عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

کیفے سرائیو – ایک بوسنیائی مطعم

Serajivo Cafe

گزشتہ ہفتے بیابان سونوران میں صحرا نوردی کرتے جب ہم ریاست ایریزونا میں داخل ہوئے تو پیٹ میں چوہوں کی میراتھون شروع ہو چکی تھی۔ راشد بھائی کی برق رفتار ڈرایونگ کی بدولت ہم تنہا ستارے کی ریاست ٹیکساس سے سنہری ریاست کیلیفورنیا کا سفر درست وقت میں طے کر رہے تھے لیکن اب بھوک زوروں پر تھی اور غدودانہ معدہ سےاول طعام کی صدائیں بلند ہو رہیں تھیں تو ہم نے کھانا کھانے کی ٹھانی۔ زبیحہ ڈاٹ کام نے قریب میں جو حلال ریسٹورانٹ بتائے ان میں سے ایک بوسنیائی مطبخ ‘سرائیو کیفے‘ کی ریٹنگ خاصی اچھی تھی۔ ہمارا مقولہ ہے کہ زندگی میں ہر حلال کام کم از کم ایک دفعہ ضرور کر کے دیکھنا چاہئے اور چونکہ ہم دونوں نے کبھی بوسنیائی کھانا نہیں کھایا تھا لہذا سوچا کہ آج اس جنوب مشرقی یورپی ملک کے کھانے کو آزمایا جائے۔ راشد بھائی تو ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ جو مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں کہا تھا کہ ‘۔ انسان کو اگر ہمیشہ طرح بہ طرح کے کھانے میسر نہ آئیں تو وہ تمام عمر ایک ہی کھانے پر قناعت کر سکتا ہے لیکن شعر یا راگ میں تلون اور تنوع نہ ہو اس سے جی اکتا جاتا ہے’، سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی متنوع کھانے نہیں کھائے اور اسکا انجام درجہ پنچم سے گیارویں جماعت تک ہمیں بھگتنا پڑا ۔

کیفے سرائیو ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے مضافات میں واقع ایک چھوٹا سا ریسٹورانٹ ہے۔ ہم جب اس کے جائے وقوع میں پہنچے تو علاقے کی دگرگوں صورتحال سے کچھ ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر جی کڑا کر کے سوچا کہ اگر مرنا ہی ٹہرا تو کھا پی کر جان دینا خالی پیٹ گولی کھانے سے بہتر ہے۔ بہر حال، یہاں داخل ہوتے ہی اشتہا انگیز خوشبووں اور بوسنیائی میزبان بیرے نے ہمارا استقبال کیا۔ سنا ہے کہ اس خاندانی مطبخ میں والدہ کھانا پکاتی ہیں اور بیٹا بیرا گیری اور کیشیر کے فرایض انجام دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق تو نا کر پائے لیکن ماحول بلکل ایسا ہی تھا۔ یہاں دیگر بوسنیائی مسلمان بھی موجود تھے۔ ہمارےمیزبان نے سلام دعا کے بعد ہمیں مینیو پکڑا دیا جس کی ہمیں اتنی ہی سمجھ آئی جتنی رحمان ملک کو سورۃ اخلاص کی ہے۔ ہہرحال، زمانہ شناس میزبان بیرے نے ہماری نو آموزی بھانپتے ہوئے احوال پوچھا تو ہم نے جھٹ کہ ڈالا کہ ہم پہلی بار کسی بوسنیائی ریسٹورانٹ میں آئے ہیں لہذا آپ کے رحم و کرم پر ہیں۔ بھوک زوروں پر ہے، اچھا کھانا کھلاو گے تو دعا دینگے۔ راشد بھائی نے البتہ برابر والی میز کا کھانا تاڑتے ہوئے کہا کہ میں تو وہی کھاوں گا ورنہ۔

