عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

تشکیک و تیقن

انگریزی مثل مشہور ہے کہ  جنگی خندقوں میں کوئی ملحد نہیں ہوتا۔

لیکن یہ مثل صرف خندقوں تک محدود نہیں، تشکیک و تیقن کا یہ فرق انسانی زندگی اور سوچ کے ارتقا میں ہر جگہ نہایت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ میوٹیشن یا تغیر، جس کو ارتقاء کا بنیادی ستون ٹھرایا سمجھا جاتا ہے، اس تغیر کی مختلف امثال در حقیقت ایمانیات کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہیں۔  مثال کے طور پر انسانی آنکھ جیسا ایک پیچیدہ عضو ہی لے لیں جسے ڈارون نے ہمیشہ نظریہ ارتقا کے لئے ایک پریشان کن شے سمجھا کہ یہ کیونکر وجود میں آئ۔ کروڑوں سال قبل آپ ہو ہم جب پرایمورڈیل مالیکیولر ملغوبوں میں غوطے کھا رہے تھے تب تو کسی جاندار کے پاس آنکھ موجود نا تھی، پھر ہوا یوں کہ میوٹیشن سے ایک باریک سی جھلی بنی کہ جس سے روشنی کی سمت کا اندازہ ہوتا، اور اس کے بعد یہ جھلی ہزاروں لاکھوں سال میں بڑھ کر پن ہول کیمرہ کی شکل اختیار کر گئی اور پھر اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت آئ اور اس طریقے سے آج کی موجودہ پیچیدہ انسانی آنکھ معرض وجود میں آئی۔ ان تمام تغیرات کے بارے میں بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب تو قبلہ میوٹیشن کی برکات ہیں، ایک سیلفش جین ہے جو میوٹیٹ کرتا رہا،۔ لیکن جب ہم نظریہ میوٹیشن کواس قدرآسانی سے بیان کرتے ہیں کہ گویا ہر چیزمیوٹیشن کے ذریعے وجود میں آئی، تو ہمیں اس بات کا چنداں احساس نہیں ہوتا کہ اس تغیروارتقاء کے پیچھے کیا کوئ گرانڈ پلان بھی موجود ہے؟ کیا یہ وحی خفی کسی ذات باری کی جانب سے ہے جو اس سمت کو متعین کرتی ہے یا یہ سب خودبخود ہوتا چلا جارہا ہے؟پرابیبلٹی اور پلاسیبیلٹی کی کمی بھی، اس خیال کو کہ میوٹیشن خود بخود ہوگئی ہے، کسی خالق کی موجودگی کے امکان کے قرب میں پھٹکنے نہیں دیتی کہ اس سے انٹیلیکچولزم پر حرف آتا ہے۔ ہمارےنزدیک بہت آسان بات ہے یہ کہہ دیں کہ بس جناب، سروائووال آف دا فٹسٹ، اور میوٹیشن خودبخود آنکھ بنا دیتی ہے۔ لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی، یہ سوالات طوالت کی بنا پراصحاب تشکیک یا اسکیپٹکس اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ یہی تشکیک و تیقن کی تقسیم کا بنیادی کا خاصہ ہے۔ میوٹیشن میں زندقہ، تغیروارتقاء سے آنکھ بننے کے عمل کو دیکھتا ہے، اہل ایمان اسی امر میں خدا کی قدرت کا سراغ پاتا ہے۔ ایک کو میوٹیشن کی خودی پر ایمان ہے گو کہ وہ لیب میں ری پروڈیوسیبل نا ہو اور دوسرے کو اس میں خدای اسرار نظر آتے ہیں جسے الحاد و زندقہ ذہنی کمزوری گرداننے میں چنداں شرم محسوس نہیں، کرتے۔

