عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

ایک پراسرار کتاب کی آمد

صبح کا وقت تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ، کھولا تو باہر ڈاکیا کھڑا تھا ایک عدد ڈبے کے ساتھ اور راقم کے دستخط کا متمنی تھا، آٹوگراف لینے کے بعد وہ مرد فیڈایکس تو اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوا لیکن ہمیں انصاری روڈ دہلی سے آنے والے اس پیکٹ کی بابت حیران و پریشان چھوڑ گیا۔

 ڈبے کا حجم و وزن خاصہ تھا لہذا گمان غالب تھا کہ یہ گدی نشینوں کا خط تو نہیں ہو سکتا الا یہ کہ انہوں نے صاحب قبر کی نشانی ایک اینٹ بطور تحفہ بھیج دی ہو۔پھر یہ دیکھا کہ  کہیں اس میں سے ٹک ٹک کی کوئ آواز تو نہیں آرہی کیونکہ دلی کی سرکار سے ہمارے تعلقات اسوقت سے نسبتا کشیدہ ہیں جب سے وہ  ہمارے پاکستانی پاسپورٹ کو سان فرانسسکو سے نئی  دہلی بھیج  کر بھول گئے ہیں۔ یعنی تقریبا ایک سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آگیا مگر ہر انکوئری کا جواب یہی ہوتا ہے کہ تخت دہلی کو صبر کا مزید امتحان مطلوب ہے۔  بہرحال، یہ تو جملہ معترضہ تھا، واپس آتے ہیں ڈبے کی طرف۔ چونکہ اتفاقا آج ہماری ۳۲ ویں سالگرہ بھی تھی تو گمان ہوا کہ شائد کسی دوست نے دست التفات بڑھایا ہو لیکن چونکہ  مہر ایمزن موجود نا تھی لہذا یہ خیال بھی جاتا رہا۔ ہمارے کتابی ریویوز کے گروپیز کا خیال بھی وارد ہوا لیکن بالحاظ صوم اسے فورا جھٹک ڈالا۔

 تو کسی جتن صاحب کی طرف سے انصاری روڈ دہلی سے آنے والی اس ڈاک کو آہستہ آہستہ کھولا، اور جب دیکھا تو اندر سےمیاں نہرو برآمد ہوے، یعنی کی انکی ۱۱۰۰ صفحات کی یہ ضخیم تصنیف گلمپسس آف ورلڈ ہسٹری یا دنیا کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ جسے پینگوئن والوں نے شائع کیا تھا۔ جب تعارف پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ حلقہ محققین میں تو بڑے پاے کی کتاب مانی جاتی ہے اور نیویارک ٹائمز نے اسے ایچ جی ویلز کی تاریخ کے خاکوں کی کتاب سے اعلی و ارفع گردانا ہے۔ لیکن یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ یہ کون مہربان و قدردان ہے جس نے راقم کو۷۰ ڈالر کی یہ کتاب مفت میں ارسال کردی۔اب ظاہر سی بات ہے پبلشر نے تو ہمارے کتابی جائزوں سے متاثر ہو کر یہ کام نا کرنا تھا، لیکن قبلہ، جس جہاں میں حرحرکیات و طبعیات کے قوانین لائیو ٹیلیوژن پر توڑے جا رہے ہوں وہاں اس سے کیا بعید۔

نقشوں اور حوالہ جات سے بھرپور یہ کتاب چندرگپت موریا سے لے کر چنگیز خان، سلطنت عثمانیہ اور تاج برطانیہ اور بعد تک کی انسانی تاریخ کی روداد  سناتی ہے، اس کا رمضان کے بعد مطالعہ شروع کرنے کا ارداہ ہے  اور اسکا جائزہ پیش کرنے کی کوشش بھی کروں گا لیکن یہ کتاب کہاں سے آئ کی پہیلی کو بوجھنے اور جواہر لال نہرہ کی لکھی ہوئ ۱۱۰۰صفحات کی کتاب پڑھنے کے لیے

چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس

تحديث, عقدہ یہ کھلا کہ ہمارے عزیز دوست پیرمحمد راجا المعروف راجا پیر نے سالگرہ کے تحفے کے طور پر یہ کتاب ہمیں بھیجی تھی اور ان کی زبانی وہ اس ‘پرینک’ اور ہماری بلاگ پوسٹ سے خاصے محظوظ ہوے۔ امید ہے پیر صاحب کی دیکھا دیکھی دیگر احباب بھی اس روایت کو جاری و ساری رکھیں گے۔

Share

5 Comments to ایک پراسرار کتاب کی آمد

  1. August 4, 2012 at 5:24 pm | Permalink

    صبر کا امتحان نہ لیجیے ویسے بھی ہم افطاری کے آخری لمحے گن رہے ہیں۔ 😀
    ہمارا پتا بھی نوٹ کر لیجیے کہ آئیندہ کوئی مہربان ایسی فیاضی دکھائے تو ہم بھی مستفید ہوسکیں۔

  2. August 4, 2012 at 11:30 pm | Permalink

    ہم نے نہییں بھیجی۔ ستر ڈالر تو ہمیں تین سال کی بلاگنگ سے بھی نہیں ملے۔ خرچ کہاں سے کریں گے وہ بھی اس قدر غائیبانہ انداز میں۔ ہم اس ملک ستم گر سے تعلق رکھتے ہیں کہ اگر ستر ڈالر کسی کو تحفے میں دیں گے تو کم از کم ستر لوگوں کو اس کا علم ضرور ہوگا۔
    خیر، کیا ہم سب اپنا پوسٹل ایڈریس اور کتابوں کی فہرست اس بہانے یہاں جمع کرادیں۔ شاید اس حاتم کو اس سخاوت کے مزید مواقع ملنے میں آسانی رہے۔

  3. August 6, 2012 at 6:16 am | Permalink

    مجھے لگتا ہے حاتم طائی کی روح ابھی دنیا میں ہی کہیں بھٹک رہی ہے

  4. August 6, 2012 at 10:45 pm | Permalink

    بہت مبارک ہو جی ، اس دنیا میں اب بھی ایسے لوگ ہیں کہ مفت میں کتابیں تحفہ کرتے ہیں ۔ اللہ مجھے بھی ایسے بہت سے دوستوں سے نوازے ۔

  5. August 7, 2012 at 10:55 am | Permalink

    کیا بات ہے جناب۔ اب آپ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید لوگوں کو بھی اس پراسرایت سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کریں۔

Leave a Reply to Aniqa Naz

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>