عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

تخلیق، ایک جزو لاینفک

ہم کو گھڑے گھڑائے نقلی آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے جو کسی ادبی یا پیشہ ورانہ کم کے لائق ہو بلکہ کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی قوت ارادی کے بل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں دنیا میں جو بہترین کارنامے وقوع پذیر ہوئے. یعنی طباع و دراک لوگوں کے کارنامے. جن پر کبھی کوئی لاگت نہیں آئی. اور نہ ہی ان کی کبھی کوئی قیمت ادا کی گئی. اور نہ تو ان کے لئے کوئی مشقت اٹھائی گئی. بلکہ یہ تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں. شیکسپیئر نے ہیلمٹ اتنی آسانی سے لکھ ڈالا تھا، جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلا بنا لیتا ہے. بڑی بڑی نظمیں بغیر کسی توجہ کے سوتے جاگتے لکھی گئی ہیں. عظیم مصوروں نے حصول مسرت کے لئے تصویریں بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہی کہ ان کی شخصیت نے”خبر” کو جنم دیا ہے. و گرنہ شاید وہ اس سوجھ بوجھ کے ساتھ ایسی تصویریں ہر گز نہ بنا پاتے عظیم شعراء نے بھی اپنے نغمات کچھ اس طرح تخلیق کئے. یہ تخلیق نفیس و لطیف قوتوں کی بڑی حسین شگفتگی ہے. فرانسیسی خواتین کے خطوط کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ خطوط ان کے دلربا وجود کا دلربا حادثہ ہیں.ایک شاعر اپنے نغمات کے حق میں کبھی مفلس نہیں ہوتا. ماحول میں جب تک عمدہ اور آزادانہ نہ ہو کوئی گیت، گیت نہیں ہوتا. میں نے آج تک کوئی ایسا مغنی نہیں دیکھا جو فرض سمجھ کر گاتا ہو. یا دیگر راہیں مسدود پا کر مجبوراً گاتا ہو. نیند تو صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو سونے کے لئے بیتاب نہ ہوں اور بلاشبہ وہی لوگ بہتر طور پر لکھ یا بول سکتے ہیں، جو لکھنے یا بولنے کے لئے خواہ مخواہ فکر مند نہ رہتے ہوں. مقام فضلیت”آموزوں” کو ہی حاصل ہوا کرتا ہے

ایمرسن – ترجمہ پروفیسر وقار عظیم

Share

3 Comments to تخلیق، ایک جزو لاینفک

  1. September 10, 2012 at 6:22 pm | Permalink

    فرانسیسی خطوط کی دلربا تفصیل درکار ہے۔
    😀

  2. September 10, 2012 at 9:53 pm | Permalink

    واقعی لکھنا غیر شعوی عمل ہے، وہ لکھنا جسے تخلیق کہا جاتا ہے۔ اگر پاسے بدل بدل کر، لیٹ کر اٹھ کر بیٹھ کر، ٹہل ٹہل کر لکھا جائے تو وہ تخلیق کم اورمینوفیکچرنگ زیادہ ہو جاتی ہے۔ جیسے ہم کبھی تک بندی کریں تو کئی کئی دن موزوں الفاظ ہی نہیں ملتے۔ زور لگا لگا کر نظم ‘ہوتی’ ہے۔

  3. September 11, 2012 at 2:43 am | Permalink

    بہت عمدہ بات کہی

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>