عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

مرزا غالب اور تھینکس گیونگ کی ٹرکی

ڈاکٹر ہو کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر انکی ٹائم مشین استعمال کرتے ہوئے ہم نے مرزا نوشہ کو یوم تشکر یعنی تھینکس گیونگ پر ایک عدد ٹرکی بھجوائ۔ اس کا جواب موصول ہوا۔ پڑھیے اور مرزا کی ذائقہ شناسی پر سر دھنئے۔

thanksgiving-turkey-dinner

بنام
میان عدنان مسعود

جود و کرم کے دسترخوان کا یہ ریزہ خوار عرض کرتا ہے کہ یہ امریکی مرغابی نما جانور کا خوان مع لوازمات، بزبان فرنگ ٹرکی. وصول پایا اور کام جان کو محبوبوں کے تبسم شور انگیز کی لہر میں لوٹ پوٹ کر دیا۔ دماغ کو بھی طاقت دی اور ہاتھ پاوں کو بھی توانائ بخشی۔ اس کا گودہ اپنے خمیر کی لطافت میں قواے نفسانی کے اضافے کا سرمایہ، نہیں نہیں میں نے غلط کہا، زندگی کے چراغ کے تیل کا مادہ ہے۔ فم معدہ اس کے شوربے المعروف زبان فرنگ گریوی،  کی روانی کا ثنا خوان ہے۔ اور آنتیں اسکے کفچوں کے لذت کے شمار کی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ مکئی کی روٹی نے جب اسکے شوربے کے معیار کو پہچانا تو پہلے حملے میں ہی خوف سے سپر ڈال دی اور جب زبان اس کی روانی کی لذت کی شکرگذاری میں مشغول ہوئ تو شوربے کے آپ حیات کی موج اسکے سر پر سے گذری، اسکی ہڈیوں کے نظر فریب جلوے پر ہما دیوانہ ہو گیا ہے اور اسکے بہتے ہوئے شکرخند و سیب زمینی  کے حسن  پر عقل فریقتہ ہو گئی ہے۔ اور اسکے مصالحے کے مزے  کی تیزی محبوبوں کی اداے عتاب کی طرح گلوسوز تو نا تھی پر کچھ ایسی انجان بھی نہیں، اور اسکی  ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز چنگ و رباب   کے نغمے کی طرح سامع  نواز تھی ۔ میں تو بات  کو طول دینا اور اس نعمت کے بعد صاحب نعمت کا شکر ادا کرنا  چاہتنا تھا کہ اچانک میرے جبڑے نے مجھے ناز کے ساتھ آنکھ کا اشارہ کیا اور اپنے سر کی قسم دے کر گویا ہوا کہ اپنے ہاتھ  سے قلم فورا رکھ اور  سیب کے مربے و احمر قره قاط  کی لطافت کا مزا چکھ۔

چونکہ مجھے اسکی خاطرداری منظور تھی اور اسکی قسمت پرمایہ تھی لہذا تعمیل کے علاوہ اور کوئ چارہ نا تھا

دعاوں کا طالب

غالب
دلی،  نومبر ۱۸۴۵

 

thanksgiving-turkey-coverایضا، یہ مضمون مرزا نوشہ کے نومبر ۱۸۴۸ کے ایک خط میں یوم تشکر کی رعائت کر کے تصنیف کیا گیا ہے،،

 

Share

6 Comments to مرزا غالب اور تھینکس گیونگ کی ٹرکی

  1. November 28, 2013 at 8:37 pm | Permalink

    ذہن میں بشاشت اور قلب مین سرور نے کروٹیں لیں عبارت پر نطر ڈالتے گویا کہ ایک صدی پیچھے کے لکھنؤ میں جا پہچے ۔ اس زمانے مین کہاں ایسی شُستہ گفتگو اور کہاں لطافتین ۔ انسان خود مشین ہو گیا مشینوں کی ترویج کرتے ۔
    خوش رہیئے

  2. November 29, 2013 at 1:09 am | Permalink

    ٹرکی کی بجائے کے ایف سی کا زنگر، ٹوسٹر یا کوئی میل ڈیل بھیجتے تو غالباً جواب پڑھنے کا مزہ زیادہ ہوتا۔

  3. December 3, 2013 at 3:06 am | Permalink

    واہ جی واہ
    کافی عرصہ ہوگیا ان کا کلام پڑھے اگلی بار کوئی تازہ غزل کی فرمائش بھی تحفے کے ساتھ کر دیجے گا

Leave a Reply to ابو عزام

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>