عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

3 Comments to کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

  1. March 16, 2012 at 4:29 am | Permalink

    بہت عمدگی سے آپ نے نشاندہی کی ہے۔ لگتا ہے اوریا مقبول جان نے حقیقت میں تھوڑا مرچ مصالحہ لگانے کی کوشش کی ہے/۔ میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ غلو سے کام لیے بغیر بھی اپنی بات کی جاسکتی ہے اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ پولرائزیشن کے اس دور میں بھی سوچنے والے اور اظہار رائے کی آزادیوں پر یقین رکھنے والے پولرائزڈ نہیں ہیں۔
    لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں ۹/۱۱ سے متعلق کسی بھی ڈاکیومینٹری کو کسی بھی قسم کی تعریف یا توصیف حاصل نہیں ہوسکی۔ لوز چینج یا رپل افیکٹ ۹/۱۱ دم بخود کردینے والی ڈاکیومینٹریز تھیں ان ڈاکیومینٹریز نے سرکاری کہانی کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے تھے اور امریکی رائے عامہ کی اکثریت کو اس حوالے سے تبدیل کرکے رکھ دیا مگر ان ڈاکیومینٹریز کو کسی بھی قسم کا ایوارڈ نہیں دیا گیا اور انکی حقیقت سینہ با سینہ پھیلنے والی داستان کی سی بن گئی۔
    کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے

  2. March 16, 2012 at 11:37 am | Permalink

    محترم۔ اردوکالم نویس اور حقائق اس طرح ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے جس طرح آپ چلانا چاہ رہے ہیں۔ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اسی سنسنی خیزی اور کہانی نویسی کی ہے چاہے اس کے لیے غیر مرئی کردار ہی کیوں نا تخلیق کرنے پڑیں یا تاریخی واقعات میں تھوڑا اور اس خصوصی کیس میں خاصا ردو بدل کرنا پڑے۔ اب کیونکہ زیادہ تر قارئین آپ کی طرح تنقیدی جائزہ لینے یا واقعات کی تصدیق کرنے کے ٹنٹے میں نہیں پڑتے چناچہ آپ کو ایسی ای میلز وصول ہوتی رہیں گی اور ردعمل کی نفسیات کی شکار ایک اکثریت ردعمل دکھاتی رہے گی۔

    [ازراہ مزاق]
    اب اگر میں آپ کو اردو کالم نویسی میں نسیم حجازی کے اثرات کی بابت کچھ عرض کروں گا تو باعث نفرین ٹہروں گا کیوں کہ لوگ شہاب نامہ کو بھی حقیقت سمجھ کر پڑتے ہیں چناچہ اس طرح کے کالم تو اعزازی ڈاکٹریٹ کے مستحق قرار پائیں گے۔ اور ڈاکٹر صاحب اسے تھوڑا مرچ مصالحہ قرار دیں گے حالانکہ چاٹ انتہائی تیکھی ہے۔
    [/ازراہ مزاق]

Leave a Reply to ڈاکٹر جواد احمد خان

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>