فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

July 29, 2010

خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمید اللہ کا مختصر تعارف

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 10:41 pm
اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے کہ جن کی تحقیقی اور دعوت دین کے لئے کی جانے والی خدمات کا مقابل عصر حاضرمیں شاید ہی کوئی مل پائے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’  خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
Khutbat bahawalpur
ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خوبی آپ کا آسان، عام فہم اور دعوتی انداز بیاں ہے۔ آپ کی تحریروں میں عالمانہ انکسار اور افہام و تفہیم کا جز جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر و تقریر میں جارحانہ انداز بیاں کو کہ آجکل کے علما کا خاصہ ہے ذرا نظر نہیں آتا۔ آپ تحقیق کا نچوڑ اور متقابل قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اپنی راے بیان کر کے قاری کو اپنی راے متعین کرتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انداز جدید دور کے قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق اور طلب علم میں‌گذرا ۔ 17 دسمبر 2002 کو اسلام کا یہ فرزند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فرانس میں‌قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق رہا لیکن شومی قسمت سے وہ جب تک صحت کی خرابی کی وجہ سےامریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ اب جیکسن ول فلارڈا میں‌ہارڈیج گنز فیونرل ہومز میں منوںمٹی کے نیچے آرام فرما ہیں اور آپکا صدقہ جاریہ، کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات دین کے طالبعلموں‌کے لئے زاد راہ ہیں۔
خطبات بہاولپور آپ کے مارچ 1980 میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں‌ دئے جانے والے لیکچرز کی جمع کردہ کتابی شکل ہے۔ ان  تیرہ عدد خطبات میں مندرجہ زیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ تاریخ قران مجید، تاریخ  حدیث شریف، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ و اجتہاد، قانون بین الممالک، دین عقائد عبادات تصوف، مملکت اور نظم و نسق، نظام دفاع اور غزوات، نظام تعلیم اور سرپرستی علوم، نظام تشریع و عدلیہ، نظام مالیہ و تقویم، تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاو۔ یہ کتاب عام فہم انداز میں تحریر کردہ ہے لیکن موجودہ دور کے کئی پیچیدہ سوالوں کے عام فہم اور با معنی جوابات کے لئے اس کا مطالعہ نہایت اکثیر ہے اور اس میں ہمارے لئے فروعات سے نکل کر اصول کی پیروی کرنے کے لئے بہت خوب نصیحت ہے۔
سوال جواب کے حصے سے ایک مختصر ٹکڑا یہاں پر مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ ایک نہایت دقیق اور مشکل مسئلہ کے آسان اور جامع جواب کو ہی شائددریا کو کوزے میں بند کرنا کہتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر حمیداللہ کیے نقطہ نظر سے متفق ہوں یا نا ہوں، انکی علمی استعداد اور عام فہم انداز میں صلاحیتوں کے ضرور معترف ہو جا ئیں گے۔
Share

