عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

مطالعہ2.0 – ای ریڈر، صوتی کتب اور قدامت پسند کتابی کیڑے

  مندرجہ ذیل تبصرہ ، ۔ کنڈل، پیپروائٹ، آئ پیڈ، نک، وغیرہ کے بارے میں یہ راے ہماری ای بک ریڈرز کے ساتھ  کئی سالوں کی رفاقت و رقابت کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور قاری کا  نشان میل بالکل مختلف ہوسکتا  ہے۔

برقی کتاب یا ای بک سے ہماری دیرینہ عداوت کوئ ڈھکی چھپی پات نہیں۔ جس کتاب کو لائبریری سے اٹھنی میں مستعار لے کراور درسی کتابوں میں چھپا کر نا پڑھا جاسکے، جس کے صفحات نا مروڑے جا سکیں اور پسند نا آنے پر دوست کے سر پر نا مارا جاسکے، وہ موئ کتاب ہی کیا۔ اب تو سائنسدانوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ دماغ کو کتاب کے لمس و زماں سے بڑی انسیت ہے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ پی آئ بی کالونی میں “آپ کی لائبریری” سے کتابیں لایا کرتے تھے، پھر فایف سی فور نارتھ کراچی میں ایک خوب لائبریری ملی، پڑھائ کے لئے لیاقت نیشنل لائبریری کی بھی کیا ہی بات تھی، پھر ہمارے اور عبدالقدیر خانصاحب کے المامیٹر ڈی جے کالج کی لائبریریاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو  ڈپارٹمنٹ کی  سیمینار لائبریری (راشد بھائ کا اصطلاح یاد دلانے کا شکریہ) اور محمودالحسن لائبریری موجود تھیں اور پھر بعد میں ہم نے لائبریری آف کانگریس اور برٹش نیشنل لائبریری کی رکنیت بھی حاصل کی۔ غرضیکہ کتابیں پڑھیں یا نا پڑھیں، کتابوں کے درمیان رہنے کا سامان   ہمیشہ میسر رہا جیسا کہ جون ایلیا نے کہا

میرے کمرے کو سجھانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

مگر یہ تو جناب جملہ معترضہ تھا، ٓآتے ہیں اصل بات کی طرف

books

 ۔پھر یہ ہوا کہ ائ بکس کا چلن شروع ہوا کہ مالیکیولز کی نسبت الیکٹرونس کو حرکت دینا کفایت شعاری ہے۔ ہم نے بھی بقیہ تمام کرمکین حاسب کی طرح پہلے پہل پی ڈی ایف کمپیوٹر پر پڑھیں۔ ہمارا پہلا باقاعدہ ای بک ریڈر آی پیڈ فرسٹ جینیریشن تھا۔ یہ تجربہ مگر کچھ زیادہ کامیاب نا رہا کیونکہ آئ پیڈ میں دیگر ایسے خلفشار ذہن موجود ہوتے ہیں کہ مطالعہ کا سکون میسر نہیں ہوتا۔  پھر ہم نے تقریبا دو سال قبل کنڈل فرسٹ جینیریشن خرید کر اس پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کنڈل پر کتاب پڑھنا شروع میں تو مشکل لگا لیکن جب ہم نے اسکا استعمال گھر سے باہر خصوصا ساحل سمندر پر کیا تو کتابیں اٹھا اٹھا  کر نا پھرنے کی سہولت کچھ اچھی لگی

reading

لیکن پھر بھی درخت خشکیده کی کتابیں ہمیشہ ترجیح رہیں کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر۔ کنڈل میں پی ڈی ایف پڑھنا خصوصا ایک جنجال ہوتا ہے۔ فانٹ ایڈجسٹ کرنے میں اور صفحات کو صحیح طور پر دیکھنا  خصوصا اگر کتاب تکنیکی ہو اور تصاویر یا  کوڈ پڑھنا ہو تو آئ پیڈ یا کمپیوٹر کی بڑی اسکرین ہی بہتر حل نظر آیا۔

DSCN8245

ان تمام تجربات کے دوران ہم نے صوتی کتب کا استعمال نا چھوڑا۔ اکژ ایسا ہوتا کہ گھر پر ایک کتاب شروع کی، دفتر جاتے ہوے راستے میں اسی کا صوتی ورژن گاڑی میں سنا، لنچ بریک میں اسی کتب کو کنڈل پر پڑھا، طویل بے مقصد میٹنگز کی بوریت مٹانے کے لئے اسی کو لیپ ٹاپ یا آئ پیڈ  میں پڑھتے رہے اور دفتر سے واپسی پر صوتی کتاب اور پھر اصل کتاب رات کو۔ فکشن کتب کے ساتھ یہ خوب چلتا ہے جیسا کہ اوپر والی تصویر میں ڈین براون کی انفرنو کو مختلف اشکال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

