عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

بے حسی کا خراج

 کل دن دہاڑے میرے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی روڈ پر صفورا چورنگی کے پاس ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے ہوئے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا گیا۔

دو عدد موٹرسائکل سوار ڈاکووں نے جنہیں بظاہر کسی بات کی جلدی  نا تھی، نہایت آرام سے اس سے تمام پیسے  چھینے، مزید جتنی نقدی مشین سے نکلوا سکتے تھے وہ بھی نکلوائی اور پھر اس کے دفتر کا دیا ہوا موبائل فون، اور ایک آئ فون جو میں نے اسکی ۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر اسے دو ماہ پہلے ہی تحفتا دیا تھا، چھین کر لے گئے۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ میرا بھائی اس واقعہ میں محفوظ رہا۔ الحمدللہ رب العلمین

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنا نقصان اور اپنا غم سب سے شدید لگتا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں روزانہ خون کی ندیاں بہتی رہیں، چوریوں، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو، لیکن جب تک کوئی مصیبت اپنے سر نا پڑے، راوئ عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے میں گذارا اور انہیں نہائت مخلص اور بے لوث پڑوسی پایا ۔ میں نہیں جانتا کہ ان دو بلوچ راہزنوں کا کیا المیہ تھا جس نے انہیں اس واردات پر مجبور کیا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوے مجھے اس بات کا ضرور احساس ہے کہ اگر میرے بھائی کامران کے بجاے اللہ وچائو گوٹھ سے میرے دوست ابراہیم بلوچ، عبدالغنی اورعبدالمجید خاصخیلی بھی ہوتے تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ غالبا راہزن کوئ مذہب، کوئ شناخت،  کوئ قومیت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے جو لوگ کئی بار موبائیل چھین چکے ہیں وہ تو اپنے ہم زبان ہی تھے۔

اور ظاہر ہے کہ پھر اس دور نارسائ میں خود کو الزام دینا بھی بہت ضروری ہے

بے وقوف اے ٹی ایم پر کیا کر رہا تھا، کارڈ سے شاپنگ کرنی چاہئے
بے وقوف، آئ فون لے کر کون گھومتا ہے اس شہر میں، گھر پر رکھ کر آنا تھا
پاگل آدمی کو چاہئے تھا کہ پیسے نکلوانے کسی کو ساتھ لے جاتا، چلو جان کا صدقہ گیا۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ درحقیقیت  ہمارئ  اجتماعی بے حسی کا خراج ہے ، جو ہم سے ایک محروم و مجروح طبقہ لے رہا ہے۔ اس سے مراد چوری و ڈکیتی کی توجیح پیش کرنا قطعی نہیں لیکن اس حقیقت سے فرار بھی ممکن نہیں کہ جس شہر میں روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں، جہاں امن و امان یرغمال اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے بے بس ہوں، وہاں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔اس کی ذمہ داری جس قدر صاحبان اقتدار کی ہے، اسی قدر عوام کی بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

 میرا بھائی ایک دینداراورمحب وطن شخص ہے۔ اس کو اپنی مٹی سے بڑئ محبت ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ امن و آمان کی مخدوش صورتحال اور راہزنی کی پے درپے وارداتوں نے اسکی اس محبت کو شائد گہنانا شروع کردیا  ہے۔ لیکن اب بھی وہ کم از کم مجھ سے تو زیادہ  محب وطن ہے کیونکہ میں نے  ۱۹۹۸ میں اپنے گھر میں ہونے والی مسلح ڈکیتی کے بعد ۱۸ سال کی عمر میں یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں جہاں میرے باپ کو کلاشنکوف کے بٹ  مار کر اس کی محنت کی جمع پونجی چھین لی جاے، میں تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ وہ ملک جہاں کا تھانیدار آپ کو ڈرا کر کہے کہ “اگر ایف آئ آر  درج کرائ تو شناخت کرنے آنا ہوگا اور پھر کیا پتا کون کس کو شناخت کر لے، بس روزنامچہ بہت ہے”۔ بادئ نظر میں شائد یہ بات کافی بچکانہ سی معلوم ہوتی ہو لیکن وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ کی انسانی زندگی میں بڑئ وقعت ہے۔

یہ سب  باتیں شائد صحیح ہوں لیکن پھر مجھے اپنے عزیز دوست اور کلاس فیلو عبدالرحمن المعروف مانی کا وہ پیٹریاٹک فقرہ  یاد آتا ہے جو شائد اسے اسکی عسکری وراثت  میں ملا ہے

ابے یار، اگر تو تبدیلی نہیں لائے گا تو اور کون کچھ کرے گا؟ تم سالے سب یہاں سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہو۔۔۔۔

——

أذكـــــار وأدعية عند ضياع أو فقدان شيء

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

ـ يا جامع الناس ليوم لا ريب فيه رد علي ضالتي.

– أو يتوضأ ويصلي ركعتين، ثم يتشهد، ثم يقول: اللهم راد الضالة، هادي الضالة، تهدي من الضلال رد علي ضالتي بعزك وسلطانك فإنها من فضلك وعطائك.

