فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 12, 2023

امریکی فٹبال – ایک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:09 am

سوپر بال کی آمد آمد ہے مگر ہم دیسیوں کے لیے امریکی فٹبال ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ پہلا سوال  تو یہ کہ اسے فٹبال کہا ہی کیوں جاتا ہے جبکہ کھلاڑی  بیضوی شکل کی انڈا نما بال ہاتھ میں اٹھائے اٹھائے پھرتے ہوں،  ہیں، بعض لوگ اسے رگبی کہنے پر مصر ہوتے ہیں اور باقی احباب  پلے آف، ٹچ ڈاؤن، انٹرسیپشن وغیرہ کی اصطلاحات سے ایسے پریشان ہوتے ہیں کہ کھیل ہی سے جی ہی اوب جاتا ہے- لہذا اس لئے اس سال راقم نے عام فہم انداز میں اس  دلچسپ اور تفریحی کھیل کو سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، امید ہے   کہ فائدہ  ہوگا۔

آسان الفاظ میں کہا جائے تو امریکی فٹ بال ایک ایسا کھیل ہے جو میدان میں ۱۱ کھلاڑیوں کی دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کا بنیادی مقصد گیند کو دوسری ٹیم کے اینڈ زون  یا آخری حصے میں میں لے جا کر یا پھینک کر یا   کیچ پکڑ  کر   پوائنٹس حاصل کرنا  ہوتا ہے۔اسکے علاوہ گول پوسٹ کے ذریعے گیند کو کِک کرکے بھی پوائنٹس حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ گیم درحقیقت میدان پر قبضے کی جنگ ہے، بال کو ہر یارڈ یا  گز  آگے بڑھانا ایک چھوٹی سی جیت  ۔ امریکی فٹبال کا یہ  کھیل درحقیقت رگبی اور فٹبال کی بگڑی ہوئی شکل ہے ، فٹبال وہ جسے باقی دنیا فٹبال  اور امریکی ساکر کہتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے اس کھیل کے پندرہ منٹ کے چار حصے یا کوارٹرز  ہوتے ہیں  لیکن مختلف  وقفوں کی وجہ سے یہ کھیل عموما تین گھنٹے میں ختم ہوتا ہے۔ فٹبال کے برعکس، امریکی فٹبال میں ہر ٹیم باری باری کھیل کر اسکور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

امریکی فٹ بال کا میدان ۱۰۰ گز لمبا  ہوتا ہے، اس میں دو اینڈ زونز  یعنی گول کے حصے شامل  نہیں ہوتے جو دس دس گز کے ہوتے ہیں لہذا ان کو ملانے کے بعد اس میدان کی مکمل لمبائی ۱۲۰ گز بنتی ہے۔ اس سو گز کے میدان کو دونوں ٹیموں کے درمیان ۵۰ – ۵۰ گز کے دو حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے ۔جارح ٹیم کے ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ گیند کسی طرح فریق مخالف کے اینڈ زون میں پہنچا دے۔ جبکہ دفاعی ٹیم اسے روکنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے۔ اسی لئے آپ امریکی فٹبال میں خوب مار دھاڑ  دیکھتے ہیں۔اپنے تمام تر  جوش  اور کشش کے باوجو امریکی فٹبال ایک خطرناک  کھیل ہے جس میں چوٹیں لگنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے خصوصا مستقل ٹکراو کی وجہ سے دماغی  چوٹ  کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ 


By AJ Guel – originally posted to Flickr as Fumble, CC BY 2.0, 

اکثر  لوگوں کے لئے امریکی فٹبال کے اسکور کو سمجھنا خاصہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اسکے اصول و ضوابط فٹبال سے مختلف ہیں، تو اس کو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی فٹبال میں  جو ٹیم اسکور کرنے  یعنی پوائنٹس بنانے کی کوشش کررہی ہوتی ہے اسے آفینسف یا جارح ٹیم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح  دفاع کرنے والی  یا جارح  ٹیم کو گول کرنے سے روکنے کی کوشش کرنے والی ٹیم کو ڈیفینس یعنی دفاعی ٹیم کہا جاتا ہے۔ جارحانہ ٹیم کے کھلاڑی گیند  کو اٹھا کر دوڑتے ہیں ، یا  پھر اپنے ٹیم کے ساتھی کی طرف پھینک کر اس گیند کو  میدان میں آگے سے آگے  بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی طرح اینڈ زون  یا آخری حصے میں میں لے کر جا سکیں ۔  دفاعی ٹیم کا کام اس پیشقدمی کو روکنا اور گیند کو اپنے قبضے میں لینا ہوتا ہے۔فٹبال کے برعکس امریکی فٹبال کے کھیل میں  صرف بال کو آخری حصے میں پھینک دینے سے پوائنٹ نہیں ملتے، پوائینٹ صرف اس وقت ملتے ہیں جب کہ اینڈ زون میں موجود آپکی ٹیم کا کوئی کھلاڑی اسے کیچ کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھیں کہ فٹ بال میں، گیند کو مخالف ٹیم کے جال میں پہنچا کر گول کیا جاتا ہےلیکن امریکی فٹ بال میں، ٹچ ڈاؤن گیند کو مخالف کے اینڈ زون  یعنی آخری حصے میں ہاتھ میں پکڑ کر لے جا کر ، یا  پھر اینڈ زون میں پھینک کر اپنے کسی ساتھی کو کیچ کروانے سے اسکور کیا جاتا ہے۔ ٹچ ڈاؤن کرنے سے چھ پوائنٹس ملتے ہیں۔ لیکن فرض کریں کہ آپ نے  بال اپنے ساتھی کی طرف پھینکی جو اینڈ زون کے قریب آپکے بال پھینکے کا منتظر کھڑا ہو، لیکن اس کیچ سے پہلے دوسری ٹیم کے کسی  کھلاڑی نے مداخلت کر کر بال پکڑ لی، چاہے وہ اینڈ زون میں ہی کیوں نا ہو، یا بال پکڑنے سے پہلے گر گئی اور کیچ مکمل نہیں ہوا تو دونوں صورتوں میں آپکی ٹیم کو کوئی پوائینٹ نہیں ملے گا۔

