عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

بارے مستعار لی گئ کتابوں کا بیان – ایک مختصر فکاہیہ

ہمارئے جامعہ کے ایک عزیز دوست ہر سوال اسی طرح شروع کیا کرتے تھے مثلا ایک دن پوچھنے لگے، تو کیا کہتے ہیں علمائے دین شرح متین بیچ مستعار لی گئی کتابوں کے مسئلے کے؟

جوابا عرض کی کہ قبلہ، ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کی رائے کا تو چنداں علم نہیں لیکن ہماری ناقص رائے سراسر اس مشہور مقولے پر مبنی ہے جس کے مطابق کتاب دینے والا بے وقوف اور لے کر واپس کرنے والا اس سے بڑا بے وقوف۔ یوسفی نے بھی منٹوانہ لہجے میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ‘کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے – دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لئے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لئے نہیں’ لیکن چونکہ آجکل آیکنوکلاسٹ ہونا تہذیب پسندی کی دلیل ٹہری، تو ان مقولہ جات کو بزبان فرنگ نمک کی چٹکی کے ساتھ لیا جائے۔

خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ ہمارئے تمام دوست کتابیں مستعار دینے کے بارئے میں‌بڑے سخی واقع ہوئے ہیں، انہوں نے خود کبھی یہ بات نہیں کہی لیکن چونکہ بزرگ خاموشی کو نیم رضامندی قرار دیتے ہیں، ان ‘ڈیمسلز ان ڈسٹریس’ پر تہمت سخاوت مہجور ہے۔ کچھ حاسد اسے لوگوں کی فطری شرافت سے فائدہ اٹھانا بھی کہتے ہیں لیکن کراچی کے بیلٹ بکس کی طرح گمان غالب ہے کہ یہ تعداد اسٹیٹسٹکلی سگنیفکنٹ نہیں۔ اب برادرم بن یامین کو ہی دیکھیے، ان کے گھر ہم نے اپاچی لوسین کی دو عدد کاپیاں دیکھیں تو جھٹ مواخات کا تقاضہ یاد دلایا، اگلے ہفتے کتاب ڈاک سے وصول پائی۔ مرد اوقیانوسی کی یہی مثال بار بار برادرم راشد کامران کو دئے کر ان سے کتابیں مستعار لیتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ اسی وجہ سے وہ اب برقی کتب کے بڑے مداح ہوتے چلے ہیں۔

موئی برقی کتب، یہ بھی بڑی بلا ہے اور دور جدید کے فتنوں میں سے ایک فتنہ۔ اب کنڈل یا آئی پیڈ پر کوئی بھلا کیسے بتا سکتا ہے کہ بھلا آپ پارک کی بینچ پر بیٹھے ہکل بیری فن پڑھ رہے ہیں یا وصی شاہ کے الفاظ کا ملغوبہ، نسیم حجازی کی تاریخ دانی کے ڈالڈے پر سر دھن رہے ہیں یامیر کے آہو رم خوردہ کی وحشت سامانی پر تحقیق کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بھلے زمانوں میں تو کتاب کی ضخامت اور جلد سے آدمی کے کردار اور چال چلن کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ حضرت کس قماش کے ہیں۔ میر امن کے مداح ہیں یا رجب علی سرور کی بناوٹی نثر کے اسیر۔نیک بیبیاں ‘پاکیزہ’ چھپا چھپا کر پڑھتی تھیں، اوروں کا کیا کہنا ہم نے خود سب رنگ ہاورڈ اینٹن کی کیلکلس اینڈ انالیٹکل جیومٹری میں چھپا کر پڑھے ہیں شائد اسی وجہ سے انٹیگرل نکالتے ہوئے ہمیں ہمیشہ الیاس سیتا پوری کی یاد آجاتی ہے۔ بہرحال اب اس ‘آئ دور’ میں عوام الناس کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں بلاوجہ زور زور سے کہنا پڑتا ہے کہ ‘ ارے میاں شیکسپیر ، تم کس قدر مزاحیہ ہو اتنا نا ہنسایا کرو ، ہا ہا ہا’ ۔

کتابیں چوری کرنا سخت بری بات ہے۔ کتاب کبھی چوری نہیں کرنی چاہئے، ہمیشہ مانگ کر پڑھنی چاہیے۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بھی چوری ہی ہے جو بڑی بری بات ہے۔ راشد بھائی تو کاپی رائٹ کے اسقدر کٹر حامی ہیں کہ کبھی کسی بل بورڈ ، رکشے یا بس پر بھی کوئی طویل عبارت پڑھ لیں تو کنڈیکٹر سے آی ایس بی این پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایمیزن سے خرید کر عنداللہ ماجوز ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس استفسار پر کنڈیکٹر انہیں جن الفاظ سے نوازتا ہے وہ یا تو کھوکھر صاحب کی تحریر میں مل سکتے ہیں یا محترمہ ناز کے مضمون پر کئے گئے تبصرہ جات کی چاشنی میں۔

چلیں اب اجازت، باہر لائبرری والے آئے ہیں جن کا اصرار ہے کہ یا تو میں مستعار لی گئی کتابیں واپس کروں یا پھر وہ غریب خانے کو سب لائبرری کا درجہ دیتے ہوئے اس پر بورڈ لگا دیں۔ آپ قارئین کا کیا خیال ہے؟

