عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

مذہب کے نام پر قتل و غارت گری

تمثیلی منطق ،خیالی ڈیٹا اور مذہبی تعصبات کی مستعارانہ فکر سےلبریز افراد اکثر یہ دعوی کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں  مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے۔ اس بے بنیاد و بے اصل دعوے پر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے، اپنا نہیں بلکہ دعوی کرنے والے کا لیکن یہ سوچ کر ٹہر جاتے ہیں کہ کہیں یہ مذہب کے نام پر تشدد کے زمرے میں نا آجاے۔ حسرت کی طرح ادعا اتقا وفتح عقلی کے باوجود مذہب کے خلاف تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو  مدنظر رکھا جائے اور تاریخ میں الحاد و سیکیولرانہ حکومتوں اور اقوام کے حالات ذندگی پڑھ لئے جائیں تو یہ غلط فہمی باآسانی دور ہو سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں رومانوی جپسیوں، روسیوں اور یہودیوں کا قتل ہوتا ہے،بعد ازاں رد عمل میں یورپی ممالک سے بارہ ملین جرمنوں کا انقلا اور اس بالجبر ہجرت میں پانچ لاکھ افراد کی موت ہوتی ہے، اسٹالن کی کی زیر سرپرستی ایک کروڑ سے زائد افراد عظیم اشتراکیت کی مصنوعی غذائ قلت، قحط  اور قید و بند میں مارے جاتے ہیں۔ ماو کے سنہرے دور میں لاکھوں لوگوں کو عوامی عدالتوں میں برسر عام .انقلابی. سزائیں سنا کر دار و رسن سے نوازاجاتا ہیے، پوٹ پال کی حکومت میں کم و بیش بیس لاکھ کمبوڈین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ تہذیب یافتہ یورپی اقوام جب اپنے تہذیبی ورثے کو شمالی  و جنوبی امریکہ برامد کرتے ہیں تو مختلف اندازوں کے مطابق بیس لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ مقامی لوگوں کا صفایا ہوجاتا ہے کہ یہ تو دنیا کا  دستور ٹھرا۔ روانڈا کے قتل عام سے لے کر آشوتز کے گیسی کمروں کی نسل کشی تک اورہیروشیما و ناگاساکی و روس کے قفقاذی حملوں سے لے کر منگولوں و تاتاریوں کی وحشت تک، انسانی ظلم و ستم کی داستاں بہت طویل و غمگین ہے۔ رنگ و نسل کی برتری، قومیت پرستی، اور زیادہ طاقت کی خواہش نے ہمیشہ انسان کو انسان کا خون بہانے پر اکسایا لیکن تاریخ سےتھوڑی سی بھی آگاہی رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی مبارزت کو مذہب کے گلےباندھنا تحقیقی و علمی طور پر ناانصافی کی بات ہوگی۔ نام نہاد روشن خیال، سیکولر، تہذیب یافتہ و لبرل اقوام نے انسانیت پر جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا تو شائد مذہب بیزاروں کی روائت ٹھری ہے۔ دو سو سال کی صلیبی جنگوں کے دس سے تیس لاکھ مقتولین پانچ سالہ جنگ عظیم کے چار سے ساڑھے سات کروڑ کشتگان کے برابر ٹھرتے ہیں، نا جانے ان کا ڈیٹا کس متوازی کائنات سے آتا ہے؟

حوالہ جات

The Great Big Book of Horrible Things: The Definitive Chronicle of History’s 100 Worst Atrocities

 List of Wars and Anthropogenic Disasters by Death Toll

Share

20 Comments to مذہب کے نام پر قتل و غارت گری

  1. January 20, 2012 at 3:07 am | Permalink

    حضور آپ ماضی ميں چلے گئے اور حال کی بات ہی نہيں کی ۔ امريکا اور اس کے اتحادی انسانی حقوق کا ڈھول بجاتے نہيں تھکتے وہ عراق ۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں لاکھوں بے قصور انسانوں کا خون کر چکے ہيں ۔ کيا يہ مذہب کے لئے ہے ؟

