خاکسار کی قسمت کے ستارے چمک اٹھے کہ آج جب ہم خطوط دیکھنےکے لئے ڈاک کا ڈبہ کھولا تو بھارت سے ایک عرس کی دعوت تھی۔ چونکہ عرس کے لغوی معنی شادی کے ہوتے ہیں لحاظہ پہلا گمان تو یہ ہوا کہ آخرکار شعیب اور ثانیہ کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہو ہی گیا، دیر آید درست آید، ‘حیدرآبادی کس طرح اپنے یاراں کو بھول سکتے جی’، سوچ کر ہم نے خط کھولنے کی سعی کی لیکن یہ کچھ مختلف لگا، ارے بھی یہ تو ‘درگاہ شریف اجمیر’ سے “صاحبزادہ سید امین الدین معینی خاص معلم اور گدی نشین آستانہ عالیہ حضور غریب نواز ‘زینت ہاوس اور حاجی محل’ درگاہ اجمیر شریف” کا نامہ تھا۔ کہاں یہ ناچیز اور کہاں محترم گدی نشین صاحبزادہ لمبے نام والے ۔۔۔ یہ تو نایجیریا کے شہزادے کی ای میل کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے جو ہمیں کسی ‘صاحبزادے؛ نے خط لکھا۔ وہ نایجیریا کے شہزادے نے ابھی تک ہمارے اکاونٹ میں پیسے منتقل نہیں کراے مگر ہمیں یقین ہے بہت مصروف ہوگا، جیسے ہی فرصت ملے گی کرا دے گا۔ بہرطور، صاحبزادہ معینی کے خط کو کھولا اور عقیدت سے پڑھنا شروع کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ‘جنتی دروازہ‘ عاشقان کے لئے کھولا جائے گا، ‘اگر آپ یا آپ کے دوست و احباب بھی صحت، رہایش، شادی، اولاد، حمل، نیشنیلٹی، گرین کارڈ، ڈراونگ لائسنس، مقدمات، تجارت، بے روزگاری، بلا و جادو وغیرہ کے مسائل سے پریشان ہوں تو بذات خود شرکت کر کے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔” واہ جناب، یعنی ہم نے خواہ مخواہ ڈرائونگ ٹیسٹ کی تیاری کی تھی ، پہلے پتا ہوتا تو آی این ایس کے بجائے معینی صاحب کو فون ملاتے اور ریکروٹر کے بجاے حضرت کو ریسیومے بھیجتے۔ انہوں نے اپنا بینک اکاونٹ بھی ہمیں ارسال کردیا تھا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔ مزید براں حضرت نے دیگر افراد سے چندہ وصولی کے لئے ایک کوپن بھی ارسال کردیا، آپکی دور اندیشی کی داد دینے کو جی چاھتا ہے۔ گدی نشینی کے لئے اگر کوئی کوالفیکیشن کا امتحان ہوتا تو آپ اس میں نمبر ایک آتے۔ ہم آپ سے یہ پوچھنے والے تھے کہ حضور، اگر گستاخی نہ ہو تو یہ بتائیں کہ ہمارا پتا آپ کے پاس کیسے آیا اور یہ کہ ایک قبر کے مجاور کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی کہ وہ لوگوں کو امریکہ اور برطانیہ خطوط بھیجا کرے لیکن سوچا کہ یہ حد ادب ہوگا اور کہیں حضرت ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن ہم نے ٹھان لئ ہے کہ صدر اوبامہ کو خط لکھیں گے اور یہ خط اس کے ساتھ بھیج کر کہیں گے دیکھیں صدر صاحب، ریسیشن اور کساد بازاری، جنگوں، صحت عامہ کے مسائل سے اب نبرد آزما ہونے کے لیے کوئ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ یہ رہا پتا، چیک ‘اجمیر شریف’ بھیجیں اور مسائل حل! امید ہے کہ وہ ہماری درخواست کو درخور اعتنا سمجھیں گے۔
نیز ‘جنتی دروازے’ پر بھی ہم پریشان تھے کہ پچھلے سال حج کے دوران ہمیں نہ تو مسجدالحرام میں کوئی جنتی دروازہ بتایا گیا نا ہی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ (کہیں معاذاللہ یہ ریاض الجنتہ کا متبادل تو نہیں پیش کیا جا رہا)؟
ہمارے آقا اور مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا
وعن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا، والمسجد الأقصى متفق عليه.