July 19, 2010

مرزائی رہنما کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ

Filed under: پاکستان,خبریں — ابو عزام @ 12:41 pm
عربی و انگریزی جریدے الاخبار نامی ہفت روزہ مجلے کی آٹھ جولائی کی اشاعت میں احمدی عبادت گاہ کے سربراہ شمشاد احمد قادیانی کا ‘آزادی کی میرے لئے کیا اہمیت ہے’ کے عنوان سے ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا مکمل متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنی تحریر میں شمشاد احمد صاحب نے پاکستان کی حکومت، اداروں اور عوام کی اکثریت پر احمدیوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
‘لاہور میں اٹھایس مئی کو طالبانی ہتھیار برداروں نے دو عبادت گاہوں پر حملہ کر کے 86 احمدیوں کو ہلاک کردیا۔ ان دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا جو تمام کے تمام اس بات پر راضی ہیں کہ احمدیوں کا قتل ایک عظیم الشان فعل ہے”
مزید الزام تراشی کرتے ہوے کہتے ہیں
“یہ مذہبی اقلیت کے خلاف دہشت گردی کا کوئ بےترتیب واقعہ نا تھا بلکہ یہ ریاستی پشت پناہی ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ’ اور عوامی منظوری سے کیا جانے حملہ تھا”  اور “پاکستان اور دیگرکئی مسلم ممالک میں مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے”
مزید زہر افشانی کرتے ہوئے وہ امریکہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے کہے کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں نیز یہ کہ
“پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت سب کے لئے آزادی اور انصاف کی مشترکہ اقدار پر یقین نہیں رکھتی”۔
اگر آپ کو میرے ترجمے پر اعتراض ہو تو آپ خود پیراگراف نمبر 7-9 کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملہ دہشت گردی کا ایک فعل تھا جس کی ہر مکتبہ فکر کی جانب سے مذمت کی گئی۔ پاکستان کا ہر طبقہ چاہے وہ مذہبی اقلیت ہو یا مسلم اکثریت، اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ‌ میں ہے۔ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، ہر فرقے کے افراد کو دہشت گردی کی بہیمانہ غیر انسانی وارداتوں کا سامنا ہے۔ سید علی ہجویری کی قبر پر ہونے والے دھماکے ہوں، سرگودھا  میں امام بارگاہ پر حملہ ہو، مہمند ایجنسی یکہ غنڈ میں ہونے والا خود کش دھماکہ ہو یا منگورہ میں’فدائی’ حملہ، ہمارا ملک دہشت گردی کے ایک ایسے خونی بحران سے گذر رہا ہے کہ جس میں پاکستانیوں کی جان و مال جنس ارزاں ہوگئیں ہیں۔ ان خراب حالات میں جبکہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے، مرزایوں کی طرف سے یہ گمراہ کن بیان کہ یہ حملے نہ صرف خاص طور پر احمدی فرقے کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ یہ کہ اس میں کسی طرح پاکستانی حکومت کی اسپانسرشپ اور پاکستانی عوام کی مرضی شامل ہے ، نہایت افسوسناک ہے۔
پچانوے فیصد سے زائد مسلم اکثیریتی آبادی کے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتوں کےحقوق حاصل ہیں۔ غیر جانبدار عالمی تجزیات اور رپورٹوں کی روشنی میں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے  جن میں عیسائی، ہندو اور قادیانی شامل ہیں لیکن یہی دہشت گردی کی وبا اسلامی فرقہ جات کے لئے بھی یکساں طور پر قتل و غارت کا پیغام لے کر آئی ہے اور اعداد وشمار اس بات کے گواہ ہیں۔ دہشت گرد بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک مذمتی بیان کی پریس ریلیز بھی نظر نہیں آتی ۔ چونکہ یہ ‘غیر جانبدارانہ’ سروے صرف اقلیتوں کے حقوق کی نمایندگی کرتی ہیں، اس وجہ سے ‘بگ پکچر’ یا دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوپاتی اور یہ تاثر بننا شروع ہو جاتا ہے کہ اس دہشت گردی کا اصل منبع اکثریتی مسلم آبادی کی اقلیتی غیر مسلم آبادی پر ایذا رسانی ہے جو حقیقت سے بعید تر ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام نے کبھی اس طرح کی کاروایوں کی حمائت نہیں کی اور شمشاد احمد کا یہ شرمناک الزام کہ ‘ دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا’ مملکت پاکستان کی انتظامیہ اور عوام پر بلاوجہ لگایا جانے والا بہتان ہے ۔ اس طرح کے بے سروپا الزامات اور ہرزہ سرایاں کرکے مرزا غلام احمد کذاب کے ماننے والےشمشاد صاحب شائد اپنے غیر ملکی آقاوں کو تو خوش کر سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ ڈایلاگ کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے۔
Share

July 18, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

Filed under: پاکستان,تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 1:56 am
گذشتہ کچھ عرصے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ تہذیبی نرگسیت کا باطل نظریہ خام ذہنوں میں مستقل شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ خصوصا لبرل اور لادینی عناصر اپنی تحاریر اور گفتگو میں اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ نئے ناپختہ اذہان اس فتنے سے متاثر نا ہوں، اس لئے ہم نے پچھلے دو حصوں میں بتدریج اس فتنے کے بنیادی تضادات، نصوص قطعیہ پر مصنف کے اعترضات اور اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق قران و حدیث سے دلائل پیش کئے ہیں ۔ اس تیسرے حصے میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس خود ساختہ ‘نرگسیت’ کی حقیقت اور غلبہ اسلام کے بارے میں‌ نصوص قطعیہ سے اتمام حجت کریں اور اس فتنے کے علمی سرقے پر کچھ روشنی ڈالیں ۔ نیز ہم یہ بات واضع کرتے چلیں کہ اس مضمون اور اس کے پہلے دو حصوں کے مخاطب وہ شعوری مسلمان ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو تہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اس نرگسی فتنے کے اسباب و حقایق پر اپنی تشفی قلب کے لئے مزید معلومات کے خواہاں ہیں۔ آپ نے اگر پچھلے دو حصوں کا پہلے مطالعہ نہیں کیا تو برائے مہربانی اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے ان دونوں حصوں کو ضرور پڑھ لیں۔