اب جب کہ آپ کو بنیادی کھیل کا طریقہ پتا چل چکا ہے، اب آپکو کھیل کی کچھ بنیادی اصطلاحات سے روشناس کرواتے ہیں۔ ڈاون امریکی فٹ بال میں کھیل کی اکائی ہے، آپ اسے ایک اوور سمجھ سکتے ہیں۔ امریکی فٹبال کے کھیل میں جارح ٹیم کو گیند کو دوسری ٹیم کے آخری زون کی طرف 10 گز آگے بڑھانے کے چار چانسز ملتے ہیں جنہیں ڈاون کہا جاتا ہے۔اگر جارح ٹیم چار ڈاؤن یعنی چار باریوں کے بعد بھی گیند کو 10 گز آگے بڑھانے میں ناکام رہتی ہے  تو بال دوسری ٹیم کو دے دی جاتی ہے  ۔ لیکن اگر جارح ٹیم گیند کو 10 گز آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے،جسے فرسٹ ڈاون کہا جاتا ہے، تو وہ گیند کو مزید 10 گز آگے بڑھانے کی کوشش کرنے کے لیے مزید چار باریاں یعنی ڈاون حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ جارح ٹیم اسکور نہ کردے، یا پھر گیند دوسری ٹیم مداخلت کر کر چھین لے ، یا گیند باونڈری سے باہر چلی جائے جس کے بعد دوسری ٹیم کے پاس بال چلی جائے گی اور جارح ٹیم دفاعی ٹیم بن جائے گی۔

امریکی فٹبال میں اسکو ر کرنے کے لئے ڈاون  کو سمجھنا بہت  ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ اب تک جان چکے ہیں کہ  ڈاون کا مطلب ہے چانس، یعنی گیند کو اختتامی زون کی طرف 10 گز آگے بڑھانے کے آپکے پاس چار ڈاون  کے چانسز یاامکانات ہوتے ہیں، لہذا  اگرا اناونسر کہے کہ  دوسرا ڈاون اور ۴ گز، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیم پہلے ہی اپنے چار ڈاؤن  کے چانسز میں سے ایک کا استعمال کر چکی ہے اور  گیند کو  چھ گز آگے  بڑھا چکی ہے، اب انہیں چار ڈاؤن کا نیا سیٹ حاصل کرنے کے لیے گیند کو مزید ۴ گز  آگے منتقل کرنا ہوگا۔

اس کی ایک اور مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں آپ کی ٹیم نے تین مرتبہ کوشش کی لیکن وہ مطلوبہ دس یارڈ کا فاصلہ حاصل کرنے میں ناکام رہی، اب آپ کے پاس چوتھی اور آخری ٹرائی یا ڈاون ہے تو اس وقت یہ کھیل میں ایک نازک لمحہ ہے، کیونکہ آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا  کہ آپ بھاگ کر وہ فاصلہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، پوائنٹس اسکور کرنے کے لیے فیلڈ گول کی کوشش  کرتے ہیں، یا  پھر آخری حربے کے طور پر پنٹ کرتے ہیں۔ پنٹ کا مطلب ہے ، گیند کو مخالف ٹیم کے گول کی طرف  ہم تو  ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق خوب دور پھینکتے ہیں تاکہ جب انہیں گیند ملے تو انہیں آپکے گول تک آنے میں بہت سا  فاصلہ طے کرنا پڑے۔ 

ہر کھیل کی طرح امریکی فٹ بال کی بھی اپنی زبان اور اصطلاحات ہیں ۰ کچھ اہم اصطلاحات مندرجہ زیل ہیں۔

اینڈ زون: میدان کا آخر ی حصہ جہاں کوئی ٹیم گیند کو لے جاکر ، یا کیچ پکڑ کر پوائنٹس حاصل کر سکتی ہے۔

ٹچ ڈاؤن: جب جارحانہ ٹیم کا کوئی کھلاڑی اینڈ زون میں گیند کو اٹھا کر پہنچتا ہے، یا کیچ پکڑتا ہے تو اسے ٹچ ڈاؤن کہا جاتا ہے اور اس کی قیمت چھ پوائنٹس ہوتی ہے۔

فیلڈ گول: فیلڈ گول ، فٹبال کے گول کی طرح ہوتا ہے اور میدان میں کسی بھی جگہ سے اسکور کیا جاسکتا ہے۔ امریکی فٹبال کا گول لیکن زمین پر نہیں بلکہ زمین سے دس فیٹ اونچائی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی فیلڈ گول اسکور کرلے تو اسے تین پوائنٹس ملتے ہیں

ٹیکل یعنی روکنا یا گرانا: جب ایک دفاعی کھلاڑی کسی جارحانہ کھلاڑی کو پکڑ کر آگے بڑھنے سے روکتا ہے تو اسے ٹیکل کہتے ہیں۔

کوارٹر بیک: کوارٹر بیک لھیل کا سب سے اہم کھلاڑی ہوتا ہے ، یہ کرکٹ کے کپتان کی طرح کھیل کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور گیند کو پھینک کر یا کسی رنر کے حوالے کر کے اسکور کرنے کی کو شش کرواتا ہے۔

رننگ بیک : رننگ بیک وہ کھلاڑی ہے جو گیند کو اٹھا کر میدان میں اس کے ساتھ دوڑتا ہے۔

ریسیور یا وصول کنندہ: وصول کنندہ وہ کھلاڑی ہوتا ہے جو کوارٹر بیک کے ذریعے پھینکے گئے پاسز کو پکڑتا ہے۔

لائن مین: لائن مین وہ بڑےبڑے طاقتور  مضبوط کھلاڑی ہوتے ہیں جو جارحانہ ٹیم کے رنرز کو  روکتے ہیں۔

مداخلت یا انٹرسیپشن: انٹرسیپشن یا مداخلت کے معنی ہیں بیچ میں بال کو اچک لینا یعنی اگر ایک دفاعی کھلاڑی کسی ایسی بال کوقبضے میں لے لیتا ہے  جو درحقیقت جارحانہ ٹیم کے کھلاڑی کے پاس جانی تھی۔

فمبل یعنی بال گرا دینا : یعنی کوئی کھلاڑی گیند کو لے جانے کے دوران اس کا کنٹرول کھو دے ، زمین پر گرا دے ،