Screenshot_2013-10-29-22-04-57

اس کے بعد ہم نے کنڈل فائر کو بھی کچھ عرصہ استعمال کیا لیکن یہ ٹیبلٹ محض ایک کم قیمت و کم ظرف آئ پیڈ ہے اور اپنے پیشرو کنڈل کی طرح مطالعے کے لئے کوئ خاص سہولت نہیں دیتا۔ اسکی اسکرین چونکہ سادہ کنڈل کی طرح ای انک نہیں لہذا ہم نے اسے نا تو اچھا ای ریڈر پایا اور نا ہی ڈھنگ کا ٹیبلٹ۔  بارنس انینڈ نوبل کا نک بھی کچھ دنوں استعمال کیا کہ ہمارے ایک عزیز اس کے پراڈکٹ مینیجر ہیں۔ ان کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن نک کے لئے آسان الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ یہی کچھ میں نوٹ ۲ اور دیگر فیبلیٹ متعلقین کے بارے میں بھی کہوں گا۔

audiobook

نان فکشن کتب بمع السٹریشنز، ریسرچ آرٹیکلز اور درسی کتب کے لئے بھرحال ابھی تک ہمیں آئ پیڈ اور کاغذی کتاب کا کوئ اچھا متبادل نہیں ملا۔ خصوصا جب سے راقم نے “نیا آئ پیڈ” ریٹینا ڈسپلے استعمال کرنا شروع کیا۔  مثلا اگر آپ کو پائتھن فار ڈمیز پڑھنی ہے تو اسکی عکاسی و اشکال کے بہتر مطالعے کے لئے  آئ پیڈ یا کاغذی کتاب ہی درست وسیلہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا پرانا کنڈل ایک دوست کو ہدیہ کیا اور نیا کنڈل پیپر وائٹ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی تک اس پر دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ “انٹرپریٹیشن آف اے مرڈر” کی کاغذی کاپی کے بجاے اس کی کنڈل شکل کو ترجیہ دی ہو۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کی اسکرین آئ پیڈ کی طرح کچھ دیر بعد آنکھوں کو نہیں چبھتی ،  دوسرا یہ کہ اس کی بیک لٹ کی وجہ سے اسے رات کے وقت سونے سے پہلے اندھیرے میں بھی دوسروں کو تنگ کئے بغیر (عقلمند کے لئے اشارہ کافی)  اچھی طرح پڑھا جاسکتا ہے، اور تیسرا یہ کہ فانٹ سائز تبدیل کرنا اسکے ٹچ اسکرین ہونے کی وجہ سے نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک رسانوچ کی ٹروجن ہارس کا مطالعہ بھی راقم اسی طرح کر رہا ہے۔

20131029_220215

 اس نئے کنڈل کا گرویدہ بننے کی ایک اور وجہ وسپر سنک   کا استعمال ہے۔ راقم آجکل محترمہ مریم جمیلہ پر لکھی گئی کتاب “اے کنورٹ” کا دوبارہ مطالعہ یا رفریشر چل رہا  ہے۔ اب میں جہاں پر کنڈل میں اسے چھوڑتا ہوں، آڈیبل کی صوتی کتاب اسے وہیں سے دوبارہ شروع کردیتی ہے اور پھر جہاں سے سننا ختم ہوتا ہے، کنڈل اسے دوبارہ اسی صفحے پر “سنک” کردیتا ہے۔


20131029_220108      Screenshot_2013-10-29-22-04-30

صوتی کتب اور ائ بکس میں بحرحال مومینٹو کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹوز کا تو نہیں پتا لیکن ہم پرانے لوگ تو کتاب کے لمس سے، صفحات پر سالن کے دھبوں سے اور دیگر زمانی و مکانی نشانیوں سے چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مومینٹو کی کمی ہمیشہ اس بات کا شدید احساس دلاتی ہے کہ آپ زمان و مکاں کی حدود سے دور کہیں الیکٹرونز  کی سرزمین پر بے وزنی کی کیفیت میں ہیں جہاں کتابوں کی ابتدا و انتہا و درمیان سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلا  کتاب “پطرس کے مضامین” کے میرےمطالعے میں آنے والے  پہلے  نسخے میں جسے راقم نے بلامبالغہ ہزار مرتبہ پڑھا ہوگا، میبل اور میں کے دو صفحات غائب تھے، جب میں نے پہلے دفعہ انہیں کہیں اور سے پڑھا تو کچھ  عرصے تک یقین نا آیا کہ یہ اسی مضمون کا حصہ ہیں، وہ تشنگی مضمون کا حصہ بن کر رہ گئی تھی, اب سوکھے ہوے پھول ای بکس میں تو نہیں مل سکتے نا قبلہ، بہرحال۔

قصہ مختصر، راقم کا کلیہ مطالعہ کچھ یوں ہے۔

فکشن کتب : صوتی کتاب، کنڈل

نان فکشن اور درسی کتب مع تصاویر: آئ پیڈ، لیپ ٹاپ یا کاغذی کتاب

نان فکشن کتاب بغیر تصاویر و کوڈ : کنڈل

ابھی تک کنڈل پیپر وائٹ کو بہرحال بہترین ریڈر پایا ہے۔ قارئین کا تجربہ جاننے کا متمنی رہوں گا۔

