عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

تعصبانہ القابات اور مکارم اخلاق

چپکے سے کھانا کھاتے ہو یا بلاوں اس چپٹے کو؟

ہیوسٹن شہر کے اس حلال چاینیز ریسٹورانٹ میں جب یہ آواز میرے کان میں پڑی تو پہلے تو کچھ لمحوں کے لئے اپنی سماعت پر یقین نا آیا لیکن بعد میں صاحب گفتگو کو دیکھا تو ایک والد بزرگوار اپنے جگر گوشے کو کھانا نا کھانے پر ایک ایشیائی بیرے سے پٹوانے کی دھمکی دئے رہے تھے جو کہ اس پوری صورتحال سے بے خبر بفے میں رکابیاں درست کر رہا تھا۔

کلا، ہبلا، چنا، چینا، مکسا، چپٹا وغیرہ ان تعصبانہ اور غیر اخلاقی الفاظ میں سے کچھ ہیں جو کہ بیرون ملک پاکستانی حضرات بلا سوچے سمجھے مختلف قومیتوں کے افراد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان تضحیک آمیز نسلی القابات ‘ریشیل سلرز’ کا استعمال مغربی معاشروں میں تو برا سمجھا ہی جاتا ہے لیکن یہ ہمارے اپنے مذہبی و معاشرتی اقدار کے بھی یکسر خلاف ہے۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا

لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے (28)

اور مزید فرمایا کۓ

آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو(21) اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو(22)۔

خطبہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے پر۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی میعار ہے تو وہ تقوی ہے۔ انسان سارے ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی حقیقت اسکے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی کے بناۓ گۓ۔ اب فضیلت اور برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبےاور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں

اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تضحیک آمیز الفاظ تھوڑا ہی ہیں، یہ تو ایک گروہ کی علامت کے طور پر کہاجا رہا ہے۔ تو پھر ان سے پوچھا جائے کہ جب انگلستان میں آپکو ‘پاکی ‘ کہ کر بلایا جاتا ہےتو آپکا خون کیوں کھولنے لگتا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نسلی تضحیک کےکیا معنی ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ الفاظ اس نسل کے فرد کے سامنے کہیں گے تو اسے برا لگے گا اور یہی نسل پرستانہ رویہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ نیگرو کے معنی سیاہ فام ہی کے ہوتے ہیں مگر اس کا مترادف استعمال لفظ ‘نگر’ جسے این ورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک نہایت معیوب گالی سمجھی جاتی ہے اور اسی وجہ سے لفظ نیگرو کا استعمال بھی تقریبا متروک ہو چلا ہے۔ اس لمبی تمہید سے میرا مقصد اس اخلاقی تنزل کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں ہماری قوم مبتلا ہے لہذا اگلی دفعہ اگر آپ کسی کو اسکی رنگ و نسل اور قومیت کی نسبت سے حوالہ دینے کے لئے منہ کھولنے لگیں تو یہ ضرور سوچئے گا کہ اگر وہ آپکی بات سمجھ سکے تو اسکے دل پر کیا گذرئے گی اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ

Share

9 Comments to تعصبانہ القابات اور مکارم اخلاق

  1. January 12, 2011 at 2:24 am | Permalink

    اللہ ہميں قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

  2. January 12, 2011 at 5:50 am | Permalink

    اللہ آپکو جزاءے خیر دے۔ اور ہم سب اپنی اخلاقی کوتاہیاں اور برائیاں دور کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔

  3. m.d's Gravatar m.d
    January 12, 2011 at 6:07 am | Permalink

    لفظوں کے زریعے بچے کے دل میں نفرت بٹھا دی ۔ آپکی اس تحریر کو میں اس زاویہ سے دیکھ رہا ہوں ۔ آپنے میرے بلاگ پر جو تبصرہ کیا ہے اُسکی میں نے کچھ وضاحت کی ہے ۔مناسب سمجھیں تو دیکھ لیں ۔آپکا شُکریہ ۔

  4. January 12, 2011 at 7:10 pm | Permalink

    اسکی کئی وجوہات ہیں۔۔ ہمارے ابتدائی تربیت میں بہت سی چیزوں کو نسل پرستی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ ان کے مظاہرے عروج پر ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ عادت اتنی گہری ہوجاتی ہے کہ یہ عامیانہ بات معلوم ہی نہیں ہوتی۔۔ دوم یہ کہ ہمارے ذہنوں میں نا معلوم کہاں سے یہ مضحکہ خیز خیال آگیا ہے کہ ہم کسی صورت خدا کے بنائے خاص انسان ہیں چناچہ اس خصوصی رحمت کا اظہار ہم اپنے سے مختلف رنگ و نسل کے انسانوں کی لفظی تضحیک کے ذریعے کرتے ہیں۔۔ سب سے خطرناک بات اپنی نسل پرستی نئی نسل کو منتقل کرنا ہے۔۔ اللہ ہمیں نسل پرستی کی بدترین بیماری سے محفوظ رکھے۔۔

  5. January 12, 2011 at 8:14 pm | Permalink

    ہم جو بھی الفاظ منہ سے نکالتے ہیں ان کی بابت ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ لیکن ایسا کرنا عملاً بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر اللہ کے ہاں اجر اسی مشکل اٹھانے کا ہی تو ہے۔

  6. January 12, 2011 at 9:41 pm | Permalink

    نسل پرستی کہیں یا زینو فوبیا۔ یعنی غیر قوم افراد سے خوف کھانا اور انکے متعلق جاننے سے گریز کرنا۔ یہ چیز اتنی راسخ ہوتی ہے کہ نسل پرست لوگ بھی کہتے ہیں کہ نسل پرستی بری چیز ہے۔ تعصب سے دور رہنا چاہئیے۔ میں ہمیشہ اس قسم کے جملے سننے کے بعد حیران ہوتی ہوں۔ کیا یہ بے حسی ہے یا خود آگہی کی کمی یا اپنے آپ سے تعارف حاصل نہ ہو پانے کی کجی۔

  7. سلیمان's Gravatar سلیمان
    January 16, 2011 at 10:25 am | Permalink

    آپ کا کہنا بالکل درست ہے لیکن یہ صرف بیرون ملک هی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی عام ہے۔ موبائل سی بھیجے جانے والے لطیفوں میں پٹھانوں اور جٹوں کی
    بے عزتی اسی طرح کی جاتی هے اور پھر قومی یک جہتی کی امید بھی رکھی جاتی هے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ کام صرف زبان کے چٹخارے کیلّے کیا جاتا ہے
    لیکن اس مزے سے کسی کا دل کسقدر دکھتا هے اس پر کوئ غور نہیں کرتا

  1. By on January 12, 2011 at 12:26 am

Leave a Reply to ابو عزام

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>