آزادی اظہار رائے ‘ یا ‘فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن’ آجکل کے حالات کے تناظر میں ایک اہم اور توجہ طلب موضوع ہے ۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس بنیادی تفاوت کو سمجھا جائے جو کہ اسلامی اور مغربی تہذیبی کے اقدار میں تصادم کا باعث ہے تاکہ بہتری کی سعی کی جا سکے ۔ ہم اس مضمون میں آزادی اظہار کے زمن میں اسلامی اور مغربی رویوں پرکچھ معروضی خیالات پیش کریں گے۔ اس تحریر میں ہم ان شکوک اور ‘کانسپیریسی تھوریز’ کا ازالہ کرنا چاہیں گے کہ شماتت کی جو تحریک مغربی دنیا میں چل رہی ہے اس کا مرکز و منبع صیہونیت ہے اور اس بات پر کچھ روشنی ڈالیں گے کہ مغرب میں آزادی رائے پر اسقدر اصرار کیوں کیا جاتا ہےاور یہ بات مغرب کو سمجھانا اتنا مشکل کیوں ہے کہ تعظیم انبیا مسلمانوں کا جزو ایمان ہے اور انکی شان میں گستاخی ہمارے لئے نہایت غم و غصے کا باعث۔ اس مضمون کے ماخذات محققین کی تشفی کے لئے آخر میں درج ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی سے ہمیں یہ مثالیں واضع ملتی ہیں کہ اسلامی نظام زندگی میں ہر طرح کے اختلاف رائے کی اجازت ہے الا کہ وہ نصوص قطعی یعنی اللہ اور اسکے رسول کے واضع احکامات کے خلاف نا ہو، شعائر اسلام کا مذاق نا اڑایا جائے وغیرہ۔ رسول صلئ اللہ علیہ وسلم اور انبیا علیھم السلام کے سوا کوئی بھی فرد معصوم نہیں اور اسکے وہ افعال جو احکامات الہیہ کے خلاف ہوں، لایق تنقید ہیں۔ اسلامی نظام زندگی میں حقوق العباد کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ نہایت جامع ہے جو کہ لغویات اور لوگوں کی دل آزاری اور ہنسی اڑانے سے باز رکھنے پراخلاقی قدغن لگاتا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ سبحانہ تعالی فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ۔ (الحجرات49:11) ’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی خواتین ، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان کے بعد فسق و فجور کے نام بہت بری چیز ہیں۔ جو لوگ توبہ نہ کریں ، وہی ظالموں میں سے ہیں۔ ‘
لیکن جہاں پر عیب جوئی، غیبت اور بہتان طرازی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک یہ بھی ہے کہ :
إن أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر
جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ، افضل جہاد ہے ۔
مسند احمد ، المجلد الثالث ، مسند ابي سعيد الخدري رضي الله تعالىعنه
اس زمن میں ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا، حکام کی رائے سے اختلاف کرنا، عوامل سے جواب طلب کرنا اور اپنی رائے کا برملا اظہار کرنا اصحاب اور سلف کے طریقے سے ثابت ہے لہذا یہ کہنا کہ اسلام آزادی رائے کو سلب کرتا ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اسلام ان ابتدائی تہذیبوں میں سے ہے جہاں کوئی فرد مقدس گائے نہیں اور اس کی بنا خلافت راشدہ کی مثالوں سے صاف ملتی ہے۔ اسلام پر آزادی اظہار سلب کرنے کا الزام لگانے والے افراد کا مطالعہ محدود ہے کہ وہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابواب سے واقف نہیں۔ غرضیکہ اسلام میں اختلاف رائے کا بنیادی اصول دینی احکامات کے بارئے میں یہ ہے کہ جو احکام کتاب و سنت میں واضح طور پر بیان فرما دیے گئے ہیں انسے اختلاف کرنا کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں ہے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جس میں کسی آیت یا حدیث کی مختلف توجیہات ممکن ہوں، اس میں قیاس کیا جا سکتا ہو اور ایک توجیہ یا قیاس کرنے والا عالم ایک معنی کو اختیار کر لے اور دوسرا دوسرے معنی کو، تو ایسا اختلاف جائز ہے۔ جہاں تک دنیوئ معاملات کا خیال ہے، اس کے بارئے میں جیسا کہ فرمایا گیا
صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث نمبرات : ٣١ ، ٣٢
باب : وجوب امتثال ما قالہ شرعاً دون ما ذکرہ من معایش الدنیا علیٰ سبیل الرّای ۔
( باب : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جوشرع کا حکم دیں ، اُس پر چلنا واجب ہے ۔ اور جو بات دنیا کی معاش کی نسبت اپنی رائے سے فرما دیں ، اُس پر چلنا واجب نہیں )۔
١) طلحہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے ، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ گذرا ۔ کچھ لوگوں پر ، جو کھجور کے درختوں کے پاس تھے ، آپ نے فرمایا : یہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ لوگوںنے عرض کیا ، پیوند لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ میں رکھتے ہیں اور وہ گابہہ ہو جاتی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں سمجھتا ہوں اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے ۔ یہ خبر اُن لوگوں کو ہوئی تو انھوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بعد میں یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر اس میں اُن کو فائدہ ہے تو وہ کریں ، میں نے تو ایک خیال کیا تھا۔ میرے خیال پر مواخذہ مت کرو۔ لیکن جب میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اس پر عمل کرو ، اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں۔
٢) رافع بن خدیج سے روایت ہے … ……… آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا۔ انہوں نے گابہہ کرنا چھوڑ دیا تو کھجوروں کی افزائش گھٹ گئی۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ بیان کیا ۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں تو آدمی ہوں جب کوئی دین کی بات تم کو بتلاؤں تو اس پر چلو اور جب کوئی بات مَیں اپنی رائے سے کہوں تو آخر مَیں آدمی ہوں ( یعنی آدمی کی رائے ٹھیک بھی پڑتی ہے ، غلط بھی ہوتی ہے )۔
٣) انس(صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اگر نہ کرو تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے نہیں کیا ، اور آخر خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ادھر سے گزرے اور لوگوں سے پوچھا : تمھارے درختوں کو کیا ہوا ؟ انھوں نے کہا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا فرمایا تھا کہ گابہہ نہ کرو ، ہم نے نہ کیا ، اس وجہ سے خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔
یہ معاش اور ‘سیکولر’ کاموں میں آزادی اظہار و روش کی ایک بہترین مثال ہے اور دینی معاملات میں یہ اصول متعین کرتی ہے کہ ‘جو کچھ تمھیں رسول دیں ، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رُک جاؤ۔ ( الحشر : ٧ ) اور دنیاوی معاملات میں انفرادی آزادی پر دلالت کرتی ہے۔
اب ہم مغربی تہذیب میں آزادی اظہار پر بات کرتے ہیں۔ اس زمن میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی اظہار کا تعلق مغربی تہزیب کے ارتقا سے ہے جو اسکو اس معاشرت کا بنیادی عنصربناتی ہے۔ تاریخی طور پرجب یورپ میں کلیسا کی حکمرانی تھی تو اس کے خلاف بولنےکے بہت برے نتایج نکلا کرتے تھے، گلیلیو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں کا ‘وچ ہنٹ’ کلیسا کے مظالم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جس نے مغربی اقوام کو آزادی اظہارپر پابندی اور ظلم و جبر کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لئے مغربی اقوام نے اپنے قوانین اور آئین میں آزادی اظہار کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ امریکہ کے قیام کے بنیادی مقاصد میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک یوروپ سے بھاگ کر آئے ہوئے ان مسافروں ‘پلگرمز’ کی بدولت وجود میں آیا جو یورپ میں کلیسا کہ ظلم و ستم سے تنگ آ کر نئی دنیا میں پناہ لینے آئے تھے لہذا یہاں انہیں تحریر و تقریر، مذہب اور تمام عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگئ ۔
