وہ: مملکت خداداد کے حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کیا بتائیں۔ کرپشن، لوٹ مار، بےامنی، قتل و غارت گری، انسانی جان ارزاں ہے، آپ کچھ حل تجویز کریں۔
میں: حکومت الٰہیہ کا قیام۔ اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنے کا اجتماعی عزم۔ زندگی کانظام جوآج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہاہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔
وہ: ابے ہٹ، ملا کہیں کا!
ہا ہا ہا۔۔۔ صحیح کہا۔۔۔ ملا کہیں کے۔۔۔
عزت افزائ کا شکریہ 🙂
یہ کوئی شریف سا ‘وہ’ ہوگا
ورنہ صرف ملا کے خطاب پر ہی بات نہ ٹلتی
وہ کیا کہتے ہیں کہ دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں 🙂
میرے خیال میں ہماری قوم کا فکری المیہ اتنے اختصار سے شاید ہی کسی نے بیان کیا ہو ….
شکریہ جواد احمد صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید
میرا نہیں خیال آپ کے مکالمہ کا دوسرا کردار ملائیت کے اصل مطالبہ سے واقف ہے ورنہ آپ کو ہٹ بے ملا کے بجائے ہٹ بے آئیڈیلسٹ سے مخاطب کرتا۔ خیر یہ تو طے ہے کہ اردو بلاگنگ کی ہوا آپ کو لگنا شروع ہوگئی ہے :)۔ مثلا
“رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔”
اور یہ فرضی کردار کس عمران سیریز سے برآمد کیے جائیں گے؟ اور عمام اقتدار جب ایک دہائ تک مومنین اور صالحین کی مروجہ تعریفوں پر پورا اترنے والوں کے ہاتھ میں تھی تو اس سے برآمد ہونے والے خیر پر بھی اگر تھوڑی روشنی ڈال دی جائے تو قوم کو لائحہ عمل طے کرنے میں شاید کچھ آسانی رہے۔
ارے محترم، اگر آپ کو ہماری بات اتنی بری لگ رہی ہے تو اپنا حل بیان کردیں،
حضور ارشاد ہو، ہم بھی ہمہ تن گوش و گوش بر آواز ہیں
آسان سا حل ہے لیکن کیونکہ ذرا روشن خیال سا ہے اس لیے صالح اور مومنین کے معاشروں میں اس کا اطلاق مشکل ہے۔۔ عدل پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جائے نا کہ عقائد، مذہب، برادری اور ذات کی بنیاد پر شخص کے صالح ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر سب سے اہل امیر میرے اور آپ کے عقیدہ، مذہب اور خیال سے مطابقت نا رکھتا ہو تو پھر آپ کا پیش کردہ حل ظلم کا استعمال کرکے اس کے حق امارت کو نا منظور کردے گا اس وقت آپ اسے اس پر بات کریں گے کہ مردوں اور نامردوں کے دین میں کیا فرق ہے
🙂
مودودی صاحب نے آح سے پچاس سال پہلے اسی نظرئیے کے تحت مومنین کو چن کر انتخابات میں کھڑا کیا تھا۔ اب یہ الیکشن نامی اصطلاح کی تاثیر ہے کہ وہ مومن سے شیطان بن گئے۔ خود مودودی صاحب اس کایا کلپ پہ حیران رہ گئے۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ ایک آئیڈیالسٹ اگر وژن سے کام نہ لے تو شیطان اور مومن کی اصطلاحوں میں پھنسا رہے گا۔
اختصاار سے آئیڈیالسٹ ہی اپنے نظریات پیش کر سکتے ہیں آُ تھوڑی سی تفصیل میں جا کر اسکا حقیقی حل سامنے لائیں۔ ورنہ ہم بغیر مذہب کو بیچ میں لائے یہ کہہ دیں کہ منصف، اہل، صادق، ،اصول پسند، محب وطن افراد کو سامنے لائیں تو مملکت کو استحکام حاصل ہو جائے گا۔ کیا آپ اس سے انکار کر سکیں گے۔
تبصرے کا شکریہ ، آپ کا یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ ان خصائص کی کوانٹیفیکیشن کیسے ہو اور عملی جذئیات میں اس بنیادی نظریئے کو کس طرح لوگوں کے ذہن میں زندہ رکھا جائے کہ امتداد زمانہ سے اس میں کوئی اساسی تغیر نا ہو۔ یہ مسئلہ ہرنظریاتی تحریک میں پایا جاتا ہےاور تاریخ المسلمین اس بات پر شاہد ہے کہ تحریک اسلامی بھی انسانی تحریک ہونے کے ناطے اس سےمکمل طور پر مبرا نہیں۔ لیکن اسلام پسندوں کا کہنا یہ ہے کہ ان خصائص کی توضیع اس ٹریننگ پروگرام و لائع عمل سے کی جائے گی جو کہ شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہےاور یہی ‘اٹریشن’ یا تکرار عملی ہمیں امت کی نشاۃ ثانیہ کی طرف لے جائے گی۔ ہم اسلاف کے نقش قدم پر رہتے ہوئے ایسے افراد کے ایمان کی گواہی دینگے اور انہیں امت کی امامت کا حقدار قرار دینگے جو کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر پورا اترتے ہوں۔ ہماری اور آپکی رائے میں فرق اہلیت کے معیار کا ہے۔ ہم تجریدی طور پر نیکی کے معیار کے قائل نہیں بلکہ اسے خالق کی مخلص بندگی سے مشروط رکھتے ہیں۔ انسانی تحاریک میں تغیر و ضعف ایک فطری عمل ہے کہ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا۔ مزید طوالت کی معذرت کے ساتھ سید کا ایک اقتباس یہاں نقل کروں گا، جو آپ کو شائد ایک آیڈیلسٹ کی بڑ لگے لیکن انسانی تاریخ کا مطالعہ شاہد ہے کہ تبدیلی ایسے ہی آیا کرتی ہے۔ آپ سے ایک دفعہ کھلے دل سے مطالعے کی استدعا ہے۔
“۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خش و خاشاک‘ اور پانی کے بہاﺅ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو دریاﺅں کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاﺅ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حق رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاﺅ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینیشن کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے۔ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستہ سے پھیر دیا تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے ک لیے راضی ہوجائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی۔ وہ ہر اس شخص کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں۔ اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمہارے سامنے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ ابتداءسے لے کر آج تک علمبرداران اسلام کی زندگی تمہارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جد ھر اڑائے ادھر اڑ جاﺅ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاﺅ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاﺅ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعث کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیاکا بہاﺅ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام آیا ہے۔ اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے۔ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمانداروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں۔ اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوفزدہ ہوکر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے۔ مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اوراس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے؟”
اب تو کہنا ہی پڑے گا، مولوی کہیں کے۔ 🙂
بڑی خوفناک اردو لکھتے ہیں آپ لوگ… ساتھ لغت رکھنی پڑے گی سمجھنے کے لئے۔۔۔