فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 7, 2010

دست و گریبان ڈاکٹر اور صحافی

Filed under: پاکستان,خبریں,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:59 pm

میڈیا کی بے لگامی کو دیکھ کر بے اختیار دل سے نکلتا ہے کے

اتنی نہ برا پاکی دامان کی حکایت

ڈاکٹر اور صحافی
ڈاکٹر اور صحافی

کیا یہ کسی دو پیشہ وارانہ شعبہ جات کا انداز تکلم لگتا ہے ؟

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/04/100407_ali_salman_doctors.shtml

Share

April 5, 2010

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 12:46 am

پچھلے سال جب  موسم حج میں میں نے یہ تصویر لی تو اس وقت سوچا تھاکے اسکا بہترین عنوان یہی ہو سکتا ہے

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا

مکمل نظم درج زیل ہے۔ کسی صاحب کو شاعر کا نام معلوم ہو تو ضرور بتاییں تاکہ شامل کر لیا جاے

حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
یہ جا م جھوم کر پیو جیو تو بے دھڑک جیو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

زمیں پر نہیں قدم ہوا بھی ساتھ میں نہیں
گذرتے وقت کا کوئی سرا بھی ہاتھ میں نہیں
چلے ہیں لوگ پھر کدھر پہنچنا ہے کہیں اگر
تو نفرتوں کو پیار دو میرا وطن سنوا ر دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

سجی ہیں افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں
نہ کچھ اصولِ سلطنت نہ اختیار کی حدیں
نظام سب الٹ گیا غبار سے جو اٹ گیا
وہ آئینہ نکھار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

چُنے گئے تو جو گلاب خار خار ہو گئے
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا
نہ جی سکا تو حق کے راستے میں مر تو جاؤں گا
کرے جو دین سے وفا چلے جو سوئے مصطفی
مجھے وہ شہسوار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

Share

April 2, 2010

مصلحتوں‌کی سیاست اور نظریات کا فقدان

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 1:00 am

دراصل ہم اس بارے میں بڑے عرصے سے سوچتے آ رہے تھے کے پاکستانی سیاست میں بایاں بازو کافی عر‌صے سے غائب ہے . پھر اس بات پر توجہ ہوئی کہ درحقیقت صرف بایاں بازو ہی نہیں، عمومی طور پر ہماری سیاست شدید نظریاتی فقدان کا شکار ہے۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ جہاں دایاں یا بایاں بازو نہ ہو وہاں اڑان منجدھار کا شکار ہو جاتی ہے۔ قحط الرجال تو خیر بہت عرصے سے ہے، لوگ اب میڈیا کے بازیگروں کے تجزیے ( باتوں کی الٹیاں) سنننے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ تبدیلی کی کوئی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہوتی ہے . خیر گفتگو کچھ یوں تھی کے پاکستانی سیاست میں نظریاتی لوگ سواے ماودے چند افراد کے کوئی باقی نہ رہے. بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ساتھ  اقربا پروری، جاگیردارانہ و زمیندارانہ طریقہ حکمرانی کا چلن ہے اورکوئی اس بات پر راضی نہیں کے سینہ ٹھونک کر قدامت پسندی کو للکارے اور کہے کہ ہاں میں ترقی پسند ہوں. ہمارے یہاں کا لبرل طبقہ رجعت پسندوں کو چھیڑنے سے گھبراتا ہے کے کہیں ایک عدد جیکٹ کا تحفہ نہ مل جاے۔ دینی طبقہ بھی  کچھ اسی ڈر اور کچھ طبعی حلم اور شرافت کی وجہ سے انتہا پسندی کے خلاف بات کرنے سے خوفزدہ ہے؛ مزید براں یہ خوف بھی ہے کے کہیں یہی گم گشتہ راہ نجات نہ ہو اور اس کی مخالفت بعد ازاں مہنگی نہ پڑے!

وہ دن ہوا ہوے جب ٧٠ کی دہای میں لوگ سینہ تان کر سرخے ہوا کرتے تھے ؛ انہی حالات میں باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے کا مزہ آتا ہوگا. اب جب سیاست، نظریات الگ ہو کر صرف مفادات کا ملغوبہ رہ جاے، جب ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ کو اپنے فارم میں ‘توہین رسالت’ کے قانون کو اردو میں بھی ‘بلاسفیمی لا’ لکھنا پڑے کہ اس قانون سے متفق نا ہونا رکنیت کی شرط ہے مگر اردو میں لکھنا خلاف مصلحت ہے،اور جب  تحریکی لوگ اپنی زبانوں کو انتہا پسندی کی خلاف مقفل کر لیں تو پھر بس یہی پکاریں آ سکتی ہیں کے خدا کے لئے پنجاب میں حملے نہ کریں.