– ,الدعاء الذي يدعو به صاحب الشيء المفقود، هو ما جاء عند ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني من حديث ابن عمر رضي الله عنهما ما معناه: أن من ضاع له شيء فليتوضأ وليصل ركعتين وليتشهد وليقل: “بسم الله يا هادي الضلال وراد الضالة اردد علي ضالتي بعزتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك” قال الحاكم رواته موثقون مدنيون لا يعرف واحد منهم بجرج.

Share

9 Comments to بے حسی کا خراج

  1. Hasan's Gravatar Hasan
    February 4, 2014 at 1:36 pm | Permalink

    کراچی ميں چھينا جھپٹی اور بدمعاشی کی طرح جماعت اسلامی اور مذہبی جماعتوں نے ڈالي. لگتا ہے دائرہ کا سفر وہيں پہنچ گيا جہاں سے شروع ہوا.

    اب پچھتائے کيا ہوت…

    • February 5, 2014 at 11:30 pm | Permalink

      بڑی معلومات میں اضافہ کیا جناب آپ نے۔
      بدمعاشی کی طرح شاید جماعت نے ہی ڈالی ہو لیکن چھینا جھپٹی، لوٹ مار، قتل و غارت گری کا کام ہمارے ساتھی بھائیوں نے شروع کیا اور اب جب ان کے علاقوں میں غیر ساتھی بھائی آکر کارروائیاں کرنے لگے تو انھوں نے خوب دہائیاں دیں کہ کراچی کو بھتا خوروں سے نجات دلاؤ۔
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      عدنان بھائی، شکر ہے کہ آپ کا بھائی محفوظ رہا۔ اس محفوظ رہنے کی ایک بنیادی وجہ مزاحمت نہ کرنا بھی ہوگا۔ اگر ایسے موقع پر ذرا سی مزاحمت کی جائے تو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ کے دوست کا کہنا بالکل درست اور خود میں بھی یہی بات کہتا ہوں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے حالات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ کبھی کبھی میں بھی چاہتا ہوں
      انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
      اس شہر میں جی کو لگانا کیا

  2. February 4, 2014 at 8:00 pm | Permalink

    باتیں کرنے کو سب کرتے ہیں لیکن اکثر دوسروں کیلئے ۔ اگر اکثریت بات کرنے سے قبل یہ سوچے کہ وہ بات کرنا چاہیئے جس پر میرا عمل پیرا ہوں تو صورتِ حال مختلف ہو گی ۔ اللہ نے انسان کو مشاہدہ کا جانور بنایا ہے لیکن اس نے اپنا یہ کام چھوڑ دیا ہے ۔ مجھے بارہویں جماعت میں ہمارے انگلش پروز کے ٹیچر وی کے مل کا کہا ہوا ایک فقرہ آج تک اچھی طرح یاد ہے
    Who will do it ?
    Let Joe do it
    But Joe is not yet born
    Then who will do it
    اصل بات جو آپ نے خود ہی لکھی ہے یہی ہے کہ ہموطنوں کی اکثریت بے حِس ہو چکی ہے اور راہ فرار کی تلاش میں رہتی ہے ۔ علامہ تو بہت پہلے فرما گئے تھے
    وائے نادانی متاعِ کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

  3. February 4, 2014 at 10:27 pm | Permalink

    شیخ۔
    بعض اوقات اپنے شہر کے حالات اتنے غیر موافق ھو جاتے ھیں، کہ ہجرت کرنی پڑ جاتی ہے۔
    اس میں کوئی حرج نہیں۔

  4. February 4, 2014 at 11:51 pm | Permalink

    اللہ کریم اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ کیا کہیں جی، عمارتیں، سڑکیں اور بڑے بڑے منصوبوں کو ترقی کا نام دے دیا گیا۔ کیا کہیں اب۔

  5. February 5, 2014 at 8:56 pm | Permalink

    ماتم جب تک اپنے گھر میں نہ ہو دل پر اثر نہیں کرتا ۔۔ چاہے صدیاں بیت جائیں آہ وزاری کرتے۔
    اللہ ہم سب کو اور ہمارے وطن کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اورآزمائش کی ہر گھڑی میں ثابت قدمی عطا کرے،۔جسطرح ہم نعمتوں کو سنبھال کر نہیں تھکتے اسی طرح مصائب کو بھی اللہ کی حکمت مان کر برداشت کا ہنر عطا کرے۔

  6. February 6, 2014 at 1:22 pm | Permalink

    گھر آئے ابھی ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے مگر حالت یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت ڈر نکلتا ہے۔ سب لوگ ایک ہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی چھینا جھپٹی کرے تو بغیر کسی مزاحمت کے دے دو۔ صٖفورا کیا پورا گلستان جوہر اور اسکیم 33 لٹیروں اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ستم یہ ہے کہ لوگوں نے اس صورتحال سے سمجھوتا کرلیا ہے اور اسے زندگی کا معمول قرار دے کر اپنی زندگیوں میں مگن ہوچکے ہیں۔
    کوئی اس سوال کا جواب دے کہ اس وقت وطن عزیز کی جو حالت ہے اس حالت میں کوئی بھی ریاست کتنی دیر تک چل سکتی ہے۔ کیا اللہ سبحانہ تعالیٰ کو کوئی امر مانع ہے کہ وہ اس دھرتی کو ہمارے وجود کے بوجھ سے پاک کرکے کوئی دوسری اقوام کے لوگ بٹھا دیں جو دنیا میں فساد کو پسند نہیں کرتے۔

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>