عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

اروائن گیارہ – عہد زباں بندی میں حسینیت کے علمبردار

مغرب آزادی اظہار کو انسان کا بنیادی حق گردانتا ہے۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو کہ ‘بل آف رایٹس’ کا حصہ ہے کے مطابق ہر فرد کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے اور امریکی ایوان نمایندگان کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتا جس سے کسی سرکاری مذہب کی رائے ہموار ہوتی ہو ، کسی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنےسے روکا جاتا ہو، عبادات میں خلل ڈالا جا سکتا ہو، کسی فرد یا افراد کے گروہ کی زباں بندی ہوتی ہو، یا انہیں پرامن طور پر اجتماع کرنے کی آزادی سلب کی جاتی ہو یا کوئی ایسا قانون بنایا جا سکے جس کے  ذریعے زرائع ابلاغ پر قدغن لگائی جا سکتی ہو۔

لیکن قوانین تو شائد بنتے ہی اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے کے لئے ہیں، حبس بے جا کے خلاف قانون کی بندش ہو، ایک لاکھ بیس ہزار جاپانی امریکیوں کی انٹرمٹنٹ قفل بندی ہو یا پھر اورینج کاونٹی کی عدالت کی جامعہ اروائن کے گیارہ  طالبعلموں کے خلاف فرد جرم ہو  جنہوں نے اسرائیلی سفیر کی تقریر کے دوران اپنی رائے کا ببانگ دہل اظہار کیا ۔

فروری 2010 میں غزہ کے محاصرے اور حملوں کے دوران اسرائیلی سفیر مائکل اورن نے جامعہ اروائن کیلیفورنیا میں خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے اراکین گیارہ طالبعلموں نے رفتہ رفتہ کھڑے ہوکر زبانی احتجاج کیا اور سفیر کو فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت پر ظالم، جارح اور قاتل کے القابات سے نوازا۔ صدائے احتجاج بلند کرنے پر جب پولیس نے ان طالبعلموں کو باہر نکالا تو وہ کسی مزاحمت کے بغیر کمرے سے باہر چلے گئے جو کہ ان کی امن پسندی کا واضع پیغام تھا۔ اس تمام واقعے کے تصویری و وڈیو ثبوت موجود ہیں۔ اس واقعے پر یونیورسٹی نے انہیں ایک سیمسٹر کے لئے معطل کر دیا اور ایم ایس اے کو پروبیشن پر رکھ دیا۔

تقریبا ایک سال بعد اورینج کاونٹی کے پبلک پراسیکیوٹر کو اس بات کا خیال آیا کہ اسرائیل کے سفیر کے خلاف مسلمان طالبعلموں کا ایسا جرم کیسے معاف کیا جاسکتا ہے، ان صاحب نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان طالبعلموں کے خلاف مقدمہ دائر کیا اورپچھلے جمعے کے روز عدالت نے انہیں مجرم قرار دے دیا۔ ان کو تین سال کی پروبیشن یا چھپن گھنٹے کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی اور تقریبا دو سو ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پڑئے گا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ہی لڑا گیا۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ ان طالبعلموں نے سفیر کے اظہار رائے کے حق کو چھینا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر اس قانونی موشگافی کو مان لیا جائے تو ٹاون ہال کی میٹنگوں میں ہونے والے شور و غوغا اور اختلاف رائے جو کہ نہائت معمول کی بات ہے بھی غیر قانونی قرار پائے گا اورٹی پارٹی کے ان تمام افراد کے خلاف بھی مقدمہ کرنا چاہئے جنہوں‌ نے حالیہ دور میں ٹاون ہال میٹنگوں کو ثبوتاژ کرنے کہ منصوبہ بندی کی تھی۔ امریکی کانگریس کے اس رکن کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے جس نے صدر اوبامہ کو سرعام ان کے خطاب کے دوران با آواز بلند ‘تم جھوٹ بولتے ہو‘ کہا تھا۔ دور کیوں جائیں ابھی ویسٹ بارو چرچ کے اراکین کو امریکی فوجیوں کے جنازوں پر نفرت انگیز بورڈز اور نعروں سے بھرپور مظاہروں کی اجازت سپریم کورٹ‌ نے دی ہے کہ یہ آزادی رائے کی اجازت ہے۔‌ پادری جیری جونز کا واقعہ تو کوئی بھی مسلمان نہیں‌ بھول سکتا۔ لیکن اگر یہ سب بھی آپ کو دور کی کوڑیاں لگتی ہوں تو چلیں ایک بلکل مماثل واقعہ ہی دیکھ لیں جب پچھلے سال نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دورے کے دوران ‘جیوز فار پیس’ نامی تنظیم کے پانچ یہودی مظاہرین نے بلکل اسی طرح سے صدائے احتجاج بلند کی تو انہیں بے دخلی کے سوا کسی اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس تمام گفتگو سے مدعا یہ ہے کہ اس قسم کا امتیازی سلوک مسلمان طالبعلموں کے ساتھ ہی کیوں‌روا رکھا گیا۔ جامعہ اروائن کے شعبہ قانون کے ڈین ارون چرمنسکی کا خود یہی کہنا ہے کہ جامعہ کی اپنی نظم و ضبط کے خلاف دی گئیں سزائیں اور پابندیاں ان طالبعلموں کے لئے کافی تھیں، کسی فوجداری مجرمانہ مقدمے کا اطلاق  اس مظاہرے  پر نہیں ہوتا۔ کئیر، اے سی ایل یو اور کئی یہودی تنظیموں اور ربیوں نے بھی اس شرمناک سزا پر صدائے احتجاج بلند کی اور اروائن گیارہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس زمن میں‌ کئیر کی محترمہ امینہ قاضی کا اورینج کاونٹی رجسٹر میں‌ لکھا گیا کالم ڈسٹرکٹ اٹارنی کے منہ پر دلایل و براہین و قاطعین کا ایک بھرپور طمانچہ ہے۔