اب انسانی ذہانت کو دیکھیں۔ سائنسی دعووں کومد نظر رکھا جاۓ تو ایپس اور انسانی ڈی آین آے میں محض ایک فیصدی فرق ہے۔ اب اس ایک فیصدی فرق نے ہمیں چاند پر پہنچایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اس ایک فیصدی فرق کے ذریعے آج بنی نوع انسانی کے خلائ جہازوائجر اول  اور وائجر دوئم نظام شمسی کی حدود پار کرنے والے ہیں۔ اگر ہم سب ایک ہی پرائمورڈیل سوپ سے معرض وجود میں آے تو اس بات میں کیا استجاب لازم نہیں کہ کسی اور مخلوق میں اس درجہ کی ذہانت کیوں نہیں پائی جاتی؟ آپ شاید اس سے امر کو اسپیشیزم  گردانیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ڈالفن کو اسکوبا ٹینک لگائے موٹر کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر تمام مخلوقات کے لیے ابتدا ایک ہے اور کوئ منصوبہ ساز نہیں، تو پرابیبلٹی کے حساب سے ان کروڑوں سالوں میں کوئ تو ایسی مخلوق ہوتی جس کی ذہانت کا معیار وہی ہوتا کہ جو حضرت انسان کی ذہانت کا معیار ہے؟ زمین کو اس وقت ایک کلوزڈ سسٹم سمجھ کر اس سوال پر غور کریں تو شائد یہ بات واضع ہو کہ جب ایک ہی طرح کے ڈی این اے سے سب کی تخلیق ہوئی ہے تو پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ہم سے جنیاتی طور پر قریب ترین دوسری مخلوق جوکہ جسمانی طاقت میں آَٹھ گنا زیادہ مضبوط ہے، ذہانت سے اسقدر عاری کیوں؟ ڈاینوسارس نہایت کامیاب مخلوق تھے کہ جنہوں نے زمین پر کروڑوں سال حکومت کی، حضرت انسان کو تو فقط ایک لاکھ کچھ سال ہی ہوے، ان دیوہیکل جانوروں میں بھی کوئ قابل ذکر ذہانت کا عنصر نا دکھائ دیا۔ اگر تشکیک کی عینک ہٹا کر دیکھیں تو درحیقت یہاں پر بھی ٹکراو یقین اور شک کا ہے۔ اہل ایمان کا یقین اس استعارے کو سمجھتا ہے کہ کیا وجہ ٹھری کہ خلیفہ رب العزت اور اشرف المخلوقات کا درجہ صرف حضرت انسان کہ حق میں آیا ہے. جب کہ اہل تشکیک اور زندقہ اس امر کو محض ایک عارضی غیر حل شدہ مسئلہ گردانتے ہیں.

حاصل مطالعہ یہ ٹھرا کہ

ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

یعنی  کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں اور ہدایت اس کے لیے جو غیب پر ایمان لایا۔ منطق کہے یہ کیسا سرکلر ریفرنس ہے؟ کوئ پیر ریویو نہیں اور تھیسس کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں۔ امرغریب یہ کہ اگرتخلیق کے عمل کو بلکل صاف صاف کھول کھول کر بیان کر دیا جاۓ کہ مالک کل کی وحدانیت، وجود اور مالک سموت الرض ہونے کو لیب میں ریپروڈیوسیبل کردیا جائے تو پھر غیب کیا تھا؟ یہ ایک کیچ ۲۲ کی کیفیت ہے جو کہ اہل ایمان کو تشکیک و زندقہ کے مسلسل تضحیک و تشنیع کا نشانہ بناے رکھتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انکے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آسمان پر امر الہی سے کلمہ لا الہٰ الاللہ محمّد الرسول الله لکھا ہوا آجاۓ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی کافر نہ رہے۔ اگر سب کو مسلم بنانا خالق کی منشا ہوتی تو خدا کے نزدیک یہ کیا امر مشکل تھا، مگر غیب کو کھول کر بیان کر دینا حکمت الہی نہیں، ایمان بالغیب نام ہی اس تشکیک کے پردے کو دل سے ہٹا کر یقین محکم رکھنے  کا ہے ۔ یہ تو در حقیقت سب نظر کا فرق ہے کہ جس چیز کو اہل ایمان یقین کی نگاہ سے حکمت الہیہ اور تخلیق الہیہ گردانتے ہیں وہی زندقہ اور اہل تشکیک کو میوٹیشن یا خود بخود ہونے والی شہ دکھائ دیتی ہے. خدا کے وجود اور عدم وجود پر منطق کی دلیل یہ ہے کہ  اگر آپ انہونی کو ہٹا دیں تو جو چیزسب سے زیادہ منطقی ہوگی وہی چیز حقیقت کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انہونی ہونا کس منطق سے ثابت ہے، اسی منطق سے جو میوٹیشن کے خودبخود ہونے کو تو امر واقعی گرداننے میں چنداں گرفتہ نا ہو لیکن عدم دلیل کی بنا پر اہل ایمان کو اگناسٹزم کے شک کا فائدہ بھی نا دے؟

خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Share

14 Comments to تشکیک و تیقن

  1. June 16, 2012 at 10:47 am | Permalink

    جناب ہمارا خیال تھا آپ ونڈی سٹی کی طرف رواں ہیں جبکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ پینسیلوینیا کی قربت اپنا رنگ دکھا رہی ہے
    🙂
    دوزخی دہریے کب سے کہہ رہے ہیں کہ ہم خندقوں میں نہیں ہوتے لیکن یہ تو ایمانیات کا تقاضا ہے کہ باڈی کاؤنٹ کا کھاتا کھلا رکھا جائے :)۔

    کیونکہ بیشتر مضمون کی نوعیت تقریری ہے جیسا کہ مذاہب کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ غیر ثابت شدہ اور ناقابل تردید یعنی نان فالسیفائیبل بیانات عین حقیقت کے طور پر دے سکتے ہیں چناچہ آپ نے اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن اس بات کو قاری کے سامنے نہیں رکھا کہ سائنسی بیانات کی نوعیت اس کے بالکل برعکس ہے اور ان کے ہر دعویٰ کی بنیاد ڈیٹا اور ثبوت ہیں جبکہ نئے ثبوت اور نئی معلومات سامنے آنے کی صورت میں یہ خیالات تبدیل اور مکمل رد بھی کیے جاسکتے ہیں۔

    آنکھ کا معاملہ نیا نہیں اور تسلی بخش طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن جانتے بوجھتے اس کو بار بار دہرایا جاتا ہے چناچہ اس پر مزید بحث کے بجائے اس بات کو اعادہ کرتے ہیں کہ کسی نظریہ کا غلط ہونا کسی دوسرے دعوی کی تصدیق نہیں ہوتا 🙂
    http://www.aquaticape.org/darwin.html

    اقتباس
    لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی۔
    تبصرہ
    یہ کس نے کہا کہ میوٹیشن منفی سمت نہی جاتی؟ یہ صرف نظریہ ارتقا کے مخالفین ایک ببل میں رہنے والوں کی اختراع ہوسکتی ہے۔ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ حضرت آئن اسٹائن اگر جینز کا جوا دیکھ لیتے تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ قدرت کتنے پتے کھیلتی ہے۔

    غرض یہ کہ سائنس نے آپکو اس بات کی کھلی آزادی دے رکھی ہے۔۔ جی ہاں بالکل کھلی آزادی۔۔ کہ آپ
    نظریہ کہ رد میں ثبوت مہیا کریں اور اسے رد کردیں لیکن یہ رد آپ کے دعوی کی تصدیق نہیں بن جاتا; آپ کو اپنے دعوی کو اسی امتحان سے گزارنا پڑے گا۔

    لیکن بات یقین کی ہو تو پھر کیا رہ جاتا ہے۔ خالق طوفان برپا کرتا ہے اور نوح کو حکم ہے کہ تمام جانداروں کا ایک جوڑا جمع کریں۔ صرف اندھی تقلید اس سوال سے روکتی ہے کہ اے خدا یہ ہنگامہ کیوں آپ تو سب ایک لحظہ میں دوبارہ تخلیق کرسکتے ہیں؟شاید خدا کا جواب ہوتا ۔۔ ارتقا میرے پیارے بندے

