عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی

ہائیں؟ کیا مطلب جیفرسن کا نسخہ قران یہاں موجود نہیں؟
Library of Congress
عالم حیرت میں انگشت بدنداں یہ بات ہم نے لائبرری آف کانگریس میں ہونے والی تھامس جیفرسن کے کتب خانے کی نمائش کی نگرانی پر مامور سیکورٹی گارڈ سے پوچھی ۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع لائبرری آف کانگریس دنیا کی سب سے بڑی لائبرری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر تھامس جیفرسن، امریکہ کے تیسرے صدر کے زیر استعمال ہونے والا وہ تاریخی ترجمہ قران موجود ہے جو برطانوی محقق و مترجم جارج سیل نے 1734 میں کیا تھا۔ اس ترجمہ قران کو پہلا انگریزی علمی ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے الیگزینڈر راس کا ترجمہ قران درحقیقت ایک فرانسیسی ترجمے کا انگریزی ترجمہ تھا۔اسی نادر و نایاب ترجمہ قران پر امریکہ کے پہلے مسلم کانگریس ممبر کیتھ ایلیسن نے حلف اٹھایا تھا اور اسی کی تلاش ہمیں کشاں کشاں اس کتب خانے تک کھینچ لائی تھی.ہماری طرح  صدر تھامس جیفرسن کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک مشہور امریکی سیاستدان جان ایڈمز سے کہا تھا کہ ‘میں .کتابوں کے بغیر نہیں جی سکتا’۔راقم نے بھی راشد بھائی سے ایک دفعہ بلکل یہی بات کہی تھی لیکن جب انہوں نے ہمارا یہی قول حیدرآبادی بریانی پر بھی صادق بتایا تو ہم نے اصرار کرنا مناسب نا سمجھا۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، بہرحال بات ہو رہی تھی کہ اگر یہ ترجمہ اس نمائش میں موجود نہیں تو آخر گیا کہاں؟

Jefferson's Library

۔ کمپیوٹر کے مطابق یہ ترجمہ قران بلکل سامنے والے شیلف کی تیسری دراز میں ہونا چاہئے تھا لیکن ہماری حیرت کی انتہا نا رہی کہ جب کمپیوٹر کے کیٹالاگ کے برخلاف مصحف اس دراز میں نا نظر آیا؟

Library of Congress Jefferson's Quran

اگر کسی نے اسے پڑھنے کے لئے نکلوایا ہو تو دنیا کی سب سے بڑئی لائبرری سے کم از کم یہ تو توقع کی جاسکتی ہے کے وہ اپنے کیٹالاگ کو درست حالت میں رکھے ۔ اب ہمیں یہ کھٹکا ہوا کہ یہ نسخہ قران کہیں کسی اسلام دشمنی کی وجہ سے تو نہیں‌ہٹا دیا گیا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی کانسپیریسی تھیوری بنانے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ تو پھر کیا تھا، ہم نے اس بات کی ٹھان لی کہ آج اس نسخہ ترجمہ قران کی تلاش کر کر رہیں گے چاہے ہمیں گنتناموبے ہی کیوں نا بھیج دیا جائے، غضب خدا کا۔

Library of Congress Jefferson's Quran

جب سیکیورٹی گارڈ سے کوئی خاص مدد نا مل سکی تو ہم نے کسی ثقہ لائبریرین کی تلاش شروع کی۔ ایک والنٹیر کتب خانے کا نگران نظر آیا تو اس سے اس بابت دریافت کی۔ مرد ابیض بولا کہ شائد یہ مصحف آپکو نایاب کتب کے خصوصی کمرے میں ملے ۔ ہم نے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ نایاب کتب کی دسترس کے لئے محقق ہونا شرط ہے اور ایک کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کانسپریسی تھیوری کے پکوڑوں کی خوشبو اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ہم نے پوچھا اے درویش، کارڈ بنوانے کا پتا بتا، اس نے کہا سڑک پار کرو اور جیمز میڈیسن والی عمارت کے کمرہ نمبر 140 میں جا کر ایک ایشیائی نژاد محققہ سے ملو تو شائد مراد بر آئے ۔