بوسنیائی دسترخواں یورپی اور میڈیٹرینین کھانوں کا ایک خوبصورت امتزاج معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو کروسانٹ جیسی روٹی میں قیمہ بھرا ملے تو اس کے ایجاد کرنے والےکے لئےدل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ اس ڈش کو بوریک کہا جاتا ہے۔ شواپی یا بوسنیائی ساسیچ سینڈوچ جو راشد بھائی نے آرڈر کی درحقیقت تین مختلف قسم کے گوشتوں کے امتزاج سے بنے کباب ہوتے ہیں۔یہ سلطنت عثمانیہ کی باقیات میں سے ایک یادگار ہے جس کو بوسنیا کی قومی ڈش کا درجہ حاصل ہے۔ اس نہائت لذیذ ڈش میں بکرے، دنبے اور بچھیا کے گوشت سے بناے گئے کباب کے ساتھ ایک مزیدار چٹنی اور خصوصی روٹی ملتی ہے جس کا ذائقہ اب تک نہیں بھولتا۔ ہم نے بمینجی نامی سوپ بھی منگوایا جو سوپ کم اور سبزی گوشت کا سالن زیادہ تھا۔ اضافی روٹی بھی کروسانٹ سے ملتی جلتی تھی جو زائقے میں اپنی مثال آپ تھی۔

سب کچھ کھا کر اپنے نہائت خوش اخلاق میزبان کو دعائیں دیں اور مسجد کا پتا پوچھا۔ ریاست ائریزونا کے بارئے میں جیسا میڈیا میں سنتے آ تے ہیں اس سے تو لگتا تھا کہ یہاں مساجد کے باہر گرینڈ وزرڈز کا پہرا ہوگا لیکن ریسٹورانٹ سے کچھ ہی دور ایک بڑی مسجد دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی۔ واللّٰہ متمّ نورہ ۔ بہرحال، بھاری دل کے ساتھ اپنے میزبان کو خدا حافظ کہا کہ طویل سفر باقی تھا۔

قصہ مختصر کہ اب ہم تو بوسنیائی دسترخوان کے ذائقے کے اسیر ہیں۔ آپکا اگر کبھی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس سے گذر ہو تو کیفے سرائوو کو ضرور یاد رکھئے گا۔ راشد بھائی تو کہ چار سو میل کے سفر کے لئے تیار ہیں کہ شواپی اوہو ای اے جیہدے بارے آکھیا جاندا ہے پئی شوق دا کوئی مُل نہیں۔

Share

4 Comments to کیفے سرائیو – ایک بوسنیائی مطعم

  1. March 9, 2011 at 5:03 pm | Permalink

    محترمی یہ عصرانہ تو گویا یادگار ہوگیا لیکن حوارس کے ناشتوں کی بات اور ہے؛
    یہ علحیدہ بات ہے کہ ہسپانوی شروع ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ہمارے لیے گویا نوپریکٹیکائیٹس اور آپ کے لیے سینیوریتائیٹس۔۔

  2. March 9, 2011 at 9:50 pm | Permalink

    مطعم ، مطبخ ، بیرا گیری ..
    قبلہ میں تو یہاں آپ کی اردو پڑھنے آتا ہوں۔ کچھ اسی سبب مرحوم جمیل الدین عالی کے کالم کا مطالعہ کرتا تھا۔ غرض محض ان کی رطب اللسانی سے تھی۔ ورنہ ان کی فکر سے اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی کہ رحمان ملک کو سورۃ اخلاص سے ہوسکتی ہے۔

  3. March 10, 2011 at 12:05 am | Permalink

    اچھی تحرير ہے ذائقہ دار کھانوں کے ساتھ
    کسی چيز ميں قيمہ يا قيمہ ملے چاول بھرنا بھی ميرے خيال مين سلطنت عثمانيہ کی يادگار ہے ۔ ہمارے ہاں کچھ ايسی چيزيں پکتی ہيں

  4. March 10, 2011 at 1:04 am | Permalink

    کیا واقعی جمیل الدین عالی صاحب بھی مرحوم ہو گئے؟ انا للہ و انا الیہ راجعون
    یہ سانحہ کب وقوع پذیر ہوا؟

Leave a Reply to راشد کامران

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>