۔ اس زمن میں یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں آزادی اظہار مطلق، ‘ایبسولوٹ’ یعنی اپنی سراسریا مکمل اصولی شکل میں عملی طور پر نافذ نہیں۔ اب جو باتیں آپ پڑھیں گے وہ تضاداد کا مجموعہ نظر آئیں گی لیکن یہی آزادی اظہار کی حقیقت ہے۔ منافرتی تحریر و تقریر پر قدغن یورپ کے بیشتر ممالک میں رائج ہے جو کہ آزادی اظہار کے بنیادی مطلق اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح فرانس، آسٹریا اور جرمنی میں ایسی تحریرو تقریر جو ہالوکاسٹ یا دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کا انکار کرئے، قانونا منع ہیں۔آئرلینڈ میں مذہبی سب و شتم یا بلاسفیمی قانونا جرم ہے۔ لیکن امریکہ میں جس کو ہمارئے یہاں کے ٹی وی دانشور مطلق یہودی نواز سمجھتے ہیں ،درحقیقت اس بات کی قانونا اجازت ہے کہ ہالوکاسٹ ( دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں، روسیوں، معذوروں، بے خانماں لوگوں کے قتل عام ) کا انکار کر سکیں۔ امریکی(اور دیگر مغربی ) ادیبوں نے ہالوکاسٹ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور ڈیوڈ ڈیوک جیسے لوگ آزاد گھومتے ہیں جو کھلے عام اس انسانی سانحے کو فراڈ قرار دیتے ہیں، یہ آزادی اظہار کی ایک تلخ لیکن حقیقی مثال ہے۔ اس زمن میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم غلطی سے جس ‘دشمن کے دشمن’ کو اپنا دوست سمجھ رہے ہیں، کہیں اسکا اپنا کوئی مخفی ایجنڈا تو نہیں؟ ڈیوڈ ڈیوک اور اس جیسے کئی سفیدفام نسل پرست یہودی مخالف یا ‘اینٹی سیمیٹک’ بنیادی طور پر اپنی نسل پرستانہ نازی زہنیت کی بنا پر ہیں اور ان سے کسی بھی قسم کا اتحاد و تعلق مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
لیکن ریاستہاے متحدہ امریکہ میں بھی آزادی راے کے قانون کو مطلق آزادی حاصل نہیں مثلا جہاں نفرت آمیز، نسلی، جنسی و سیاسی تنقید، تحریر و تقریرکی عمومی طور پر پوری آزادی ہے وہاں فحاشی، بچوں سے متعلق جنسی مواد اور کوئی ایسی تحریر و تقریر جوامن عامہ کے لئے لازمی خطرے کا باعث ہو قانونا منع ہے۔ اور تو اور گالی دینے پر بھی آپ کو قانونا جرمانا ہو سکتا ہے۔ آپ امریکی صدر کی شان یا ہجو میں جو چاھے کہیں لیکن کسی بھی قسم کی پر تشدد دھمکی آپکو فورا جیل کا منہ دکھا سکتی ہے۔ من الحیث المسلم اب آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ تشدد پر ابھارنا جرم لیکن مقدس ہستی کا مذاق اڑانا جرم نہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟ لیکن بدقسمتی سے یہی وہ اختلاف اقدار اور تفاوت ہے جو مغرب اور اسلامی اقدار کو آزادی اظہار کے بارے میں جداگانہ تشخص دیتا ہے۔