ما ز آغاز و زنجام جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

Share

پہلی صف اور دوسری کہانیاں از عمر بنگش

برادرم عمر بنگش کی تحریر کے بارےمیں جاننے کے لئے راقم و دیگر تبصرہ نگاروں کے کلیشے تبصرہ جات پڑھنے سے اچھا ہے کہ آپ صاحب کتاب کا ایک افسانہ خود ہی پڑھ لیں۔ اگر آپ کو شوکی کا کردار “آرگینک” نا لگے، گاوں کی منظر کشی سے مٹی کی سوندھی خشبو نا آے، موتیے کے میلے گجروں کی بساند ہر سانس میں محسوس نا ہو، پہلی صف میں چھوڑا اکبر خان کا خلا پر کرنے کی ہمت پیدا ہو جاے یا چوکیدار کاکے کو پڑھ کر آنکھیں سوکھی رہیں تو بے شک اس برقی کتاب کو چھوڑ کر بابا صاحبا اٹھا لیں کہ معاشرے کے آئنے کا یہ تقلیدی، پر حقیقت پسند زنگار آپکو بڑا بھدا لگے گا۔

umar-bangash-afsanay

عمر احمد بنگش کا قلم اصناف کے اعتبار سے رجعت پسند ہے۔ اس نے تئیس میل کا طے تو کیا مگر ادبی مشاہیر کے کندھوں پر، معاصرین میں بنگش صاحب کا اسلوب جداگانہ تو ٹھرا مگر تحریر میں ندرت خیال خال خال دکھائ دیتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اردو افسانہ کب طوائفوں کے کوٹھوں اور کالی شلواروں اور وڈیرے کی چارپائیوں سے باہر نکلے گا اور کب ہمیں الکیمسٹ کا سانتیاگو، فٹزجیرالڈ کا گاٹسبی، ناباکو کی لولیٹا، یا ہارپر لی کا دیسی فنچ ملے گا؟ بنگش صاحب کا قلم رواں ہے، دیکھیں کب وہ روایات کے حصاروں کو توڑتا ہے اور قارئین کو صریر خامہ سے نواے سروش ہیش ٹیگ #تغیر کے ساتھ سنائ دیتی ہے۔

 

Share

کنجوسی و بخل – چھٹی تراویح سے ایک اقتباس

 الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا – النسا ۳۷

اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔ ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

٦٣ الله کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا الله نے اس پر فضل ہی نہیں کیا ہے. مثلآ کسی کو الله نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گرکررہے. نہ اپنی ذات اوراپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، نہ بندگان خدا کی مدد کرے، نہ نیک کاموں میں حصّہ لے. لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ برا ہی خستہ حال ہے. یہ دراصل الله کی سخت نا شکری ہے. حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا “ان اللہ اذا انعم نعمته علیٰ عبد احب ان یظهراثرھا علیه” الله جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو. یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن. اور اس کی دادودہش، ہر چیز سے الله کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا رہے. – تفہیم القران، جلد اول، صفحہ ۳۵۲

Share

اطاعت رسول، اطاعت الہیہ – پانچویں تراویح سے ایک اقتباس

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ – قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ-  آل عمران ۳۱-۳۲

اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اُن سے کہو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔

از حامد کمال الدین، شرک اکبر کا بیان

‘عبادت’ کا تصور اسلام میں بہت وسیع ہے۔ اور بہت واضح ہے۔ عبادت کا لفظ اسلام میں صرف ‘پوجا پاٹ’ پر صادق نہیں آتا۔ عبادت محض نذر نیاز اور چڑھاوا نہیں۔ عبادت صرف منتیں ماننے یا ماتھے ٹیکنے کا نام نہیں۔ سجدہ ورکوع اور طواف وذبیحہ وغیرہ عبادت کی ایک صورت ضرور ہے اور اسی لیے یہ رب العالمین کےلیے مخصوص ہے؛ مگر عبادت ایک بہت وسیع حقیقت ہے۔ اسلام نے عبادت کا جو مفہوم دیا ہے اُس میں بلاشبہ اطاعت بھی آتی ہے، گو آج کے دور میں بہت سے مذہبی وغیرمذہبی طبقے عبادت کا یہ مفہوم متروک کروادینے پر پورا زور صرف کررہے ہیں۔

رب العالمین کے مقابلے میں کسی کی بات یا کسی کا حکم تسلیم کرنا اور اس كو برحق جاننا دراصل اس ہستی کی عبادت ہے۔ معبود صرف وہی نہیں ہوتا جس کو آپ حاجت روا یا مشکل کشا مانیں؛ بلکہ جس ہستی کی آپ مطلق اطاعت کا دم بھرتے ہوں یوں کہ خدا کے ہاں سے اتری ہوئی کسی بالاتر سند سے مطلق آزاد وہ آپ کا مطاع وپیشوا ہو اور آپ اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرتے ہوں تو دراصل وہ آپ کا رب اور معبود ہے چاہے آپ اس کے لیے ‘رب’ یا ‘خدا’ یا ‘معبود’ ایسے الفاظ استعمال نہ بھی کرتے ہوں اور چاہے اپنے اس فعل کو آپ ‘عبادت’ نہ کہتے ہوں۔

‘عبادت’ کے بارے میں یہ غلط فہمی جو آج مسلمانوں کی کثیر تعداد کو ہو چکی ہے عین یہی غلط فہمی صحابیِ رسول عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم کو بھی لاحق ہوئی تھی جب وہ رسول اللہﷺ کے پاس اسلام قبول کرنے آئے تھے:

عَنۡ عَدِيٍّ بۡنِ حَاتِمٍ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقۡرَأُ ھٰذِہِ الآیۃَ (اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ) الآیۃ، فَقُلۡتُ لہٗ: إنَّا لَسۡنَا نَعۡبُدُھُمۡ قَالَ: ألَیۡسَ یُحَرِّمُوۡنَ مَا أحَلَّ اﷲُ فَتُحَرِّمُوۡنَہٗ، وَیُحِلُّوۡنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ فَتُحِلُّوۡنَہٗ؟ فَقُلۡتُ: بَلیٰ، قَالَ: ’’فَتِلۡکَ عِبَادَتُہُمۡ‘‘ (رواہ احمد والترمذی وحَسَّنہ)

”عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم (طائی) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (سورہ توبہ کی) یہ آیت (۳۱) پڑھتے ہوئے سنا ”انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے” (عدی کہتے ہیں) تو میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: جب وہ خدا کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے تو تم اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور جب وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال کر لیتے ہیں تو تم ان کوحلال نہیں ٹھہراتے؟ میں نے کہا: یہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر یہی تو ان کی عبادت ہے”۔

چنانچہ کسی کو حلال اور حرام کا تعین کرنے کا حق دینا دراصل اس کو خدا بنانا ہے اور اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرنا درحقیقت اس کی عبادت کرنا۔ انسان کا انسان پر خدا بن بیٹھنا دراصل یہی ہے۔ وَلا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضاً أرۡبَاباً مِّنۡ دُوۡنِ اﷲِ (آل عمران:٦٤) یہ وہ دعوت تھی جس کو ازروئے قرآن رسول اللہﷺ اہل کتاب کو دینے پر مامور تھے یعنی ”ہم ایک دوسرے کو اپنا خدا نہ بنا لیں” جبکہ ظاہر ہے اہل کتاب اس انداز سے اپنے بڑوں کی عبادت نہ کرتے تھے جو بادیٔ النظر عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم طائی نے سمجھا (یعنی پوجاپاٹ)۔ انسانوں کے ایک دوسرے پر خدا بن بیٹھنے سے یہاں مراد یہ ہے کہ کوئی انسان دوسرے پر اپنا حکم چلائے اور یہ کہ سب کے سب اطاعت وبندگی کی صورت میں ایک خدائے رب العالمین کی عبادت نہ کریں۔

Share

مادیت پرستی و الحاد – چوتھی تراویح سے ایک اقتباس

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ- آل عمران

لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں۔ بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔

اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا….۔ چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔ گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ حیوان اور انسان سب کے سب مشینیں ہیں جو طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان مشینوں کے پُرزے جس طور سے ترتیب پائے ہیں، اسی قسم کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی اختیار اور کوئی ارادہ نہیں۔
تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ (’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد ۴۔۵، شوال، ذیقعد ۱۳۷۲ھ، جولائی، اگست ۱۹۵۳ء، ص۸۴۔۸۵)

Share

دین صرف اسلام – تیسری تراویح سے ایک اقتباس

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ – آل عمران۱۹

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایت سے انکار کردے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

Share

صبر و نماز سے استعانت – دوسری تراویح سے ایک اقتباس

وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ۔ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ . البقرۃ

صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

یعنی جو شخص خدا کا فرمانبردار نا ہو اور آخرت کا عقیدہ نا رکھتا ہو اس کے لئے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کرسکتا۔ مگر جو برضا و رغبت خدا کے آگے سر اطاعت خم کر چکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے اس کے لئے نماز ادا کرنا نہیں بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے۔  تفہیم القران  جلد اول، صفحہ ۷۴

Share

علم انسانی – پہلی تراویح سے ایک اقتباس

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا۔۔ البقرہ

اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے

انسان کے علم کی صورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے اشیا کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیا پر مشتمل ہیں۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیا کا علم دینا تھا – تفہیم القران جلد اول صفحہ ۶۳

ٹیکسانومی

اونٹالوجی

Share

میدان التحریر بمقابلہ مسجد رابعہ العدویہ

تیس سالہ آمریت کے جبر و استبداد کے بعد سیکیولر و ترقی پسندوں کی جمہوری کامیابی۔ اسلام پسندوں کے پر تشدد مظاہرے اور فوج کا منتخب صدر کو مفاہمت کا الٹی میٹم۔

معاف کیجٗے گا، کچھ الٹا لکھ گیا۔ یہ صورتحال ہوتی تو یقینا ناقابل برداشت ہوتی۔ لیکن اگر چونکہ اسکے برعکس ہے، توپھر ٹھیک ہے۔

 حضور، جب نظام پادشاہی ہو تو آپ ملوکیت و استبداد کا رونا روئیں ، اور جب اسلام پسند مروجہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئیں تو یہ بھی آپکو اچھا نا لگے کہ چِت بھی اپنی، پَٹ بھی  اپنی

خُداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔۔

Share

عشاق کانفرنس

عشاق کانفرنس از محمد طارق طور

مرزا صاحب کے ساتھ صرف علیک ، سلیک ہی کسی کو دکھی اور پریشان حال کرنے کے لئے کافی ہے اور میری بد قسمتی دیکھئے کہ موصوف میرے بے تکلف دوست ہیں. ان کی دوستی کا یہ زہر قاتل میں بچپن سے پی رہا ہوں اور میری سخت جانی دیکھئے کہ ابھی تک زندہ ہوں. اب کیا عرض کروں، بس یوں سمجھئیے کہ مرزا صاحب کی شخصیت  اور عادات مخصوصہ کو الفاظ کی زنجیر پہنانا جوۓ شیر لانے سے تو کم ہی ہوگا. مگر اس خاکسار کے بس کی بات نہیں. اگر ایسا ہو سکتا تو میں کبھی کا مر چکا ہوتا اور طنزو مزاح کی کتابوں کی صف میں ایک شاہکار کا اضافہ ہو چکا ہوتا (آپ جانتے ہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے). ہمارے گھر میں مرزا صاحب کا اکثر آنا جانا رہتا ہے