پینلٹی یا جرمانہ: ہر کھیل کی طرح امریکی فٹبال میں بھی فاول پر پینلٹی ملتی ہے  لیکن فٹبال کے کارڈز  کے برعکس، یہاں آپ یارڈز کا نقصان اٹھاتے ہیں یعنی آپکی ٹیم کو جیتے ہوئے یارڈز سے پیچھے جانا پڑتا ہے۔

امریکی فٹ بال چونکہ ایک نہایت مقبول کھیل ہے, اس کی ملک بھر میں کئی کامیاب اور مقبول ٹیمیں ہیں۔  این ایف ایل نیشنل فٹ بال لیگ امریکہ میں پیشہ ور امریکی فٹ بال کی اعلی ترین سطح کی لیگ ہے۔کرکٹ  کی اصطلاح میں آپ اسے آئی سی سی  سمجھ سکتے ہیں  ۔ اس لیگ میں  ، دو کانفرنسیں ہوتی ہیں: اے ایف سی امریکن فٹ بال کانفرنس اور این ایف سی نیشنل فٹ بال کانفرنس۔ ہر کانفرنس 16 ٹیموں پر مشتمل ہوتی ہے، جنہیں چار ٹیموں کے چار ڈویژنوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر کانفرنس میں ٹیمیں 16 گیمز کا باقاعدہ سیزن شیڈول کھیلتی ہیں، جس میں ہر ڈویژن کی فاتح اور ہر کانفرنس سے دو وائلڈ کارڈ ٹیمیں پلے آف کھیل کھیلتی ہیں۔ ان میں جیتنے والی ٹیمیں سپر باؤل  کھیلتی ہیں جو اے ایف سی اور این ایف سی چیمپئن شپ کے فاتحین کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ 

باقاعدہ سیزن ۔ستمبر تا دسمبر
وائلڈ کارڈ راؤنڈ ۔ جنوری

 ڈویژنل راؤنڈ ۔جنوری

   کانفرنس چیمپئن شپ ۔جنوری

   سپر باؤل ۔فروری 

 نیشنل فٹ بال لیگ میں کچھ مشہور اور کامیاب ٹیمیں  ۔  نیو انگلینڈ پیٹریاٹس   این ایف ایل کی سب سے کامیاب ٹیموں میں سے ایک رہی ہے، جس نے چھ سپر باؤل چیمپئن شپ جیتی ہیں۔پینسلوینیا کی پٹسبرگ اسٹیلرز  نے بھی چھ سپر باؤل چیمپئن شپ جیتی ہیں، ڈلاس کاؤبای: ڈلاس، ٹیکساس  کی ایک فرنچائزز ہےجس نے پانچ سپر باؤل چیمپئن شپ جیتی ہیں۔اسکے علاوہ وسکانسن کی گرین بے پیکرز، سان فرانسسکو کی فورٹی نائنرز، بالٹیمور میری لینڈ کی ریونز،  اور ٹیمپا بے کی بکنئیرز مشہور ٹیمیں ہیں۔  امریکی فٹ بال میں بہت سے باصلاحیت اور مقبول کھلاڑی ہیں جن میں  ٹام بریڈی، جو مونٹانا، جیری رائس،  اور پیٹن میننگ آرون راجرز، پیٹرک مہومیز، رسل ولسن، مائکل تھامس، اور وان ملر شامل ہیں

امریکی فٹ بال کے مختلف سیزن ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت اور مقصد  ہے، 

پری سیزن: پری سیزن باقاعدہ سیزن شروع ہونے سے پہلے کا وقت ہے۔ پری سیزن کے دوران، ٹیمیں مشق کرنے اور باقاعدہ سیزن کے لیے تیار ہونے کے لیے نمائشی کھیل کھیلتی ہیں۔ یہ کھیل ٹیم کے مجموعی ریکارڈ میں شمار نہیں ہوتے ہیں، لیکن یہ کھلاڑیوں اور کوچوں کو ان کھیلوں کے لیے تیار ہونے میں مدد کرتے ہیں 

باقاعدہ سیزن: باقاعدہ سیزن امریکی فٹ بال سیزن کا اہم حصہ ہے۔ باقاعدہ سیزن کے دوران، ٹیمیں 16 گیمز کھیلتی ہیں، اور جیت اور ہار ان کے مجموعی ریکارڈ میں شمار ہوتی ہے۔ باقاعدہ سیزن کے اختتام پر بہترین ریکارڈ رکھنے والی ٹیم پلے آف میں جگہ لیتی ہے۔

پلے آف: پلے آف گیمز کا ایک سلسلہ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ سپر باؤل میں کونسی ٹیمیں کھیلیں گی ۔۔ پلے آف ریگولر سیزن کے بہترین ریکارڈز والی ٹیموں پر مشتمل ہوتے ہیں، اور وہ ناک آوٹ یا ایلیمینیشن گیمز کا ایک سلسلہ کھیلتی ہیں جب تک کہ صرف دو ٹیمیں باقی نہ رہ جائیں۔

سپر باؤل: سپر باؤل امریکی فٹ بال کا چیمپئن شپ گیم ہے اور پلے آف جیتنے والی دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ سپر باؤل امریکی فٹ بال کا سب سے بڑا ایونٹ ہے اور اسے لاکھوں لوگ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔سوپر بال جیتنے والی ٹیم کو لمبارڈی ٹرافی ملتی ہے جو کہ گرین بے پیکرز کے شہرہ آفاق کوچ ونس  لمبارڈی کے نام پر رکھی گئی ہے۔

یہ تھا امریکی فٹبال کا ایک مختصر سا تعارف – امید ہے کہ میری کوشش کارگر ہوئی ہوگی اور اب آپ امریکی فٹبال کا میچ دیکھ کر سمجھ سکیں گے، اور اپنے دوستوں سے اس بارے میں گفتگو بھی کرسکیں گے۔ 

Share

November 17, 2022

جارج ثانی کا خط بنام خلیفہ اندلس – ایک جعل سازی

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 9:58 am

کچھ عرصے سے جارج ثانی کا خط بنام خلیفہ اندلس -مختلف گروپوں وغیرہ میں پوسٹ ہوتا رہا ہے، اور ہم بڑے فخر کے ساتھ مطیع و فرمانبردار جارج ثانی کو هشام الثالث کی داخلے کی درخواست کو شئیر کرتے ہوئے اپنے تابندہ ماضی کو یاد کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اسکی بابت عرض کرتا چلوں کہ یہ جعل سازی ہے.اس میں متن اور تاریخی طور پر کافی سقوم موجود ہیں اور راقم کی ناقص تحقیق و مطالعے کے مطابق مندرجہ بالا خط خلاف حقیقت لگتا ہے۔ اس کے رد میں عربی وکیپیڈیا میں ایک مقالہ موجود ہے جس میں اس کی تاریخ اشاعت وغیرہ کا حوالہ موجود ہے جو کہ یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس

اول تو یہ کہ انگلستان کے بادشاہ کا من خادم المطیع لکھنا ایک عجیب سی بات ہے ، لیکن سب سے بڑی تاریخی غلطی یہ ہے کہ خلیفہ ہشام سوم 1026 – 1031 کے دوران قرطبہ کا خلیفہ تھا، لیکن جارج دوم 1727-1760 کے دوران انگلینڈ، فرانس اور آئرلینڈ کا بادشاہ تھا اس لیے اس خط کے تاریخی اوقات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔

دوم یہ کہ برطانوی بادشاہوں کا ناروے یا سویڈن کے تختوں پر دعویٰ بہت مختصر وقت کے لئے تھا، اورفرانس کو “غال” کہا جانا رومن دور میں ہوا کرتا تھا، قبل مسیح ،”شہزادی ڈوبانٹ” کا بھی کوئی برطانوی شاہی لقب نہیں ہے بلکہ برطانوی بادشاہت میں شہزادی رویال کا خطاب ہوا کرتا ہے ،


سوم یہ کہ یہا ں عربی میں بھی کچھ جدید اصطلاحات مستعمل ہیں، جیسے معاهد العلم والصناعات في بلادكم العامرة،یہ سائینس اور ٹیکنالوجی کی اصطلاح اس زمانے کی عربی میں اس طرح استعمال نہیں کی جاتی تھی۔نیز اسکی اشاعت کا کوئِی ریفرینس موجود نہیں، ملاحظہ ہو رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس


چہارم یہ کہ باقی سوچیں ذرا، کون بادشاہ ایسی بات بولتا ہے اپنے ملک کے بارے میں؟ في بلادنا التي يسودها الجهل من أربعة أركان،

حوالہ جات – رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس

Share

November 10, 2021

علامہ اقبال کے گمشدہ دیوان رموز ٹوئٹری کا تنقیدی جائزہ

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 7:46 pm

شاعر مشرق پر سرقے کے الزامات تو کوئی خیر کوئی ایسی نئی بات نہیں-حاسدین نے کہا کہ خوشحال خاں خٹک کا کلام چراتے ہیں، کچھ نے کہا کہ نطشے کے سوپر مین کو مشرف با اسلام کیا اور فلسفہ خودی پڑھا کر جبرا مرد مومن بنایا ، ائن رینڈ کا جان گالٹ بحرحال امتداد زمانہ سے بچا رہا ، کچھ ناخلف حکیم الامت پر فقط رومی کے ریختہ مترجم ہونے کا الزام دھرتے ہیں، لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا پر تو بہت سوں کو اصرار ہے کہ میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ کا حوالہ دینا اخلاقی طور پر لازم تھا، پر بھائی ناقدین کی زبان کون پکڑ سکتا ہے ، وہ تو مارٹن لوتھر کنگ کے مقالے میں چوریاں تلاشتے ہیں، عرفی تو میندش زغوغائے رقیباں وغیرہ۔

لیکن آج ہمارا موضوع خود کو مباح الدم قرار دلوانا قطعی نہیں، بلکہ ڈاکٹر اقبال کے گمشدہ دیوان المعروف رموز ٹوئٹری کے فاونڈ فٹیج سے منسوب ، عروض اور وزن کے قید و بند سے آزاد ان اہم اشعار کی طرف احباب کی توجہ دلانا مقصود ہے جو ہمیں جا بجا سماجی رابطے کی سائیٹوں پر ڈبلیو گیارہ کے طغروں کی طرح چسپاں نظر آتے ہیں۔ ضمیر جعفری نے اقبال شناسی کے فقدان کے ضمن میں کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

یہاں وہی کچھ سوشل میڈیا کے قوال جنھیں جاوید نامہ، اسرار و رموز۔ پیامٍ مشرق زبور عجم، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز یقینا ازبر ہیں، منسوبی اور سینہ زوری کی لے پر، مان نا مان یہ تیرا دیوان کے تحت شاعر مشرق کے گمشدہ دیوان کی معرفت کی دھن میں مگن ہیں۔راقم جیسے رجعت پسند کا تو خیال ہے کہ برنابس کی طرح یہاں بھی ایسے ایسے اشعار علامہ کی ایما پر کہے گئے ہیں کہ الامان والحفیظ، یہاں ایما سے مراد جرمن عفیفہ ایما ویگناسٹ ہرگز نہیں، ہر قسم کی مماثلات محض اتفاقی ہے۔ اب یہی دیکھیں مثلا

صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لئے
کہ پتا پتا کرے تیرا ذکر با وضو ہوکر

یہاں ندرت خیال کے پوائنٹ تو بالکل بنتے ہیں لیکن نثر اور نظم کے درمیان کے اس پل صراط پر چلنا ہم قدامت پرستوں کے لئے تو امر محال تھا – شائد اقبال کی جدیدت کی رگ پھڑکی ہو یا پھر یہ

اپنے کردار پر ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

یہ شعر تو وصی شاہ کے دیوان کی طرح قرب قیامت کی نشانی معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپکی تشنگی نہیں ہوئی توماڈرن ارمغان حجاز کے ناوک مژگاں میں تیر بہت۔

حسن کردار سے نور مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

اور

ہنسی آتی ہے مجھے حسرت انسان پر
گناہ کرتا ہے خود، لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

ہمارا تو واثق گمان ہے کہ ایسی شدید ترین بے وزنی کی کیفیت اور قواعد کی دھجیاں اڑاتے اشعار دیکھ کر انسان کا روز حشر پر ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہوگا کہ ایسے بدبختوں سے تو خدا ہی نپٹے. ہم اس دیوان کو اقبال کا کبھی نا مانتے ، لیکن جب ان فیس بکی اقبال شناسوں نے ہمیں اس دیوان سے یہ تحریف دکھائی کہ