اظہار رائے کی آزادی صرف رائے کی آزادی کا نام نہیں بلکہ تحریر و تقریر و عمل کی آزادی کا بھی نام ہے جسے امریکہ میں پہلی ائینی ترمیم کی حمایت حاصل ہے۔ عمل کی آزادی کی بنیادی شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ اس سے کسی دوسرے کو تکلیف نا پہنچے۔ اس زمن میں ہم برطانیہ میں عوامی مقامات پر شراب نوشی کی مثال دینا چاہیں گے جو کہ قانونا جائز ہے جبکہ امریکہ میں یہ قطعی خلاف قانون ہے کہ عوامی مقامات جیسے سڑک، پارک وغیرہ پر مے نوشی کی جائے ۔ اکثر برطانوی نژاد امریکی اسے بنیادی حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح زنانہ پستان کی ستر پوشی کی جو حدود برطانیہ، اسرائیل یا آسٹریلیا میں قانونی ہیں وہ امریکہ کی بیشترریاستوں میں قطعی غیر قانونی قرار دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ نجی ادارے اپنے قوانین بھی رکھتے ہیں جو آزادی اظہار میں مذید قدغنیں لگانے میں قانونا آزاد ہیں مثلا کوئی ایسا لفظ یا فقرہ جس سے کسی ملازم کی دل آزاری ہوتی ہواسے نجی اداروں میں ادا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ کسی کو رنگ، نسل، زبان، جنسی میلان یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بنانا تو منع ہے ہی لیکن اسے اس تناظر میںصرف مخاطب کرنا بھی آپکو نوکری سے ہاتھ دھونے کی نوبت دلا سکتاہے۔ لیکن اسی کی دوسری منفی حد فرانس میں عوامی مقامات پر حجاب پر عائد پابندی ہے جو آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ غرضیکہ جس آزادی اقدار و اظہار پر مغرب فخر کرتا ہے،یہاں اسی پر کئی بنیادی قدغنیں بھی لگائی جاتی ہیں لیکن عمومی رجحان یہی ہے کہ یہ ایک آزاد ملک ہے اور یہاں ہر فرد کو اپنے نظریہ، عقیدے کی مکمل آزادی ہے اور آزادی اظہار کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہ بات وسیع پس منظر میں بہت حد تک درست ہے اور دعوت دین کے لئے رحمت کا باعث بھی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ جناب مسلم ممالک میں توآزادی رائے کاعشر عشیر بھی حاصل نہیں، آپ مغرب کو نصیحت کرنے چلے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اول تو اسلامی نظام بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں اپنی اصل روح کے ساتھ موجود نہیں ورنہ آپ عوام الناس کو حکمرانوں سے انکے اعمال کا جواب طلب کرتے دیکھتے دوم یہ کہ ہماری آزادی رائے بھی مغرب کی طرح مطلق نہیں بلکہ ہماری اسلامی اقدار کی پابند ہے۔ ہم آزادی رائے کے نعرے کے تلے مادر پدر آزاد نہ ہونگے مثلا فحاشی ، عریانی اور بیہودہ مواد کی تقسیم بیشتر مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے تحت بالغان کے لئے جائز ہے لیکن یہ اسلامی ریاست میں سراسر نا جائز ہوگی وغیرہ۔ لیکن جہاں تک اختلاف رائے اور احتساب کی بات ہے، اس کی ایک اسلامی ریاست میں مکمل آزادی ہوگی۔
اس طویل تمہید و گفتگو سے ہمارا مدعا یہ بیان کرنا ہے کہ آزادی اظہار کسی بھی جگہ لا محدود نہیں۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ معاشرہ کس بات کوبرداشت کرتا ہے اور کس بات کو برا جانتا ہے، یہ فرق ہر اس معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ جہاں معروف و منکر کی حدود انسان کی بنائ گئ ہوں۔ نیز چونکہ ہم اسلامی تہذیب سے وابستہ ہیں جہاں انبیا کی تعظیم کی جاتی ہے اور انکی تضحیک ایک قابل تعزیز فعل ہے، ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی اصول شائد مغربی معاشرے میں بھی لاگو ہونگے یا کم از کم وہ ہمارے جذبات کا خیال کریں گے جو کہ ایک مغالطہ ہے۔
دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ مغرب میں ‘آیکنوکلاسٹ’ طبقے کی بہتات نہیں تو قابل توجہ موجودگی ہے جو کہ معاشرے کی تمام حدود و قیود کو پامال کرنے کے درپے رہتا ہے مثلا فری ٹاپ، نامبلا، اسکیپٹک سوسائیٹی وغیرہ ۔مذہب کو تفنن کا نشانہ بنانا اور اس پر آوازے کسنا برطانیہ میں تو عوامی مزاج کا حصہ ہے جس کی بنا پر سابق وزیر اعظم ٹونی بلئر کو اپنے عملی کیتھولک ہونے کا اعلان وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کے بعد کرنا پڑا کیونکہ انکے بقول مذہبی افراد کو پاگل یا ‘نٹس’ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح دائیں بازو کے قدامت پسند جو مسلمانوں سے نالاں رہتے ہیں، بائیں بازو کے افراد جو مذہب سے ہی عمومی طور پر بیزار ہیں اور ملحدانہ خیالات کے حامی لوگ مختلف حیلوں سے آزادی اظہار کی آڑ میں نفرت و تفنگ کے تیر چلاتے ہیں اور چونکے انہیں اس بات کا علم ہے کہ یہ مسلمانوں کو یہ امر انتہائی ناگوار گذرتا ہے، اس کو بار بار کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔
اس امرمیں اس بات کا خیال رکھنا چاھیے کہ انسانی فطرت بنیادی طور پر حلم اور اچھائی کی طرف مائل ہوتی ہے اور مغرب میں عمومی طور پر لوگ اس قسم کی لغویات کے حامی نہیں ہوتے۔ عام طور پر لوگ چاھے آپ کے نظریے سے اختلاف ہی کیوں نا رکھتے ہوں دل آزاری سے حد درجہ پرہیز کرتےہیں لیکن ہر دوسرے معاشرے کیطرح یہ خاموش اکثریت میں ہیں ۔ اسی وجہ سے معمولی ‘فرنج’ طبقات کو واضع ہونے کا موقع مل جاتا ہے جیسے ‘ساوتھ پارک’ کی طرح کے شو ہیں جن کا مقصد ہی ہر بات کا مذاق اڑانا ہے چاھے وہ کوئی فرد ہو یا مذہب، نظریہ ہو یا مقدس ہستی۔ اس کے خالقین میٹ اور ٹرے اپنے آپ کو ملحد گردانتے ہیں اورریٹنگس کے علاوہ انکا کوئی خدا نہیں۔ ان لوگوں سے کسی قسم کے سنجیدہ مکالمے کی توقع کرنا فضول ہے ۔ یہ لوگ اظہار رائے کی آزادی کے قوانین کافائدہ اٹھا کر لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں جس کی لپیٹ میں مسلمان، عیسائی، مورمن، ساینٹولوجسٹ، یہودی، ملحدین، سیاستدان، اکابرین وغیرہ سب آتے ہیں اورسب کو تضحیک و فضیحت، سب و شتم میں برابر کا حصہ ملتا ہے۔ یہ نا توکوئی یہودی و صیہونی سازش ہے اور نا کوئی کانسپیریسی پلاٹ، ہمیں حقیقت کو آنکھیں کھول کر دیکھنے اور اپنے تمام مسائل کے لئے’کانسپیریسی تھیوریز’ اور صیہونی سازشوں کو الزام دینے سے اجتناب کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اگر آپ ان افراد کی آواز کو دبانے یا سینسر کرنے کی بات کریں تو یہ آزادی رائے کی مغربی اقدار پر حملہ تصور ہوگا۔ جس طرح ہم مسلمانوں کو اپنی اقدار پیاری ہیں اسی طرح دین مغرب بھی اپنی بالادستی چاہتا ہے اور یہیں پر ان تہذیبی اقدار کا ٹکراو ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے افراد کو مغربی ممالک اسلام دشمنی میں پناہ دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پرحقیقت یہ ہے (دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے) کہ انکو انکی اظہار رائے پر مبینہ عقوبت و ایذا رسانی ‘پرسیکیوشن’ سے بچنے کے لئے پناہ دی جاتی ہے ۔ اسی طرح جیسے دیگر ہزاروں افراد اسایلم یا سیاسی پناہ گزینی کی درخواست پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ قادیانی بھی اسی رعائت کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو مظلوم اقلیت جتا کر ہمدردیاں اور ویزے سمیٹتے ہیں (میرے خیال میں قادیانی وہ اقلیت ہیں جن کی آنے والی نسلوں کو تنہا کر کے دعوت و تبلیغ کابیش قیمت موقع ضائع کیا گیا ورنہ مخلصانہ کوششوں سےانکو واپس دائرہ اسلام میں لانا شائد اتنا مشکل نا ہوتا)۔ شاتم الرسول تھیو وین گوہ کے واصل جھنم کئے جانے جیسے واقعات آزادی مذہب و اظہار کی ہمدردی کے ان مغربی جذبات کو تقویت دیتے ہیں اور اس زمن میں افراد، ادارے اور حکومتیں اظہار رائے کی آزادی کو بچانے کی کوششوں کے لئے مختلف اقدامات کرتے ہیں ۔ اس زمن میں کیر کے نہاد عود کاانگریزی مضمون پڑھنے کے قابل ہے.
