عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

بی بی سی پر یہ عبرت انگیز خبر پڑھی، کہ نکاح محرمات کے بنیادی ‘انسانی حق آزادی’ کو یورپی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کردی,، اگر یہی نفرین فعل چار سو میل دور بیلجیم یا فرانس میں ہوتا تو قابل مواخذہ نا ٹہرتا، کیا بات ہے انسانی قوانین آزادی کی۔

 لیکن قوانین جمہور و لبرلزم کے علمبردار یہ بتائن کہ اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے تو اس امر قبیح میں برائ ہی کیا ہے؟ جب لوگوں کو ہمجنس پرستی پرعائد پابندیاں زہر لگتی ہیں اور وہ اسے مملکت خداداد میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح محرمات بھی تو صرف ایک معاشرتی ٹابو ہی ہے، اس کو بھی روند ڈالیے ۔ رہی بات پیدائشی موروثی نقائص کی تو پھر یوجینکس میں کیا برائ تھی، اس کو بھی جاری و ساری رکھا جاتا۔ تعدد ازواج کی مغربی پابندی بھی تو ایک معاشرتی قدغن ہی ہے، اسکا کیا جواز بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لبرلیت و نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار لوگ جو ‘رضامند عاقل و بالغ’ افراد کے افعال پر کسی قسم کی بیرونی قدغن نہیں پسند  کرتے انہیں کم از کم اصولی طور پر پر تو ان پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ کیا دہری پالیسی ہے حیات من النزاعات کی کہ انسانی عقل کل ہے بھی اور نہیں بھی۔ موروثی نقائص کا مسئلہ ہے تو قطع القناة  یا نسبندی اور إستئصال الرحم کے بعد تو اس میں کوئ کجی نہیں رہ جاتی، العیاذ باللہ

غرضیکہ جو لوگ خدائ احکام کے بجاے انسانی قوانین کو بنیادی معاشرتی اقدار کے لیے هیئت حاکمیه کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک ایسی ٹیڑھی شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جس کا انجام گمراہی کا گڑھا ہے جہاں کسی فوٹون کی توانائ کچھ کام نا آئے گی۔

قال سمع النبي صلی الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحيا فقال إن الحيا شعبة من الإيمان

Share

7 Comments to محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

  1. April 13, 2012 at 11:42 am | Permalink

    بجا فرمایا۔ انسان ہی ٹہرا جہاں تک دوڑا جائے کس کا ڈر ہے

  2. ﺳﻌﻴﺪ's Gravatar ﺳﻌﻴﺪ
    April 13, 2012 at 1:38 pm | Permalink

    ﻭﻳﺴﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﺣﺎﮐﻢ ﺑﻨﺎﻳﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺉ ﮐﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﻴﮟ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮐﻮﺉ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﻧﮩﻴﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﺍﻋﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﻴﮟ ﭘﻴﮍ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﻞ ﺩﻳﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯽ ﮐﻮ ﭘﮭﻞ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻌﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﺒﻨﯽ ﺑﺮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮨﮯ…..ﺧﻮﺍﺗﻴﻦ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ

  3. Hasan's Gravatar Hasan
    April 13, 2012 at 3:58 pm | Permalink

    aik hi bomb maar kay 100 bandoon ku hilaaq karnay waaly, Mumtaz Qadri ku hero kehnay waalay aur iskay alewa 57 musalmaan mulk jinki human rights ki halat koi qabl e rashak nahin wu tu upnay kartootoon kay leeay ahkaam e alahi ku zumadaar garadaanaty hain… inka kia kia jai?
    in becahroon nain kam az kam kisi ku maara tu nahin jis tara ahkaam e alahi pay chalnay walay dana-dan maaray jaatay hain…tu phir behtar nizam kons hua?

  4. April 13, 2012 at 6:00 pm | Permalink

    I would like to draw the readers’ attention to the scientifically proven fact that cousin marriages are also associated with congenital abnormalities in 3 out of 100 children. In families with a trait of autosomal recessive disorders, this risk is even higher.
    http://www.hgc.gov.uk/Client/Content.asp?ContentId=741

  5. April 13, 2012 at 6:57 pm | Permalink

    قبلہ بائیں بازو کو تو آپ نے یوں گسیٹھا کہ میاں ۔۔ یہ ۔۔ کرو تو لعنت ہے اور ۔۔ یہ ۔۔ نا کرو تو بھی لعنت ہے ۔
    ابھی اگلے دن یہی عدالت کزنز کی شادی کو بھی اسی اصول سے پابند کرے گی تو دہائیاں سننے کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔۔ بے چینی سے انتظار ہے۔

    • April 16, 2012 at 10:35 pm | Permalink

      یوروپ ہی نہیں تمام مغربی ممالک میں کزنز کی شادی اتنی ہی بری سمجھی جاتی ہے جتنی کہ سگے بہن بھائیوں کی۔
      آپ نے اس بات پہ تحقیق نہیں کی کہ ابتدائے انساحیت کی جتنی بھی تاریخ ہے اس میں بیہن بھائیوں کے درماین شادی ہمیشہ ممنوع رہی ہے۔ سوائے اس مذہبی حکم کے کے جو مہیں مذہبی روائیتوں سے ملتی ہے جس میں حضرت آدم کی اولادوں کی آپس میں اس طرح شادی ہوتی تھی کہ صبح پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکیوں کی شام کو پیدا ہونے والی لڑکیوں اور لڑکوں سے ہوتی تھی۔
      ابتدائے انسان کی ان شادیوں کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے جو خدائ احکام کے عین مطابق ہوا کرتی تھیں۔ اگر خدا ہر چیز پہ قادر ہے تو اس نے ابتدائ انسان کو اس چیز پہ کیو ں مجبور کیا۔
      اس لئے میرے خیال سے مذہب کو یا لا مذہبیت کو اس سلسلے میں نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔ مذہب کی تاریخ اس سے زیادہ کمزور ہے۔
      بالکل اسی طرح کثیر الازدواجی کا فی زمانہ کیا تصور بنتا ہے جبکہ ایک انسان اپنے ایک خاندان کو سپورٹ کرنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح خواتین کو گھروں میں بند کر دینے کا اس اکیسویں صدی میں کیا جواز بنتا ہے جبکہ آبادی کی ایک بڑی تعداد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ اس صورت میں خواتین کو بحیثیئت انسان متحرک کرنمے کے بجائے ایک پیراسائٹ کے طور پہ پیش کر کے کس معاشرے کی بہتری کی جاتی ہے۔
      فوٹون توسوچتا ہے کہ انسان کو انسانیت کی سطح سے گرا کر محض چند لوگوں کا غلام بنانے کے لئے مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ وہ مقدس قید ہے جس کے خلاف کوئ آواز بلند کرنے کی جراءت نہیں کر سکتا۔
      اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابتدائے انسان سے مذہب اس ترقیاتی شکل میں پہنچا ہے جو اب ہے تو دوسروں کو بھی گنجائش دینا آپکا فرض بنتا ہے۔ خدا کو آپ نے اربوں سال دئیے ہیں انسان کو ہزاروں سال تو دیں۔

  6. April 18, 2012 at 3:35 am | Permalink

    ارے میاں یہ کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں، ہاں ہمارے مذہب اور کلچر کے خلاف ضرور ہے۔
    دنیا میں غالباؐ اب بھی ایسے کئی قبائی بستے ہیں جنکے ازدواجی معاملات خاصے عجیب و غریب ہیں۔
    اس سارے قصے سے یہ تو پتہ چل ہی جاتا ہے کہ خدا کو نکال کر بندہ کس قدر مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ کس کو برا کہے اور کس کو اچھا، کچھ سمجھ نہیں آتا۔
    اسی لئے فدوی تو علی الا علان مقلد ہے۔
    🙂

Leave a Reply to علی

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>