Madison Building

اندھا کیا چاہے لائبرری کارڈ، ہم نے آو دیکھا نا تاو، ظہر و عصر کی قصر ادا کرتے کے ساتھ ہی سیدھا لائبرری آف گانگریس کی دوسری عمارت کی راہ لی۔ چشم تصور میں‌ ہمیں‌ ڈین براون کی کتابوں کے ہیرو رابرٹ لینگڈن سے ہو بہو مشابہت تھی جو کہ لاسٹ سبمل کے دوران ڈی سی کی خاک چھانتا پھرتا ہے، کمرہ نمبر 140 بھاگتے دوڑتے پہنچے

Reading Registration - Madison Building

جب وہاں‌ دیکھا تو لکھا تھا کہ لائبرری کارڈ صرف محققین کو جاری کئے جاتے ہیں۔ ہم پی ایچ ڈی کے ظالبعلم تو ہیں لیکن بایزین بیلیف نیٹورک اور مشین لرننگ کا نادر کتابوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم نے قسمت آزمائی کا سوچا کہ شائد یاوری کرئے۔

Reading Registration - Madison Building 2.JPG

پہلا مرحلہ شناخت کاتھا، پھرکپمیوٹر پر فارم بھرنے کے بعد ایک خاتون نے کتب خانے کے کارڈ کےلئے تصویر لی اور کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے نوید دی کہ اب ہم دو سال تک اب کتب خانے کے بیشتر کمروں میں جانے کے اہل ہیں۔

Registration for Library Card - Madison Building

اتنی جلد تو ہمیں ہماری عزیز لیاقت نیشنل لائبرری کا کارڈ تو کیا بس کا رعایتی کارڈ بھی پرنسپل کے دفتر سے نا ملا

Library Card

. بہرحال، انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے مرحلے کی طرف بڑھے جو ریسرچ اسسٹنٹ سے ملنے کا تھا. ہم نے ریسرچ اسسٹنٹ سے ترجمہ قران کے محل و وقوع کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈھونڈنا شروع کیا اور کچھ دیر میں‌بتایا کہ یہ نادر کتابوں کے کمرئے میں موجود ہے لیکن فون کر کے کنفرم کر لیتے ہیں ۔ محترمہ نے فون گھمایا اور ہمیں تھما دیا ۔ اب جب ہم نے دوسری طرف موجود لایبریرین سے پوچھا کہ کیا ہم جیفرسن کے قران کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم 4:15 کے بعد کتابوں‌کو نہیں نکالنے۔ یاد رہے کہ نادر کتابوں کے کمرے کا وقت 5:00 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ہمیں بڑی مایوسی ہو چلی تھی لیکن آخری حربے کے طور پر التجائی لہجے میں‌درخواست کی کہ جیسے جامعہ میں محتمن سے ایک ایک نمبر کے لئے دست سوال دراز کیا جاتا تھا ۔ گویا ہوئے کہ محترمہ، ہم مغرب کے گرم پانیوں کی سنہری ریاست سے آپ کے اس یخ بستہ برف کے تندور میں‌آئے ہیںاور کل صبح روانگی ہے، اگر آپ کی نظر عنائت ہو توفدوی عمر بھر مشکور رہے گا۔بقول یوسفی خمری کو فون پر ہی ہمارئ مسکین صورت پر رحم آگیا اور بلا سوال و جواب اس نے ہمیں‌ کہا کہ فورا پہنچو۔ ہم نے اسسٹنٹ ریسرچر سے کمرے کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں سرنگ کا شارٹ کٹ بتاتے ہوئے نقشہ دیا اور ہم بھاگتے ہوئے نادر کتابوں کے سیکشن کے طرف روانہ ہوئے۔