تو اس طرح کے واقعات میں من الحیث المسلم ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیےِ؟ یہ ایک نہایت دقیق سوال ہے کیونکہ عملیت کی اشکال میں اختلاف انسانی فظرت کا خاصہ ہے۔ میری نہایت ناقص رائے میں جسے شائد کچھ لوگ ناقابل عمل بھی قرار دیں، اللہ سبحانہ تعالی میری غلطیوں سے درگذر فرمائے، ہمیں ایک حقیقی داعی کی طرح دعوت الی اللہ اور رائے عامہ کی بیداری پر کام کرنا پڑئے گا۔ جس طرح یہودیوں نے ہالوکاسٹ کو شجر ممنوعہ قرار دلوایا ہے، ہمیںمغربی آزادی رائے کی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے، عصمت انبیا و مقدس ہستیوں کے تقدس کو منوانا ہوگا جو کہ ایک دشوار اور محنت طلب کام ہے۔ مغربی تخیل میں ایک قتل عام’ہالوکاسٹ’ کو مقدس ہستی کے ‘محض کارٹون’ (نعوذباللہ)سے مقابلے کی کوئی نسبت نہیں لہذا اسے اس بات پر قائل کرنا کہ یہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی بات ہے ایک نہایت دشوار کام ہے۔ آپ چاھے جتنا تلملا لیں، ایک عام مغربی ذہن کو ان دونوں باتوں کو ایک طرح کی آزادی رائے سمجھنے میں اتفاق نا ہوگا کیونکہ ایک طرف آزادی اظہار و تحریر کی ایک شکل ہے اور دوسری طرف وسیع پیمانے پر نسل کشی کا دن منانا ، اسکا موازنہ مغربی سوچ میں آزادی اظہار کی کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ آپ اس بات کو کہنے پر راقم کو زندیق قرار دے سکتے ہیں لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہونگے۔
لیکن ایک داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ سبحان تعالی کی طرف بلائے اور ہمارئے حسن سلوک سے اگر وہ مسلمان نا بھی ہوں تو کم از کم مسلمانوں کے متعلق اچھے خیالات رکھیں۔ یقین کریں جس دن ہماری دعوت و تبلیغ اور معاشرے میں دخول سے کسی فرد کو یہ احساس ہوا کہ اسکا یہ قبیح فعل اسکے مسلمان دوست کی دل آزاری کا سبب بنے گا، یہ تحریک اپنی موت آپ مرجائگی۔ پر امن طریقے سے اور احسن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواناہماری دینی غیرت اور حمیت کا تقاضا ہے لیکن خیال رہےکہ بات ہمیشہ ، حکمت و موعظت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے جیسا کہ حکمت و موعظت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا طرہ امتیاز رہی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تبلیغ درج ذیل آیت کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
(اے نبی) آپ (لوگوں کو ) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقے سے گفتگو کیجئے جو بہترین ہو۔
( سورة النحل : 16 ، آیت : 125 )
آپ اسے میری سادگی سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن مشاہدے اور مطالعے سے میرا یہی نتیجہ ہے کہ دارالکفر میں دعوت الی اللہ اوردارالسلام میں اقامت دین کی جدوجہد ان تمام مسائل کا مستقل حل ہے۔
نیز یہ کہ ہالوکاسٹ ایک انسانی المیہ تھا چاھے وہ کسی قوم، مذہب یامسلک کے لوگوں کے ساتھ ہوا ہو، اس کی حمائت کرنا مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں قطعی زیب نہیں دیتا۔ آپ اسکی تاریخی حیثیت پر علمی بحث کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں لیکن اپنے دل سے یہ پوچھ لیجئے گا کہ بقول سخصے یہ کہیں بغض معاویہ رضی اللہ عنہ میں حب علی رضی اللہ عنہ تو نہیں؟
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (المائدہ)
اللہ سبحان تعالی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات