دراصل ہم اس بارے میں بڑے عرصے سے سوچتے آ رہے تھے کے پاکستانی سیاست میں بایاں بازو کافی عرصے سے غائب ہے . پھر اس بات پر توجہ ہوئی کہ درحقیقت صرف بایاں بازو ہی نہیں، عمومی طور پر ہماری سیاست شدید نظریاتی فقدان کا شکار ہے۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ جہاں دایاں یا بایاں بازو نہ ہو وہاں اڑان منجدھار کا شکار ہو جاتی ہے۔ قحط الرجال تو خیر بہت عرصے سے ہے، لوگ اب میڈیا کے بازیگروں کے تجزیے ( باتوں کی الٹیاں) سنننے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ تبدیلی کی کوئی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہوتی ہے . خیر گفتگو کچھ یوں تھی کے پاکستانی سیاست میں نظریاتی لوگ سواے ماودے چند افراد کے کوئی باقی نہ رہے. بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ساتھ اقربا پروری، جاگیردارانہ و زمیندارانہ طریقہ حکمرانی کا چلن ہے اورکوئی اس بات پر راضی نہیں کے سینہ ٹھونک کر قدامت پسندی کو للکارے اور کہے کہ ہاں میں ترقی پسند ہوں. ہمارے یہاں کا لبرل طبقہ رجعت پسندوں کو چھیڑنے سے گھبراتا ہے کے کہیں ایک عدد جیکٹ کا تحفہ نہ مل جاے۔ دینی طبقہ بھی کچھ اسی ڈر اور کچھ طبعی حلم اور شرافت کی وجہ سے انتہا پسندی کے خلاف بات کرنے سے خوفزدہ ہے؛ مزید براں یہ خوف بھی ہے کے کہیں یہی گم گشتہ راہ نجات نہ ہو اور اس کی مخالفت بعد ازاں مہنگی نہ پڑے!
وہ دن ہوا ہوے جب ٧٠ کی دہای میں لوگ سینہ تان کر سرخے ہوا کرتے تھے ؛ انہی حالات میں باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے کا مزہ آتا ہوگا. اب جب سیاست، نظریات الگ ہو کر صرف مفادات کا ملغوبہ رہ جاے، جب ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ کو اپنے فارم میں ‘توہین رسالت’ کے قانون کو اردو میں بھی ‘بلاسفیمی لا’ لکھنا پڑے کہ اس قانون سے متفق نا ہونا رکنیت کی شرط ہے مگر اردو میں لکھنا خلاف مصلحت ہے،اور جب تحریکی لوگ اپنی زبانوں کو انتہا پسندی کی خلاف مقفل کر لیں تو پھر بس یہی پکاریں آ سکتی ہیں کے خدا کے لئے پنجاب میں حملے نہ کریں.
تو عزیزم میرے کہنے کا برا مت مانیے مگر جب آپ اگلی مرتبہ کوئی باتوں کی الٹیوں کا پروگرام دیکھیں تو ان تجزیہ نگاروں کا قبلہ متعین کرنے کی کوشش کریں. تبدیلی نظام کی بات کرنے والے لوگ کیا صرف باتیں بگھارتےہیں یا متبادل بھی پیش کرتے ہیں. کیا اپنے پروگرام کے چوراہوں کی ریٹنگس سے بڑھ کر بھی کوئی مقصد ہے یا یہ باتوں کا خیالی پلاؤ صرف رٹائرڈ جنرل کی آمد کا خرچہ پورا کرنے کے کام آ رہا ہے؟ راقم کا ماننا ہے کہ تبدیلی اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب لوگ یہ جانیں کے وہ کیا چاہتے ہیں . دو جماعتی نظام گو کہ بہت سی خامیوں سے مبرّا نہیں لیکن آپ کم از کم ایک منشور اور میلان کے حامل لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ کہ سکتے ہیں کے اگر تم رجعت پسند ہو، مذہبی رجحان رکھتے ہو، ٹیکسوں کے خلاف ہو، اپنےٹیکس کا پیسا اسقاط حمل پر نہیں خرچ کرنا چاہتے،مفادات کے لیے جنگ کے حامی ہو، سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہو اور دنیا پرامریکی بالادستی چاہتے ہو تو تمہارا مسکن ریپبلکن پارٹی ہے. اور دوسری طرف ڈیموکریٹس جو اچھائی اور معاشرے کو انفرادی طور پر جانچنے کے بجاےوسیع تر معاشرتی اقدار کےقایل ہیں، جو لوگوں پرٹیکس لگا کر معاشرتی کاموں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں، اور تمام لوگوں کو بلا جنس و نسل و رنگ و جنسی رجحانات کے ایک جیسے حقوق دینے کے حامی ہیں لیکن آزاد روی کی یہ روش قدامت پسندی اور مذہب کے نظریات سے واضح اختلاف رکھتی ہے۔ اب یہاں بھی ایسا نہیں ہے کےتفریق بہت واضح ہے. بعض لوگ ڈیموکرٹس کے معاشرتی منشور سے تو متفق ہوتے ہیں مگر انکا ٹیکس لگانے انہیں بہت کھلتا ہےلیکن کم از کم ووٹ دیکر تبدیلی لانے کا رجحان موجود ہے اور سب سے اہم بات اکثر لوگ کم و بیش جانتے ہیں کے وہ کیا چاہتے ہیں. بہت ممکن ہے کہ وہ افلاطونی انداز میں اسکو نا پیش کر سکیں مگر یہ بمپر اسٹیکر کہ ‘جیزز واز ناٹ اے چوواس’ بہت کچھ کہ دیتا ہے۔
میں بنیادی طور پر نظریات کو داہنے یا بایں بازو کےڈبوں میں قید کرنے کا حامی نہیں لیکن نظام کی تبدیلی کے لئے رہ متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور آج پاکستان کی بیشتر جماعتوں کا منشور آپکو اس بات پر دلالت کرتا نہیں ملے گا کے انکی خارجہ پالیسی کا کیا محور ہے،. ٹیکسوں کا کیا سلسلہ ہوگا، شرح نمو اور برآمدات کے لیے کیس پالیسی پر عمل کیا جاے گا؟ کیا نفرت پھیلانے والے مذہبی لیڈران کے ساتھ انتخابی مہم چلای جاے گی یہ پھر نتایج کی پروہ کیے بغیر ان پر گرفت سخت کی جاے گی. ہر دین اپنی بالادستی چاھتا ہے چاہے وہ دین اسلام ہویا آزاد خیالی اور لبرلزم کا دین ہو، آپ کس دین کو نافذ کریں گے؟ ملک کا نظام تلپٹ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں اورایک بنیادی وجہ ہے نظریاتی سیاست کا فقدان اور حل ہے اس کی بحالی ؛ یہیں میری گزارش تمام ہوتی ہے.
اب اس بات سے ہمیں کوئی بغض نہیں کے کوئی کالعدم تنظیموں کے ساتھ اٹھے بیٹھے یا کوئی اپنی ہم وطنوں کو غیروں کے ہاتھ بیچے یا ملک کو لوٹ لوٹ کر کھاے، بھاری ٹیکس لگاے یا روٹی کپڑے کا نعرہ لگا کر سرمایا داروں کی گود میں جا بیٹھے. ہم تو بس یہ کہتے ہیں کے ہمیں بتا دو تمہارا منشوراور میلان کیا ہے اور بقیہ فیصلہ ہم پر چھوڑ دواگر تمہارا پچھلا ریکارڈ تمہارے منشور کا آینہ دار ہے تو ہمارا ووٹ آپکا۔ اور ہمیں فیصلہ کرنے دو، ایمانداری کی ساتھ.،
باقی یار زندہ صحبت باقی
پاکستان کی سیاست میں بایاں بازو نا معلوم کس کو کہا جاتا ہے۔ وہاں یا تو دایاں بازو ہے یا انتہاءی دایا بازو۔ اور اسے اہم بات یہ ہے کہ سیاست دان دایاں ہو یا بایاں جب اس کے مستقبل، حال اور ماضی کے مفادات ہی ملک سے وابستہ نہیں تو اس کی سیاسی وابستگی اور نظریاتی جھکاؤ ہمارے کس کام کا؟
Comment by راشد کامران — April 5, 2010 @ 10:51 am
شاید ہمارے ملک میں سیاسی نظام کی یہی منافقت تھی جس کی بنیاد پر اسرار احمد مرحوم سمیت کئی اکابرین نے سید مودودی کا ساتھ چھوڑا کہ وہ اس گندگی کے ڈھیر میں خود گندے نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ہمارا سیاسی نظام اس وقت مکمل طور پر جھوٹ بھی مبنی ہے اور اس میں کہیں کوئی حقیقی دایاں یا بایاں بازو موجود نہیں ہے۔ ماضی میں کبھی ہوگا لیکن اب ایسا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔
Comment by ابوشامل — April 15, 2010 @ 1:28 am