Jefferson's Library -Rare Books Section - tunnel

واشنگٹن ڈی سی میں بہت سی سرکاری اور وفاقی عمارتوں کو ایک دوسرے سے سرنگوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ یہ سرنگیں واضع نشانیوں کی عدم موجودگی میں تو شائد بھول بھلیوں کا کام دیں لیکن قسمت نے یاوری کی اور ہم نشانات دیکھتے ہوئے بغیر جی پی اسی کی مدد کے آسانی سے نادر کتب کے فلور پر پہنچ گئے

Jefferson's Library -Rare Books Section



Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section - Locker

Jefferson's Library - Rare Books Section - Locker

یہاں پہنچ کہ پتا چلا کہ ابھی تو ایک اور فارم بھرنا ہے اور اپنی ہر چیز کو ایک عدد لاکر میں رکھنا ہے۔ حکمِ صیّاد ہے تا ختم، ایک بڑی سی کنجی والے لاکر میں تمام بوریا بستر ڈالا اور سنہرے دروازے والے نادر کتب کے کمرے تک جا پہنچے

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

وہاں دعا مانگتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ کہیں وقت کو بہانہ بنا کر لائبریرین داغ مفارقت نا دے دے لیکن محترمہ وعدے کی پکی تھیں انہوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا کہ اگر ہم نے کسی نادر کتاب کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا یا کوئی چیز خراب کی تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

ان تمام کاغذی کاروایوں سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ریڈنگ روم میں میز کرسی پر جا بیٹھے۔ لایبریرین ایک رحل لایا اور اس کے ساتھ ترجمہ قران کے دو نسخے، جلد اور اور دوم۔ مرد بیضا کے ہاتھ میں رحل دیکھی تو وہ کچھ مسلمان مسلمان سا لگنے لگا لیکن جب آس پاس نظر دوڑای تو پتا چلا کہ نادر کتب کے لئے یہی رائج طریقہ مطالعہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم ہاتھ لگے۔ اس نے پھر ایک کپڑے کی پٹی سی جس کے دونوں طرف ہلکے اوزان بندھے تھے ترجمہ کھول کر اس پر ڈال دی اور خاموشی سے اپنی میز پر جا کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔

Jefferson's Library - Quran

اس نادر نسخے کو اتنے قریب سے دیکھنے اور آخرکار ہاتھ لگانے سے ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی، اس اولین نسخہ ترجمہ قران میں ایک طویل تمہید ‘پریلمنری ڈسکورس’ کے نام سے موجود ہے جو عرب اور اسلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں ایک مفصل مضمون ہے۔ اس ترجمے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا چکے ہیں جن میں‌سے بنیادی اعتراض اس بات پر ہے کہ اس زمانے کے تراجم نے اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح ایک الہامی مذہب کے بجائے ایک گروہ یا ‘کلٹ’کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔

” محمد نے عربوں کو وہ بہترین‌ دین دیا جو کہ کم از کم ان بت پرستوں کے قانون دانوں کے دئے گئے ضابطوں سے بہت بہتر تھا۔ مجھے علم نہیں کہ انکو اس طرح کی عزت و احترام کے برابر کیوں نا سمجھا جائے جیسا کہ ماینوس اور نوما (یونانی اور رومی فلاسفر بادشاہوں) کو دیا جاتا ہے لیکن یہ عیسی اور موسی کے ہرگز برابر نا ہوگا کہ انکے قوانین الہامی تھے۔ انکو ایک ایسے عالم کے طور پر ضرور ماننا چاہئے کہ جس نے بت پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک خدا کے لئے دین کی داغ بیل ڈالی اور پہلے سےبنے قوانین صنم پرستی کے ذریعے پادشاہت کی آرزو نا کی۔”

