خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟
ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص
پیش لفظ
میں نے یہ مختصر کتاب اس اُمید کے ساتھ تحریر کی ہے کہ یہ قارئین کو خدا اور سائنس سے متعلق بحث کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تکنیکی اُمورسے صرفِ نظر کرتے ہوئے دلیل تک محدود رہوں۔ میں سمجھتا ہوں ہم میں سے جنہوں نے ریاضی اور فطری سائنسز میں تعلیم حاصل کررکھی ہے اُن کی ذمہ داری ہے کہ سائنس کی عمومی تفہیم بیان کریں۔ خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے کہ سائنسدانوں کا ہر بیان سائنسی حقیقت نہیں ہوتی ہے اس لیے وہ معتبر سائنس پر سند نہیں بن جاتے اگرچہ وہ سند اکثر غلط طوراُن سے منسوب کی جاتی ہے۔ بے شک اس کا اطلاق اتنا ہی مجھ پر بھی ہوتا ہے جتنا کسی اور پر ہوتا ہے‘ اس لیے میری قارئین سے گزارش ہے کہ میری ہر دلیل کی بغور جانچ پڑتال کریں۔ میں ایک ریاضی دان ہوں اور یہ کتاب ریاضی کے بارے میں نہیں ہے پس کسی بھی ریاضیاتی نتیجے کا درست ہونا جس کو میں نے ثابت کیا ہو اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ میں نے کہیں اورجو کچھ کہا ہے وہ بھی درست ہوگا۔ تاہم مجھے اپنے قارئین کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ کسی بھی دلیل کا اس کے خلاصے تک تعاقب کریں گے۔ لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا فیصلہ میرے قارئین کریں گے۔
تعارف
خدا ان دِنوں موضوع بحث ہے‘ ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے سائنسدانوں نے ان عنوانات کے تحت ایک کے بعد دوسری کتاب لکھی کی ہے، جیسے فرانسزکولنز کی’’خداکی زبان‘‘ رچرڈ ڈاؤکنز کی ’’خدا کا فریب‘‘ ، وکٹر اسٹینجرکی ’’خدا: ناکام مفروضہ‘‘، رابرٹ ونسٹن کی ’’خدا کی کہانی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ان میں سے بعض کتابوں نے ’’بیسٹ سیلرز‘‘ کا درجہ پایا ہے کیوں کہ لوگ یقیناًیہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنسدان کیا کہہ رہے ہیں۔ اور یہ حیران کن نہیں ہے کہ کیونکہ ہمارے بناوٹی جدید دنیا میں سائنس زبردست ثقافتی اور دانشورانہ اختیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کی تخلیقات کی غیر معمولی کامیابی ہے جن سے ہم سب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس کی اور بڑی وجہ اس کی متاثرکن صلاحیت ہے جس نے ہمیں عجائباتِ عالم کی عمیق بصیرت عطا کی ہے جس کا ابلاغ ٹیلی وژن کی خوبصورت ڈاکیومنٹریوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
بہت سارے لوگ جو بخوبی آگاہ ہیں کہ سائنس کی فراہم کردہ مادی ترقی ان کی گہری انسانی ضروریات کوپورا نہیں کرسکتی ، اب سائنسدانوں کی طرف متوجہ ہوکر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اُن کے وجود سے جُڑے بڑے سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ہمارا مقصدِ زندگی کیا ہے؟ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیا صرف یہی کائنات ہے جس کا وجود ہے یا پھر اس سے آگے بھی کچھ ہے؟
اور یہ سوالات لامحالہ ہمیں خدا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پس ہم کروڑوں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنس خدا کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ مذکورہ بالا ’بیسٹ سیلرز‘ کتابوں میں سے بعض دہریوں کی تصنیف کردہ ہیں۔ لیکن یہ اہم بات ہے کہ یہ تمام دہریوں کی تصنیف نہیں ہیں۔ پس درحقیقت یہ ایک بہت ہی بچگانہ حرکت ہوگی ہے کہ اس بحث کوسائنس اور مذہب کے درمیان تصادم قرار دے کر قلم زد کردیا جائے۔
اس تصورِ ’’مخالفت‘‘ کو بہت پہلے ہی غیرمعتبر قرار دیا جاچکا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری فہرست میں موجود پہلے مصنف ، فرانسز کولنز کو ہی لے لیجیے جو امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر اور ہومین جینوم( لونیت)پروجیکٹ کے سابق سربراہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کے سربراہ کے طور پر ان کا پیشرو جم واٹسن کو(فرانسز کریک کے ساتھ مشترکہ طور پر) ڈی این اے کے دو مخنی ساخت کی دریافت پر نوبل انعام سے نواز جاچکا ہے۔کولنز ایک عیسائی جبکہ واٹس ایک دہریہ ہیں۔ یہ دونوں اعلیٰ پایے کے سائنسدان ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دراصل یہ ان کی سائنس نہیں تھی بلکہ دنیا کے بارے میں اُن کا تصور تھا جس نے ان کو تقسیم کیا۔ اگرچہ یہ ایک حقیقی تنازعہ ہے لیکن یہ سائنس بمقابلہ مذہب نہیں ہے۔ یہ خداپرستی اور الحاد کے درمیان ہے اور سائنس دان دونوں طرف ہیں۔ اور یہی چیز اس بحث کو مزید دلچسپ بناتی ہے کیوں کہ ہم ایک حقیقی سوال پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔کیا سائنس خدا کی طرف اشارہ کرتی ہے‘ اس سے دور لے کر جاتی ہے یا یہ خدا کے مسئلہ میں غیرجانبدار ہے؟