تو عزیزم میرے کہنے کا برا مت مانیے مگر جب آپ اگلی مرتبہ کوئی باتوں کی الٹیوں کا پروگرام دیکھیں تو ان تجزیہ نگاروں کا قبلہ متعین کرنے کی کوشش کریں. تبدیلی نظام کی بات کرنے والے لوگ کیا صرف باتیں بگھارتےہیں یا متبادل بھی پیش کرتے ہیں. کیا اپنے پروگرام کے چوراہوں کی ریٹنگس سے بڑھ کر بھی کوئی مقصد ہے یا یہ باتوں کا خیالی پلاؤ صرف رٹائرڈ جنرل کی آمد کا خرچہ پورا کرنے کے کام آ رہا ہے؟ راقم کا ماننا ہے کہ تبدیلی اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب لوگ یہ جانیں کے وہ کیا چاہتے ہیں . دو جماعتی نظام گو کہ بہت سی خامیوں سے مبرّا نہیں لیکن آپ کم از کم ایک منشور اور میلان کے حامل لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ کہ سکتے ہیں کے اگر تم رجعت پسند ہو، مذہبی رجحان رکھتے ہو، ٹیکسوں کے خلاف ہو، اپنےٹیکس کا پیسا اسقاط حمل پر نہیں خرچ کرنا چاہتے،مفادات کے لیے جنگ کے حامی ہو، سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہو اور دنیا پرامریکی بالادستی چاہتے ہو تو تمہارا مسکن ریپبلکن پارٹی ہے. اور دوسری طرف ڈیموکریٹس جو اچھائی اور معاشرے کو انفرادی طور پر جانچنے کے بجاےوسیع تر معاشرتی اقدار کےقایل ہیں، جو لوگوں پرٹیکس لگا کر  معاشرتی کاموں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں، اور تمام لوگوں کو بلا جنس و نسل و رنگ و جنسی رجحانات کے ایک جیسے حقوق دینے کے حامی ہیں لیکن آزاد روی کی یہ روش قدامت پسندی اور مذہب کے نظریات سے واضح اختلاف رکھتی ہے۔ اب یہاں  بھی ایسا نہیں ہے کےتفریق بہت واضح ہے. بعض لوگ ڈیموکرٹس کے معاشرتی منشور سے تو متفق ہوتے ہیں مگر انکا ٹیکس لگانے انہیں بہت کھلتا ہےلیکن کم از کم ووٹ دیکر تبدیلی لانے کا رجحان موجود ہے اور سب سے اہم بات اکثر لوگ کم و بیش  جانتے ہیں کے وہ کیا چاہتے ہیں. بہت ممکن ہے کہ وہ افلاطونی انداز میں اسکو نا پیش کر سکیں مگر یہ بمپر اسٹیکر کہ ‘جیزز واز ناٹ اے چوواس’ بہت کچھ کہ دیتا ہے۔

میں بنیادی طور پر نظریات کو داہنے یا بایں بازو کےڈبوں میں قید کرنے کا حامی نہیں لیکن نظام کی تبدیلی کے لئے رہ متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور آج پاکستان کی بیشتر جماعتوں کا منشور آپکو اس بات پر دلالت کرتا  نہیں ملے گا کے انکی خارجہ پالیسی کا کیا محور ہے،. ٹیکسوں کا کیا سلسلہ ہوگا، شرح نمو اور برآمدات کے لیے کیس پالیسی پر عمل کیا جاے گا؟ کیا نفرت پھیلانے والے مذہبی لیڈران کے ساتھ انتخابی مہم چلای جاے گی یہ پھر نتایج کی پروہ کیے بغیر ان پر گرفت سخت کی جاے گی. ہر دین اپنی بالادستی چاھتا ہے چاہے وہ دین اسلام ہویا آزاد خیالی اور لبرلزم کا دین ہو، آپ کس  دین کو نافذ کریں گے؟ ملک کا نظام تلپٹ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں اورایک بنیادی وجہ ہے نظریاتی سیاست کا فقدان اور حل ہے اس کی بحالی ؛ یہیں میری گزارش تمام ہوتی ہے.

اب اس بات سے ہمیں کوئی بغض نہیں کے کوئی کالعدم تنظیموں کے ساتھ اٹھے بیٹھے یا کوئی اپنی ہم وطنوں کو غیروں کے ہاتھ بیچے یا ملک کو لوٹ لوٹ کر کھاے، بھاری ٹیکس لگاے یا روٹی کپڑے کا نعرہ لگا کر سرمایا داروں کی گود میں جا بیٹھے. ہم تو بس یہ کہتے ہیں کے ہمیں بتا دو تمہارا منشوراور میلان کیا ہے اور بقیہ فیصلہ ہم پر چھوڑ دواگر تمہارا پچھلا ریکارڈ تمہارے منشور کا آینہ دار ہے تو ہمارا ووٹ آپکا۔ اور ہمیں فیصلہ کرنے دو، ایمانداری کی ساتھ.،