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

بہرطور، جارج سیل کے ترجمے پر کئی رائے ہو سکتی ہیں جو کہ ایک ماہر تراجم اور ایک اور مضمون کی متقاضی ہیں لیکن ہمیں اسکی تلاش اور مطالعے میں بے حد لطف آیا۔ باہر نکلے تو شام کا وقت تھا اور کیپٹل بلڈنگ کی عمارت پر سے سورج اپنی روشنی سمیٹتا نظر آیا۔ ہم نے ستارئے سفر کے ڈھونڈنا شروع کئے کہ ایمسٹرڈم فلافل پر رش نا بڑھ جائے۔بھوک زوروں پر ہے۔

Jefferson's Library -Capitol Building

مضمون کے حوالہ جات

قران کے انگریزی تراجم کا علمی جائزہ

جارج سیل

جارج سیل کا ترجمہ قران – گٹن برگ پراجیکٹ

مسلم کانگریسمین کا قران پر حلف – این پی آر

ایلیسن کا قران پر حلف – اسنوپس

لایبرری آف کانگریس – جیفرسن کا ترجمہ قران

Share

17 Comments to تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی

  1. January 22, 2011 at 1:53 am | Permalink

    کم از کم ایک بات واضح ہے آپ نے ایک کام کی ٹھانی جو ایک دوسرے شہر اور کم وقت میں اسقدر ضوابط کی تکمیل ی موجودگی میں ایک مہم سے کسی طور پہ کم نہیں۔ اور اسمیں اللہ تعالٰی نے آپ کو کامیابی دی۔ آپکی محنت اور اسلام سے عقیدت قابل تحسین ہے۔

    واللہ یہ پاکستانی کنسپرینسی پکوڑوں کی تھوری نہیں بلکہ عملا یوں ہے مجھے دوسری مغربی زبانوں میں عیسائی متراجم کے ترجمہ جات دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ترجمے سے قبل مترجم کے اس تبصرے سے ملتے جلتے تبصرئے اور رائے دیگر مغربی زبانوں کے تراجم پہ متراجم کے تبصروں سے ملتے جلتے ہیں۔ خاصکر جب متراجم عیسائی وغیرہ ہوں۔جن پہ انکی رائے کے الفاظ کم بیش اس سے ملتے جلتے ہوئے ہیں۔ اور عصری لحاظ سے کچھ ترجموں میں کئی دہائیوں کا فرق ہے اور وہ مختلف ممالک میں کئیے گئے تھے۔

    اس بارے اس موضوع پہ ایک محقق سے ایک دفعہ رائے مانگی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ یوں ہی ہے کہ آپ کسی محفل میں کسی صاحب اوصاف و قدرت خطیب ،جو ہر لحاظ سے ممتاز ہو اسکا تعارف باقی محفل سے اسکی تعاریف کے ساتھ کروانے کے بعد ردِ بلا کے طور پہ آخر میں یوں کہہ دیں۔ بے شک یہ صاحب اوصاف ہیں مگر کمال وصف میں یہ صاحب وہاں تک نہیں پہنچ پائےجس کمال وصف پہ ہم پہلے سے موجود ہیں ۔
    اور اسکی ایک وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ ترجمہ کرتے ہوئے متراجم قرآن کریم سے شدید متاثر ہوتے ہیں اور ان ک دل میں یہ چور ہوتا ہے کہ اگر ترجمے کو جوں توں پیش کر دیا گیا تو بہت ممکن ہے (اور اسطرح عموما ہوتا ہے) کہ لوگ اسلام کی طرف راغب ہو ں۔ اسلئیے اسطرح کے تبصرہ جات کو پیش لفظ کی صورت میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ واللہ علم بالغیب۔

  2. January 22, 2011 at 4:46 am | Permalink

    مضمون اور طرز تحریر دونوں بہت اچھے لگے، شکریہ

  3. January 22, 2011 at 5:25 am | Permalink

    جزاک اللہ خيراً ۔ ايسی لگن اگر ہماری قوم کے بيس فيصد جوانوں ميں پيدا ہو جائے حُبِ دين کی تو وارے نيارے و جايں ہماری قوم کے ۔

