کہا جاتا ہے کہ محسن کا کوروی نے جب اپنا مشہور نعتیہ قصیدہ”سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل” لکھا توامیر مینائی کو خواب میں زیارت رسولّ نصیب ہوئی انہوں نے دیکھا کہ سرکار دوعالمّ نے اس قصیدے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.جب محسن کا کوروی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھالی کہ اب صرف مدح رسولّ ہی میں ساری صلاحتیں صرف کرینگے.انہوں نے عام گفتگو بھی کم کردی بس ہر وقت درود پڑھا کرتے اگر فکرشعر کرتے تو صرف نعت لکھتے.اسی سے متاثر ہو کر حضرت امیر مینائی نے پورا ایک دیوان ہی مدح رسولّ میں مرتب کر ڈالا.ان سے پہلے نعتیہ دیوان کی روایت اردو میں نظر نہیں آتی ہے حالانکہ عربی و فارسی میں متعدد نعتیہ دوا دین موجود ہیں.اسی دیوان امیر میں وہ مشہور نعت بھی شامل ہے جس کا ایک شعر مرحوم ناصر جہاں کی مترنم آواز میں بہت مقبول ہے.
جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں
حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں
عشق رسولّ کا اثر الله کے شکر سے ہمارے خانوادےپر بہت رہا.محسن کے صاحبزادے نورالحسن نیرکا کوروی نے بھی وکالت چھوڑ کر لکھنے پڑھنے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ان کے سگے اور واحد بھانجے یعنی راقم کے دادا امیر احمد علوی نے بھی ڈپٹی کلکٹر چھوڑ کر قبل ازوقت وظیفہ لے لیا اور کاکوری میں گوشہ نشین ہو گئے.بقیہ زندگی لگ بھگ بائیس برس،تصنیف و تالیف میں صرف کردی.انکا ذکر یہاں یوں ضروری ہے کے انہوں نے بعض شعراء، انیس ، رند اور مظفر پر بڑامجتہدانہ کم کیااور جہاں تک مجھےعلم ہے امیر مینائی پر پہلی باقاعدہ اور مبسوط کتاب”طرہ امیر “کے نام سے تصنیف فرمائی.اس کتاب میں امیر مینائی کے محاسن شعری اور فنی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر مینائی کے بارے میں جو مصدقہ باتیں تذکروں میں پائی جاتی ہیں انکی بنیاد “طرہ امیر “کے مندرجات پر ہی ہے اس کے علاوہ حضرت امیر مینائی پر مصدقہ معلومات منشی فداعلی عیش کی تحریروں سے حاصل ہوتی ہیں.
منشی فدا علی عیش حضرت امیر مینائی کے ہم عصر اور شناسا تھے ان کا تزکرہ ١٨٦٩ء میں شائع ہوا اس کا نام منشی صاحب نے “مجموعہ داسوخت”رکھا تھا لیکن بعد میں یہ “شعلہ جوالہ” کے نام سے زیادہ مشہور ہوا.اس کی پہلی جلد حضرت امیر مینائی کے نام سے ہی شروع ہوتی ہے.ان دو کتابوں کی موجودگی میں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی تاریخ پیدائش میں کئی جگہ فرق پایا گیا ہے.امیر کے معاصر داغ ،جلال ،تسلیم اور رند تھے ان سب کی زندگی ہی میں امیر مینائی کی تاریخ پیدائش ٢١ فروری ١٨٢٩ء مان لی گئی تھی لیکن پھر بھی بعض حضرات نے سال پیدائش ١٨٢٨ء لکھا ہے امیر احمد علوی کی تحقیق کی روشنی میں فرمان فتح پوری نے بھی قطعیت کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ انتقال کے وقت حضرت امیر مینائی کی عمر ٧١ برس تھی جن حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے انہوں نے ہجری سال کو انگریزی تقویم کے مطابق بنانے میں قدرے تساہلی سے کام لیا ہے.
امیر مینائی نے خود بھی لکھا ہے کہ ان کا سال پیدائش ١٢٢٤ ہجری تھا.انہوں نے اپنے حالات اپنے بڑے بھائی طالب حسین مینائی کی تصنیف “آئینہ ایمان” کے دیپاچے میں تحریر کیے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ١٦٧٤ ہجری میں رام پور میں مفتی عدالت کا عہدہ قبول کرنے سے پہلے وہ تلاش روزگار میں کانپور اور ہمیرپور میں بھی رہے تھے.”طرہ امیر” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی ایک مختصر سوانح حیات ان کی زندگی ہی میں ان کے ایک شاگرد ممتاز علی آہ نے شائع کی تھی اور ایک شاگرد احسن الله خاں ثاقب نے ان کے خطوط کا مجموعہ بھی شائع کرایا جو مکاتیب امیر مینائی کے نام سے منظرعام پرآیا.اصل میں یہ مجموعہ پہلے خطوط امیر احمد کے نام سے ١٩١٠ء میں چھپا تھا بعد میں اسکا دوسرا ایڈیشن ١٩٢٤ء میں مکاتیب امیر احمد مینائی کے نام سے نکلا.