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ٹرک کے پیچھے لگانے کے لیے ہیں

تو چار و نا چار ہم نے بھی ہامی بھر لی ، مگر اب اگر اقبال غزل سرا ہو تو کیا کہیں، یہ بھی ملاحظہ کریں

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتاکس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اور تو اور، تنِ حرم میں چھُپا دی ہے رُوحِ بُت خانہ کے مصداق اس کرشمہ ساز دیوان کی مندرجہ زیل رباعی کو ایسے پھیلایا گیا کہ جیسے فیک نیوز سمجھ کے اینٹی ویکسرز نے چُن لیا ہو

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

شومئی قسمت کہیں یا نفرین کشف ، یہ جس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم وخلیل​ کی بے اقبالیاں بھی انہی کے نام سے منسوب ہوئیں کہ

ملاقاتیں عروج پر تھیں تو جواب اذاں تک نا دیااقبال
صنم جو روٹھا ہے تو آج موذن بنے بیٹھے ہیں

اب اس پر تو ہم نے مرزا سے صاف کہہ دیا تھا گر اس فیس بکی طغرے والے شاعر کا سراغ ملا تو مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن اور فاعلتن فاعلتن فاعلتن سےفاعل و مفعول کی ایف آئی آر درج کروانے کی نوبت آجائے گی۔

اقبالیات کی خاص بات اسکی عالمگیریت ہے، لحاظہ کسی موضوع پر بھی نسبت کی ضرورت ہو، اقبال کا نام لگانے کی دیر ہے، مثلا عالم رویا ہی دیکھیں

سونے دو اگر وہ سو رہے ہیں غلامی کی نیند
ہوسکتا ہے وہ خواب آزادی کا دیکھ رہے ہوں

یا دیار مغرب کی نفی ہو

یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج اقبال
مغرب کی طرف جاو گے تو ڈوب جاو گے

احقر کو غالب گمان ہے کہ پوسٹ کرنے والے نے اسی وجہ سے اقبال کو شاعر مشرق مانا، ورنہ تو بقول اقبال امروزی

دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی

 گمان ہے کہ یہ والا شعر دیوان میں درج ہوتے ہوتے رہ گیا ہوگا، جبھی اس گمشدہ دیوان میں ملا، ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے اس جبین نیاز میں سے اگلا والا تھا ۔لیکن سجدوں پر فتاوی بھی نئے شاعر مشرق کا ہی ہنر ہے کہ دین مْلّا فی سبیل اللہ فساد

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں اقبال
تو جھکتا کہیں اور ہے، سوچتا کہیں اور ہے

راقم کا خیال ہے کہ یہ تو پیار ہے کسی اور کا تجھے چاہتا کسی اور ہے کی زمین میں لکھا گیا ہے لیکن دروغ برگردن قاری۔ سوچا تھا اور لکھیں لیکن اس نئے دیوان کے مندرجات پڑھنے کے بعد فشار خوں قصر سلطانی کے گنبد پر یہ کہتا پایا گیا کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسي صحرا کي تنہائي۔ اب مسرور شاہ جہاں پوری کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں کہ

مرحوم شاعروں کا جو مل جائے کچھ کلام
سرقے کا لے کے جام چلو شاعری کریں

Share

January 19, 2019

نارملائزیشن اور تصور ریاست مدینہ

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 2:12 pm

آج ایک عزیز دوست کی یہ پوسٹ دیکھی تو دلی صدمہ ہوا۔ کچھ عرصے سے ریاست مدینہ کی اصطلاح کی تضحیک کا ایک رجحان نظر آرہا ہے تو سوچا اسکی طرف توجہ مبذول کراتا چلوں۔

نارملائزیشن سے مراد کسی طور طریقے، اصطلاح، یا رواج کو اسطرح عام کرنا ہے کہ اس کو معاشرتی قبولیت حاصل ہوجائے۔ عصری پینڈولم کو دوسری طرف لے جانے یہ طریقہ نہایت کارآمد ہے۔ لفظ خلیفہ یا خلیفۃ المسلمین جو خلافت کا لقب ایک بڑی عزت کا حامل تھا لیکن اسکے برعکس آج جولفظ خلیفہ مستعمل ہے، اس کا قاری و راقم دونوں کو خوب ادراک ہے۔ اسی طرح آجکل اصطلاح ریاست مدینہ کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر پھبکی یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ ہر محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے صدمے کا باعث ہے۔ آپ کو قوم میں ختم النبوت پر دینی حرارت کا پیمانہ جانچنا ہو، یا جنسیت کی ترویج کرنی ہو، استعارات و اصطلاحات کے ذریعے نارملائزیشن ہمارے سامنے ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ ایسی کسی کوشش کے خلاف علمی و عملی جدوجہد کریں۔

مجھے یقین ہے کہ کوئئ بھی مسلمان جان بوجھ کر ایسی حرکت نہیں کرسکتا، نیز اس کے استعمال سے لوگوں کی مراد یہی ہے کہ اگر حکومت کا ماڈل ریاست مدینہ کا تھا تو یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے اس سے ریاست مدینہ کی حرمت و احترام کی اہمیت کی شدت کم نہیں ہوتی۔ وہ ریاست جس کی بنیاد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عدل و انصاف کی بنیاد پر رکھی ہو اس کی تضحیک کسی طور مناسب نہیں۔ اگر کوئئ اس ریاست کے لیبل کو استعمال کرتا ہے تو اس کے عیوب پر بات کرنے میں ظاہر ہے کوئئ عار نہیں لیکن ریاست مدینہ کی اصطلاح کو پھبکی بنا کر نارملائز کرنا بہت معیوب عمل ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.
اور ہماری ذمہ داری اس سے زیادہ نہیں ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دیں

Share

December 7, 2018

بوڑھا

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 5:46 pm

ٹوائلاٹ زون ٹی وی سیریل کی ایک قسط ‘کک دا کین‘ دیکھ کر بڑھاپے کی اصل کا خیال آیا. اس قسط میں ایک سن رسیدہ شخص جو اولڈ ہوم میں اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ رہتا ہے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان کے بوڑھے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بچوں جیسے کھیل چھوڑ دیے ہیں اور اپنا بچپنا کھو دیا ہے۔

