عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

وہ دن ہوا ہوئے

کرٹکل تھنکنگ بڑی بری بلا ہے کہ زندگی سے افسانویت اور واقعہ سے نقش خیال چھین لیتی ہے۔ اب حکایاتوں و کہانیوں سے مزا اٹھ سا گیا ہے کہ اگر منہ سے آگ اگلتے اژدھوں، بولتے مرغوں یا ڈاکٹر کی ممکنہ ندامت کے خوف سے غلط داڑھ نکلوا لینے والے نوابین کے حسن سلوک کے قصے سنتے ہیں تو فورا لیفٹ برین چلا اٹھتا ہے کہ لو جی یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئ؟ جوے شیر کیا، سلوک کیا، منصور کی سولی کیا۔۔۔یہ استدلالی و عقلی و منطقی و پر مغز سوچ تجرید کا گلا کچھ اس طرح گھونٹنے لگتی ہے کہ تخلیقی فکر کا دم گھٹتا ہے۔

یادش بخیر کیا دن تھے کہ تجسس و تخیل کی اڑانیں غیر مقید ہوا کرتی تھیں۔ جب استفسار سے پہلے جواب معلوم ہونا تو درکنار، معلوم کی سرحد کی موجودگی ہی بے معنی تھی۔ جب منطق و استدلال نے گمان کے پر نا کترے تھے۔ جب اشیا میں نیا پن تھا اور چھنگلی کے کھودنے سے بونے نکل آیا کرتے تھے، جب ہر سفر، ہر عمارت، ہر پہاڑ اور ہر قریہ جدید و بے نظیر و تازہ دکھائ دیتا تھا، مماثل نہیں کہ بین دیر ڈن دیٹ کی مانند ہو۔

 اب تو بس سائنس، ترقی، ہایڈرالکس کے قوانین، حر حرکیات کے قوانین، اس کا نظریہ، اس کا قانون باقی رہ گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں اب عمروعیار کی زنبیل کی کوئ جگہ نہیں، کسی کو عثمان جاہ کے انناسوں کے مرتبانوں سے، افراسیاب سے، صرصر سے، انکا و اقابلا سے کوئ التفات و تلمذ نہیں، ہاں بازرگانی ہے، سرقہ ہے، اور تجارت ہے کہ باقی سب تو لڑکپن کے کھیل ٹھرے، اذہان رشد و پختہ تو فقط استدلال سے کلام رکھتے ہیں۔

Share

9 Comments to وہ دن ہوا ہوئے

  1. محمد منصور's Gravatar محمد منصور
    December 30, 2011 at 12:41 pm | Permalink

    Critical Thinking : تنقیدی سوچ
    کیا میں نے درس ترجمہ کیا ہے ؟

  2. December 30, 2011 at 3:12 pm | Permalink

    محترم؛ تخیل کی پرواز کی تو ابھی بھی کوئی حد نہیں۔ مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ جو زنبیل کسی وقت تصوارتی تھی تو اب وہ حقیقی ہے۔ آپ خودسر عمروں میں ذرا اٹھیے بیٹھیے تو معلوم ہوکہ تصورات بدل گئے ہیں پرواز وہی ہے۔

    سوال منصور صاحب کا دہرادوں کہ حضرت اس ’معترضانہ تفکر‘ کا کیا بنا جب آپ نے ’کریٹیکل تھنکنگ‘ سے مضمون آلودہ کیا؟

  3. December 30, 2011 at 8:44 pm | Permalink

    اس عبارت کو ہضم کرنے کيلئے معدے کا کوئی نسخہ حاصل کرنا پڑے گا مگر حکيم محمد اجمل خان تو عرصہ ہوا يہ دنيا چھوڑ گئے اور حکيم سعيد کا رختِ سفر کراچی والوں نے جلد باندھ ديا ۔

  4. December 30, 2011 at 9:34 pm | Permalink

    فیری ٹیلز اگر زندگی سے کلی طور پر خارج ہو جائیں تو زندگی بہت خشک، کٹھن ہو جاتی ہے۔ جیسے لبریکینٹ کے بغیر مشین۔

    • January 2, 2012 at 10:59 am | Permalink

      احمد عرفان شفقت صاحب، بلکل بجا فرمایا اپنے اور استعارہ بھی خوب ہے۔

  5. December 31, 2011 at 2:43 pm | Permalink

    حضرت مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کریٹیکل تھنکنگ کس چڑیا کا نام ہے۔ میرا تو ماننا ہے کہ انسان کریٹیکل تھنکنگ کی صلاحیت سے پیدائشی طور پر عاری ہے۔ انسان کبھی بھی اپنے پسندیدہ نظریات سے اوپر اٹھ کر نہیں دیکھ سکتا

    • January 2, 2012 at 11:03 am | Permalink

      ڈاکٹر جواد صاحب، قدرتی میلانات یا جس رجحان کو شماریات کی اصطلاح میں بائیس کہا جاتا ہے تو واقعی پائے جاتے ہیں لیکن انسان یقینی طور پر نان کنونشنل یا غیر عرفی سوچ کا حامل ہے ورنہ حالات کا موجودہ منظر نامہ پتھروں کے زمانے سے زیادہ مختلف نا ہوتا۔

Leave a Reply to افتخار اجمل بھوپال

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>