  2. June 16, 2012 at 1:03 pm | Permalink

    بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔
    میرے حساب سے ڈاروینین اتنے ہی مومن ہیں جتنا کہ کوئی مسلمان ہو سکتا ہے۔ فرق تو محض عقیدے کا ہے۔ آپ کسی ایمان اور عقیدے والے مسلمان کے سامنے کتنے اور کیسے ہی دلائل کیوں نا دیں وہ اس بات کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ سب کچھ خود بخود ہوگیا ہے۔ یہی حال ہمارے ڈاروینین دانشوروں کا ہے ۔ آپ انہیں کتنا ہی سمجھا لیں کہ بھائی جب یہ عقیدہ پیش کیا گیا تھا اس وقت خلیہ کا علم سائیٹوپلازم اور نیوکلیس سے زیادہ نہیں تھا۔ اب جینیات اور مالیکیولر بائیولوجی اتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے اور اتنی زیادہ پیچیدگیاں دریافت کرچکی ہے کہ نیچرل سلیکشن کی تھیوری کسی گنوار کا ہوائی قلعہ ہی کہلائی جاسکتی ہے، نا ماننے والا پھر بھی خدا کا قائل نہیں ہوگا۔
    لیکن جناب شاباش دیجیے پاکستانی لبرل دانشوروں کو انہوں نے اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق اپنی مرضی کا خدا تشکیل دے کر دنیا کو ایک نئی راہ سجھا ئی ہے۔
    رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نا گئی ۔۔۔ بہت خوب

  3. June 16, 2012 at 1:38 pm | Permalink

    ڈاکٹر صاحب ذرا عرض کیجیے گا کہ مائیکرو بائیلوجی کو ترقی یافتہ بنانےوالے کون کون سے سائنسدان نظریہ ارتقا کے خلاف ہیں؟ اور کون سے سائنسدان اسے ہوائی قلعہ قرار دیتے ہیں؟

  4. June 16, 2012 at 2:46 pm | Permalink

    حضرت آپ خود ہی دیکھ لیجیے۔۔۔۔۔ مگر کیا اس سے آپکی تسلی ہو جائے گی؟؟؟
    مجھے نہیں لگتا کہ کریشنسٹ کہلوانے کا الزام آپ اپنے سر لے سکیں گے۔
    http://video.google.com.au/videoplay?docid=-4510168987472200892&

  5. June 16, 2012 at 4:18 pm | Permalink

    ڈاکٹر صاحب کیا پچانوے سے ننانوے فیصدی سائنسدانوں کی توثیق آپ کی تسلی کرسکی جو آپ نے نظریہ ارتقا جیسی سائنسی حقیقت کو ہوائی قلعہ قرار دیے دیا؟
    http://en.wikipedia.org/wiki/Level_of_support_for_evolution#Scientific_support
    سائنٹیفک کمیونٹی میں اس معاملے میں دو رائے ہے ہی نہیں ۔آپ اپنے عقائد میں آزاد ہیں لیکن سائنسدانوں کی طرف سے ایسے بات منسوب نا کریں جو درست نہیں ۔ آپ ان چیدہ چیدہ سائنسدانوں جو مائیکروبائیلوجی کی ترقی میں شامل ہیں اور ارتقا کے منکر ہیں انکی پبلیکیشنز سے لوگوں کو اگاہ کردیں تاکہ۔

    بفرض محال مان لیں کہ نظریہ ارتقا بوگس ہے تو اس سے انٹیلیجنٹ ڈیزائن کی
    صداقت کیسے ثابت ہے جو سائنسی نظریہ بننے کی بنیادی شرائط پر ہی پورا نہیں اترتا اور عقائد کی بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے۔

