عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

دیسی لبرل کا المیہ – ایک خط

برادرم ابوعزام
آداب و تسلیمات

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ آج سوچا کہ کچھ حال دل لکھوں، کچھ فگار انگلیوں کی بات ہو اور کچھ خامہ خونچکاں کی۔ آج سہ پہر سے وہ کیفیت وارد ہےجس پر علامہ نے خوب فرمایا

!یقیں مثلِ خلیلؑ آتش نشینی
!یقیں اللہ مستی، خود گزینی
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
!غلامی سے بتر ہے بے یقینی

بس بھائی، تو مدعا و المیہ ہمارا یہی ٹھرا کہ تشکیک و ارتیاب کے بحران میں گرفتار، ہم گروہ اذھان ناپختہ کار ہیں۔ حق ہدایت نصیب کرے ورنہ تعقل پراگندہ اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی سے عبارت۔ ایک بنیادی منطقی مغالطے کا شکار کہ جس کو لسانا دین کہتے ہیں اس کے قواعد و ضوابط، اس کے رب کی ربوبیت اور شارع کی حتمیت پر آمنا و صدقنا نہیں کہتے، اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں پاتے کہ صاف علیہدہ ہوکر من الحیث الطالب وجود خداوندی کی دلیل طلب کریں اور رسول کی صداقت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھنے کی سعی کریں۔ خدا لگتی کہیں تو چڑھتے سورج کی پرستش سے یہ عادت بھی واثق ہوئی کہ جیسے ستر کی دہائی میں اسٹالن کے اساطیر گنجہائے گرانمایہ معلوم ہوتے تھے، آج تعقل مستعار کے اس غلامانہ خلا کو مغربی الحادانہ افکار و زندقہ نے پر کیا ہے۔

علم حقیقی و معلومات میں باعث تفرق کیا ہے، اس کے ادراک سے بے بہرہ ہونے کے سبب ہمیشہ علوم دینیہ کو “دیر از این ایپ فار دیٹ” کے انداز فکر سے پرکھا، قران میں تلاش ممکن ہوئی تو جس مصحف کو برسوں نا چھوا تھا بیٹھے بٹھائےاس کے عالم بن گئے اور جب صحیین کی “ایپ” ملی تو شیخ الحدیث کا مرتبہ پایا۔ مغربی دانشکدوں کی افادیت سے تو مفر ممکن نہیں لیکن چونکہ کسی خردمند کا بالاستیعاب مطالعہ شامل نہ تھا لہذا تفکر کے منڈلاتے سائے، ضیا حرم نا پا کر آسیب ِالحاد میں تبدیل ہو چلے۔

تراکیب ترکی و تیزی سے ناآشنا ہم خود کو البیرونی و ابن الرشد و ابن عربی کے رشحات فکر کا تسلسل گردانتے ہیں لیکن تم سے حقیقت حال کیا چھپانا، ہماری محدود صلاحیت ہنر تو بس اینگلز و ڈاکنس کی سوچ کا پرتو ہے۔ ویسے بھی ماحول کچھ ایسا سازگار ہے کہ فی زمانہ “انٹیلیکچول” ہونے کے لئے منکر شریعت و شرافت ہونا ایک امر لازم ٹھرا۔ گویا کہ افکار میں بائیں جانب جھکاو اور افعال پر از معائب نا ہوں تو ذہنی استدراک کے مدارج کو انڈر گریجویٹ ہی گردانا جاتا ہے۔ اگر “آرگنائزڈ ریلیجن” کے ذکر پر لال رومال دیکھنے والے بیل کی طرح نا ڈکرائیں تو ٹوئٹر مفکرین آئی کیو سو سے نیچے ہونے کا گمان کرتے ہیں۔

بہرطور، یہ تو کچھ بیان حال دل تھا، کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیا۔ لیکن میاں خیال رکھنا، ہم تو یہ کہے دیتے ہیں لیکن اگر تم سے زرا بھی کوئی پندونصائح وارد ہوئے تو چرب زبانی و بذلہ سنجی و لطیفہ گوئی کی آڑ میں تمہاری وہ ہنسی اڑائیں گے کہ تمہیں ہماری حکائت زباں کے پیچھےچھپنے کی زرا بھی جگہ بھی نا ملے گئ۔ اور اگر زیادہ مدلل ہوئے تو غیر عرفی سوچ و معترضانہ تفکر کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر وہ مجلس عزا گرم کریں کہ بھاگتے ہی بنے گی۔ زرا آزما کر تو دیکھو۔

دعاوں کا طلبگار
ایک دیسی لبرل

Share

12 Comments to دیسی لبرل کا المیہ – ایک خط

  1. January 11, 2012 at 8:52 am | Permalink

    اس کا سلیس ترجمہ کب عنایت ہو گا

  2. سعید's Gravatar سعید
    January 11, 2012 at 10:39 am | Permalink

    واہ۔۔ کمال کی نثر ہے۔ ابو الکلام آزاد یاد آگئے۔ داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ ایک دو لفظ فدوی کو سمجھائیں
    من الحیث الطالبعلم
    یہ لفظ بولنے میں بھی بھاری لگا۔ لکھنے میں تو ہے ہی بھاری کئی الف لام کے اجتماع کی وجہ سے۔ ا س کو من حیث الطالب کر لیا جائے تو کیسا رہے ؟ مفہوم اس سے بھی ادا ہوجاتا ہے ۔
    بلاستعیاب”۔”
    غالبا یہ بالاستیعاب ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔ “تفکر کے قتال کا ذمہ دار قرار”۔۔۔۔۔
    یہاں غالبا قتال کے بجائے قتل ہے

  3. January 11, 2012 at 12:37 pm | Permalink

    یہ احترام تمنا یہ احتیاط جنوں
    کہ تیری بات کروں اور تیرا نام نا لوں

    دیکھیے صاحب آپ کی اردو دانی کے تو ٹہرے ہم قتیل؛ لیکن متن سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی جنوبی بابٹسٹ کلیسا سے شائع کتابچہ کا پیش لفظ۔ آپ کا رقعہ دیسی قدامت پسند تک پہنچ گیا ہے اور امید ہے کہ اگلے دو چار روز میں آپ جوابی مراسلہ وصول کرسکیں گے۔

  4. January 11, 2012 at 9:21 pm | Permalink

    یعنی محاذ گرم ہے
    😀

  5. January 11, 2012 at 11:10 pm | Permalink

    بھائی کیا زبردست نقشہ کھینچا ہے مزا آگیا ۔
    دل کررہا ہے اس کو اپنے بلاگ پر شیئر کردوں اگر آپ اجازت دیں تو :ڈ

  6. January 12, 2012 at 12:14 am | Permalink

    آپ کے بلاگ پر پہلی دفعہ آیا ہوں، بہت اچھی تحاریر ہیں ماشا اللہ۔
    اپنے بلاگ کے فانٹ وغیرہ کی تھوڑی سیٹنگ کرالیں تو مزید اچھا ہوجائے۔

  7. January 12, 2012 at 6:00 am | Permalink

    میری طرف سے تو سلیس نہیں بس اردو ترجمے کی فرمائش ھے
    😀

  8. January 14, 2012 at 12:14 am | Permalink

    میری بدقسمتی کہ یہ تحریر پہلے نہ دیکھ سکا اور آج راشد کامران صاحب کی تحریر سے اس کا علم ہوا، کیا کہنے جناب۔

Leave a Reply to ڈفر - DuFFeR

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>