    ان تراجم پر جملہ معترضہ کے متعلق مجھے ياد آيا وہ يہودی عالم جس نے سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت اور رُتبہ کی پيش گوئی کی اور پھر جب بعثت ہوئی تو مخالف ہو گيا ۔ اُس کے يہودی شاگرد نے پوچھا “کيا يہ وہی نہيں جس کی آپ نے پيش گوئی کی تھی ؟” اُس نے جواب ديا “ہاں ۔ وہی ہيں ۔ اسی لئے مخالفت کر رہا ہوں کہ ميرا وقار ختم ہو جائے گا”

  4. Noumaan Yaqoob's Gravatar Noumaan Yaqoob
    January 22, 2011 at 6:56 am | Permalink

    I have not read something that good in Urdu for like months now. The post was lengthy but it had a flow and the clever use of phrases made it interesting. Yes it was very similar to Robert Langdon and National Treasure Book of Secrets only things missing were a smart blonde woman helping you find that book and a genius villain who wanted to get there first so that he could rule the planet.

  5. January 22, 2011 at 10:44 am | Permalink

    ویسے تو آپ کی زبانی یہ قصہ سننے کا زیادہ لطف آیا تھا لیکن نثر میں بھی آپ نے کمال کا بیان کیا ہے۔۔ یہ عمدہ بات ہے کہ ایک نایاب کتاب نا صرف یہ کہ اچھی طرح رکھی گئی ہے بلکہ عام لوگوں تک اس کی رسائ بھی ممکن ہے۔۔
    کچھ تبصرے باعث مسکراہٹ ہوئے کہ لوگ پوپ سے اسلام کے حق میں فتوی اور خطیب مسجد سے عیسائیت کا پرچار سننے کے خواہاں ہیں بلکہ ایسا نا ہونے پر اپنی متوازی بلکہ مجازی دنیا میں نالاں بھی رہتے ہیں
    🙂

    • January 22, 2011 at 12:28 pm | Permalink

      لوگ پوپ سے اسلام کے حق میں فتوی اور خطیب مسجد سے عیسائیت کا پرچار سننے کے خواہاں ہیں بلکہ ایسا نا ہونے پر اپنی متوازی بلکہ مجازی دنیا میں نالاں بھی رہتے ہیں۔راشد کامران

      @۔ اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے عالم ہونا ضروری نہیں کہ ایک غیر مذھب مترجم اپنے جزبات کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم کا ترجمہ کرے گا اور اس پہ اپنی جانبدارانہ رائے دے گا ۔ لیکن ایک مسلمان ہونے کی صورت میں ہمیں اس جانبدارانہ رائے پہ قلق ہوتا ہے یہی بات عدنان مسعود نے اس جملے میں بیان کی ہے ” جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے” اسکی ایک عام سی وضاحت سر راہ میں نے کی ہے اور غالبا افتخار اجمل صاحب نے بھی اسے بیان کیا ہے۔ اور آپ چونکہ متوازی یا حجازی دنیا سے باہر ہشاش بشاش رہتے ہیں اسلئیے دیانتداری سے بتائیے گا کہ ایک عام سی بات پہ بغیر کسی پیشگی وجہ کے دوسروں کی ٹانگ کھینچھا کیا آپ کی غیر متوازی اور غیر حجازی دنیا میں جائز ہے؟۔

      یا آپ کے ہاں پندہ نصائح صرف دوسروں کو جاری کی جاتی ہیں۔؟

  6. Sharafat Walajahi's Gravatar Sharafat Walajahi
    January 22, 2011 at 11:03 am | Permalink

    Both Ghani Bhai ( your Grand Father’s Brother) and I obtained our degrees from the Osmania University of Hyderabad Deccan.Quite frankly none of us could write as well and as interestingly as you have done.Your sternous efforts in tracing and reading the rare Quoran , even very briefly, speaks volumes of your dedication to Islam
    May Allah bless your efforts.
    Sharafat Walajahi
    Sharafat Walajahi

