کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔
دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔
محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔
محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔
نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔
بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،
it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”
اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔
دماغ كى خرابى و لفّاظى
Comment by شبانه — January 14, 2012 @ 4:43 am
بہت ہی عمدہ کتاب ہے۔ دلچسپ انداز بیان۔ ایک پرواز پر پڑھنے کے لیے خریدی تھی۔ ایک دن پہلے گھر پر پڑھنی شروع کی تو بس ختم ہو کئ۔ پتا بھی نہ چلا۔ اس سے پہلے شہاب نامہ کے ساتھ ایسا ہوا تھا۔
Comment by Anonymous — January 15, 2012 @ 9:21 am
تبصرے کا بہت شکریہ۔ شہاب نامہ لیکن میں بوجہ کوشش کے ابھی تک مکمل ختم نہیں کرسکا ہوں، اس مرتبہ ارادہ ہے۔
Comment by ابو عزام — January 16, 2012 @ 8:18 am
تبصرے کا شکریہ۔ اگر اس بارے میں مزید تفصیلات میسر ہو سکتیں تو بہتری کی کچھ صورت شائد بن سکتی۔
Comment by عدنان مسعود — January 16, 2012 @ 7:44 am
[…] خوبی نثر کی تعریف نا کرنا ایک بڑی ادبی ناانصافی ہوگی۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کے بعد انکا تازہ ناول آور لیڈی آف ایلس بھٹی کل ہی ختم […]
Pingback by آور لیڈی آف ایلس بھٹی از محمد حنیف » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری — March 22, 2012 @ 12:02 am
السلام علیکم جناب
آج میں نے بھی اس ناول پہ تبصرہ لکھا۔ اسی دوران گوگل پہ سرچ کیا تو آپ کا تبصرہ بھی دکھائی دیا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ نے بہت شاندار تبصرہ لکھا ہے۔ اندازِ بیاں بہت ہی خوب ہے اور ناول کے جن نکات کو آپ نے بیان کیا ہے، اس کا کیا ہی کہنا۔
میں نے تو بس سادہ سا ہی ریویو لکھا تھا ایک فورم کے لئے۔ درج ذیل لنک پہ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
http://yazghil.blogspot.com/2014/04/blog-post.html
Comment by آوارہ فکر — April 3, 2014 @ 3:41 pm