عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – دوسرا اور آخری حصہ

گذشتہ سے پیوستہ

 قیصر تمکین صاحب کی اردو زبان سے دلی محبت اور اسکی شکست و ریخت پر جلنا کڑھنا،  آپکی تحاریر میں متعدد بار دکھائ دیتا ہے۔  اسی زمن میں رطب اللسان ہیں۔

بہرحال یہاں کہنا صرف یہ تھا کہ بیسویں صدی جو ہماری زبان کی ترقی کے امکانات کی صدی تھی جس میں ہم نے بہتر سے بہتر ترقیوں کی خواہش کی تھی، فروعی مسائل میں ایسی الجھی کہ ادب و فن کی ترقی تو کجا خود زبان کا مستقبل ہی معرض بحث میں پڑ گیا.اس پر طرہ یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم والے اسکولوں کی بھرمار اور لعنت نے مذہبی گھرانوں تک میں اردو کا ذبیحہ کر دیا.ہندوستان میں ہر سرکاری تقریب اور ہر محفل میں ہندی کہ بول بالارہتا ہے ،اسے قوم پرستی اور ملکی افتخار کہ نام دیا جاتا ہے لیکن انگریزی لکھنے اور پڑھنے والے ہندوستان میں ہی زیادہ ہیں.ہندوستان کہ نام ہی انڈیا ہے جو انگریزی ہے اور انگریزوں کہ دیا ہوا ہے.آج کل پورا ایک دبستان علم وادب ہندوستانیوں کہ ایسا ہے جو انگریزی حلقوں میں مساوی سلوک کہ حقدار اور عالمی عزت کہ حمل ہے لیکن وہ لوگ اپنی زبان (ہندی)کی حق تلفی کر کے انگریزی نہیں لکھتے پڑھتے ہیں.ہندوستان کے زیادہ تر ادیب انگریزی میں لکھنے کے باوجود اپنی مادری زبان یا علاقائی زبانوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس کے بر خلاف پاکستان میں جو طبقہ انگریزی بولنے،لکھنے یا پڑھنے کہ دعویٰ کرتا ہے اس کو اردو تو بہرحال نہیں آتی ہے لیکن انگریزی میں بھی بڑے بڑے صاحب لوگ بلکل صفر ہوتے ہیں.اس صورت حال کے لیے یہ نعرہ بہت بڑی حد تک صحیح ہے کہ پاکستان میں “نہ تو انگریزی آتی ہے اور نہ انگریزی جاتی ہے.”

آجکل اردو ادب کا ایک بڑا مسئلہ بے ادب مصنفین بھی ہیں جو کہ پیسے و تعلقات کے زور پر اپنی کتابیں چھپواتے اور انکاا’لوہا منواتے’  نظر آتے ہیں۔ قیصر تمکین صاحب اسی بارے میں لکھتے ہیں

ہمارے ادب میں (خاص طور پر انگلستان میں)ادب کے آخری پچیس سال کی تاریخ اصل میں اردو زبان کو ختم کرنے یا اس کہ چہرہ بہت ہی شعوری اور مخلصانہ طور پر مسخ کرنے کی کوششوں سے عبارت ہے.ان کوششوں میں تھوڑا حصّہ سمندر پار کے ملکوں میں جا بسنے والوں اور خام قلم کاروں کہ بھی ہے.نچلے طبقے یا پسے ہوئے اور پسماندہ افراد کے گروہ کے گروہ مشاعروں کو سستی تفریح کا ذریعہ بنانے میں منہک رہے ہیں.یہ کوشش کچھ زیادہ قابل تنقیص نہیں ہے کیوںکہ خام قلمکار ہی آگے بڑھ کر معتبر ادیب و شاعر بنتے ہیں.مغرب میں پیسے کی تنگی نہ ہونے کی وجہ سے ہر زید عمر بکر اپنی کتابیں خود چھپوانے لگا ہے.پیسے کوڑی سے مضبوط خضاب آلودہ حضرات نے ہندوستان و پاکستان کے ندیدے اور لالچی مدیران جرائد کو خطیر رقوم بھیج بھیج کر اپنے مشتبہ یا املا و انشا سے بے بہرہ کتب کی اشاعت کے اشتہارات بھی خوب شایع کراۓ(یہ طریقہ اب کچھ کم ہو رہا ہے ).کوکین،بردہ فروشی،غبن اور باقاعدہ ڈاکہ زنی میں ماخوزاداروں کے چلتی رقم قسم کے کامیاب حضرات نے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھیج کر مستند ناقدین تک سے اپنے بارے میں بقول محمّد طفیل اکیس توپوں کی سلامی والے مضامین لکھائے.بہت سے امیر و رئیس حضرات نے اپنی سادہ و بے نمک تخلیقات کے ایسے ایسے کار چوبی نسخے چھپواۓ کے چغتائی کا مصوردیوان غالب تک ان کے سامنے پھیکا پڑگیا.گویا وہ صدی جو بڑی امنگوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اپنے آخری چوتھائی حصّے میں آ کر ابتدال و زوال کی سرگرمیوں کی داستان بن کر رہ ِگئ.
انہی پچیس برسوں میں برطانیہ میں مقیم اردو دوست آپس میں مربوط ہونے لگے.بازاری طریق فکر کے علاوہ بعض پراسرار وجوہ سے بھی ادیبوں اور شاعروں کی ایک ایسی کھپ دیکھتے ہی دیکھتے جہان فکر پر حاوی ہو گئی جو اپنی ناواقفیت پر مسرور اور لا علمی پر نازاں تھی.اسی زمانے میں شخصی بت پرستی اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی روش عام ہوئی.