اور مرزا حضور جب بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں. ہمارا گھر گھر نہیں رہتا مرزا خانہ بن جاتا ہے. مثال کے طور پر نوکروں کے طور طریقے بدل جاتے ہیں انکے چہرے مسخرانہ ہو جاتے ہیں اور غٹرغوں غٹرغوں کرتے پھرتے ہیں.  بلائیں تو غائب!  تلاش بسیار کے بعد اگر کہیں سے برآمد ہو جائیں تو جواب ملتا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس ان کے اشعار اور شکار کی داستانیں سن رہے تھے. بچے اسکول جانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ گھر میں مرزا انکل سے کرکٹ کا میچ طے ہے. ڈرائیور مرزا صاحب کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارتے ہوئے کئی بار حادثات کر چکا ہے. بس ایک ہماری بیگم ہیں جن سے ہم دل کی بات کر سکتے ہیں لیکن مرزا صاحب کے گھر میں دارد ہوتے ہی بیگم ہمیں خانے کو دوڑتی ہیں اور جب تک مرزا صاحب گھر میں براجمان رہتے ہیں ہمارے مرزا خانہ میں توپ خانہ خلا رہتا ہے.

مرزا صاحب جب بھی تشریف لاتے ہیں، اپنے درباریوں اور حواریوں کی ایک فوج کے ساتھہ آتے کم ہیں اور حملہ آور زیادہ ہوتے ہیں، پچھلے ماہ جب مرزا صاحب تشریف لاۓ تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اس مرتبہ کوئی خاص بات ہے کہ اکیلے تشریف لاۓ ہیں. جب گھر میں داخل ہوئے تو چند مہمان بھی ڈرائنگ روم میں براجمان تھے مرزا صاحب میرے کان کے قریب آ کر بولے: یہ لوگ کب جائیں گے ؟ ایک ضروری بات کرنا ہے”

میں نے عرض کیا : فرمائیے! یہ اپنے ہی لوگ ہیں”

تنک کر بولے: تمہیں کبھی عقل نہیں آئیگی بہت ہی ذاتی سامسلہ ہے”. ہماری یہ کانا پھوسی سن کر مہمان شاید تاڑ گۓ کہ اگر مجھے نہیں تو کم از کم مرزا صاحب کو تخلیہ درکار ہے لہٰذا انہوں نے فورا نو دو گیارہ ہونے کی ٹھانی. انہیں خدا حافظ کہنے کو گیٹ کی طرف نکلے تو اپنے ڈرائیور کو سخت پریشانی کے عالم میں پایا او! صاحب جی میں مرزا صاحب کو لیکر آرہا تھا کہ راستے میں گاڑی کھمبے سے لگ گئی”

میں تو بس آہ کر کے رہ گیا، مرزا صاحب کے ساتھہ گاڑی کو بھیجنا کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا.

وہ ڈرائیور کے ساتھہ خوش گپیوں میں ہاتھہ پر ہاتھہ مارنے کے عادی ہیں. ہر بار ڈرائیور کی طرف اپنا ہاتھہ پھیلا دیتے ہیں. اب بے چارہ ڈرائیور ان کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارے گا تو گاڑی کسی اور چیز سے مارے گا. خیر مہمانوں کو رخصت کیا تو میرے بچے اپنے بچپن کی سرحدیں پھلانگتے ہوئے مرزا جی کے گرد جمع ہو گئے کہ انکل آئیے کرکٹ کھیلتے ہیں. میں نے بچوں کو مخاطب کرکے مرزا صاحب کو ڈانتے ہوئے کہا کہ ابھی تو پچھلے “مرزا بینیفٹ میچ کے دوران ٹوٹے ہوئے شیشے اور گملے ہی تبدیل نہیں ہوئے. آج پھر سے توڑ پھوڑ کا عنوان بنتے جا رہے ہیں.”

مرزا صاحب کو جیسے میری حالت پر ترس آ گیا اور کرکٹ کا یہ میچ بن کھیلے ہی ڈرا ہوگیا.

مرزا نے کمرے کے سب دروازے بینڈ کرلئے اور مجھہ سے کہنے لگے یار میں نے اخبار میں کہیں پڑھا ہے کہ ضلع گجرات میں دریاۓ چناب کے کنارے اس ماہ کی چودھویں کو آل پاکستان عشاق کانفرنس منعقد ہو رہی ہے تمام سابقہ اور موجودہ عاشقوں کو شرکت کی دعوت عام ہے

کیا خیال ہے؟”

“کیا مطلب؟

“مطلب یہ کہ میں نے پرگرام بنایا ہے کہ ہم دونوں اس کانفرنس میں حصّہ لیں گے اور بس” “یار مرزا، کچھہ عقل کے ناخن لو! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے”؟

“اس عمر میں یہ لچھن !بچے کیا سوچیں گے اور پھر ہم کون سے عاشق ہیں”؟

“یار کیا کہتے ہو! اعلان کے مطابق سابقہ عشاق حضرات بھی آ سکتے ہیں اور پھر تم ____وہ یونیورسٹی میں _____بچو! اب سارے چکر بھول گئے ہو!”

