دوستوں کے بے حد اصرار اور کمپنی کی مشہوری کے لیے اردو میں بلاگ لکھنے کا آغاز کیا گیا ہے تو سوچا کہ ابتدا اس شگفتہ تحریر سے کرتے ہیں جو ہم نے اپنے ایک لنگوٹیا دوست کے رد میں لکھی تھی۔ امید ہے آپ کو پسند آے گی۔
مبین میاں. سدا خوش رہو۔ اوپر تمہارا عنایت نامہ پڑھ کر ڈھیروں خون بڑھ گیا کہ دروغ گوی اور بہتان طرازی میں ابھی بھی تمہیں وہی ملکہ حاصل ہے جو آج سے پندرہ برس پہلے تھی۔ راقم تمہاری ہجو لکھنا چاہتا ہے مگر پارلیمانی الفاظ میں اس سلسلہ سخن گاہی سے مہجور ہے کہ خامہ ساتھ نہ دے اور ناہنجار و نامعقول جیسے القابات اس کیفیت کا عشر عشیر بھی بیان نہ کرسکیں جو تمہاری یاوہ گوی نے راقم پر وارد کی۔ بہرحال یہ کہنا کافی ہوگا کہ بہتان طرازی اولمپک کا کھیل ہوتا تو آج پاکستان کے پاس کم از کم ٣٠ گولڈ میڈل ہوتے۔ اگر دروغ گوی جامعہ کراچی کا کوی شعبہ ہوتا تو آج آپ اسکے رئیس الشعبہ ہوتے بلکہ شیخ الجامعہ ہوتے۔ تمہیں دیکھ کرتوجھوٹوں کا جھوٹا سابق صدر بش بھی کہے، چل جا جھوٹے!
ارے میاں حد ہوتی ہے، شرم تم کو مگر نہیں آتی ، یعنی کہ غضب خدا کا،
تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو، اب راقم پر لازم ہے کہ اس دروغ گوی و بہتان طرازی و افترا پردازی کی حقیقت سے پردہ اٹھاے اور قصہ رقم کرے کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔
قصہ مسعود علی شاہ نظامی کے ازار بند کا
اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور مصنفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ شہر کراچی میں پیر الہی بخش کالونی کے ہال میں محفل میلاد منعقد تھی۔ تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو من کہ ایک ناہنجار قسم کا رفیق مرد ہوا کرتا تھا مبین احمد مینای جس کے دو نہایت شریف النفس ، خدا ترس، کریم الطبع، پاکیزہ اخلاق کے حامل دوست عدنان مسعود اور مسعود علی شاہ بھی اس محفل میں شریک تھے۔ اب بربناے عمر شغل طفلانہ یہ سوجھا کہ جب کسی مقرر یا مدح خواں کو مسند پر بلایا جاے تو اس کے جانے کا سارے راستے مسدود کیے جایں اور ہر ممکن کوشش کی جاے کہ تاخیر ہو تاکہ احباب کو اس شرارت سے طمانیت اور اطمینان قلب حاصل ہو اور جلدی کے ضمن میں مقررکی بوکھلاھٹ دیدنی ہو۔ بہرحال۔ ان پاکیزہ خیالات کے تانے بانے باندھتے ہوے جب ھمدم دیرینہ مسعود علی شاہ کا نام پکارا گیا تو ہم نے جھٹ ان کا ہاتھ پکڑ لیا .دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوا نہیں لیکن خیر انھوں نے دیکھا کہ جب عاجزی و انکساری اور دھمکیوں سے کچھ کام نا چلے تو زور لگا کر ہاتھ چھڑایا اور لگے بھاگنے اسٹیچ کی طرف۔ ہم نے آو دیکھا نا تاو، بھاگتے چور کی لنگوٹھی ہی سہی کے مصداق ان کے دامن پر ہاتھ ڈالا جو ان کی پھرتی کی بنا پر ان کے پاجامہ پر جا پڑا، اب نادانستگی میں ہم نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو ۔۔۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ
احقر کے دفاع اب کوئی ہمیں بتاے کہ ساتویں جماعت میں پاچامے میں لاسٹک پہن کر بھلا کون آتا ہے ؟ بہرحال، مشرقی دامن کی وسعت نے پاکی داماں کی حکایت کو برقرار رکھا، ان کا پردہ رہ گیا اور محترم اپنا پاجامہ درست کرتے ہوے اسٹیج کی طرف بھاگے۔ پھر اسکے بعد عرصہ دراز تک عالم یہ رہا کہ
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
تو یہ ہے عزیزان من حقیقت حال۔ سبق بپتا سے مگر کسونے نا پایا، ناہنجار مبین نے راز فاش کیا اور پردہ نہ رکھا لہذا کمبخت کے این سی ایے کے قصےدرویش کا ادھار – یار زندہ صحبت باقی
کیا کہنے جناب کیا کہنے ۔۔۔ بہت ہی اعلی
“مشرقی دامن کی وسعت نے پاکی داماں کی حکایت کو برقرار رکھا، ان کا پردہ رہ گیا”
Comment by ابوشامل — April 15, 2010 @ 1:31 am
بہت عمدہ
بڑی لیٹ آیا میں یہاں
یقین واثق ہے کہ اپنی اردو رفو کرنے کے لیے مجھے یہاں پر کافی سے زیادہ مواد میسر آئے گا
😀
Comment by ڈفر - DuFFeR — May 21, 2010 @ 12:25 pm
مشرقی دامن کی وسعت نے پاکی داماں کی حکایت کو برقرار رکھا، ان کا پردہ رہ گیا”
واہ ! بہت خوب
Comment by prof Riffat Mazhar — November 30, 2012 @ 3:03 am