یہ فیصلہ امریکی روایات کے خلاف ہے، آزادی اظہار پر حملہ ہے، جمہوری اقدار پر دست درازی ہے۔ مجھے اروائن گیارہ کو آکیسویں صدی کے روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ  ماننے میں‌کوئی مظائقہ نہیں اور  واثق یقین ہے کہ ہیبیس کورپس کی معطلی کی طرح ایک دن اس فیصلے کو بھی تاریخ کے سیاہ صفحات میں‌درج کیا جائے گا۔

سلام اروائن کے ان گیارہ طالبعلموں‌پر جنہوں نے اپنے کیرئر کی قربانی دے کر غزہ کے مظلوموں کے حق میں‌آواز بلند کی۔ اب ان کے ریکارڈ‌ پر ایک ‘مس ڈیمینر’ کا دھبہ ہے جو کہ مٹائے نہیں مٹ‌ سکتا۔ فارغ‌التحصیل ہونے کے بعد جب یہ کہیں‌ نوکری کے لئے جائیں‌ گے تو بیک گراونڈ چیک میں‌ یہ سزا دور سے دکھائی دے گی۔ لیکن انہیں اس بات کی پروا نہیں، انہیں‌فکر تو اس بات کی ہے کہ غزہ کے بے آواز لوگوں کو آواز مل جائے.

مبارک ہو ان طالبعلموں کو کہ انہوں نے اسرائیل کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا کر رسم حسینیت کی لاج رکھی اور کسی ملامت کرنے والے کا خوف ان کو اپنے مشن سے دور نا کرسکا۔ سلام ہو ان ماوں پر جنہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ کہنے کا درس دیا۔ ظالم و جابر کے خلاف آواز حق بلند کرنا افضل جہاد ہے، آج اروائین کے ان گیارہ طلبعلوں نے اس روایت کا پاس رکھا جو کہ امت مسلمہ کا ہی خاصہ ہے۔

حسین تو نا رہا اور تیرا گھر نا رہا
تیرے بعد مگر ظالموں کا ڈر نا رہا

Share

4 Comments to اروائن گیارہ – عہد زباں بندی میں حسینیت کے علمبردار

  1. Nasir's Gravatar Nasir
    September 28, 2011 at 7:30 am | Permalink

    well written!
    adnan… keep it up…

  2. September 28, 2011 at 9:55 am | Permalink

    زبردست ۔۔۔۔۔کافی اچھا اور متاثر کن انداز میں لکھا ہے۔

  3. September 28, 2011 at 12:22 pm | Permalink

    سلام ان تمام جرات مند طالبعلموں پر جو اپنا آج اپنے خوابوں پر قربان کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ۔

  4. غلام مرتضیٰ علی's Gravatar غلام مرتضیٰ علی
    September 28, 2011 at 3:14 pm | Permalink

    خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را
    اس عظیم ناانصافی سے مطلع کرنے کا شکریہ

  1. By on September 30, 2011 at 8:18 pm

Leave a Reply to غلام مرتضیٰ علی

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>