  6. June 17, 2012 at 12:39 am | Permalink

    مجھے تو اس جملے پہ شدید اعتراض ہے کہ میوٹیشن منفی سمت میں نہیں جاتا۔ جب میوٹیشن منفی سمت میں جاتا ہے تو وہ چیز سروائو نہیں کرتی ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ منفی سمت استحکام کی سمت نہیں ہوتی وہ چاہے میوٹیشن میں ہو یا کلچر میں۔
    مذہب پرست یہ بات کیوں سامنے نہیں رکھتے کہ مذہب اور سائین دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایک کے لئے عملی ثبوت چاہئیں اور دوسرے کے لئے دل کی گواہی۔
    اب دیکھیں انسان ہی جیسی ایک مخلوق اور تھی جسے نیئنڈر تھل کہتے ہیں کسی مذہبی کتاب میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ بات تو ہمیں سائینس سے معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی طرح کی ایک مخلوق موجود تھی جو اس وقت موجود نہیں ہے۔ ارتقاء کے سفر میں انسان اس سے زیادہ بقاء کی جنگ لڑنے میں کامیاب رہا۔
    http://en.wikipedia.org/wiki/Neanderthal
    اس لئے آپکا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کہ انسان واحد ذہین مخلوق رہی ہے۔ ڈولفنز اسنان جیسی ذہین مخلوق کیوں نہیں۔ ڈولفنز بھی سوچتی ہونگیں کہ انسان ہماری طرح پانی کی اشرف مخلوق نہیں۔ حتی کہ بیکٹیریا بھی خیال کرتے ہونگے کہ انسان اتنی تیزی سے اپنی آبادی نہیں بڑھا سکتا جس تیزی سے ہم کر سکتے ہیں حتی کہ اگر آج کوئ بڑا شہاب ثاقب زمین سے ٹکرا کر انسان ی زندگی کے تمام اسباب ختم کر دے تو انسان ختم لیکن بیکٹیریا موجود رہیں گے۔ بقاء کی جنگ میں وہ افضل رہیں گے۔ حتی کہ ایبا بھی سوچ سکتا ہے کہ درحقیقت میں دنیا کی سب سے افضل مخلوق ہوں جب سے پیدا ہوا ہوں آج تک دنیا میں موجود ہوں ، غیر فانی ہوں۔
    http://www.osho.nl/New-Osho-NL/EnglishPearls/SexMatters.htm
    http://lifestyle.iloveindia.com/lounge/amoeba-facts-11604.html
    راشد کامران صاحب نے تو یہاں یہ پوچھا ہے کہ کتنے فی صد سائینسداں نظریہ ارتقاء کے خلاف ہیں۔ میں تو یہ بھِ پوچھتی ہوں کہ ایمان پرست سائینسدانوں میں سے کتنے لیبارٹری میں کام کرتے وقت اس کے خلاف ہوتے ہیں۔
    مذہب سائینس نہیں ہے اور نہ سائینس مذہب۔ اس لئے سائینسی نظریات کو مذہب کی رو سے غلط یا صحیح ثابت کرنے والے ایک جہد عبث کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ سائینس مذہب نہیں وہ کسی بھی خیال کو عقیدہ بنا کر پیش نہیں کرتی۔ اور نہ ہی ماننے والوں سے یہ کہتی ہے کہ مجھ پہ ہر صورت ایمان لاءو اور دیکھو میری کہی ہوئ کسی بات کو حقیقت کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش مت کرنا کیونکہ مذہب اس مطلق حقیقت سے واقف ہے جس سے انسان واقف ہیں۔ سائینس انتہائ عاجزی سے کہتی ہے کہ اگر میں حرف غلط ہوں تو شواہد و دلائل کی روشنی میں مٹا دیجئِے مجھے۔ اور اس مرحلے پہ آکر سائینس مذہب سے برتر معلوم ہوتی ہے شاید اسی وجہ سے مذہب پرست سائینس استعمال کرنے کے باوجود سائینس کے دعوے سے حسد کرتے ہیں۔

    • June 17, 2012 at 12:41 am | Permalink

      درست کر لیں، کیونکہ مذہب اس مطلق حقیقت سے واقف ہے جس سے انسان واقف نہیں۔

  7. June 17, 2012 at 3:12 am | Permalink

    راشد کامران صاحب،
    کیا سعودی عرب یا ایران میں سائنسدان نظریہ ارتقا پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں؟ یہ ۹۵فیصدی کی حقیقت صرف معاشرتی اور سماجی ہے۔ جس طرح مسلمان معاشروں میں ڈاروینیت کے لیے ناپسندیدگی ہے اسی طرح ترقی یافتہ دینا میں کریشنزم ایک الزام ہے۔
    مصیبت تو یہی ہے کہ کریشنسٹ ہونے کا الزام کوئی بھی نہیں لینا چاہتا۔ نظریہ ارتقا کی چاہے جتنی ہی تعریف کرلیں یہ ایک حقیقت ہے اور رہے گی کہ یہ محض ایک نظریہ اور نظریہ بھی ایسا کہ خدا کی طرح اسے بھی ثابت نا کیا جاسکے۔ تو جناب آپ خود بتائیے کہ نظریہ پر اتنا اصرار کیا معنی رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ نظریہ ایک مقدس گائے سے کم حیثیت نہیں رکھتا آپ اسے ہار پھول پہنا سکتے ہیں اسکے آگے ڈنڈوت کرسکتے ہیں اسکی آرتی اتار سکتے ہیں لیکن اگر آپ نے اسکا تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا ویسے ہی آپ پر طرح طرح کے لیبل لگنے شروع ہوجائیں گے اور پوری کوشش کی جائے گی کہ کسی طرح آپکو نکو بنا دیا جائے۔ مغربی معاشرے اس نظریہ پرعام بحث کے لیے ابھی تک مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔
    اس ۹۵ فیصدی پر نا جائیے یہ صرف حالات کا جبر ہے جو کہ سائنسدانوں کو اس سائنسی مذہب سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

  8. June 17, 2012 at 9:24 am | Permalink

    چند باتیں۔
    اول۔ سعودی عرب اور ایران کا سائنس و ٹیکنالوجی میں فی الوقت کردار کنزیومر سے زیادہ نہیں؛ اس کو گفتگو میں لانے کا مقصد محض اختلال توجہ ہے اور کچھ نہیں ۔
    دوم۔ ۹۵ فیصدی حقیقت سماجی و معاشرتی نہیں بلکہ سائنسی حقیقت ہے۔جن معاشروں میں سائنسی علوم اپنی اصل روح کے ساتھ رائج ہیں وہاں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
    سوم۔ نظریہ ارتقا سانئسی نظریہ ہے مذہبی دعوی نہیں۔ اور کسی بھی سائنسی نظریہ کی طرح قابل رد ہے۔ چناچہ یہ کہنا کہ یہ محض ایک نظریہ ہے جسے رد یا ثابت نہیں کیا جاسکتا سائنسی علوم سے ناواقفیت کی واضح نشانی ہے۔

    چہارم۔ مغربی معاشروں خصوصا امریکہ میں ارتقا پر جس قسم کا مباحثہ ممکن ہے اور ہورہا ہے اور کریشنسٹ جس طرح کی ہزیمت سے دوچار ہیں مسلم معاشروں میں فی الحال اس کا تصور محال ہے۔

    آپ کے تبصرے کی آخری سطر دانستہ نادانی کی عمدہ مثال ہے کیونکہ سائنسی کمیونٹی میں یہ معاملہ اس طور زیر بحث ہے ہی نہیں۔

    نوٹ
    مائیکروبائیلوجی اور انسانی جی نوم پراجیکٹ پر کام کرنے والے چیدہ چیدہ سائنسدانوں کی فہرست کا انتظار رہے گا جو نظریہ ارتقا کو گنوار کا ہوائی قلعہ قرار دیتے ہیں۔

  9. June 17, 2012 at 2:29 pm | Permalink

    راشد کامران صاحب،
    ہر وہ شخص جو خلیہ کے بارے میں چند موٹی موٹی باتیں جانتا ہے اس بات کو کبھی بھی نہیں مان سکتا کہ اس قدر پیچیدہ اور مکمل مشینری ، اس قدر چھوٹی جگہ میں کسی اتفاق کے نتیجے میں وجود میں آگئی ہے الا یہ کہ آپ حیرت انگیز اتفاقات کے ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کو اس نظریہ کی توجیح کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں۔
    خلیہ کا ایک تعارف اور یہ کہ کس طرح یہ معلومات ڈاروینیت کی مکمل طور پر نفی کرتی ہے۔
    http://www.youtube.com/watch?v=H5sfHz3xyNc&feature=related

  10. June 17, 2012 at 2:56 pm | Permalink

    ڈاکٹر مائیکل جان ڈینٹن ایک نامور بائیو کیمسٹ اور مصنف ہیں اور اپنی تصانیف ” ایوالوشن : آ تھیوری ان کرائسس” اور ” نیچرز ڈیسٹنی ” کی وجہ سے مشہور ہیں، ایک انٹرویو میں کچھ اس طرح سے اظہار خیال کرتے ہیں:
    http://www.youtube.com/watch?v=ADT9L5MBPak

  11. June 17, 2012 at 10:31 pm | Permalink

    فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
    ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

  12. June 18, 2012 at 6:26 am | Permalink

    Wrote something similar a while ago 😉
    http://shahfaisal.wordpress.com/2008/01/26/اللہ-میاں-کا-ورکنگ-سٹائل

    Sorry for the english but still waiting for Urdu keyboard on iPad 🙁

  13. June 20, 2012 at 8:22 am | Permalink

    نظریہ ارتقاء محض خیال نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سائنسی نظام موجود ہے جو سائنسی نظریات کی تعمیر، کانٹ چھانٹ اور اصلاح کے لیے ہر وقت کارفرما رہتا ہے۔ اور یہ نظام فقط نظریہ ارتقاء کو ہی ڈیل نہیں کرتا بلکہ دوسرے تمام سائنسی نظریات بھی اسی کی دین ہیں۔ دوئم سائنس میں سب سے اہم چیز نظریہ ہی ہوتی ہے کیونکہ نظریہ قدرتی حقائق کی وضاحت پیش کرتا ہے اور فطرت کے عوامل کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ سائنس میں نظریہ صرف ایک خیال پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بے شمار سائنسی حقائق، تجربات، ثابت شدہ مفروضے، سائنسی خیالات اور منطقی نتائج ہوتے ہیں۔ کسی بھی سائنسی نظریہ کے اجزا میں تبدیلی، بہتری اور کانٹ چھانٹ کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے اور اسی طرح کسی بھی سائنسی نظرے کے منہدم ہونے کا امکان بھی موجود رہتا ہے مگر ایسا تب ہی ہو گا جب پرانے نظریے کی جگہ لینے والا نیا نظریہ پرانے نظریے کے تمام اجزا کی نئی وضاحت پیش کر سکے گا۔ اور اگر ہم نظریہ ارتقاء کی جگہ کوئی نیا نظریہ لاتے ہیں تو اسے نظریہ ارتقاء کے تمام اجزا کی نئے سرے سے وضاحت کرنا ہو گی۔ مثلا” فوسل ریکارڈ سے متعلق شواہد، جینیٹکس سے جڑے شواہد، جانوروں کی جیوگرافک تقسیم سے جڑے شواہد، جانوروں کی محتلف انواع میں ساخت اور جینیات کے لیحاظ سے موجود ہم آہنگی سے جڑے شواہد اور جانوروں میں نسل در نسل آنے والی جنیاتی تبدیلیوں کی سائنسی وضاحت پیش کرنا ہو گی۔
    جہاں تک خدا پر ایمان کا معاملہ ہے تو سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کا مذہب تو سائنٹیفک میتھڈ ہے اور سائنٹیفک میتھڈ بھی کوئی اٹل چیز نہیں اس میں بھی تبدیلی کی گنجائش موجود ہے۔

Leave a Reply to Aniqa Naz

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>