  2. January 20, 2012 at 8:48 am | Permalink

    آپ نے وہ محاورہ سنا ہے کہ
    بھینس کے آگے بین بجانا

  3. January 20, 2012 at 10:44 am | Permalink

    انسان اب یہ سمجھتا ہے کہ ہم اتنے بالغ ہو گئے ہیں کہ اب خدا کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ۔ مذہب کا کام صرف اتنا ہے کہ ہم جو چاہتے اس کی راہ میں نہ آئے ورنہ جو تھوڑا بہت موجود ہے ہم اسے بھی مٹا دیں گے اور ایک اپنا نیا مذہب پوری دنیا میں رائج کر دیں گے ۔

  4. January 20, 2012 at 11:14 am | Permalink

    حضور آپ کی تاریخ کچھ سترہ اٹھارہ اور انیسویں صدی تک محدود نہیں ہے؟ موجودہ تشدد کی تو بات ہی رہنے دیں کہ سارا ٹنٹا ہی میرے اور تیرے خدا کی بڑائی کا ہے۔
    یہ بھی اہم ہے کہ آپ نے تمام مذاہب کی وکالت کا بیڑا اٹھایا ہے جبکہ صحیفے جابجا ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ خود خدا نے بستیوں کی بستیاں اور نسلوں کی نسلیں مٹادیں مگر باعث تحقیر انسانیت ہی ٹہرے گی۔
    یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مذہب ہی محض ایسی “کہوناس” فراہم کرتا ہے کہ انسان بڑی سے بڑی منافقت دھڑلے سے کرسکے اور تاریخ، ڈیٹا اور سائنس سے وہی قبول کرے جو وارے میں آتا ہے۔

  5. January 20, 2012 at 12:32 pm | Permalink

    قبلہ آپ جنوبی امریکہ کے سارے فساد کی ذمہ داری سیکولر سوچ اور لادینیت پر ڈالیں گے جو پاپائے روم کی نرسری ثابت ہوئی ہے تو عرض کرتے خوف تو آئے گا نا۔ ازراہ بحث آپ کے خیال میں موجودہ سیکولر سوچ اور لادینیت کی تاریخ کتنی پرانی ہوگی؟ خلافت اور پاپائیت کے جھنڈے تلے بھیجی گئیں فوجی مہمات غالبا بغیر جانی نقصان کے تھیں۔۔

  6. January 20, 2012 at 3:17 pm | Permalink

    تو یہ بات تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ مذاہب بھی خون سے ہاتھ رنگنے میں نسل پرستوں اور قوم پرستوں سے پیچھے نہیں رہے؟

    • January 20, 2012 at 3:49 pm | Permalink

      کہو ایران کی، سنیں توران کی۔
      اے پیر مرد، شماریات سے استفاذہ کر، زرا سیکول کوترتیب نزولی میں مرتب کراورلہورنگ پیلٹ کا حساب کر ، پھر ایمانداری سے بتاکے کوہ ندا کی صدا ڈیٹا گرڈ کے کس پیج سے آتی ہے۔

  7. Hasan's Gravatar Hasan
    January 20, 2012 at 4:33 pm | Permalink

    yeah tarteeb e nazoolii kon tarteeb day ga keah mazhab kay naam pay khoon jab say dunya bani hai tab say aaj tak hu raha hai…ub kon ginay kay kitnay jaan behaq hui mazhab kay naam pay lekin buhut hui…aik laakh chobees hazar unbiya thay to kam say kam aik laakh chobees hazar mazhabi dangal tu hui na kam say kam…koi hisab hai kay kitnay maray inmain tarteeb a nazollay kay leeay?

  8. January 20, 2012 at 6:31 pm | Permalink

    اقتباس
    Dear Sir

    Stats, or it didn’t happen.