میری دانست میں بوڑھا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اجنبی ہوتی جائے، جن حقیقتوں کے ساتھ آپ پلے بڑے ہوں، وہ تبدیل ہوتی جائیں اور آخرکار چیزیں اس نہج پر پہنچ جائیں کہ مقارب خطوط کے ملنے کا امکان جاتا رہے۔ ایسی دنیا جہاں اشتیاق احمد اور مشتاق یوسفی نا ہوں، جہاں نا خانصاحب کی قوالی ہو اور نا ہی کلاسکل طبعیات کا ایٹم کا وہ ماڈل درست ٹھرے جس میں آپ نے رنگ بھرے ہوں۔ ایسے میں جب کہ آپ جو کچھ درست جانتے ہوں، اس سب پر سوالیہ نشان لگ جائے تو بڑھاپا آجاتا ہے۔

شائد اسکی وجہ یہ ہو کہ آپ مزید سیکھنا چھوڑ دیں، یا ہلنا جلنا چھوڑ دیں تو شائد یہ سن پیری کی علامت بنتا ہو، عین ممکن ہے، خمار بارہ بنکوِی نے بھی ایک درد بھری کہی کہ ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی لیکن قاسمی صاحب اچھے رہے کہ

ہم کو تو بڑھاپے نے کہیں کا بھی نہ چھوڑا
محرومی جذبات کو بیٹھے ہیں چھپائے
خوش ہوتے ہیں ہم لوگ اگر کوئی حسینہ
اس عمر میں ہم پر کوئی تہمت ہی لگائے

Share

June 19, 2018

یوم پدر کا نوحہ

Filed under: ادبیات,مشاہدات — ابو عزام @ 10:21 am

مروجہ ایام ہالمارک کے کنزیومرزم، سرمایہ کاری نظام اوراستعماریت کے نقصانات پرمدلل مباحث کے باوجود، جب میرے آٹھ سالہ بیٹے علی نے فادرز ڈے کا اپنے ہاتھ سے بنا کارڈ دیا تو میرا انبساط بہرحال دیدنی تھا۔
رَبِّ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلَوةِ وَمِن ذُرِّیَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ

شائد یہ شادمانی اسی لحظہ ممکن رہی کیونکہ اسوقت ریستہاے متحدہ امریکہ اور اسکی جنوبی سرحد پر موجود تارکین وطن کے قافلے میری نظروں سے اوجھل ہیں۔ میں ۲۰۰۰ سے زائد معصوم بچوں کی وہ دلخراش چیخیں نہیں سن سکتا جو روزانہ اپنے والدین سے علیہدہ کئے جارہے ہیں۔ بے جان سرحدی لکیروں کے حقوق کی پاسداری کے نام پر، ڈیٹرینس کے اس ظالمانہ حربے کے طور پر ان پھول جیسے بچوں کا استحصال ایک پالیسی موقف بنادیا گیا ہے کہ انکے والدین جوجنوبی امریکہ کی سفاکانہ گینگ وار کا شکار، غربت و افلاس کے مارے مفلوک الحال پناہ گزین ہیں، امن و سکون و بہتر مستقبل کی تلاش میں شمال کا سفر کرنے کا خیال بھی دل میں نا لائیں۔

اور نا ہی میں مونوز کی پتھرائئ ہوئئ ان آنکھوں کو دیکھ سکتا ہوں جو اپنے تین سالہ بچے کی راہ تکتے ساکت ہوگئیں۔ ایک باپ جس سے اس کا لخت جگر جدا کردیا گیا، جس نے ریو گرانڈ کی وادی میں اپنے خاندان کی عافیت کی راہ دیکھنی چاہی لیکن ۷ مئ کو اسے نا صرف گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا بلکہ والدین کو بچے سے علیہدہ کرنے کی ظالمانہ حکمت عملی کے تحت اس کے تین سالہ بچے اور اہلیہ کو اس سے الگ کر کر قید کردیا، نتیجتاً ۱۲ مئی کو صدمے سے نڈھال مونوز نے خودکشی کرلی۔

میں شام کے اجڑے گھروں کا ماتم کس منہ سے کروں کہ میری اپنی جمہوری ریاست میں، جہاں ہر لحظہ انسانی اقدار کی جے جے کار کی جاتی ہو، مخالفانہ خاکوں کی قیمت پیولٹزر انعام جیتنے والے خاکہ نگار بھی اپنی ۲۵ سالہ نوکری سے برطرفی کی صورت میں چکانے لگیں۔

جہاں کمانڈر انچیف خلائی فورس کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں اور زمین پر انسانیت انسانوں کا منہ تکتی ہے۔

Share

January 1, 2017

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے از مجروح سلطان پوری

Filed under: شاعری — ابو عزام @ 7:22 pm

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
دیار شام نہیں ، منزل سحر بھی نہیں
عجب نگر ھے یہاں دن چلے نہ رات چلے
ہمارے لب نہ سہی وہ دہان زخم سہی
وہیں پہنچتی ہے یارو کہیں سے بات چلے
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
ہو ا ا سیر کوئی ہم نو ا تو دور تلک
بپاس طرز نوا ہم بھی ساتھ ساتھ چلے
بچا کے لائے ہم اے یار پھر بھی نقد وفا
اگرچہ لٹتے رھے رہزنوں کے ہاتھ چلے
قطار شیشہ ھے یا کاروان ہم سفراں
خرام جام ھے یا جیسے کائنات چلے
بلا ہی بیٹھے جب اہل حرم تو اے مجروح
بغل میں ہم بھی لئے اک صنم کا ہاتھ چلے
مجروح سلطان پوری

Share

September 5, 2016

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 10:58 am

یہ اسی کی دہائی کی بات ہے کہ جب روشنیوں کے شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا، جب شہر کے بام و در قد آدم پتنگوں اور اور “قائد تحریک” کی تصاویر سے مزین تھے اور اس فرد واحد کے ون ٹو تھری کہنے پر تین ہٹی سے عزیز آباد، اور دس نمبر سے عائشہ منزل تک ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ جایا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بانیان پاکستان کی اولادوں میں تعصب کی وہ فصل بوئی جارہی تھی جس کوکاٹنے اور اسکا سدباب کرنے کی سعی لا حاصل میں اگلی کئی دہائیاں صرف ہونے والی ہیں۔ اس کڑے وقت میں عصبیت کے اس سیلاب کے آگے شہر میں مٹھی بھر دہان پان سے نوجوان، جن میں سے کچھ کی مسیں بھی نا بھیگی ہونگی، شہر نا پرساں کے در و دیوار پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث چسپاں کرتے نظر آتے تھے

لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے

اس پیغام کی سزا کیا تھی؟ عقوبت خانے، مہاجر خیل، اور ڈرل شدہ نعشیں۔ سعد بن صلاح اور غیور انور

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

آج جس فرعون صفت کو شہر میں لب کشائئ کی اجازت نہیں، کل اسی کی مدح سرائئ میں سارا شہر گم تھا، جب کچھ کفن پوش یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ کیا دور جاہلیت کی بات ہے کہ کلمہ گو بھائئ کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ مقامی ہے یا غیر مقامی، اسکی زبان کیا ہے، وہ یوپی سی پی کا ہے، دکنی ہے، پنجابی ہے، یا اس کی رگوں میں کسی بلوچ یا پٹھان کا خون دوڑ رہا ہے؟ جبکہ میرے آقا و مولا نے یہ بات ۱۴۰۰ سال پہلے اپنے آخری خطبے میں واضع طور پر کہہ دی تھئ کہ

یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

جدید جاہلیت کے علمبرداراروں کا نعرہ ہے کہ نسل و رنگ و قبائل پر تقسیم فطری ہے لہذا اسے ختم کرنا فطرت سے جنگ ہے۔ ان کے لئے اطلاعا عرض ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اگر تعصب کی عینک ہٹا کر وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ کو پڑھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ اسلام قومیت و گروہ کی شناخت کےفطری رجحان کوتسلیم کرتے ہوئے اس سے منسلک کسی امتیازی سلوک یا تفاوت کو رد کرتا ہے۔ دیسی لبرلوں کا حال یہ ہے کہ جب مغرب اسی تفاوت کا خاتمہ “افرمیٹیو ایکشن” یا اینٹی ڈسکریمینیشن کے قوانین کے ذریعے کرتا ہے تو آپ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں لیکن جب اسلام پسند یہی کام کریں تو ان پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کرتے۔ آپ لوگوں کو بانٹنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی غلامی میں لا سکیں،جبکہ اسلام لوگوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کو انکی جبلی خواہشات کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں، جس تنوع سے خالق نے انہیں تخلیق کیا، اس کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں، یہ باتیں کسی محراب و منبر سے تو نا سنیں ہونگی آپ نے کہ بہاری نا کپن یا پنجابی کوئئ زبان نہیں بولی ہے یا سندھی تو کاہل مفت خور ہیں اور بلوچ تو غار کے زمانے کے میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی لوگوں سے زیادہ دور نہیں یا بنگالی، وہ تو کالے، چھوٹے قد والے ہیں، موسی چاول کھائے گا، اور پشتون، انکو تو ہم جنس اور بے وقوف ثابت کرنے کے لئے لطائف کا کثیر زخیرہ موجود ہے، جبکہ ہم اردو بولنے والے سب سے اعلی و ارفع ہیں کہ ہماری زبان و بیان کی قوتیں اس پر استدلال کرتی ہیں، فاعتبروا یا اولوالابصار۔ اس رب جس کے آگے ہم سب اپنئ پیشانیاں سرنگوں کرتے ہیں صاف الفاظ میں حکم کرچکا ہے کہ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ الحجرات۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

تقسیم در تقسیم کا یہ عمل نہیں رکتا، آپ اپنی مصلحت کے تحت اس پر پی ایس پی و حقیقی و ثنا اللہ زہری کی کتنی ہی بینڈ ایڈز لگا لیں، جس شاخ نازک پر یہ آشیانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسلامی شناخت کی اکائئ سے دوری ہے۔ جس ملک کی اساس اسلام ہے اس کوقومیتوں میں تقسیم کر کر پریشر گروپس کے ذریعے چلانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر یہ بات آپکو عجیب لگے تو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اسلام اس حال میں شروع ہوا کہ وہ اجنبی تھاا ور عنقریب اجنبی ہوجائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔ عرض کیا گیا کہ اجنبی لوگ کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی محبت میں قبیلوں سے علیحدہ ہوگئے۔( ابن ماجہ، ترمذی)

آج بھی وہ داعیان کلمة اللہ، وہ خواب دیکھنے والے ائیڈیلسٹ لوگ، وہ مواخات کا جذبہ رکھنے آپکے بہت قریب ہیں جو وحدت ملت کی بات کرتےہیں، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، جو تمام مسلمانوں کو ایک اکائئ جانتے ہیں ، ان کے مقابل عبداللہ بن اُبی کی مثل کے لوگ ہیں جس نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں،جدید جاہلیت اپنے آپ کو کتنا ہی نفیس و ممذوق سمجھ لے، جاہلیت کا ہر ریفرینس” جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا” سے ہی جا ملے گا۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

وما علينا إلا البلاغ المبين

Share

August 18, 2015

صنف قوالی کی مجلس عزا بشکریہ کوک اسٹوڈیو

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 9:00 pm

تمثیل کروں تو اردو مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کی ایک تہذیبی قدر ہے جس کا ادبی لوگ اتباع کرتے ہیں۔  اب یہ کوئی قانون نہیں کہ توڑنے پر سزا ہو مگرعرفا شرفا میں ادبی قد کی پیمائش کے لئے امر مستعمل  ہے۔  جب علی  ظفرصاحب نے استاد جمن  کی یار ڈاڈی عشق آتش  کے گلے پر کند استرا چلایا تب بھی ہم خاموش رہے کہ نرود میخ آھنین در سنگ۔ مگر اب یہ جو دیدہ دلیری کے ساتھ غلام فرید صابری کی مشہور و معروف قوالی تاجدار حرم پر عاطف اسلم کا سرقہ وارد  ہوا ہے تو ہم سے چپ نا رہا گیا، بخدا دل مغمموم ہے کہ کیا کہیے۔

