عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

مسلماں زادہ ترکِ نسب کن

اعداے ملت اسلامیہ کا عرصہ دراز سے یہ منشا رہا ہے کہ امت واحدہ کو  نسلی اور وطنی تفرقات میں  بانٹے رکھیں۔ اس کی تازہ ترین مثال روہینگا کے مسلمانوں کے قتل عام پر ڈرائنگ روم لبرلیوں کا یہ ردعمل ہے کہ یہ  ایک نسلی و محدود جغرافیای معاملہ ہے، اس کو مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کرنا غلط ہے۔

یہ عدم پرواہی و بے اعتنای ایک نہایت تباہ کن رجحان ہے جو درحقیقیت اورئنٹلزم کا کول ایڈ پینے سے لاحق ہوتا ہے۔ آج سے نہیں عرصہ دراز سے اسی قماش کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلمان نہیں بلکہ کرد فاتح، دولتہ عثمانیہ کو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ترکوں کی امارات اور اسپین پر مسلمانوں کی حکومت کو بربروں کی سلطنت قرار دیتے ہیں۔ اس زمن میں قران کا موقف بلکل صاف ہے

و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون -مومنون ٥٢
اور
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم -الحجرات ١٠

اس امت واحدہ کو رنگ و نسل، زبان و وطن اور ویسٹفیلین سوویرنیٹی کی بنیاد پر بانٹنے کا کام اسی کو زیب دیتا ہے جس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نا سن رکھا ہو

مثل المومنین فی تواد ہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد والواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائرالجسد بالسہر والحمی ﴿متفق علیہ﴾

“مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔”

نیز مزید فرمایا

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ﴿بخاری ۴۸۱ مسلم ۲۵۸۵﴾
“مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔”

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشارمومن کو جغرافیائ حدود کا خیال نہیں ہوتا، بحکم الہی وہ قبیلوں اور قوموں کو پہچان کا ذریعہ تو ضرور مانتا ہے لیکن اس کا دل ہر مسلمان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے چاہے وہ شام میں بشار الاسد کے ظلم و ستم سے پنجہ آزما ہو، ایران میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو یا برما کے بدھوں کی سنگینوں کا شکار ہو۔

 سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی است

وہ اپنی بے عملی کو چھپانے کے لیے حیلے بہانے نہیں ڈھونڈتا بلکہ جس امر کہ طاقت و قدرت اس کے رب نے عطا کی ہے اتنا عمل کر کے  نتیجہ اپنے خالق پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا اور نا اس کے لیے بوسنیا کا یورپی مسلمان سوڈان کے افریقی مسلمان سے اور کاشغر کے اویغور بھائ سے چنداں مختلف ہوتا ہے۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم

مسلمانوں کی نسل کشی خواہ وہ بوسنیا میں ایتھنک کلینزنگ کے نام پر ہو، یا چاہے کسی جابر حکمراں کے ہاتھوں، اس امت کا برنگِ احمر و خون و رگ و پوست ایک ہے۔ اگر کسی ایک واقعے کو امتداد زمانہ سے زیادہ توجہ ملے اور دوسرے کو کچھ کم تو اس سے امت کے رشتوں میں کمی نہیں آجاتی۔وہ امت کو جغرافیے کی چھری سے ذبح کرنے کے بجاے ببانگ دہل کہتا ہے کہ

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے، وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ ترا شیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کا شانہ دینِ نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیں ہے، تو مصطفوی ہے

امت میں نفاق کے پروردہ لوگوں کو مژدہ ہو کہ عربوں و ترکوں کو میانمارمیں اپنوں کا خون دامے درمے سخنے کھینچ لایا، تورانی و افغانی کی تمیز نا رہی، یہی منتہاے ملت ہے ،عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن۔ و من الله توفیق۔

Share

4 Comments to مسلماں زادہ ترکِ نسب کن

  1. August 12, 2012 at 12:07 pm | Permalink

    بجا فرمایا

  2. August 12, 2012 at 11:30 pm | Permalink

    ما شا اللہ! بہت اچھا لکھا۔ اللہ آپ کے قلم کو قوت دے ۔

Leave a Reply to ابو عزام

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>