اردو ادب کی حالیہ تاریخ مرتب کرنے پر ان الفاظ میں راے زنی کرتے ہیں

مشکل اس وقت یہ ہے کے بیسویں صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے کسی منصوبے پر تا حال کسی ادارے یا یونیورسٹی نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے امریکا اور انگلستان میں اس طرح کا کام ہو رہا ہے اور جلد ہی امریکی اور انگریزی ادب کی جامع تاریخ ہمارے سامنے آ جاۓ گی.اصل میں جس وسیع پیمانے پر محنت کی ضرورت ہے اس طرح کے وسائل ہمارے ادب میں نہیں ہیں.صرف ایک صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بھی کئی پڑھے لکھ حضرات کا تعاون درکار ہوگا. یہاں پچھلی صدی کے صرف ایسے مسائل پر مختصر روشنی ڈالی جا سکتی ہے جو اب تک برقرار ہیں.پھر بھی اگر ہم لوگ کوئی سیر حاصل تبصرہ کرنا چاہیں تو زیادہ مشکلات نو ہوں گی.ایک جلد آسانی سی تنقیدی مسائل و نگارشات اور فن تنقید پر مرتب کی جا سکتی ہے.اسکے بعد نظم،افسانہ،ناول اور عمرانی مسائل پر علاحدہ علاحدہ دو تین جلدیں مرتب ہو سکتی ہیں.ہاں غزل کے بارے میں ضرور مشکل پیش آے گی کیونکہ  یہاں اتفاق راۓ سے زیادہ اختلافات کی عمل داری ہے۔

رسم الخط کےبارے میں انکی راے نہایت سنجیدہ، مدلل اورراقم کے خیال میں برہان قاطع کا درجہ رکھتی ہے۔ لکھتے ہیں۔

پاکستان میں اردو کی جگہ”اردش” نے قومی زبان کا منصب اختیار کر لیا.دوسری طرف ہندوستان میں فارسی رسم الخط ترک کر کے دیونا گری لپی مسلط کرنے کی کاوشوں میں اچھے کہے الله والوں کی متاع دین و دانش لٹ گئی.اس دور میں رسم الخط کا پرانا مسلہ ایک بار پھر بڑی شدّت سے ابھر کر سامنے آیا.۔۔۔اب رسم الخط کہ سوال بھی خاصا غور طلب ہے.انگریز اردو دوست رالف رسل نے ایک مقالے میں اردو پرستوں کو مشورہ دیا کہ وو دیونا گری رسم الخط اختیار کر لیں.اسکی تائید متعدد حلقوں کی طرف سے کی گئی لیکن ایک بات جس کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے وو یہ ہے کے رسم الخط کی تبدیلی سے اردو کا تشخص اور حیثیت عرفی ہی ختم ہو جاۓ گی .زبانوں کہ جزواعظم ان کا رسم الخط ہوتا ہے.اسٹالن کی آمریت کے دور میں مسلم ریاستوں کا تہذیبی تشخص ہر ممکن طریقے پر مٹانے کی کوشش کی گئی اور پہلا اور سب سے موثر کام یہ ہوا کہ وہاں مقامی زبانوں کا رسم الخط مٹا دیا گیا.لیکن اس تبدیلی سے فائدہ کیا ہوا؟کیا واقعی عالمی پیمانے کہ کلاسیکی ادب پیدا ہوا؟

اردو کے بعض حروف مثلاً ،ث،س،ص یا ذ،ز،ظ اور ض صوتی طور پر ایک سے لگتے ہیں لیکن رسم خط کی صراط میں ان سے بلکل ہی دوسرے مختلف المعانی حروف بنتے ہیں.”قائد” کو اگر ہندی یا رومن میں لکھا جائے گا تو پڑھا اسے “کائد” جائے گا.اس طرح الفاظ کہ روپ بدلنے سے پہلے لغت ہی کو بدلنا پڑیگا.”عقل” اور”اکل” کہ فرق سمجھانے کے لیے قاموس میں ترمیم لانی ہوگی جس کے لیے ضرورت پڑیگی کہ ایک پورا لغت بورڈ بٹھایا جائے. مگر جب اصل کوششیں ہی زبان کو مٹانے کی ہو رہی ہوں تو اس “قریب المرگ ” اور کمزور زبان کو بہتری کے لیے لغت بورڈ کیوں اور کہاں مرتب کرایا جا سکتا ہے.ٹوائن بی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی قوم کو مجہول بنانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہاں کتاب خانوں کو آگ لگانے کے بجاۓ زبان کا رسم الخط بدل دیا جاۓ.قوم کا رشتہ خود بخود اپنے ماضی سے کٹ جائیگا.ہندوستان میں یہ تحریک چلی کہ اگر اردو کو دیونا گری لپی میں لکھا جائے تو اس زبان کہ ادب آسمان پر پہنچ جائے گا.لیکن پاکستان میں ایک خاصے با اثر حلقے کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ اگر اردو والے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیں تو ہماری زبان انگریزی اور چینی کو بھی میلوں دور چھوڑ جائے گی.یہ کہنے والے معلوم نہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ کام تو تقریباً اسی برس پہلے ترکی میں ہو چکا ہے لیکن وہاں کے زبان و ادب نے کیا ترقی کرلی ؟

اگر پاکستان کے احباب مصر ہیں کہ ہماری زبان کے لیے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیا جائے اور بھرتی بندھو چاہتے ہینن کہ ہم دیونا گری لپی اپنا لیں تو ہمارے سامنے یعنی ایک عام اردو دوست کے لیے مسلہ یہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ کس کہ مشورہ قبول کرے.کیا یہ بہترنا ہوگا کہ محبان اردو کی ایک عالمی کانفرنس صرف یہ طے کرنے کے لیے طلب کی جائے کہ ہماری زبان کے لیے کون س رسم الخط بہتر رہے گا.اردو کی بہتری کے بزعم خود خوا ہاں حضرات ہر بات کی ابتدا اس دعوے سے کرتے ہیں کہ اردو ایک کم مایہ اور پسماندہ زبان ہے اور اسے بھرپور اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اسکا رسم الخط بدل دیا جائے لیکن اردو رسم الخط میں اگر کچھ نقائص ہیں تو وہی عربی و فارسی میں بھی ہیں.اصولی طور پر ان دونوں کہ رسم الخط ہی بدلنا چاہیے.یہ کوشش مشرق وسطیٰ اور ایران میں کیوں نہیں کی جاتی ہے یہ وہ لوگ اپنا رسم الخط مٹانے کے خواہاں نہیں ہیں؟

قیصر تمکین صاحب کی تحریر میں موجودہ اردو کا ایک بڑا ذخیرہ الفاظ ملتا ہے۔ وہ دقیق عربی و فارسی اصطلاحات کے بجاےاردو اصطلاحات پر زور دیتے تھے اور اپنی زبان کو کبھی اردش سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ یہ کتاب اپنے نفس مضمون کی بنا پر تھوڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو اردو تنقید و ادب سے دلچسپی ہو تو اس کا ختم کرنا چنداں مشکل نہیں بلکہ آپ اسے بار بار پڑھیں گے۔  حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Share

3 Comments to تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – دوسرا اور آخری حصہ

  1. February 1, 2012 at 9:24 am | Permalink

    بہت شکریہ کہ آپ نے اس کتاب سے تعارف کرایا ۔ پسند آیا

  2. حریم ملک حریم ملک's Gravatar حریم ملک حریم ملک
    July 19, 2013 at 1:41 am | Permalink

    بہت اچھی کا وش ہے ۔۔۔۔۔اردو محقق و نقاد کو ایسے نا بغہ روژگار ادیبوں کو مو ضو ع بنا نا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>