ِ
 

 ارے میاں، نقل کے لئے عقل چاہیے۔  اگر آواز میں پاٹ نہیں، لے اٹھانے کا حوصلہ المعروف تپڑ نہیں، نا قوالی کا ماحول بنا سکنے کا اعجاز، نا گلو نا عقیدت نا سوز، نا سر نا تال،  تو کیوں ایسی دشوار صنف میں کی اوکھلی میں سر ڈالتے ہو؟ خصوصا ایسے کلام پر جس میں اساتذہ نے ساز توڑ دیے اور سازندوں نے انگلیاں ۔ جناب، کلاسیکی قوالی نا آپکا انڈین آئڈل ہے، اور نا ہی .جینے لگا ہوں کی ٹریبل بھری آٹو ٹیون تکرار۔ آپ کے یہاں تو قوالی کے لئے لازم و ملزوم آواز کے زیروبم سے لے کر سر اور تال اور لے کی موسیقی کی دھند ہی مفقود ہے، کبھی نمی دانم چہ منزل بود یا مینڈا عشق جیسے کلاسکس سنیں توکچھ  اندازہ ہوکہ ریو اور جذب حال میں کیا تفاوت ہے۔

 مقصود نئی موسیقی یا تجربات پر تنقید نہیں۔ خانصاحب نے بھی تجربات کئے اور کچھ بہت خوب کئے، جبکہ کچھ کمرشلائزڈ رہے۔ ابھی حال ہی میں فرید ایاز اور ابو محمد کا بھی اچھا تجربہ تھا لیکن تاجدار حرم جیسے کلاسک کی ری برانڈنگ کی مثال بعذر “ہلکی پھلکی جدید قوالی” تو وہی رہی کہ

بر دوشِ غیر دست نہاد از رہِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

راقم کو پورا یقین ہے کہ نا تو گانے والے نے، اور نا سن کر پسند کرنے والوں میں سے کسی نے آجتک محفل سماع میں شرکت کی ہوگی، اور نا ان کو حال کی کیفیت و تکرار سے کچھ آگہی کا معاملہ ٹھرا ،بلکہ ہمارا تو غالب گمان ہے کہ ان  کوبین الصنف (کراس جینرا)  موسیقی سے بھی اتنی ہی واقفیت نا ہوگی جتنی کہ مصحفی کی بکری کو ضحافات سے تھی۔

تو بھائئ عاطف، اگر آواز برٹنی سپئرز کی ہو تو اڈیل یا ڈیانہ کرال بننے کی کوشش نہیں چاہیے۔ اگر استاد محاورة قلم توڑ دے  تو عزت اس میں ہوتی ہے کہ  دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے، نا کہ ڈومنی گاوے تال بے تال۔  باقی جو مزاج یار میں آئے۔

Share

August 3, 2015

حیدرآبادی بریانی اور شروڈنگر کی بلی

Filed under: ادبیات,سائینس و ٹیکنالوجی,طنزومزاح — ابو عزام @ 8:29 am

طبعیات کا ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ سائنسدان ہائزنبرگ، شروڈنگر اور اوھم گاڑی میں جارہے تھے۔ ہائزنبرگ گاڑی چلا رہا تھا کہ ایک ٹریفک پولیس والے نے انکو تیز رفتاری کرنے پر روک لیا۔ پولیس افسر نے ہائزنبرگ سے پوچھا۔

پولیس افسر: جناب، آپکو علم ہے کہ آپ کس رفتار سے سفر کر رہے تھے؟
ہائزنبرگ: جی نہیں، لیکن مجھے اس بات کا ضرور علم ہے کہ میں کہاں موجود ہوں۔
پولیس افسر: آپ ۳۵ کی رفتار والے زون میں ۵۵ کی رفتار سےگاڑی چلا رہے تھے
ہائزنبرگ: بہت خوب بے وقوف آدمی، چونکہ اب تم نے مجھے میری رفتار بتا دی ہے لہذا اب مجھے نہیں پتا کہ میں کہاں موجود ہوں!
پولیس والے کو ان کی پراسرار  باتوں سے کچھ شک ہونے لگا تو اس نے ڈگی کھولنے کا حکم دیا۔ ڈگی کے معائنے پر اس نے وہاں ایک ڈبہ دیکھا جس میں ایک مری ہوئئ بلی موجود تھی۔
پولیس افسر: آپ لوگوں کو علم ہے کہ ڈگی میں ایک عدد مری ہوئئ بلی ہے؟
شروڈنگر: نہیں الو کی دم، لیکن آپکی مہربانی کہ اب ہمیں پتا چل گیا ہے!
پولیس افسر انہیں بدتمیزی کرنے پر گرفتارکر کر لے جاتا ہے۔ صرف اوھم مزاحمت کرتا ہے۔

 بہرحال،  اگر آپ کو اس لطیفے پر ہنسی نا آے تو آپ کی حس طبعیات یا حس مزاح میں سے کوئئ ایک حس مفقود ہے لیکن بہتر ہوگا کہ علمیت کا رعب ڈالنے کے لئے ہنسنا شروع کردیں، ہم نے بھئ یہی کیا تھا۔

Schrodingers-Cat

بہرطور، بات ہورہی تھی شروڈنگر کی بلی کی۔ اس ویکینڈ پر ہمارے ایک عزیز کچی یخنی کی حیدرآبادی بریانی لائے۔ اس بریانی کو بنانے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں گوشت، مصالحہ جات اور چاول سب ایک ساتھ رکھ دئے جاتے ہیں اور دیگ یا پتیلے کو آٹے سے سیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسکو پکنے دیا جاتا ہے اور دعا کی جاتی ہے کہ گوشت گل جائے اور چاول زیادہ نا گل جائیں۔ اس دوران پتیلا نہیں کھولا جاسکتا لہذا آپ کو علم نہیں ہوتا کہ بریانی بن گئی ہے یا نہیں جب تک کہ پتیلے کا ڈھکن نا ہٹایا جائے۔

جی ہاں، آپ نے درست پہچانا، اس سے مراد یہ ہے کہ ارون شروڈنگر کی بلی کا تھاٹ ایکسپیرمنٹ تو ہم حیدرآبادی لوگاں صدیوں سے کرتے آرہے ہیں۔  یہ مغرب کی سازش ہے کہ ہماری تمام ایجادات کو لے کر اپنا نام لگا کر نوبل انعامات لے جاتا ہے،  بیہودہ لوگ، شروڈنگر کا بینگن!

Share
Older Posts »

Powered by WordPress