Share

7 Comments to بارے مستعار لی گئ کتابوں کا بیان – ایک مختصر فکاہیہ

  1. January 28, 2011 at 9:58 pm | Permalink

    ماشاءاللہ۔۔۔
    سبحان اللہ
    اور نظر بد دور

  2. January 28, 2011 at 10:04 pm | Permalink

    ہاہاہہاہاا
    واہ کیا کہنے۔

  3. January 29, 2011 at 3:28 am | Permalink

    بہت خوب۔ تو آپ بھی ان تہذیب یافتہ بلاگرز میں کھڑے ہیں جو لفاظی میں مہارت رکھتے ہیں۔
    🙂
    یہ یوسفی والی بات میں میرا خیال ہے کچھ تصحیح ہونی چاہئیے یعنی جملہ اس طرح شروع ہونا چاہئیے کہ کتاب کسی اور کی خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے۔ یہ جو آپ نے الیاس سیتا پوری کی بات کی تو مجھے یاد آیا کہ ہمارا گھر چھوٹا سا تھا وہیں سب ٹی وی دیکھتے اور ہوم ورک کرتے۔ اسکول ہوم ورک کرتے وقت ٹی وی سنتے رہتے تھے۔ اور اکثر چیزیں ای طرح یاد رہتی تھیں کہ یہ تصویر بناتے وقت یہ ڈائیلاگ بولا گیا تھا۔ اور اس لفظ پہ فلاں ڈرامے میں یہ ہو رہا تھا، یوں سال کے اخیر میں جمع ہونے والی کاپیوں میں سال بھر کی فنکاری جمع ہوتی تھی۔
    جہاں تک محترمہ ناز کی تحاریر پہ تبصروں کی چاشنی کی بات ہے تو یہ کہنا کافی ہے کہ
    پوچھئیے میکشوں سے لطف شراب
    یہ مزہ پاکباز کیا جانیں

  4. سلیمان's Gravatar سلیمان
    January 29, 2011 at 8:08 am | Permalink

    پاکستان میں رھنے والوں کے لۓ کاپی راٴئٹ کی کیا حیثیت اردو بازار کے تھڑے بھرے ہوۓ ہیں ۔ ہم کتاب مانگ کر نہیں چھین کر پڑھنے کی عادی هیں۔اور هماری یہ بدمعاشی اس ای دور میں بھی قائم هے۔
    ویسے کمپوٹر کے شوقین حضرات http://www.amazon.com سے استفادہ فرما سکتے هیں۔ چوری کی کتابیں اور اتنی ساری۔ آپ کا زبان و بیان شاندار ھے۔ خدا زور سخن کرے اور بھی زیاده۔

  5. January 30, 2011 at 12:08 am | Permalink

    بہت اعلی جناب۔ تبصرہ کرنے کے لیے کچھ رہ نہیں جاتا آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد۔
    ایک توجہ دلا دوں کہ اپنے بلاگ کے فانٹ وغیرہ سیٹ کروا لیں، شاید آپ کو علم ہو لیکن اگر کوئی مسئلہ ہے تو برادر راشد کامران سے رابطہ کر لیں۔

  6. February 2, 2011 at 12:38 am | Permalink

    آپ تمام قارئین کے تبصروں کا شکریہ۔

    عنیقہ ناز صاحبہ۔ یوسفی نے تو اپنے انداز بیاں میں کچھ ایسا ہی کونٹیکسٹ سیٹ کیا تھا کہ ان کے باس نے جب انہیں اپنی ذاتی لائبرری دکھانے بلایا تو پیشگی انتباہ کے طور پر یہ جملہ کہا۔ ہم سے شائد کانٹیکسٹ سہی طرح نہیں بن پایا۔ مبتدی اور یوسفی میں تقدیم و تاخیر کا کچھ تو فرق ٹھہرے۔

    سلیمان صاحب، معذرت کے ساتھ اپکا برقی کتب کا لنک تبدیل کرنا پڑا کہ اپنے بلاگ سے پائریسی کی دعوت عام دینا ہمیں پسند نہیں۔ امید ہے برا نا مانئے گا۔

    برادرم ابوشامل، شکریہ اور آپ سے دوبارہ کم لکھنے کا گلا کریں گے – فانٹ سیٹ کرنے کی توجہ کامشکور ہوں، یہ کام راشد بھائی کو آوٹ سورس کردیا ہے، کیا خوب قیامت کا بھی ہوگا کوئی دن اور‌:)

  7. February 2, 2011 at 10:49 am | Permalink

    قبلہ۔۔ سبحان اللہ۔۔
    جناب آپ کے لیے پورا مادی و برقی کتب خانہ حاضر ہے۔۔ بس اتنا یاد رہے کہ روز محشر ماخوذ مضامین اور اینٹھا گیا علم میزان پر لایا گیا تو ضخیم کتب وبال جاں نا ہوجائیں
    🙂

  1. By on January 29, 2011 at 2:27 am

Leave a Reply to راشد کامران

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>