخار صاحب اور راشد بھائی , آپ حضرات کے تبصروں کا شکریہ
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ انٹرنیٹ نے معلومات کا حصول آسان بنایا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ زہنی ارتکاز پر اسکے جو اثرات ہیں وہ کس قدر دور رس ہیں اور کیا یہ عمومی طور پر سطحی سوچ کو فروغ دے رہا ہے؟ رچرڈ فاین مین جو فزکس میں نوبل انعام رکھتے تھے اور مجھے ان سے خاص عقیدت ہے کہتے تھے کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کو ایک شدید بیماری ہوجاتی ہے کہ وہ اس سے کھیلنے لگتے ہیں یعنی بجاے اسکے کہ اسکو کام کے لئے استعمال کریں، وہ خود کام بن جاتا ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، جیسے ہی میرے علم میں اس موضوع پر کوئی شماریاتی ساینسی تجزیہ آتا ہے، اس کے نتائج کو اپنے بلاگ پر ضرور شائع کریں گے۔

]]>
By: راشد کامران http://urdu.adnanmasood.com/2010/07/%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%b7%d8%ad%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%81%d8%b1%d9%88%d8%ba-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b1%d8%aa/comment-page-1/#comment-153 Sun, 04 Jul 2010 18:29:37 +0000 http://urdu.adnanmasood.com/?p=157#comment-153 انسان کا ایک مشترکہ مسئلہ رہا ہے کہ محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑے کرنے کی نظریاتی باتیں تو خوب کی جاتی ہیں لیکن جب ایسا حقیقتا ہوجائے تو صفوں کی ترتیب اور ان کی دھلائی کا شور اٹھا دیا جاتا ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم نے علم حاصل کرنے کے بنیادی کلیے میں انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی جوہری تبدیلی قبول کرلی ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ مشاہدہ، استنباط ، تجربات اور نتائج کا بنیادی چکر اپنی جگہ قائم ہے اور تبدیلی محض ان مراحل کے فوری مکمل کرلینے میں برپا ہوئی ہے ۔ہاتھ سے لکھی کتابیں، میلوں کا سفر طے کرکے جمع کیے جانے والے اعدودشمار اگر اب محض سیکنڈوں میں دستیاب ہیں بلکہ ان کی صحت بھی فوری جانچی جاسکتی ہےتو ایسی صورت حال بنیادی طور پر اس دانش کے لیے خطرہ ہے جو گوگل کی پھرتی کے آگے اپنے قیاس کو علم قرار دینے میں شدید مشکل کا شکار ہ ے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ انفارمیشن یا اطلاع بنیادی طور پر علم کا متبادل نہیں لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ابلاغی ذرائع جو بنیادی طور پر اطلاعات کی فوری ترسیل کے لیے ایجاد کیے جاتے ہیں غیر محسوس طورپر علم کی ترسیل کے بنیادی ذرائع بھی بن جاتے ہیں اور علم حاصل کرنے کے ایسے غیر روائتی طریقوں کو جنم دیتے ہیں جو ہر ایک کے لیے ہضم کرنا دشوار ہوتا ہے۔ سطحیت پہلی صدی میں بھی موجود تھی، سولہویں میں بھی اور اکیسویں میں بھی اور مستقبل میں موجود رہے گی۔۔ اہم بات یہ ہے کہ کس موضوع پر کس حلقے میں تبادلہ خیال کیاجارہا اور کس جواب کی توقع کی جارہی ہے۔۔۔ جب بھی درست طور شماریاتی تجزیہ کیا جائے گا یہ نظریہ باطل قرار پائے گا۔۔ یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ اجتماعی دانش یا کللیکٹو انٹیلیجنس کی تحریک نے کئی لوگوں کو بے چین کررکھا ہے اور وہ ہر گامے ماجے کی تھوڑی سی شمولیت پر علم کے اتنے بڑے حصے کے حاصل کرلینے پر بہت چراغ پا ہیں۔ مجموعی طور پر انسانی شعور اور برداشت نے آگے کی طرف کا سفر کیا ہے۔۔

]]>
By: افتخار اجمل بھوپال http://urdu.adnanmasood.com/2010/07/%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%b7%d8%ad%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%81%d8%b1%d9%88%d8%ba-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b1%d8%aa/comment-page-1/#comment-152 Sun, 04 Jul 2010 17:05:57 +0000 http://urdu.adnanmasood.com/?p=157#comment-152 آپ نے زبردست اور بروقت تحرير لکھی ہے ۔ انسان ماحول کے زيرِ اثر کاہل يا چُست ہوتا ہے پچھلی آدھی صدی کا جائزہ بتاتا ہے کہ نئی ايجادات نے ايک طرف تو قتلِ عام آسان بنا ديا ہے اور دوسری طرف سہوليات کی بھرمار ہے جس نے آدمی کو تن آسان بنا ديا ۔ اس کے ساتھ ہی انٹر نيٹ نے آدمی کی سوچ بدل دی ہے اُسے اپنی نسبت انٹرنيٹ پر زيادہ اعتماد ہوتا جا رہا ہے جس کے نتيجہ ميں انسانی احساسات ختم ہوتے جا رہے ہيں اور آدمی مشين بنتا جا رہا ہے

]]>
By: محمد ریاض اہد http://urdu.adnanmasood.com/2010/07/%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%b7%d8%ad%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%81%d8%b1%d9%88%d8%ba-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b1%d8%aa/comment-page-1/#comment-151 Sun, 04 Jul 2010 10:38:04 +0000 http://urdu.adnanmasood.com/?p=157#comment-151 یہ بات تو درست ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب معلوماب کی فراوانی نے انسانوں کو سہل بنا دیا ہے مگر یہ انٹر نیٹ کے استعمال کنندہ پر منحصر ہے کہ وہ صرف گوگل پر بھروسہ کرتا ہے یا ان کتابوں کی طرف بھی رجوع کرتا ہے جو اسی گوگل کمپنی اور پروجیکٹ گٹن برگ وغیرہ نے ہزاروں کے حساب سے سکین کر کے ڈال رکھی ہیں ۔ مثال کے طور پر مجھے اسلامی سپین کی تاریخ سے دلچسپی ہے اور مجھے اسی نیٹ پر گوگل کرنے سے ایسی نایاب کتابیں مفت دستیاب ہو گئیں جو کسی دوسرے طریقے سے شاید مجھے حاصل کرنے میں برسوں لگتے۔
رہی بات فارغ وقت مین غوروفکر کی تو یہ بات شاید صنعتی معاشرون کے لئے ٹھیک ہو جہاں نیٹ ہر ایک کی دسترس میں ہے ۔اور اس کے علاوہ دوسری تفریحات بے پناہ دستیاب ہیں کہ انسان کے پاس وقت نہین بچتا کسی سنجیدہ چیز کے لئے ۔ مگر بہر حال حقیقی دانش کا کام ابھی بھی جاری ہے صرف بات یہ ہے کہ ہمارا مزاج اس دور میں شاید کچھ چند موضوعات پر مرتکز ہو کر رہ گیا ہے

]]>