عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

کیوں بمقابلہ کیسے

سائنس جب کبھی یہ سوال کرتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سے درحقیقت یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ اسباب کی سائنسی تحقیق ہمیشہ کسی امر کی تجربہ گاہ میں  تصدیق و تكرار سے بحث کرتی ،  تخلیق کی  غیبی و روحانی وجوہات سے اسکو کوی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔

جب انسان اپنے گرد ونواح پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا یہ سوال، ایسا کیوں ہے، عموما اس جواب  کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی اصل کیا ہے، تخلیق کا مبتدا و منتہی کیا ہے، مقصد زندگانی کیا ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سائنسی تحقیق یا تو خاموش ہے یا اسکا خیال ہے کہ  یہ سب یونہی بے کار بے سبب بے وجہ وجود میں ٓآگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سائنس اور مذہب کا کسی بھی سطح پر مسابقہ بے معنی ہے۔ ایک کا کیوں اور کیسے دوسرے کے کیوں اور کیسے سے قطعی مختلف ہے۔

اسی زمن میں امام غزالی نے فرمایا کہ

 ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے

Share

2 Comments to کیوں بمقابلہ کیسے

  1. May 18, 2013 at 12:13 pm | Permalink

    یقیننا دونوں کا تقابل درست نہیں ہے دونوں کا میدان مختلف ہے ، ایک انسان کے اندر کا علم دیتا ہے تو دوسرا اس کے گرد و پیش کا ۔ بر سبیل تذکرہ قرآن میں بیان کردہ زیادہ باتیں سائنسی تحقیق سے درست ثابت ہوئی ہیں اور کم غلط ثابت ہوئی ہیں البتہ اب آ کر سائنس نے بھی مذہب کا درجہ اختیار کر لیا ہے جو کہ تشویشناک بات ہےکیونکہ اس میں خدا کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب مذہب اور سائنس کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور بجائے اس کے کہ اپنی کوتاہی علم کا اعتراف کیا جاتا ، مذہب کو دیس نکالا دے کر ماورائے مادہ کسی بھی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ کین ولبر اسے یک رُخی سائینسیت قرار دیتا ہے ۔ سائنس داں جو کہ مذہبی لوگوں کی خود قطعیت سے نالاں تھے ، خود قطعیت کے مرض کا شکار ہو گئے۔ اب سائنسی تصوارات ہمارے معاشروں میں سب سے طاقت ور تصوارت کے طور پر اُبھرے ہیں اور لوگ سائنسدانوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو حتمی سمجھنے لگے ہیں ۔ ااس طرح سائنس ہمیں ایک ادھوری حیات کا درس دے رہی ہے

Leave a Reply to محمد ریاض شاہد

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>