  7. January 22, 2011 at 11:39 am | Permalink

    بیان خوب ہے۔ وائس آف امریکہ کے زیف سید جو کہ اردو محفل کے بھی رکن ہے ان کا ایک مراسلہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جو اسی لائبریری میں ان کی دن بھر کی کارگزاری کے متعلق ہے۔
    ملاحضہ فرمائیں
    http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?2332-%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%AF%DB%8C%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%A8%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%88-%DA%AF%DA%BE%D9%86%D9%B9%DB%92

    باقی بات تو برادرم راشد کامران نے کہہ ڈالی ۔

  8. January 23, 2011 at 12:55 am | Permalink

    آپ نے تو ہر چیز بڑی چابی والے لاکر میں جمع کروا دی تھی تو پھر کیمرا کہاں سے آگیا؟

    • January 23, 2011 at 9:29 am | Permalink

      یہ عدنان بھائی کا خاص ٹیلنٹ اور فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کی عملی شکل ہے
      🙂

  9. January 24, 2011 at 7:58 am | Permalink

    بہت خوب عدنان بھائی، تحریر بہت ہی اعلی ہے۔

  10. سلیمان's Gravatar سلیمان
    January 24, 2011 at 8:09 am | Permalink

    بہت شکر یہ۔ خدا همیں بھی کسی کی چیزوں کو اس طرح سمبھالنے کی توففیق دے

  11. January 24, 2011 at 11:58 am | Permalink

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    کانگريس کے پہلے مسلم رکن کيتھ ايليسن کی حلف برداری کی تقريب کے حوالے سے کچھ باتيں جو آپ کے ليے دلچسپی کا باعث ہوں گی۔

    کيتھ ايليسن نے اپنی حلف برداری کی تقريب سے پہلے يہ درخواست کی تھی کہ وہ بائبل کی بجاۓ قرآن پاک پر حلف اٹھانا چاہتے ہيں۔ صرف يہی نہيں بلکہ انھوں نے حلف اٹھانے کے ليے قرآن پاک کے اس ناياب نسخے کا انتخاب کيا جو امريکہ کے تيسرے صدر تھامس جيفرسن کی ذاتی لائيبريری کا حصہ تھا۔ قرآن پاک کا يہ نسخہ 1764 ميں لندن سے دو جلدوں ميں شائع ہوا تھا۔ اس وقت قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ کانگريس کی لائيبريری کا حصہ ہے۔ کانگريس لائيبريری کے ناياب کتابوں کے انچارج مارک ڈی مینيونيشن کے مطابق قرآن پاک کے اس نسخے کی حفاظت کے ليے 1919 ميں چمڑے کی خاص جلد تيار کی گئ۔ تھامس جيفرسن نے قرآن پاک کا يہ نسخہ 1815 ميں حاصل کيا تھا اور يہ انکی ذاتی لائيبريری کا حصہ رہا۔ تھامس جيفرسن کی لائيبريری ميں مجموعی طور پر 6400 کتابيں تھيں۔ 1812 کی جنگ ميں جب برطانوی فوجيوں کے ہاتھوں کانگريس لائيبريری راکھ کا ڈھير بن گئ تو اس کی ازسرنو تعمير کے ليے تھامس جيفرسن نے 24 ہزار ڈالرز کے علاوہ جن ناياب کتابوں کا عطيہ ديا اس ميں قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ بھی شامل تھا۔

    منی سوٹا سے تعلق رکھنے والے کيتھ ايليسن ڈی ٹروائٹ ميں پيدا ہوۓ اور انھوں نے کالج کے زمانے ميں اسلام قبول کيا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حلف برداری کی تقريب کے ليے تھامس جيفرسن کے ذاتی قرآن پاک کے نسخے کا انتخاب اس ليے کيا کيونکہ وہ لوگوں کو يہ باور کروانا چاہتے تھے کہ امريکہ کے آئين کی تشکيل کے ليے جن متعدد ذرا‏ئع سے رہنمائ حاصل کی گئ اس ميں قرآن پاک بھی شامل تھا۔