تین مساجد کے علاوہ سفر کے لئے کجاوئے نا کسے جائیں: مسجد الحرام ،یہ مسجد (مسجد النبوی)، مسجد الأقصیٰ .(١)
١۔صحیح بخاری؛ صحیح مسلم
ہمیں تو دن میں کئی دفعہ ایاک نعبد وایاک نستعین کا حکم ہے نیز اقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ
لَا تَجعَلُوا بُيُوتَكُم قُبُورًا ولا تَجعَلُوا قَبرِي عِيدًا وَصَلُّوا على فإن صَلَاتَكُم تَبلُغُنِي حَيثُ كُنتُم
: تُم لوگ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح مت بنانا اور نہ ہی میری قبر کو بار بار آنے والی جگہ بنانا اور میرے لیے رحمت کی دُعا کیا کرو بے شک تُم لوگ کہیں بھی ہو تُمہاری یہ رحمت کے دُعا مجھ تک پہنچتی ہے – سنن ابو داؤد /کتاب المناسک کی آخری حدیث ،
: تُم لوگ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح مت بنانا اور نہ ہی میری قبر کو بار بار آنے والی جگہ بنانا اور میرے لیے رحمت کی دُعا کیا کرو بے شک تُم لوگ کہیں بھی ہو تُمہاری یہ رحمت کے دُعا مجھ تک پہنچتی ہے – سنن ابو داؤد /کتاب المناسک کی آخری حدیث ،
جناب نے انڈیا سےامریکہ تک خط بھیجنے کا قصد کیا تو ہم نے سوچا کہ کوئی دعوت و ارشاد کی اہم بات تو ہوگی لیکن اس دعوت نامے میں تو کچھ ایسا نظر نہیں آیا، شرک و بدعت کا خزینہ ہے بہرحال۔ آپ پڑھنے والے زرا روشنی ڈالیں کہ یہ کیا ماجرا ہے، ہم تو بڑے تذبذب کا شکار ہیں۔
یہ پڑھنے کے بعد سوائے اس امت مرحوم کا نوحہ پڑھنے کے اور کیا کرنے کا جی چاہے گا۔
ان فضولیات نے ہی ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو دین سے بدظن کیا ہے۔ ان کے سامنے جب بھی مذہب کا نام لیا جاتا ہے تو وہ انہی حرکتوں کی جانب اشارہ کر کے اسلام کو زد پر رکھتے ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب “تجدید و احیائے دین” پڑھنے کی کتاب میں ہے اس میں مسلمانوں کی ان حرکتوں پر بہت زبردست ضربیں لگائی گئی ہیں۔
Comment by ابوشامل — April 15, 2010 @ 12:57 am
تجدید و احیائے دین آپ درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ بھی کر سکتے ہیں اور آن لائن پڑھ بھی سکتے ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو اس کا ٹائپ شدہ مسودہ بھی آپ کو ارسال کیا جا سکتا ہے:
http://www.scribd.com/doc/9296682/Tajeed-o-Ahyay-e-Deen
Comment by ابوشامل — April 15, 2010 @ 12:59 am
آپ کی بلاگ رول میں ناچیز کے بلاگ کا پتہ نہ پا کر شدید قلق ہوا
Comment by قدیر احمد — April 15, 2010 @ 5:18 am
اب موجود ہے جناب، تاخیر کی معذرت
Comment by ابو عزام — April 18, 2010 @ 9:57 am
کیا ہی حسن اتفاق ہے کہ بالکل ایسا ہی نامہ بلکہ ہوبہو یہی ہمیں بھی موصول ہوا ہے اور اب بات یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان کے پاس نام معہ ایڈریس کس ذریعے سے پہنچے ہیں؟
سب سے مزیدار نسخہ تو وہ تھا جس میں ڈرائیونگ لائسنس کے لیے بھی بابا کی کرامات سے مستفید ہونے کی تحریک دی گئی تھی۔۔
Comment by راشد کامران — April 15, 2010 @ 3:40 pm
اسپیم بابا کی کرامات ہیں سب – ہم تو معتقد ہو چلے ہیں
Comment by ابو عزام — April 15, 2010 @ 4:26 pm
وہ جی ہم برصغیر والوں کے خون میں جو بت پرستی ہے
وہ جاتے جاتے ہی جائے گی۔۔
Comment by Jafar — April 16, 2010 @ 10:36 pm
ہیں۔۔۔۔عرس کے معنی شادی کے ہوتے ہیں؟
تو کیا یہ ہزاروں لوگ جو عرس پہ جاتے ہیں وہ قبر میں دفن اس مرے ہوے بندے کی شادی کے فنکشن میں شرکت کر رہے ہوتے ہیں؟ یہ تو بہت دلچسپ بات ہوئی۔
Comment by احمد عرفان شفقت — May 19, 2010 @ 9:35 pm
شکر ہے میں لیٹ نہیں ہوا
میرا تو ڈرائیونگ لائسنس کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے
میرے تو چھ بلیک پوائنٹ لگ گئے
Comment by ڈفر - DuFFeR — May 29, 2010 @ 11:47 am
[…] کا حجم و وزن خاصہ تھا لہذا گمان غالب تھا کہ یہ گدی نشینوں کا خط تو نہیں ہو سکتا الا یہ کہ انہوں نے صاحب قبر کی نشانی ایک […]
Pingback by ایک پراسرار کتاب کی آمد » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری — August 4, 2012 @ 2:39 pm