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

کئی لوگوں نے اس کتاب کے حصول کے لئے پوچھا تھا، تو ان سے گذارش ہے کہ اس زمن میں اپنے لوکل کتب فروش سے رابطہ کریں، یہ کتاب سانجھ پبلیشرز نے شائع کی تھی اور یہ ایمیزون پر موجود نہیں لیکن آپ دکاندار ڈاٹ کام سے رابطہ کر کے آرڈر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اس کے متن سے شدید اختلاف رکھتا ہوں،لیکن اس کتاب کا ٹارنٹ ڈاونلوڈ چوری کے زمن میں آئے گا جو کہ ایک مسلمان کے قطعی شایان شان نہیں اور شرعا موجب گناہ ہے۔
پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر انسانی مسئلے، پریشانی اور ناکامی کی بنیادیں مذہب سے جوڑنے پرمصر ہوتے ہیں اور اس کے لئے نت نئے اعتراضات تراشتے رہتے ہیں، نرگسیت کا بے معنی اعتراض بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ اس طبقے کی اپنی سوچ مغرب سے مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اسی لئے وہ علمی سرقے سے بھی گریز نہیں کرتے اور لی ہاورڈ ہاجزکے 2002 کے ‘دی ایرانین’ میں چھپنے والے مضمون ‘وکٹمالوجی’ میں میں تصرف کر کے کتابی شکل دے دیتے ہیں اور بیشتر پیراگراف من و عن ترجمے کر کے بغیر حوالے کے چھاپ دیتے ہیں۔ سرخے سے سرقے کا سفر شاید اتنا طویل نہیں۔ مزید تفصیل کے لیئے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
بہرحال، یہ توہے ان لوگوں کے علمی دیوالیےپن کا حال ۔ مجھے غالب گمان ہے کہ اس نظریے کے حامی افراد ضرور کہیں گے کہ چلیں سرقہ ہی سہی، بات تو درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبرل تعصب کی پٹی ہٹا کر دیکھا جاے تو یہ باتیں علمی،عقلی و عملی بنیادوں پر بلکل پورا نہیں اترتیں۔ ہم مندرجہ زیل دس نکات میں یہ بات واضع کرتے چلیں گے۔
اولا – جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، درحقیقت اسلامی نرگسیت یا ‘مسلم  نارسسززم’ کی اصطلاح اسلام دشمن مستشرقین کی اختراع ہے، گوگل کی اس تکنیکی دنیا میں اس دعوی کی تصدیق کرنا کوئی مشکل نہیں، مسلم نارسسززم واوین ‘کوٹس’ میں لکھیں اور جو نتائج آئیں ان مضامین اور ان کے مصنفین کی جانبداری علمی پیرائے میں پرکھیں، آپ کو میرے ‘سازشی نظریات’ پر شائد یقین آجائے۔ اس اصطلاح کا استعمال اسلام دشمنی کے لئے تو نہیایت موزوں ہے، تجدد، خود تنقیدی اور بہتری کے لئے نہیں۔ نیز اس اصطلاح کا کریڈٹ بھی گمان  غالب ہے کہ لی ہاورڈ ہاجز ہی کو جائے گا، مبارک حیدر یا انکے حوارین کو نہیں۔
ثانیا – بقول مصنف نارسززم اپنے آپ کو، اپنے نظریات کو یا اپنے مذہب کو دیوانگی کی حد تک چاہنے کا نام ہے۔ مغرب میں مثل مشہور ہے کہ نرگسی فرد اپنے آپ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی جنس تبدیل کرکے اپنے آپ ہی سے شادی کرلے۔ آج مصنف جس تہذیبی نرگسیت کو ام الخبایث قرار دے رہے ہیں، کیا وہ اس پیمانے پر پورا اترتی ہے؟ اسلامی تہذیب کی اساس توحید، رسالت، عبادت، پاکیزگی، تقوی،حسن سلوک، ایمانداری، اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہے۔ آج جن افراد کو آپ تہذیبی نرگسیت کا منبع قرار دینے پر مصر ہیں، کیا ان میں اسلامی تہذیبی رویوں کی کوئی ہلکی سی رمق بھی دکھائی دیتی ہے؟ اگر یہ حقیقتا اپنی تہذیب پر فخرواعزاز کا معاملہ ہوتا تویہ لوگ پہلےاپنی تہذیب کو اپناتے اور اس پر عمل کرتےنہ کہ اس کے قطعی مخالف اعمال کو اپنا وطیرہ بناتے۔
درحقیقت فکر و استنبطاط کی صلاحیتوں سے یکسر محروم مصنف اور انکی صنف کے لبرل تشدد پسند لوگ جابر و کرپٹ حکمرانوں، سماجی ومعاشرتی تفاوت سے پیدا ہونے والےرجحانات، نیو امپیریلزم اور بیرونی حملہ آوروں جیسے بڑے مسائل کے متشددانہ رد عمل کو فورا مذہب سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ شائد یہ آسان ترین شکار ہے۔نیز اگر کوئی مذہب کے نام پر تشدد کا درس دیتا ہے تو وہ وہ ایک قبیح فعل کر رہا ہے اور ہر مذہب اور معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، اس کے لئے پوری مسلم امہ کو مورد الزام لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح جرائم یا قانون شکنی کے باعث ہونے والے واقعات کو بھی تہذیبی نرگسیت کے کھاتے میں ڈالنا ان لبرل متشددین کا نیا حربہ ہے جس کی کوئی منطقی وجہ ہماری عقل سے بالاتر ٹھری۔
ثالثا – غیرت دین، اپنے نظریے، وطن اور آبا سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، اس کو نرگسیت قرار دینا نہایت بے اصل بات ہے۔ اگر مسلمان اپنے ماضی اور اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں تو یہ کس قاعدے کی رو سے جرم ہے؟ مصنف مزید لکھتے ہیں
‘مسلمان کا ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی۔ باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوے ‘ صفحہ 91
اپنے ایمان و ایقان پر اعلی و ارفعی ہونے کا گمان کرنا مصنف کے نزدیک نرگسیت کی علامت ہے جبکہ یہ بات مسلمان قران و حدیث کی تائید میں سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان اور انکا دین ہی واحد درست دین ہے (ان الدین عنداللہ السلام)۔ لبرلزم کی جس تحریک سے مصنف کا تعلق ہے اسکے نزدیک ایک کافر، ایک ہمجنس پرست، ایک بت پرست اور ایک موحد میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان سب کے دنیوی اعمال درست ہوں اور انہوں نے دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچایا ہو یہ اس ‘خیالی’ جنت میں جانے کے برابر کے حقدار ہیں چاہے وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی ہی کیوں نا ہوں۔ ان نام نہاد جدت پسندوں کی سمجھ میں یہ سیدھی سی  بات نہیں آسکتی کہ اگر خالق کائنات پر ایمان رکھتے ہو تو جنت و دوزخ کے بارے میں اپنے گمان پر نا جاو بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو درست جانو۔
“یقین جانو کہ کافروں کے لیے جوکچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اوربھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں توبھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جاۓ ، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے ۔ وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے اوران کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا ” المائدۃ ( 36 – 37 )
اس ضمن میں میرا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ مسلمانوں کو جنت کا کوئی ‘فری پاس’ مل گیا ہے بلکہ قران و‌حدیث کا مطالعہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حقیقت اس سے بعید ہے۔ لیکن اگر مسلم امہ اپنی الہامی کتب کے مطابق اپنے عقیدہ توحید کی بنا پر اعمال کی بارگاہ الہیہ میں‌قبولیت  پر یقین رکھتی ہے تو اس سے لبرلزم کے ایوان کیوں لرزنے لگتے ہیں؟ کوئی باشعور مسلمان اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ بے گناہوں کی جان لینے والےایک خودکش حملہ آور کا ‘ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا’ ہے بلکہ وہ ببانگ دہل یہ کہے گا کہ ایک مسلمان ایسا فعل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اسلامی تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔ تہذیبی نرگسیت کا الزام لگانے والوں کو ایک مسلمان یہ ضرور یاد دلاے گا کہ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی ہمیں سکھاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
اربعا – مصنف کے وضع کردہ اصول کی بنا پر کہ کسی تہذیب نے ساینسی و تخلیقی میدان میں سودو سو سال سے اگر کوئی سرگرمی نہ دکھائی ہو اسے ‘ترقی یافتہ’ تہذیب کا دین‌(طریقہ) اختیار کر لینا چاہئے، افریقہ کی تمام اقوام کو عرصہ دراز پہلے اپنے سفید فام حکمرانوں کی تہذیب و تمدن کا اپنا لینا لازم ٹھرا۔اپنی تہذیب اور شناخت پر فخر کرنا نرگسیت ٹہرا تودنیا کی ہر قوم اس ‘گروپ نارسسزم’ کا شکار قرار پائے گی۔ یہ مصنف کی خام خیالی ہے کہ یہ فطری رجحان ‘مردہ اقوام’ میں پایا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ اس فخروناز سے عبارت ہے۔
خامسا- یہ تمام کتاب ‘اینکڈوٹل ایوڈنسز’ یا واقعاتی شہادتوں سے بھرپور ہے جن کی کوئی علمی وتجرباتی اہمیت ہنیں۔ مثلا کسی مدرسے میں پڑھانے والے فرد کی کسی طالبعلم سےدست درازی کو ‘بلینکٹ اسٹیٹمنٹ’ بنا کر تمام علما، اساتذہ اور دینی مدارس کو رگیدنا ایک عام مثال ہے۔ مصنف کے مطابق چونکہ کچھ مفاد پرست لوگ غریب ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور اسوقت انہیں خدا یاد نہیں آتا، یہ تو یقینا اسلام و مسلمانوں کی مجموعی خامی ہے۔ اگر عرب ممالک اپنے مسلمان بھائیوں کو رہایش یا شہریت کا حق نہیں دیتے تو یہ مسلم اخوت کے نظریے کی خامی ہے (یہ نکتہ ہاورڈ ہاجز نے بھی بعینہ اٹھایا ہے) – اس طرح کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ بڑی محرومی ہے اور کوئی باشعور مسلمان ان باتوں پراسلامی تہذیب کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتا۔
ستتہ- آحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں‌ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا خاصہ ہے کہ چین و عرب سے لیکر افریقہ اور جزائر پولینیشیا تک کے مسلمان ایک امت واحد کی لڑی میں پروے ہوے ہیں۔ جس نرگسیت کی طرف مبارک حیدر صاحب کا اشارہ ہے اور جو فکر ان کی سیکیولر ذہنیت میں کھٹکتی ہے وہ ملت بیضا کی اجتماعیت کا تصور ہے۔ انکی مرعوبانہ سوچ اس بات کا ادراک نہیں رکھتی کہ مسلمانوں کا عروج و زوال مادی ترقی سے نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اپنا قبلہ لندن و واشنگٹن کو بنانے اور حرم سے رشتہ کاٹنے کے بجاے ہمیں حکم ہے کہ ‘ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے’  النسا۔ لیکن حیدر صاحب تو حج و عمرہ کو ‘ایک منافع بخش کاروبار’ اور نماز کو ‘میکانیکی حرکات’ سے کچھ زیادہ گرداننے سے سخت گریزاں ہیں۔