قصّہ مختصر دو گھنٹے کی بھونڈی بحث کے بعد مرزا مجھے قائل بلکہ مجبور کر چکے تھے کہ ہمیں اس کانفرنس میں شرکت کرنی چاہئیے. فوری طور پر انہوں نے اپنی جیب سے جنتری نکال کر حساب لگایا کہ چاند کی چودھویں کس دن ہے تاکہ مناسب وقت پر رخصت سفر باندھا جا سکے. آل پاکستان عشاق کانفرنس میں پہنچنا ایک علیحدہ داستان بنے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں کیونکہ

ایسا کرنے سے یہ ہلکا پھلکا مضمون ایک سفر نامہ بن جاۓ گا.

کانفرنس میں پہنچے تو کیا سماں تھا. دریا کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے شامیانے لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک پنڈال بنا ہوا تھا. یہ سارا نظام حاجی مولا بخش اینڈ سنز کا تھا. مولا بخش اینڈ سنز کے مالک حاجی مولا بخش ٹینٹ والے بڑے نامور عاشق تھے. اپنے آپ کو شہزادہ سلیم کے خاندان کا چشم وچراغ ظاہر کرتے تھے. اور سنا ہے کہ شروع شروع میں وہ مجنوں کے خاندان سے ہونے کے دعویدار تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مجنوں کی شادی نہ ہو سکی تھی، اس لئے نسل چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا انتظام بھی حاجی صاحب نے ہی کیا ہوا تھا. کانفرنس اگلے دن شروع ہونا تھی لیکن تمام عشاق کس اجتماع ہو چکا تھا.

لاؤڈ اسپیکر پر خواجہ میر درد اور میر تقی میر کی غزلیں سنائی جا رہی تھیں. کبھی کبھی ہیر وارث شاہ اور مرزا صاحباں کا قصّہ بھی سنایا جا رہا تھا. عین اس جگہ جہاں مہینوال نے اپنی ران کو کباب سوہنی کو کھلاۓ تھے وہاں بکرے کی ران کے کباب بھونے جا رہے تھے اور عشاق شوق اور عقیدت سے کھاتے جا رہے تھے. دریا کے اندر تیرا کی میں ماہر چند خواتین گھڑوں پر تیر کر سوہنی کی یاد کو تازہ کر رہی تھیں، انہیں دیکھنے اور داد دینے کے لئے لوگ کنارے پر کھڑے رالیں ٹپکا رہے تھے.

اگلے ہی روز یعنی چاند کی چودھویں تاریخ کو آل پاکستان عشاق کانفرنس کا پہلا اجلاس شروع ہوا. پنڈال پر ایک ہی کرسی رکھی گئی تھی. جو صدر صاحب کے لئے تھے. اجلاس شروع ہوتے ہی اس اجلاس کے صدر صاحب کو پالکی میں بیٹھا کر سٹیج پر لایا گیا. جونہی صدر صاحب باہر نکلے،دو نوجوان عاشقوں نے انہیں اٹھا کر کرسی پر رکھا. صدر کانفرنس کی حالت کافی نازک لگ رہی تھی، بس یوں لگتا تھا جیسے کسی میڈیکل کالج کی کلاس کے سامنے انسانی ڈھانچہ رکھا جاۓ صدارتی کرسی بھی عجیب سی تھی. کرسی کی چاروں ٹانگیں ایک کمان پر لگی ہوئی تھیں. ایسی کرسیاں گھروں میں اکثر بوڑھے لوگ آرام کرنے کیلئے

استعمال کرتے ہیں (انگریزی زبان میں اس کرسی کو روکنگ چیئر) کہتے ہیں کرسی پر بیٹھہ کر جھولتے رہتے ہیں.

صاحب صدر کو کرسی پر رکھا گیا تو کرسی نے آگے پیچھے حرکت کرنا شروع کردی. اسٹیج سیکرٹری نے مائیک پر آکر صاحب صدر سے اجلاس شروع کرنے کی اجازت مانگی جو انہوں نے کرسی کو تھوڑا سا تیز ہلا کر دےدی. سٹیج سیکرٹری نے سب سے پہلے تو صدر صاحب کا تعارف کرانے کی کوشش کی، جس میں انہوں نے کہا کہ صدر صاحب کرسی صدارت کے بارے عاشق ہیں. اور پچھلے بیس سال سے کسی نہ کسی طرح کرسی صدارت پر برا جمان چلے آ رہے ہیں.اب تقریبا مفلوج ہو چکے ہیں، بات نہیں کر سکتے، چلنے پھرنے سے قاصر ہیں. لیکن گو ہاتھہ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے، کہ مصداق ابھی قائم و دائم ہیں. ماشاالله ! اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کرایا، جس میں انہوں نے اپنے آپ کو آل پاکستان عشاق ایسوسی ایشن کا کرتا دھرتا ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنا شجرہ نسب مغلیہ خاندان سے ملاتے ہوئے بہت ڈینگیں ماریں.

اس کے بعد انہوں نے اپنی ایسوسی ایشن کی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کو دعوت تقریر دی.

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین صاحب کافی جوش سے سٹیج پر تشریف لاۓ اور یوں شعلہ بیانی شروع کی.

“عشاق گرامی!” ملک بھر کے عشاق کا اتنا بڑا اجتماع دیکھہ کر میرا کلیجہ دوگنا ہو گیا ہے.

ممجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پاس بھی پاور ہے (پاورمین سے بنتی ہے)میرے لیے ایکشن لینا اب آسان ہو گیا ہے. افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری برادری کے چند لوگ ہمارا خیال نہیں کرتے. اگر وہ ایسا کریں، تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ کوئی مسلہ ہی نہ رہے. اتنے بڑے بڑے لوگ ہماری برادری میں ہیں کہ بس یوں سمجھئیے حکومت ہی اپنی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب ان لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور کہیں کہ اٹھو، اپنی برادری کے نصیبوں کو جگادو”.

عشاق کرام ! پچھلے سال جو کانفرنس تخت ہزارہ کے مقام پر ہی تھی اس میں ایک ورکنگ کمیٹی بنائی گئی تھی. اس کمیٹی کے اس خاکسار سمیت پانچ رکن تھے. ایک رکن نے تو چند دن بعد ہی خودکشی کرلی تھی، دوسرا رکن ٹی بی کے عاشقانہ مرض میں مبتلا ہو کر چل بسا، تیسرا رکن جذبات عشق کی شدت سے لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال میں زیر علاج ہے. چوتھا رکن جو کہ اس ورکنگ کمیٹی کا پروپیگنڈہ سیکرٹری بھی ہے. اپنے محبوبہ کو بھگا لے جانے کے جرم میں قید ہے. لے دے کر یہی خاکسار باقی بچا ہے گویا اس ورکنگ کمیٹی کو آپ ایک رکنی کمیٹی کہ سکتے ہیں. چونکہ اس کا اور کوئی رکن نہیں ہے، اس لئے میں اسکا چئیرمین بھی ہوں پچھلے سال کے اجلاس میں جو قرارداد عشق اکثریت کی عاشقانہ راۓ سے منظور کی گئی تھی، میں وہ دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کر چاہتا ہوں تا کہ ہمیں اس سال کی قرارداد مرتب کرنے میں آسانی رہے.

 

قراداد عشق ١٩٨٣،

آل پاکستان عشاق کانفرنس کا یہ اجلاس مندرجہ ذیل قرارداد بھری اکثریت سے منظور کرتا ہے:

١- ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری یونین کو رجسٹر کیا جاۓ. ہم نے سالہا سال سے آل پاکستان عشاق یونین کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن متعلقہ حکام جن میں سے اکثر خفیہ طور پر ہمارے رکن ہ ہیں. اسے رجسٹرڈ کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں. ان کے خیال میں ایسی یونین رجسٹرڈ کرنے سے قوم کا اخلاق تباہ ہو جاۓگا اور لوگ سرعام عشق وغیرہ کرنے لگیں گے..

 ٢- یہ کانفرنس اسد الله غالب نامی ایک شاعر کے بعض اشعارپر پرزور احتجاج کرتی ہے. ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اس غالب نامی شخص نے اپنے اشعار میں جا بجا چند نامور. 

 عشاق کی شان میں گستاخی کی ہے مثال کے طور پر ایک شعر میں اس نے بادشاہ عشق، شہزادہ محبت و الفت، دیوانہ شیریں، جناب فرہاد ایرانی کی شان پر بہار میں یوں غیرپارلیمانی ریمارکس دیۓ ہیں:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد 

اب آپ خود اندازہ کریں کہ اس عظیم عاشق کی موت کا مذاق اڑانا اگر توہین عشاق نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟ غالب نامی اسی شاعر نے اپنے ایک اور سفر میں ہماری پوری برادری کو گالی دی ہے کہتا ہے”-

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 

اب ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر زیادتی ہے. ہماری دعا ہے کہ یہ شخص اگر زندہ ہے تو ……….اگر اور کچھہ نہ ہوتا ہو تو خدا کرے کہ اس کی محبوبہ کی شادی کسی اور سے ہو جاۓ. 

٣- کانفرنس حکومت سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں حکومت میں نمائندگی دی جاۓ سنٹرل سیکرٹریٹ میں عشاق ڈویزن قائم کی جاۓ  اور قومی اسمبلی میں ہمارا کوٹہ مقرر کیا جاۓ 

٤- اب وقت آگیا کہ عشاق لوگ صحر انوردی کرتے پھریں. اب تو عشاق کو تکمیل عشق کو تکمیل عشق کی خاطر ہوائی جہاز میں سفر کرنا پڑتا ہے. ہمارا مطالبہ ہے کہ پی آئی اے کے کرایے میں ہمیں رعایت دی جاۓ اور ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ عشاق کا کاؤنٹر قائم کیا جاۓ تا کہ مجذوب قسم کے عشاق کو کوئی پریشان نہ ہو.

٥-کہتے دکھ کی بات ہے کہ عشق کی تعلیم کا ہمارے ملک میں کوئی انتقام نہیں. ہم لوگ لیلے مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کے قصّے سنتے تو بڑے شوق اور فخر سے ہیں مگر کسی بھی بڑے عاشق کے حالات زندگی وغیرہ کسی بھی کلاس کے نصاب ،میں شامل نہیں، ہمارا  مطالبہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں مضامین عشق کو شامل کیا جاۓ …… میں ایک شعبہ تعلیمات عشق بھی قائم کیا جاۓ، جس میں رانجھا اکیڈمی، فرہاد آڈیٹوریم، مہینوال ہال وغیرہ کے نام بھی رکھے جائیں.