یہ چیز بالکل واضح ہے۔ خدا کی ذات میں دلچسپی میں یہ غیرمعمولی اضافہ دراصل سیکولرائزیشن کے نام نہاد مفروضہ کو چیلنج کرتا ہے جس نے ’روشن خیالی‘ کے بعد بہت جلدبازی میں یہ قیاس کرلیا کہ مذہب بالآخر تنرلی کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا ،یا پھر کم از کم یورپ سے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ درحقیقت، یہ بعینہ سیکولرائزیشن کی متصور ناکامی ہے جو خدا کے سوال کو ایجنڈے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
’خد ا کی واپسی‘(God is Back) کے مصنفین اکانومسٹ کے ممتاز صحافیوں جان میکلتھ ویٹ اور اڈریان ولڈریگ کے مطابق مذہب صرف ناخواندہ لوگوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں بعینہ وہ بڑھتا ہوا متحرک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اب عقیدہ کی اس گاڑی کو چلارہا ہے جس کے متعلق مارکس اور ویبر نے یہ قیاس کرلیا تھا کہ وہ اس طرح کے توہمات کو ختم کردے گا۔ یہ خاص پیش رفت قابل فہم طور پر سیکولر طبقہ ، خاص طور پر ان میں موجود دہریوں کو غضب ناک کرنے کا سبب بنا ہے۔
یہ احتجاج یورپ میں زیادہ شدید ہے شاید اس لیے کہ دہریوں کے خیال میں یورپ وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے زیادہ کچھ کھویا ہے۔وہ غالباً درست سمجھتے ہیں‘اور ایسی علامات ہیں جن کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ یورپ میں پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاؤکنز ،جو اب تک ایک جتھے کے رہنما ہیں کا احتجاج بڑھتا ہواتیز سے کرخت کے درجے میں داخل ہوچکا ہے کیوں کہ اس کی دلیل کی منطق شکستگی سے دوچار ہوچکی ہے ‘ کم از کم یہ دکھائی دیتا ہے،حتیٰ کہ اس کے بہت سارے ساتھی دہریوں نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ وہ اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کے لیے مریدوں کی بھرتی کے ذریعے ’’عوامی شعوری سطح بڑھانے‘‘ کے لیے پرعزم ہیں کہ صرف دہریت ہی دنیا میں قابل احترام دانشورانہ نقطہ نظر ہے۔
اس کی مہم بسوں پر پوسٹرز چپکانے اور بچوں کے لیے موسم گرما کے دہریت کیمپوں کے انعقاد تک جا پہنچی ہے۔ اور یقیناًگریبانی کوٹ پر سرخ رنگ کے بڑے بیجز جن پر دہریوں کے لیے اے رقم تھا وہ بھی بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ مہارت و ذہانت سے ڈیزائن کی گئیں ٹی شرٹس بھی اس کی تیارکردہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی اِس مہم سے اُس کا کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن اسی مہم کے دوران دہریوں کے کورس میں اسٹفین ہاکنگ کی طاقت ور سائنسی آواز کا اضافہ ہوا۔ اور دنیا ان ہیڈلائنز سے بھرگئی کہ ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ کائنات خدا کی تخلیق نہیں ہے‘‘، ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ فزکس نے خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے‘‘ اور یہی باتیں مختلف تغیرات کے ساتھ پیش ہورہی تھیں۔
ان ہیڈلائنز میں ہاکنگ کی نئی تصنیف ’’گرانڈ ڈیزائن‘‘کا حوالہ دیا جارہا تھا جو اس کی لیونارڈ لوڈینو کے ساتھ مشترکہ تحریر تھی۔ یہ کتاب بہت جلد ’بیسٹ سیلز‘ کی فہرست میں سب سے اوپر چلی گئی۔ ہاکنگ کے قد کاٹھ کی دانشورانہ شخصیت کی طرف سے دہریت کے عوامی اعتراف نے اس بحث پر فوری اثر ڈالا۔ یہ بحث بہت ساری کتابوں کی فروخت کا سبب بھی بنی۔
ہمیں کیا سوچنا ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر؟کیا بحث کے لیے مزید کچھ باقی نہیں بچا؟ کیا تمام علمائے مذہب کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے؟کیا چرچ کے تمام کارکنوں کو اپنی ٹوپیاں لٹکا کر گھروں کو روانہ ہونا چاہیے؟ کیا فزکس کے عظیم ماسٹر نے کائنات کے عظیم مصور کو شہ مات دے دی؟
خدا کو چلتا کرنے کا دعویٰ یقیناًمبالغہ آرائی تھی۔ آخر کار ماضی کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت خدا پر یقین رکھتی تھی۔ اور بہت سارے اب بھی رکھتے ہیں۔ کیاگلیلیو، پلر، نیوٹن اور میکس وِل خدا کے معاملے میں غلطی پر تھے؟
جب اتنا کچھ خطرے میں ہو تو ہمیں یقیناًہاکنگ سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت پیش کریں۔کیا اس کے دلائل کی چانچ پڑتال نہیں ہونی چاہیے؟ میرے خیال میں ہمیں جاننے کا حق ہے۔
لیکن ہم اُس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک ہم اس کو دیکھ نہ لیں۔
پس آئیے ہم یہی کرتے ہیں۔
جاری ہے۔
بہت خوب !
Comment by کاشف — February 1, 2013 @ 4:48 am
اگلی اقساط کا انتظار رہے گا
Comment by سعید — February 2, 2013 @ 10:36 pm
[…] گذشتہ سے پیوستہ۔ ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص […]
Pingback by باب اول: بڑے سوالات – خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟ » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگرد — March 26, 2013 @ 6:46 pm