سبعہ۔ یہ فتنہ نرگسیت اور اس کے حوارین غلبہ اسلام کی اہمیت اور اقامت دین کی فرضیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت بات قرار دیتے ہیں ۔ اس زمن میں مصنف نے ‘غلبہ اسلام کےمفروضے’ کے تحت ایک مستقل باب باندھا ہے؛ قران و حدیث کا بنیادی علم رکھنے والا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ یہ بات نصوص قطعیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متواتر فعل سے ثابت ہے کہ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لئے دامے درمے سخنے جدوجہد کرنا مسلمان پر لازم ہے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے 08:39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى )  رواه البخاري و مسلم .
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نے لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے ۔ (بخاری و مسلم )
مصنف خود عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شرائط ثلاثہ (اسلام، جزیہ یا جنگ) کو نقل کرتے ہیں لیکن مغربی سوچ سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسکو اسلامی سلطنت کے پھیلاو کا انسانی نا کہ الہامی رجہان قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے جو کہ سراسر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ مصنف کو قران کا یہ واضع حکم شائد نظر نہیں آتا کہ
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔ 9:29
ثمانیہ – جہاد فی سبیل اللہ کی مختلف اقسام میں دفاعی جنگ، قصاص، مظلوموں کی مدد، معاہدہ توڑنے کی سزا کے لئے لڑنا شامل ہیں لیکن ہر بار اس بات کی تاکید کر دی گئی ہے کہ مسلمان حدود اللہ کو پایمال نا کریں۔
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور ﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا 2:190
ان واضع قرانی احکامات و آحادیث کے ہوتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کی فرضیت کو ایک من گھڑت بات وہی کہ سکتا ہے جس کے دل میں نا خوف خدا ہو اور نا عقلی و نقلی دلائل کا کوئی لحاظ۔۔
تسعتہ- تہذیبی نرگسیت سے اگر آپ کی مراد ‘وے آف لایف’ کو بحال رکھنے کی جدوجہد ہے تو یہ تو رحمانی اور شیطانی تہذیبوں کی جنگ ہے جو کہ روز ازل سے جاری ہے اور یوم الدین تک جاری رہے گی۔ ہر تہذیب اپنے وے آف لایف کو برقرار رکھنا چاھتی ہے۔ سابق امریکی صدر بش کا یہ کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ ہمارے طریق زندگی، آزادی اور جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں’ ، ہر قوم کی طرح امریکی قوم کو بھی اپنے طریق زندگی اور تہذیب سے محبت کرنے اور اس کی بقا کے لئے جان لڑا دینے کا پورا حق ہے۔ مبارک حیدر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ یہ نرگسیت آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اسے تبدیل کرنے میں عافیت ہے، لیکن انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ سمجھوتا ہمیں نے کرنا ہے۔ لارا انگرم تو لباس کی قید سے آزادی کو اپنا وے آف لایف سمجھ کر اسکا دفاع کرے لیکن اگر ہم پردے کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ نرگسیت کہلاے۔ فرانس آزادی رائے کا نام نہاد علمبردار حجاب پر پابندی لگانے میں حق بجانب ٹھرے لیکن اگر ہمارے لوگ شرعی سزاوں کے نفاذ پر زبان کھولیں تو اسے انتہا پسندی اور بربریت کا نام دیا جاے۔ جو نام نہاد نرگسیت ہمارے لئے ذہر قاتل ہے، یوروپ کے لئے اکثیر۔ سبحان اللہ۔
اربعہ۔ مذہب بیزار لوگ جو دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لئے عرصہ دراز سے سرگرم ہیں‌، ان کی یہ نئی تحریکِ نرگسیت اس بات کے لئے صرف ایک بہانہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا منبع ان کی دینی حمیت اور وابستگی کو قرار دیا جائے۔ بے شک امت مسلمہ میں بگاڑ موجود ہے اور من الحیث القوم ہم بے شماربیماریوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد کی اکثریت کے باوجود سمندر کے جھاگ کی مانند ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اپنے دین سے محبت اور اسلامی تہذیب سے لگاو ان مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اس سے نکلنے کا آخری ذریعہ ہے۔ بے شک مسلمانوں کو اپنے مسائل قران و سنت کی روشنی میں حل کرنے اور اپنی ترجیحات متعین کرنےکی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک میں ظالم نا اہل حکمرانوں سے نجات، کرپشن کا خاتمہ،جہالت سے جنگ اور تعلیم کا فروغ،  عصری علوم و فنون، فلسفہ، آرٹ و دیگر علوم کی ترویج اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں، اس سے متصادم نہیں۔
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں 61 – الصَّفّ
اللہ سبحان تعالی ہمیں دور جدید کے ان فتنوں سے بچائے۔ آمین،
حوالہ جات۔
سیلفشنسی اور سیلف لو – ایرک فرامم
Share