٦- بعض عشاقان گرامی نے شکایت کی ہے کہ انہیں اپنی لائف انشورنس کروانے میں دشواریوں کا سامنا کرنہ پڑ رہا ہے، کیونکہ بعض انشورنس کمپنیاں عشاق کا بیمہ کرنے سے گریزاں ہیں. ہم ایسی بیمہ کمپنیوں کو آخری نوٹس دیتے ہیں کہ وہ راہ راست پر آجائیں ورنہ ہم اپنی ڈائی ہارڈ اسکواڈ کے عاشق ان کے پیچھے لگا دینگے.

تو معزز حاضرین ! یہ تھی پچھلے سال کی قرارداد نور چونکہ اس قرارداد پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا. اس لئے اس قرارداد کو ہم ایک بار پھر پیش کرتے ہیں اور میں آپ حضرات سے ملتمس ہوں کہ اسے بھری اکثریت سے پاس کریں، شاباش ہاتھہ کھڑے کیجیے، اوپر اور اوپر!

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کی تقریر ختم ہوئی تو صدر مجلس نے اپنی روکنگ چیئر پر جھوم کر انہیں داد تحسین پیش کی. کانفرنس کے باقی شرکاء نے بھی تالیاں بجا کر داد دی. اس کے بعد کانفرنس کے سیکرٹری نے ایک بزرگ عاشق بابا کرم دین طوفانی کو دعوت تقریر دی.

بابا جی مائیک ہاتھہ میں لے کر یوں کانفرنس سے مخاطب ہوئے.

معزز حاضرین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں میرا شعبه موٹیویشن اینڈ ٹریننگ ہے. میں سارا سال لوگوں کو عاشق بننے کی ترغیب دیتا رہتا ہوں اور آج بھی یہی پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آیئے ، عاشق بنئیے.

ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے اکثر خواتین و حضرات یہاں صرف اس لئے تشریف لاۓ ہیں کہ ہماری برادری میں شامل ہو سکیں. مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبھات بھی ہونگے، کی غلط فہمیاں آپ کے ذھن میں ہوں گی. جو آپ کو عاشق بننے سے روکے ہوئے ہیں مثال کے طور پر یہ غلط فہمی گردش عام میں ہے کہ عشق سخت آوارہ، نالائق، اچکے اور بیکار لوگوں کا مشغلہ ہے تو صاحب عرض ہے ک اگر عاشق کئی سال تک  برصغیر پر حکومت کر سکتا ہے (اور حکومت بھی ایک اچھے بھلے ٹہکے کے ساتھہ) تو پھر بھی آپ نے اس من گھڑت افواہ پر یقین کرلیا کہ عشاق بے کار آدمی ہوتے ہیں. آپ نے تاریخ کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا تو سنا تو ضرور ہوگا کہ شاہ جہاں دنیا کے ایک عظیم شہنشاہ گزرے ہیں مگر عشاق برادری میں وہ ایک معمولی قسم کے عاشق کا مقام رکھتے ہیں. گویا عاشقی شہشاہیت سے افضل ہے ہان بھی تو رومیو نے اپنی جولیٹ سے کہا تھا..

میں تخت وتاج کو ٹھکرا کے تم کو پا لونگا

کہ تخت و تاج سے تیری گلی کی خاک بھلی

 

آپ شاید جانتے ہی ہونگے کہ دنیا میں فن سنگ تراشی کا بانی بھی ایک عظیم عاشق تھا. جس کا فن عاشقی کے علاوہ فن سنگ تراشی میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے’ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آگرہ میں عشق و محبت کا مینار تاج محل موجود ہے جس کی شہرت شعبه عشق پر تنقید کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے. اب تو آپ مان گۓ ہوں گے کہ عشاق قطعی طور پر آوارہ اور نالائق قسم کے لوگ نہیں ہوتے ہیں

توعاشقان کرام! میری آپ سب سے بھی التماس ہے کہ آپ گھر گھر پیغام عاشقی پہنچائیں. اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا. خدا حافظ ! “عشاق اتحاد زندہ باد”

باباۓ عشق کی تقریر ختم ہوئی تو مجمع تالیوں سے گونج اٹھا سٹیج سیکرٹری صاحب مائیک پر تشریف لاۓ اور داد طلب انداز سے نعرہ بازی شروع کردی. جس سے بہت شور برپا ہو گیا. ایک غزل سرا تھا تو دوسرا جگنی گا رہا تھا. کسی نے کان پر ہاتھہ دھرا ہوا تھا اور ہیر وارث شاہ گا رہا تھا. پنڈال کے ایک جانب لڈی اور ہے جمالو کی ٹولیوں کی بھنگڑ اور خٹک ناچ گروپ سے مقابلہ آرائی تھی. یہ ہنگامہ کافی دیر تک جاری رہا، اسی دوران صاحب صدر کی روکنگ چئیر کی حرکت روک چکی تھی. بعد میں معلوم ہوا کہ صاحب صدر اس شوروغل اور ہنگامے کو برداشت نہ کر سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے، فوری طور پر تمام ڈاکٹر عشاق کو سٹیج پر بلایا گیا جنہوں نے آتے ہی صاحب صدر کی موت کی تصدیق کردی.

یہ سانحہ کیا ہوا. کانفرنس میں ایک بھگڈر سی مچ گئی، سب نے وہاں سے رفو چکّر ہونا شروع کر دیا کہ جیسے صدر صاحب کے بعد انکی باری ہو ان حالات میں میں اور مرزا بھی وہاں سے واپس ہوئے..

 

خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را

Share