    Love
    Religion

    تبصرہ
    یہ تو آپ نے اپنے پیر میں کلہاڑی مار کے اوپر سے کالی مرچیں چھڑک لی ہیں۔
    🙂

  9. January 21, 2012 at 3:15 am | Permalink

    بہت اعلیٰ جناب۔۔۔۔ آپ نے تو تشکیک، تحقیق اور تعمیر کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔ 🙂

  10. January 22, 2012 at 9:01 am | Permalink

    حضور رومانوی جپسیز سے آپکی مراد غالبا رومانی یا روما خانہ بدوش تھے۔۔۔
    جہاں تک نفس مضمون کی بات ہے، سچ تو یہ کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں آپ سے متفق ہو یا نہیں۔
    آپ کا کہنا درست ہے کہ بہت سی جنگیں مذہب کی وجہ سے نہیں ہوئیں، ہاں البتہ افسوس یہ ضرور ہے کہ مذہب کے نام پر ضرور ہوئیں۔ ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔
    جنگ ۔۔۔ اور امن بھی ۔۔۔ فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ معاشرے کے مختلف طبقات اپنے کندھے پیش کرتے ہیں تو ین میں سے کوئی ایک ممکن ہو پاتی ہے۔ اب اس کو کیا کہیئے کہ بہت سے جنگ کرنے کے فیصلوں پر کلیسا، مسجد، مندر نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ ایک ہی جنگ سے کسی کو شہرت ملی تو کسی کو دولت تو کسی کو صرف اپنی مردانہ غیرت توانا کرنے کا ایک موقع۔ حالیہ جنگیں تو تقریبا سب ہی معاشی وجوہات کی بنا پر لڑی گئیں یا جا رہی ہیں، جس بارے میں نے کبھی یہاں لکھا تھا۔
    http://goo.gl/b9JZo
    آپ نے اعداد و شمار کی بھی بات کی ہے۔ ایک دھیان رہے کہ موازنہ کرتے وقت صرف تعداد نہیں بلکہ تناسب بھی دیکھا جائے تو زیادہ واضح تصویر بنتی ہے۔

    • January 22, 2012 at 1:14 pm | Permalink

      تبصرے و تصیح کا شکریہ فیصل صاحب، روما خانہ بدوش بہت بہتر ترجمہ ہے انگریزی
      romani gypsies
      کا رومانوی جپسیز سے 🙂
      تناسب کے حوالے سے آپکی بات عمومی طور پر بلکل درست ہے کہ اس سےنتائج پر بڑا فرق پڑتا ہے۔ اسی لیے اگر آپ ان جنگوں کے وقت انسانی آبادی کی ہلاکت کے تناسب کو مدنظر رکھیں توآپ دیکھیں گے کہ یہ بات حقیقیت سے زیادہ قریب ہے کہ مذہب کے نام پر ہونے والی جنگوں کا جانی نقصان دیگر جنگوں سےکئی “آرڈر آف میگنیٹیوڈ” کم تھا۔
      اس تحریر سے میرا مقصد انسان کی عمومی دہشت پسندی کی وجوہات اور اس کے مظاہر پر روشنی ڈالنا نہیں، وجہ اسکی یہ تھی کہ مذکورہ مغالطے “ہ دنیا کی تاریخ میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے” کا مختصرا شماریات و تاریخ کی رو سے رد کیا جاے، ٘اپکے خیال میں اس میں مجھے کتنی کامیابی حاصل ہوی ہے؟

      • January 22, 2012 at 9:48 pm | Permalink

        حضور آپ نے نہایت عمدگی سے اپنی بات بیان کی ہے، اب اسکا اثر سامع پر کتنا ہوتا ہے، یہ تو صرف آپ پر نہیں بلکہ سامع پر بھی منحصر ہے۔ اس خصوصی کیس میں البتہ اگر آپ راشد کامران سے ہاں کہلوا دیں تو سمجھیں آپ کامیاب ہو گئے ہیں۔

Leave a Reply to ابو عزام

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>