باقی یار زندہ صحبت باقی

Share

April 1, 2010

کچھ خطوط بُتاں

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 5:45 pm

دوستوں کے بے حد اصرار اور کمپنی کی مشہوری کے لیے اردو میں بلاگ لکھنے کا آغاز کیا گیا ہے تو سوچا کہ ابتدا اس شگفتہ تحریر سے کرتے ہیں جو ہم نے اپنے ایک لنگوٹیا دوست کے رد میں لکھی تھی۔  امید ہے آپ کو پسند آے گی۔

مبین میاں. سدا خوش رہو۔ اوپر تمہارا عنایت نامہ پڑھ کر ڈھیروں خون بڑھ گیا کہ دروغ گوی اور بہتان طرازی میں ابھی بھی تمہیں وہی ملکہ حاصل ہے جو آج سے پندرہ برس پہلے تھی۔ راقم تمہاری ہجو لکھنا چاہتا ہے مگر پارلیمانی الفاظ میں اس سلسلہ سخن گاہی سے مہجور ہے کہ خامہ ساتھ نہ دے اور ناہنجار و نامعقول جیسے القابات اس کیفیت کا عشر عشیر بھی بیان نہ کرسکیں جو تمہاری یاوہ گوی نے راقم پر وارد کی۔ بہرحال یہ کہنا کافی ہوگا کہ بہتان طرازی اولمپک کا کھیل ہوتا تو آج پاکستان کے پاس کم از کم ٣٠ گولڈ میڈل ہوتے۔ اگر دروغ گوی جامعہ کراچی کا کوی شعبہ ہوتا تو آج آپ اسکے رئیس الشعبہ ہوتے بلکہ شیخ الجامعہ ہوتے۔ تمہیں دیکھ کرتوجھوٹوں کا جھوٹا سابق صدر بش بھی کہے، چل جا جھوٹے!

ارے میاں حد ہوتی ہے، شرم تم کو مگر نہیں آتی ، یعنی کہ غضب خدا کا،

تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو، اب راقم پر لازم ہے کہ اس دروغ گوی و بہتان طرازی و افترا پردازی کی حقیقت سے پردہ اٹھاے اور قصہ رقم کرے کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

قصہ مسعود علی شاہ نظامی کے ازار بند کا

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور مصنفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ شہر کراچی میں پیر الہی بخش کالونی کے ہال میں محفل میلاد منعقد تھی۔ تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو من کہ ایک ناہنجار قسم کا رفیق مرد ہوا کرتا تھا مبین احمد مینای جس کے دو نہایت شریف النفس ، خدا ترس، کریم الطبع، پاکیزہ اخلاق کے حامل دوست عدنان مسعود اور مسعود علی شاہ بھی اس محفل میں شریک تھے۔ اب بربناے عمر شغل طفلانہ یہ سوجھا کہ جب کسی مقرر یا مدح خواں کو مسند پر بلایا جاے تو اس کے جانے کا سارے راستے مسدود کیے جایں اور ہر ممکن کوشش کی جاے کہ تاخیر ہو تاکہ احباب کو اس شرارت سے طمانیت اور اطمینان قلب حاصل ہو اور جلدی کے ضمن میں مقررکی بوکھلاھٹ دیدنی ہو۔ بہرحال۔ ان پاکیزہ خیالات کے تانے بانے باندھتے ہوے جب ھمدم دیرینہ مسعود علی شاہ کا نام پکارا گیا تو ہم نے جھٹ ان کا ہاتھ پکڑ لیا .دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوا نہیں لیکن خیر انھوں نے دیکھا کہ جب عاجزی و انکساری اور دھمکیوں سے کچھ کام نا چلے تو زور لگا کر ہاتھ چھڑایا اور لگے بھاگنے اسٹیچ کی طرف۔ ہم نے آو دیکھا نا تاو، بھاگتے چور کی لنگوٹھی ہی سہی کے مصداق ان کے دامن پر ہاتھ ڈالا جو ان کی پھرتی کی بنا پر ان کے پاجامہ پر جا پڑا، اب نادانستگی میں ہم نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو ۔۔۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ

احقر کے دفاع اب کوئی ہمیں بتاے کہ ساتویں جماعت میں پاچامے میں لاسٹک پہن کر بھلا کون آتا ہے ؟ بہرحال، مشرقی دامن کی وسعت نے پاکی داماں کی حکایت کو برقرار رکھا، ان کا پردہ رہ گیا اور محترم اپنا پاجامہ درست کرتے ہوے اسٹیج کی طرف بھاگے۔ پھر اسکے بعد عرصہ دراز تک عالم یہ رہا کہ

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

تو یہ ہے عزیزان من حقیقت حال۔ سبق بپتا سے مگر کسونے نا پایا، ناہنجار مبین نے راز فاش کیا اور پردہ نہ رکھا لہذا کمبخت کے این سی ایے کے قصےدرویش کا ادھار – یار زندہ صحبت باقی

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress