لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے
آہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے
اس کی زد پر وہ کبھی خود بھی تو آسکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں آگ لگانے والے
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے
سر سے جاتا ہی نہیںوعدہء فروا کا جنوں
مر گئے عدل کی زنجیر ہلانے والے
ہم نہ کہتے تھے تجھے، وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ ترے ناز اٹھانے والے
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دُھوپ کی نذر ہوئے پیٹر لگانے والے
گھر میں دیواریں ہیں اور صحن میں آنکھیں ہیںسلیم
اتنے آزاد نہیں وعدہ نبھانے والے
سلیم کوثر پاکستانی زندہ شاعروں میں سے میرے پسنیدیدہ شاعر ہیں۔
بہت عمدہ شاعری کرنے کے باوجود کم لوگ ہی ان سے واقف ہیں اور نا ہی ان کی کتب مارکیٹ میں آسانی سے ملتی ہیں۔
بہت عمدہ غزل
اچھی چیزیں یاد دلانے کا شکریہ
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت غزل ہے۔ بہت شکریہ جناب پیشکش کیلیے۔
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے
فونٹ اگر نستعلیق ہو تو آپ کا بلاگ مزید قاری دوست ہو جائے گا