    اگرچہ کا نگريس لائيبريری کی عمارت کيپيٹل کی عمارت کے کافی قريب ہے ليکن اس کے باوجود لائيبريری کے اہلکاروں نے قرآن پاک کی حفاظت اور اسے گرد وغبار کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے لکڑی کے ايک چوکور ڈبے کا انتظام کيا اور اسے ہاتھوں کے نشانات سے بچانے کے ليے سبز رنگ کے ايک خاص کپڑے کا انتظام کيا گيا۔ اس کے بعد قرآن پاک کے اس نادر نسخے کو زير زمين سرنگوں کے ذريعے سيکورٹی کے انتظامات کے ساتھ حلف برادری کی تقريب ميں منتقل کيا گيا۔

    دلچسپ بات يہ ہے کہ کيتھ ايليسن کی والدہ کليڈا ايليسن عيسائ ہيں اور باقاعدگی سے روزانہ چرچ جاتی ہيں۔ جب ان سے اپنے بيٹے کے قرآن پاک پر حلف لينے کے فيصلے پر راۓ دينے کے ليے کہا گيا تو ان کا جواب يہ تھا

    “مجھے بہت خوشی ہے کہ ميرے بيٹے نے قرآن پاک پر حلف ليا ہے۔ اس بات سے بہت لوگوں کو يہ جان لينا چاہيے کہ امريکہ ميں مذہب کی مکمل آزادی ہے اور مختلف تہذيبوں کا امتزاج ہی امريکی معاشرے کا حسن ہے”۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

  12. January 24, 2011 at 8:37 pm | Permalink

    برادرم ابوشامل، پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ سے کم کم لکھنے کا گلہ تو رہے گا۔

    سلیمان صاحب، بلاگ پر خوش آمدید اور آپ کی دعا پر آمین۔

    فواد صاحب، کیتھ ایلیسن کی حلف برداری کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کا شکریہ

  13. ارسلان's Gravatar ارسلان
    November 21, 2011 at 11:36 pm | Permalink

    ماہ نومبر کا اردو ڈایجسٹ ہاتھ آیا اورمضمون “امریکی صدر تھامس جیفرسن نے قرآن پاک کیوں خریدا” پڑھا تو خیال آیا کہ اس سے ملتا جلتا مضمون ذرا دوسرے انداز میں جنا ب عدنان مسعود لکھ چکے ہیں
    “نام پر غور کیا تو نام بھی ملتا جلتا تھا یعنی کہ “ع-محمود

    بہرحال آپ نے لکھا یا نہیں لکھا یہاں اس لیے لنک درج کر رہا ہوں کہ دونوں مضامین متعلقہ ہیں

    http://urdudigest.pk/2011/11/%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%85%D8%B3-%D8%AC%DB%8C%D9%81%D8%B1%D8%B3%D9%86/

    شکریہ

  14. June 2, 2012 at 1:53 am | Permalink

    ہمارے معیاری ترین رسالوں کا اب یہ حال ہے کہ وہ مقالہ جات دیگر جرائد سے ترجمہ کرتے ہیں، ان کا حوالہ بھی نہیں دیتے اور مصنف کا نام بھی جعلی ہوتا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
    اردو ڈائجسٹ والا مضمون پڑھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ یہ مضمون سعودی ارامکو میگزین کے گزشتہ سال ایک شمارے سے نہ صرف نقل شدہ ہے بلکہ نامکمل بھی ہے۔ اصل مضمون اس سے کم از کم تین گنا بڑا ہے اور اس میں بات کو مکمل کیا گیا ہے۔ بہرحال، ایک مرتبہ تو اردو ڈائجسٹ میں ایسا ہو چکا ہے کہ میرے ماموں عبید اللہ کیہر کا سفرنامۂ حیدرآباد کسی اور نے اپنے نام سے بھیج دیا اور وہ چھپ بھی گیا 🙂
    اللہ سمجھائے انہیں۔

  1. By on January 22, 2011 at 1:39 am
  2. By on July 16, 2012 at 2:14 am

Leave a Reply to ابوشامل

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>