امیر مینائی کی شاعری اور ان کے مقبول عام اشعار کی ستائش میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کی نثر پر کام نسبتاً بہت کم ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کہیں امیر مینائی کا ذکر چھڑتا ہے تو گفتگو ان کے نعتیہ کلام یا ان کی نامکمّل امیراللغات پر ہونے لگتی ہے انکی دوسری بہت اہم اور پراز معلومات نثری تصانیف نغمہ قدسی، شرح ہدایت السلطان ، سرمۂبصیرت، بہارہند، خیابان آفرینش ،محاورات مصادر اردو وغیرہ سے نہ تو زیادہ ترادب دوست حضراتواقف ہیں اور نہ انکی نثری تصانیف پر توجہ ہی کرتے ہیں حالانکہ نثری تصانیف میں حضرت امیر نے جو تذکرہ یادگار چھوڑا ہے اسکے ذکر کے بغیر امیر مینائی کی ہمہ جہت شخصیت کا بہت ہی اہم پہلو پردۂاخفا میں ہی رہ جاتا ہے.
انتخاب یادگار کی وجہ تالیف امیر مینائی نے یہ لکھی ہے کہ “ایک دیں نواب یوسف علی خاں وائی رام پور کو یہ خیال آیا کہ ایک تزکرہ شعرائے ماضی و حال کا ایسا ہو کے اس سے خاص وائی ریاست کے متوطن و متوسل شاعروں کی مختصر کیفیت سخن گوئی کی حقیقت نقش صفحہ روزگار ہوں “اس بڑے میں واقف کار حضرات کا کہنا ہے کے چونکہ یہ تزکرہ امیر مینائی نے نواب کی فرمائش پر لکھا تھا اس لیے مؤلف کو آزادانہ اظہار خیال کا موقع نہ مل سکا کیونکہ بہت سے معمولی شعراء رام پور کے حالات بھی نواب کی سفارش پر امیر نے اس میں شامل کیے.پہلے شعراء کی تعداد ٤٧ تھی بعد میں یہ بڑھ کر ساڑھے پانچ سو کے قریب ہو گئی.
لطیفہ یہ ہے کہ اس “بھرتی “کے باوجود راز یزدانی رام پوری نے “انتخاب یادگار “پر یہ اعتراض کیا ہے کے حضرت امیر مینائی نے شعرائے رام پور کے ساتھ انصاف نہیں کیا.ان کا کہنا ہے کہ دہلوی دبستان سے متاثر شاعروں کو بھی اہمیت نہیں دی گئی.صرف لکھنؤ کےشعراءکو دل کھول کر داد دی گئی ہے.اس اعتراض کے جواب میں نیاز فتح پوری نے نگار کے ایک مخصوص شمارے میں لکھا ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ تذکرے کی ترتیب و اشاعت میں قدم قدم پر نواب دخل اندازی کر رہے تھے اور معمولی معمولی شاعروں کے نام شامل کرا رہے تھے.شعرائے لکھنؤ کو جھنڈے پر چڑھانے کا دعویٰ قطعی غلط ہے.بہر حال یہ تزکرہ ١٨٨٠ء میں پہلی بار شائع ہوا لیکن اسکی اشاعت میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکرامیرمینائی نے اپنے شاگرد اسد اللہ خاں کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے.
“میں اپنی تالیف کو اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کے ہدیہ احباب کروں علی الخصوص یہ تزکرہ جس میں مجھ کو حالات تاریخی اور انتخاب اشعار میں ایسی مداخلت ہے جیسے قلم کا دست کاتب میں.” ” فقیر امیر ٢٩ نومبر ١٨٨١ء”
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں.
“بندہ پرور اس تذکرے میں اگر کچھ محاسنہوں تو اہل ہنر جانیں اور جو اس میں بہ مجبوری قبائح ہیں قرار واقعی ان کو میرا دل جانتا ہے.مگر کیا کروں.مامور تھا ،مجبور تھا.اس کا اشارہ ہے آپ غور سے پڑھیے گا تو سمجھ جائیےگا کہ مؤلف مجبور تھا.”
اس معاملے میں اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ریاست رام پور کے حالات یا وہاں کے شب و روز کے بارے میں بلا کم و کاست کچھ لکھنے کی آزادی تو امیر کو نہ تھی مگر شعراءکے ذکر اور انکے کلام پر تبصرے انہوں نے پوری آزادی سے کیے ہیں یے ضرور ہے کے بہت سے غیر ضروری نام انہیں محض نواب کی سفارش پر تذکره میں شامل کرنا پڑے پھر بھی ان شعراءکے فن اور کلام کے حسن و قبتح پر تبصرے کی آزادی امیر مینائی کو بہر حال حاصل تھی.
جاری ہے
بہت معلوماتی مضمون ہے۔ بہت شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔
Comment by محمد وارث — February 5, 2012 @ 11:07 pm
وارث صاحب، تبصرے کا شکریہ، قیصر تمکین صاحب واقعی بڑے مضمون نگار تھے لیکن ان کی جدید ادبی دنیا میں ناقدری دیکھ کر اردو کا آخری قاری نامی مضمون یاد آجاتا ہے۔
Comment by ابو عزام — February 7, 2012 @ 6:12 am