July 29, 2010
خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمید اللہ کا مختصر تعارف
July 19, 2010
مرزائی رہنما کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ
‘لاہور میں اٹھایس مئی کو طالبانی ہتھیار برداروں نے دو عبادت گاہوں پر حملہ کر کے 86 احمدیوں کو ہلاک کردیا۔ ان دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا جو تمام کے تمام اس بات پر راضی ہیں کہ احمدیوں کا قتل ایک عظیم الشان فعل ہے”
“یہ مذہبی اقلیت کے خلاف دہشت گردی کا کوئ بےترتیب واقعہ نا تھا بلکہ یہ ریاستی پشت پناہی ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ’ اور عوامی منظوری سے کیا جانے حملہ تھا” اور “پاکستان اور دیگرکئی مسلم ممالک میں مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے”
“پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت سب کے لئے آزادی اور انصاف کی مشترکہ اقدار پر یقین نہیں رکھتی”۔
July 18, 2010
تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم
‘مسلمان کا ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی۔ باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوے ‘ صفحہ 91
July 10, 2010
مجھے میرے بلاگر دوستوں سے بچاو
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مضمون بلاشبہ پطرس و یوسفی کی زمین میں لکھا گیا ہے لہذا اس کی تمام ارضی و سرقی خصوصیات محض اتفاقی نہیں ہیں اور نا ہی تمام کردارو واقعات مکمل طور پر فرضی ہیں،کسی بھی قسم کی اتفاقی مماثلت پر ادارہ مکمل طورپرذمہ دارہوگا۔
July 9, 2010
دعوت الی اللہ کا کام اورکچھ شکوک کا ازالہ
July 3, 2010
دور جدید کا انسان – سطحیت کا فروغ اور ارتکاز کا تنزل
نکولس کار اپنی نئی کتاب ‘انٹرنیٹ ہمارے دماغوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے- سطحی پن‘ میں اطلاعاتی دور کے انسانی ذہنوں پر ہونے والے اثرات پرگفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے اسی زمن میں اپنے ایک مقالے، ‘کیا گوگل ہمیں کم عقل بنا رہا ہے’ کے عنوان سے انٹرنیٹ کے انسانی زہن کی غوروفکر اور سمجھ بوجھ ‘کاگنیٹیو صلاحیتوں’ پر ہونے والے مضر اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ نکولس کار انٹرنیٹ اور ورلڈ وائڈ ویب کو ارتکازی کمی کا موجب قرار دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ‘ہم نے تنہائی میں ، مکمل یکسوی و توجہ کی علمی روایت کو جھٹلا دیا ہےجو کہ مطالعہ کتب سے حاصل ہوتی ہے’۔ وہ ارتکاز کی اس کمی کو ایک بڑی معذوری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘نیٹ ہماری ارتکاز، معلومات کو یکسوئی سے ذہن میں جمع کرنے اور غورو فکر کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے’۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تخلیق کے اس دور میں ایک بہت بڑی کمی موجود ہے کہ ہم اتلے، سطحی یا کم گہرے بن رہے ہیں’۔
نکولس اس سوچ میں تنہا نہیں۔ ترقیاتی ماہر نفسیات میری این ولف شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچوں کے ، جو انٹرنیٹ کی بھاری صارفین ہوں،’ وہ صرف ‘ڈیکوڈر’ ہیںجن میں اس بات کی کوئی جستجو نہیں پائی جاتی کہ وہ محض ان معلومات سے جو انکی گوگل کائنات میں موجود ہوں،آگے سوچیں’ ڈاکٹر ولف کہتی ہیں کہ ‘فوری طور پر بہت سی معلومات کی دستیابی کا مقابلہ صحیح علم سے نہیں کیا جانا چاہئے’۔
اس نظریے کے نقاد کہتے ہیں کہ انسان کبھی تبدیلی کو پسند نہیں کرتا اور حیلے بہانوں سے اس پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد پرپندرہویں صدی عیسوی میں وینس کا ایک مدیر ہایرونیمو کہتا تھا کہ کتابوں کی بہتات انسان کو کم علم بنا دیتی ہے۔ کیا یہ جنگ کثرت یا بہتات کے نئے رجہان خلاف ایک فطری عمل ہے یا اس کا کوئی حقیقی نقصان بھی ہے؟ ایک اکیڈمک ہونے کی حیثیت سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں بتاتا چلوں کہ نکولس کار اور ولف وغیرہ کے نظریات ساینسی طور پر ثابت شدہ نہیں اور محض خیالات کا درجہ رکھتے ہیں لیکن راقم الحروف کے اپنے مشاہدات بھی کچھ اس سے مختلف نہیں جن کو برسبیل تذکرہ لکھتا جاتا ہوں۔ ہم انسانی ترقی کو عموما تین بنیادی انقلابی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
١ ۔ ساینسی طریقے کا انقلاب جب انسان نے ‘ساینٹفک میتھڈ’ سے چیزوں کو پرکھنا سیکھا
٢ ۔ صنعتی و میکانیکی انقلاب جب کہ انسان کے طرز حیات میں پہیے اور مشینوں سے بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔
٣ ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی یا علم اطلاعات کا انقلاب جب دینا کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک عالمی گاوں بنانے کی سعی کی گئی اور دنیا بھر کی متنوع اقسام کی معلومات آسان دسترس میں آ گئیں۔
لیکن کیا معلومات کا یہ سمندر واقعی کسی با معنی علمی اہمیت کا حامل ہے؟ یہ سوال سنجیدہ ساینسی تحقیق کا متقاضی ہے۔ لیکن، کیا ایسا نہیں لگتا کہ آج کے ارتکازی قوت سے محروم انسان کے پاس گفتگو کرنے کے لاکھوں ذرائع موجود ہیں لیکن مکالمے کی صلاحیت نہیں۔ مین بکر انعامات سے لبریز کتب خانے تو موجود ہیں لیکن قاری نہیں، کسی کو صریر خامہ کے نوائے سروش ہونے کی نوید دیں تو وہ منہ تکے اور جذبات سے لبریز نفوس سے نظریات پر گفتگوکی جائے تو نہ انہیں قدیمی خلق القران کے فتنے کا علم ہو اور نہ جدیدی اشتراکیت پر سیر حاصل معلومات، گوگل لیکن جتنا چاہے کروالو لیکن ‘اینکڈوتل ایوڈنس’ یا سطحی معلومات سے اوپر سوچ کے دریچے بند ہیں۔ مستعار عقل و نظریات کے حامل ان طفیلیوں’پیسٹس’ کے لئے ذندگی ایک میکانیکی حرکات کا مجموعہ ہے جس میں کسی قسم کی گہری سوچ اور نظریات کی موجودگی شجر ممنعوعہ ہے۔
عصر حاضر کے انسان کے پاس ذرائع علم تو ہیں لیکن علم نہیں- وکیپیڈیا اور گوگل سے مستعار لی گئی عقل کے ڈانڈے ‘ہائو مائنڈ’ یا ‘چھتے کی سوچ’ سے جا ملتے ہیں جہاں اتباع تو ہے، انفرادیت نہیں۔ کسی مباحثے کا رد اس امر میں پنہاں ہے کہ اس کو کس قدر مہارت سے گوگل کیا جاسکتا ہے۔ یوں تنقیدی سوچ اور معلومات کو ‘آوٹ سورس’ کرکے دور جدید کے انسان نے اپنے لئے مذہب، روحانیت، علم الکلام، کاگنیشن، ارتکاز، ادب، آرٹ، فلسفہ، منطق اور دیگر کئی علوم و فنون کے دروازے بند کرنا شروع کر دئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ذہنی ارتقا کی ہزاروں سالہ ‘تجرباتی’ روش کو تبدیل کرنا انسانی مفاد میں ہے؟ کیا اب کوئی ورڈسورتھ، ٹینیسن، حافظ اور ولی دکنی غزل سرا نا ہونگے۔ موجودہ تجزیہ نگاری بھی اسی طوفان ‘معلومات’ علم بود کا شاخسانہ ہے تو کیا ہم ‘اوور انیلازیشن’ یا بے معنی تجزیوں کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے جہاں قرار واقعی خیالات نا پید ہوں اور بولنے کو مواد کی کوئ کمی نا ہو۔ جاس وھیڈن ، دس امریکن لایف کے ایک پروگرام میں اس تجزیہ نگاری اور قصہ خوانی کی موت پر بہت بہترین طنز کرتا ہے۔ انگریزی میں سننے میں بہتر لگتا ہے لیکن ہم اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک غار کے انسان نے دیوار پر تصویر بنائی
تھا یہ ایک بائسن ‘نیل گاے’
دوسرے غار کے لوگوں نے اسے پسند کیا
اس سے نہیں پوچھا کہ بایسن کیوں بنایا؟
اگر یہ مر چکا ہے تو اسے کیوں بنایا؟
آپ نے رنگ سرخ کیوں منتخب کیا؟
تمہارے دماغ سوچ و بچار کاعمل کیا گیا؟
اس نے کہانی سنائی
اس سے قبل کیا ہوا اور بعد میں کیا ہوا نہیں بتایا
بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔
ہومر کی اوڈسی کا تھا اپنا رنگ
کچھ دوستوں کی کہانی
جنہوں نے بہت ہی مشقت کے سفر کئے
ہومر نےکہانی سنائی لیکن اس نے نہیں بتایا
کی اس کا کیا مطلب ہے؟
اور یہ کچھ خارج کردہ ‘سینز’ ہیں۔
اس کہانی کو کم عمر کے لوگوں نے پسند کیا ہے
لیکن وہ صرف ایک کہانی ہے
وہ صرف ایک دروازہ ہے جو ہم کھولتے ہیں اگر
ہماری زندگی کو اسکی ضرورت ہو
لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل
قصہ بار بار دکھاے جانے کے بوجھ سے ٹوٹ چکا ہے
انٹرنیٹ کی اقساط سے
پہلے اور بعد کے تجزیات سے،
کھیلوں سے اور کوڈز سے
قصہ مر جاتا ہے
کھنچ کھنچ کر، شکستہ و بوسیدہ
ارے ، اس مزے کو بگاڑنے کا انتباہ
لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل
جیڈ کہتا ہے۔
جاش، تم بزنز کے خلاف باتیں کیوں کر رہے ہو
یہاں سب اسی طرح چلتا ہے
تم ہر شخص کو پریشان کر رہے ہو
جیک کہتا ہے۔
یہ تو پرانا آؤٹ آف ڈیٹ فلسفہ ہے دوست
کھانے کی میز کے لئے ، براہ مہربانی وہیں یہ باتیں کیا کرو
ہم نے یہاں ڈی وی ڈی بیچنی ہے۔
تم جن چیزوں کو لات مار رہے ہو انکے بغیر
کوئ شو بز میں تمہارا نام لیوا نہ ہوگا۔
تم نظر انداز کردئے جاو گے، ہر موڑ پر
جاس دوبارہ گاتا ہے:
میں نے کچھ غلط چیزوں کے بارے میں گایا تھا،
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا
ٹھیک ہے ، چلواب اس اداکار کے انداز کلام کے بارے میں بات کریں
اوہ یہ ہے اچھا نہیں ہے
چلو اس سین کا خوب تجزیہ کریں
اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل
دل کے..