عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

قصہ اردو بلاگران کے ساتھ ایک شام کا

ایک عرصہ دراز سے یہ تحریر ڈرافٹ کے خانے میں پڑی تھی تو سوچا اس کو  ملاقات کی سالگرہ سے قبل شائع کردیا جاے۔  تاخیر کی معذرت۔

میر امن نے کیا خوب کہا کہ سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔۔ خصوصا ۲۲ نومبر کی شب ایک بجے ناگن چورنگی کے پچھواڑے ایک دیوان عروسی میں جہاں پیر مرد راشد کامران نے یہ مقرّر کیا کہ تبدیلی اوقات کے ساتھ وہ پرسوں سات سمندر کے سفر پر روانہ ہو جاویں گے۔ فقیر بولا قبلہ حاجی صاحب، ایسی بھی کاہے کی جلدی، ٹک دم تو لو، ابھی مکے مدینے اور ابھی شہر فرشتگاں،  تو یکدم بولے کہ جی تو  بہت چاہتا ہے کہ روشنیوں کے شہر میں کچھ وقت اور بتاوں پر ظالم پیٹ ہر ایک کے ساتھ لگا ہے۔ فقیر بولا یہاں مملکت  بلاگستان کے ساتھی تیری جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں اور تو بنا درشن کوچ کا قصد کرتا ہے۔ اس دہائ پر یوں گویا ہوے کہا کہ اگر قصد ملاقات احباب ریختہ  کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد کچھ ترکیب کرو۔ میں نے کہا اسی وقت میں درویش ابو شامل کے پاس برقی خط بذریعہ چہرہ کتاب لے جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر جواب لاتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر  نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

 اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ ہماری قسمت نے یاوری کی اور درویش ابوشامل نے سبک دستی سے سب انتظام کیا، اوراگلی شام مطعم کراچی فوڈز میں خاطر احباب کا التزام رکھا۔اس درویش مرد کے  سب سے روابط اور یاداللہ کے سبب افکار میں قطبین کے فاصلے کے لوگ حب اردو و تبادلہ خیال کو ایک میز پر جمع ہوے  اور سب ہی مدعی تھے کہ

 گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

اب اس محفل کا حال نا پوچھو۔ کیا اہل علم جمع تھے۔ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ کیا ہوا جو سماجی مہارتوں میں ید طولی نہیں رکھتے، پلاو و زردہ و بریانی سے انصاف مگر برابر کا روا رکھتے ہیں۔

برادرم شعیب صفدر اور فہیم اسلم نے نہایت انہماک سے عمار ابن ضیا کی تقریر سنی جس میں انہوں نے جامعہ میں سی آر بننے کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔

اسی دوران محمد اسد نیپکن سے طیارہ بنانے کی مشق کرتے رہے۔

درویش نے پیر مرد راشد کامران کاشعیب صفدر سے تعارف کروایا جس میں شعیب صاحب کی روایتی گرمجوشی، برادر فہد کا استفہامیہ اور ہمارا خالی پلیٹ ہونا قابل ذکر ہے

کھانے کے آمد ہوئی تو کچھ دل کو تسلی ہوئی، ابوشامل درویش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اسی دوران ہم لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ روزا پارکس کے سیٹ نا چھوڑنے کے فیصلے سے محترمہ عنیقہ ناز کے بلاگ پر بلاواسطہ کیا اثرات مرتب ہوے نیز کیا اس زمانے میں شعیب صفدر سول رائٹس کا کیس بلا معاوضہ لڑنے میں دلچسپی رکھتے۔

کھانے کے انتظار کے باعث غیر حالت ہونے پر یہاں یہ ذکر تھا کہ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان،  برادرم فہیم اسلم کو باورچی کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک مطبخ کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

اور یہ رہی جناب اجتماعی تصویر، جہاں مشرق و مغرب کے اردو سے محبت کرنے والے جمع ہیں

دائیں سے بائیں: راقم ، ابوشامل ، راشد کامران ، عنیقہ ناز ، شعیب صفدر ، فہیم اسلم ، محمد اسد اور عمار ابن ضیا

 نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

Share

19 Comments to قصہ اردو بلاگران کے ساتھ ایک شام کا

  1. July 9, 2012 at 2:10 am | Permalink

    جناب عالی ! ذرا آخری تصویر کے افراد کا نام بہ نام دائیں سے بائیں طرز کا تعارف تو کروا دیتے ۔۔۔

  2. July 9, 2012 at 2:17 am | Permalink

    بہت خوب
    اور بلاگ پر شایع کر کے ہمیں غائبانہ طور پر شامل کرنے کا بھی شکریہ
    حیدرآبادی صاحب کی طرح ہماری بھی فرمائش ہے کہ خواتین و حضرات جو اس تصویر میں ہیں کہ نام بتائے جاویں

  3. July 9, 2012 at 2:49 am | Permalink

    میرا خیال ہے میں نے کچھ کچھ پہچان لیا ہے ۔۔۔
    دائیں سے بائیں :
    عدنان مسعود ، ابوشامل ، راشد کامران ، عنیقہ ناز ، شعیب صفدر ، فہیم اسلم ، محمد اسد اور عمار ابن ضیا

  4. July 9, 2012 at 5:12 am | Permalink

    غائبانہ تعارف اور ملاقات کے چیدہ چیدہ معاملات کے بارے میں بتانے پر ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔۔۔

  5. July 9, 2012 at 5:21 am | Permalink

    شاید آپ نے مقولہ پڑھ رکھا ہے “دیر آیَد درست آیَد”۔ شروع شروع میں پڑھتے خیال ہوا کہ اُنیسویں صدی کی اردو کی کتاب ہاتھ لگ گئی ہے ۔

  6. July 9, 2012 at 5:51 am | Permalink

    اس کا اردو زبان میں ترجمہ کب کریں گے اب؟

  7. July 10, 2012 at 12:23 am | Permalink

    “کیا ہوا جو سماجی مہارتوں میں ید طولی نہیں رکھتے، پلاو و زردہ و بریانی سے انصاف مگر برابر کا روا رکھتے ہیں”
    “دیر آید و چہ خوب آید” 🙂
    ہماری تو آنکھیں پتھرا گئی تھیں، اس تحریر کا انتظار کرتے کرتے۔ پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گئے کہ شاید دعوت اس قابل نہ تھی کہ اس پر تبصرہ کیا جاتا۔ بہرحال، عرصہ بعد کئی یادیں تازہ ہوئیں۔ گو کہ ملاقات بہتر مختصر تھی اور کئی پہلو تشنہ رہ گئے لیکن پھر بھی اک یادگار ملاقات رہی۔ ان شاء اللہ پھر کبھی موقع ملا تو اک طویل نشست رکھیں گے

  8. July 10, 2012 at 1:30 pm | Permalink

    بہت خوب۔۔۔۔۔۔ آپکی تحریر پر مجھے مرزا غالب کے خطوط کا گمان ہوتا ہے۔
    اتنے مختلف الخیال لوگوں کو ایک میز پر بٹھانا بذات خود ایک کارنامہ ہے۔

  9. July 10, 2012 at 10:08 pm | Permalink

    اعلی نثر لکھی ہے جناب۔
    اور چند فقرے خوب کسے اور ٹُھکے ہوئے ہیں۔
    اگر ایک سال بعد آپ کی تحریر پڑی پڑی ایسی ہوجاتی ہے تو ہر پوسٹ لکھنے کے سال بعد ہی چھاپا کریں۔
    😀

  10. July 12, 2012 at 3:16 pm | Permalink

    وہ لکھیں اور پڑھا کرے کوئی
    فہد بھائ کا ایک دفعہ پھر شکریہ کہ اس ملاقات کا انتظام کیا ۔

  11. August 4, 2012 at 11:41 pm | Permalink

    شکریہ، ہم تو سمجھے تھے کہ ارادہ موقوف کر دیا۔ مختصر ملاقات پہ اگر خطوط غالب کی جھلک آتی ہے تو طویل پہ تو دیوان غالب منظر عام پہ آنےکی نوید ہے۔ ابو شامل کا شکریہ اک انہوں نے نہ صرف ملاقات کا اتظام کیا بلکہ طعام کا بھی۔ سچ ہے مرد کے دل کا راستہ کھانے سے ہو کر گذرتا ہے۔

  12. August 10, 2012 at 8:27 am | Permalink

    شائد عنیقہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔
    اور عورت کا کانوں سے
    🙂

Leave a Reply to افتخار اجمل بھوپال

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>