July 10, 2010

مجھے میرے بلاگر دوستوں سے بچاو

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:55 am

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مضمون بلاشبہ پطرس و یوسفی کی زمین میں لکھا گیا ہے لہذا اس کی تمام  ارضی و سرقی خصوصیات محض اتفاقی نہیں ہیں اور نا ہی تمام کردارو واقعات مکمل طور پر فرضی ہیں،کسی بھی قسم کی اتفاقی مماثلت پر ادارہ مکمل طورپرذمہ دارہوگا۔

پچھلے زمانوں کے شاعر لوگ تو بلاوجہ بدنام تھے کہ ہر آنے جانے والے کو اپنا تازہ کلام سنانے کی کوشش کرنے کی بے جا تہمت اٹھاتے تھے، سچ پوچھیں تو آج کے اردو بلاگران اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اب تو چرغ نیلوفری کی گردشوں نے برقی رابطوں کی ایسی زنجیر باندھ دی ہے کہ ادھر پکسلز کی سیاہی خشک نا ہوئی اور ادھر تبصرے کی طلب؛ چاروناچار بستر مرگ پر بھی ایک صاحب کو ٹویٹ کا جواب دیتے دیکھا اور لواحقین کو قلق ہونے لگا کہ سنبھالا نا ہو۔
بہرحال اسی زمن میں ہم نے اپنے دیرینہ دوست راشد کامران سے تذکرہ کیا کہ ہر بڑے ادیب و مزاح نگار کا ایک مرزا نامی دوست  ضرور ہوتا ہے، اور ہم اپنی بلاگیات کو نیویارک ٹایمزکے صفحہ اول پر نا پانے کا سبب اس بات کو گردانتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہمدم دیرینہ با اسمِ مرزا نہیں۔ انہوں نے دبے لفظوں میں فنی خرابیوں اور معیار تحریرکی اہمیت پر کچھ کہنا چاہا ہی تھا کے  ہم نے انہیں بپتسمے کی خوشخبری سناتے ہوئے بتایا کہ آج سے بلاگستان میں وہ ہمارے گمشدہ دوست ‘مرزا’ کے نام سے جانے پہچانے جایئں گے۔ (ہوشیار باش۔ اشتہار شور و غوغا –  منادی کی جاتی ہے کہ ہماری تحریروں میں مرزا کی جو شدید کمی محسوس کی جارہی تھی وہ تمام ہوتی ہے)۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا بات ہو رہی تھی اردو بلاگران دوستوں کی، خدا جھوٹ‌ نا بلواے، اردو بلاگران سے دوستی کو جب تک  لمبے لمبےتبصروں کے خون سے نا سینچا جائے وہ پروان نہیں چڑھتی۔ اب مرزا کو ہی لے لیں، ادھر تحریر لکھی نہیں ادھر اشاروں کنائوں میں تبصروں کی فرمائش شروع ۔ آر ایس ایس، ای میل اور چہرہ کتاب پر تشہیرکے بعد طبعیت معلوم کرنے کے بہانے فون کرکے فرمانے لگے، تمہارا انٹرنیٹ تو چل رہا ہے نا؟ یہ ٹایم وارنر والے نہیایت واہیات لوگ ہیں، میں نے سوچا کہ ذرا خیریت پوچھ لوں، صبح سے تمہارا آی پی نہیں نظر آیا، نا اینالیٹکس پر کوئی سرگرمی، کہیں دشمنوں کی طبعیت ناساز تو نہیں؟ ساتھ ہی دبے الفاظ میں دھمکی بھی دے دیں گے کہ ‘ اگرکہو تو کل کی ورلڈ کپ کے فاینل پر ناشتے کی دعوت کینسل کر دیتے ہیں’۔ اب یہ بھی کوئ شرافت ہے بھلا۔ بزبان پطرس ‘خدا کی قسم فرنگی بلاگران میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ان کی پوسٹ شایع ہوئ، گوگل آر ایس ایس نے کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی “ٹنگ” کردی ۔ ہم مصروف ہو گئے تو دو چاردن بعد اس نے بھی ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں یاد دلادی – یاددہانی کی یاددہانی، تہذیب کی تہذیب۔ ہمارے بلاگر ہیں کہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بےتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ وہب جلوی اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا’۔
گفت وشنید میں کوئی بھی مضمون ہو، کوئی محفل، ملاقات، اور داستاں انکے بلاگ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ایک سے زائد جمع ہو جائیں تو کیا کہنے۔ پچھلےدنوں ایک جنازے کا ذکر ہے، مرزا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ وہ تغیر میں آ کر کہنے لگے حال کی کیفیت ہے، بلاگ اتر رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شائد مرحوم کو ممدوح بنانے کا نیک ارادہ ہے ورنہ انکی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ جب تک چہلم نا ہوجائے مردے کے بارے میں کوئ اچھی بات نہیں کہتے۔ لہذا ڈرتے ڈرتے پوچھا، مرزا کس بارے میں ہے کچھ بتاو تو سہی، کہنے لگے ہمارا صریر خامہ ١٤.٤ باڈ کا موڈم ہے ۔ ابھی تو صرف ٹیگس اترے ہیں، کچھ بات واضع نہیں ہو رہی۔
موقع پر شریک پہلا درویش گویا ہوا ۔ ‘آپ نے مایکل پالن کو پڑھا، جدید کھانوں میں غذائیت پر۔۔۔’
مرزا۔ ‘بلکل بلکل، کل ہی اپنے آی پیڈ پر پڑھ رھا تھا۔ کیا غضب لکھتا ہے اور خصوصا آی پیڈ پرپڑھیں تو اوربھی اچھا لکھتا ہے، تحریر کی خوبیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ میں نے اسی بات کا تذکرہ اپنے بلاگ پر اپنے پچھلے مضمون میں کیا تھا .۔۔’۔
اللہ کا بندہ دوسرا درویش- ‘کیا بات ہے جناب، اس پر مجھے اپنی جنوری کی بلاگ پوسٹ پر کیا جانے والا باتمیزتبصرہ یاد آگیا. ویسے یہ سب تو ولائت والے بھائی کی کرامات ہیں، جلنے والوں کا منہ کالا۔ ویسے کوئی کچھ بھی کہے ہم تو حقوق نسواں کے بڑے علمبردار ہیں, جگت بھائی…’
اسی اثنا میں مولانا نے میت کی مغفرت کے لئے دعا شروع کی تو ان کی گفتگودرمیان میں رہ گئی ۔ بعد ازاں‌ ان گناہگار کانوں نے مرزا نے قبرستان میں وائ فائ کی عدم موجودگی کو صاحب لحد کی محرومی اور اس پرایک بلاگ داغنےکی قسم کھاتے سنا۔
بات تبصروں کی ہو رہی تھی۔ مرزا کے علاوہ بھی ہمارے بلاگر دوست ہیں جو اس معاملے میں خاصے شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ برادر ابوکامل کو مرزا داہنے بازو کا بلاگر گردانتے ہیں لیکن محترم عتیق شاز کا کہنا ہے کہ الٹا سیدھا سب کاربن کا مایا جال ہے۔ چاہے لوگ اسے دائیں بازو کی انتہا پسندی کہتے رہیں لیکن مرزا کے بقول ابوکامل کا کہنا ہے کہ انکے بلاگ پر جانتے بوجھتے تبصرہ نا کرنے والے کو احتیاطا نکاح دوبارہ پڑھوالینا چاہیے۔ اسی طرح  اگر آپ شریف مصدر صاحب کے بلاگرانہ لطیفوں پر تحریری قہقہ نا لگائیں تو وہ مرنے مارنے پر تل آنے ہیں اور یاور گوہر کو آپکی ذات کے بارے میں جھوٹی خبریں دینے کی دھمکی دے ڈالتے ہیں جو کہ ہر شریف آدمی کہ لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یاور گوہر کے بلاگ سے اگر حروف مغلظات نکال دیئے جائیں توصرف ہیڈراورفٹر باقی رہ جاتا ہے۔ باقی ایک اورمقابل بلاگر صاحب کے بارے میں مرزا کو یہ کہتے سنا ہے کہ تیشے بغیر مر نا سکا کوہکن اسد، اگر زرا انتظار کر لیتا تو میں تیشہ لے کر آ رہا تھا۔
بابائے بلاگران کے نام سے جانے جاتے ہمارے دوست ارتفاق امجد سرتال بھی اس معاملے میں کچھ پیچھے نہیں- مرزا کا کہنا کہ کہ سرتال صاحب کی مستقل رہائش صیغہ ماضی میں ہے۔ دروغ برگردن قاری، اس زمن میں سرتال صاحب یہ کہتے بھی پاے گئے ہیں کہ بقول یوسفی”یادش بخیر کی بھی ایک ہی رہی، اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شائد کبھی کچھ ہوا ہی نا ہو لیکن چو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاھتا وہ یقینا لوفر رہا ہوگا’۔ یہ کہ کر انہوں نے ہماری طرف ایک معنی خیز نظر ڈالی اور دوبارہ یادش بخیر ڈزلڈوف کے مرغزاروں کی سیر کو نکل گئے جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر بیوی اور شوہر کی لڑائوں کا بگ برادر براڈکاسٹ دیکھنے آیا کرتے تھے جس کی سرگذشت ہم آج بھی ان کے بلاگ پر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں، مرزا کا۔
پچھلے دنوں مرزاکے گھر کھانے پر جانا ہوا تو وہ کچھ اکھڑے اکھڑے سے ملے۔ پوچھا کیا حال ہے تو کہنے لگے کہ ‘ارےمیاں دعوتیں تم یہاں اڑاتے ہو اور تبصرے کسی اور کے بلاگ پر۔ ہمارے لئے دو لفظی تبصرہ اور دوسروں کے لئے تبصروں میں‌ پورا پورا بلاگ؟، آخری دعوت کی مرغی کی ٹانگیں تو حلال کی ہوتیں جو تم بلا ڈکار ہضم کر گئے’۔ ہم نےمودبانہ عرض کی کہ مرزا،’ تبصرے کی لمبائی تو کچھ موضوع مضمون پر منحصر ہے اور وہ تو پھر ایوارڈ یافتہ بلاگ ہے’ ۔ اس جواب پر بڑے جزبز ہوےاور ہمارے ہاتھ سے رکابی کھینچتے ہوے بولے کہ ‘اس بریانی کی مقدار کا بھی بلکل یہی عالم ہے۔ جاو جاکراپنے ایوارڈی عزیز ابوکامل کے ساتھ جا بیٹھو’۔ ہم نے بات سنبھالتے ہوے کہا کہ ‘ارے مرزا، آپ تو بلا وجہ ناراض ہوتے ہیں، کل یہ ایوارڈ آپکے پاس تھا، آج کسی اور کے پاس ہے تو کل پھر آجائے گا، آپکا بلاگ تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ہم تو مبتدی ہیں، سوچتے ہیں کہ کہیں ہمارے تبصروں سے لوگوں کو ایسا نا لگے کہ اگر آپ کا مضمون ہماری سمجھ میں آگیا تو ضرور سطحی ہوگا’۔ یہ سن کر انکا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔  اپنی رومانوی زبان بہاری میں گویا ہوئے کہ صبح سے موا انٹرنیٹوا خاصا سست ہے، زرا راوٹر کو ہلانا کہ کہیں کوئی تبصرہ پھنسا ہوا نا ہو۔
کچھ عرصے سے ہم  جب بھی مرزا سے تحریر کی معنویت و گہرائ پر داد طلبی کا قصد کرتے ہیںوہ توکہنے لگتے ہیں کہ نیند نا آنے کی تشخیص کی صورت میں معالج آجکل تمہارے بلاگ کا مطالعہ تجویز کر رہے ہیں۔ راقم کی طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی ہے لہذا اب ان تمام تجربوں کے بعد اب ہم نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ ایسے تمام طوطاچشم بلاگر دوستوں سے دور رہیں گے جو ہم سے فقط تبصروں کے لئے دوستیاں گانٹھتے ہیں اوراس برقی مایا جال سے دور سکون کی زندگی گذاریں گے  ۔اب اپنی ہر نئی بلاگ پوسٹ کے بعد تبصروں کی ائی میل کے لئے اپنی کالی بیری کو راہ محبوب کی طرح تکنے کے بجاے صرف ہر دس منٹ بعد دیکھا کریں‌ گے نیز ہوسٹنگ کمپنی کو ہر گھنٹے کال کر کر سروس کی کارکردگی اور اپ ٹایم بتانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ آپ دیکھیں تو سہی،

Share

July 9, 2010

دعوت الی اللہ کا کام اورکچھ شکوک کا ازالہ

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 1:56 am
(قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ (يوسف: 108
”کہو میرا راستہ یہی ہے: میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے۔ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔
دعوت دین کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی سنت اور مسلمان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں: رسول اللہ نے جب معاذ بن جبل کو اپنا نمائندہ بنا کر یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا: ”تم ایک اہل کتاب قوم کے ہاں جا رہے ہوں۔ اس لئے سب سے پہلی بات جس کی تم ان کو دعوت دو یہ ہونی چاہئے کہ لا الہ الا اﷲ کی شہادت دی جائے“۔ مزید صحیحین میں حدیث ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غزوہٴ خیبر کے موقعہ پر فرمایا تھا : اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اگرایک شخص کو بھی اللہ تعالی ہدایت سے نوا ز د ے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
ہم میں سے وہ لوگ جو ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں وہاں اسلام کی دعوت پھیلانے کے بہت سے مواقع میسر آتے ہیں‌۔ ہر غیر مسلم فرد ایک دعوتی چیلینج کے طور پر موجود ہوتا ہے کہ اسےاحسن طریقے سے توحید و رسالت کا پیغام پہنچایا جاے۔ اپنے رب کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی وحدانیت اور اس کے دین کی صداقت کا یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے میں ہم اپنی تمام کوششیں صرف کریں۔
اقامت دین کے ہر کام کی طرح اس زمن‌ میں بھی شیطان کے وساوس بے شمار ہیں جن سے آج ہمارا یہ سلسلہ کلام وابستہ ہے مثلا
کس دین کی مثال کی طرف دعوت دی جاےِ؟ ہمارے پاس تو کوئی آیڈیل ‘اسٹیٹ’ ہی موجود نہیں جس کی ہم مثال دے سکیں۔ مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
یہ بلکل بے بنیاد وسوسہ ہے۔ آپ جس دین کی طرف دعوت دے رہے ہیں اس کے لئے اللہ کی کتاب واضع دلیل ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بہترین مثال۔ مسلمانوں کی حالت زار یا کسی مثالی ریاست کی غیر موجودگی اپکو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے سے کیونکر روکتی ہے؟ یاد رکھیں کہ اللہ کی دین کی دعوت کسی ملک کی امیگریشن کی دعوت نہیں کہ آپ وہاں کے باغ و گلستاں کی روایات سے لوگوں کومائل کریں۔ یہ تو بندوں کو انکے خالق کی طرف بلانے والی پکار ہے اور آپ کا فرض صرف احسن طریقے سے دعوت دینا ہے، نتائج اسکے دست کار میں ہیں جس ذات باری کی رضا جوئی کے لئے یہ دعوت دی جا رہی ہے۔آپ اپنی طرف سے پوری کوشش جاری رکھیں۔
پہلے ہم خود تو عملی مسلمان بن جائیں یا پہلے (مسلمان آبادی والے ملک کا نام) میں تو اسلام نافذ ہو جاے وغیرہ
یہ عذر بھی عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہے کہ اگر میں معاذ اللہ نماز نہیں پڑھ رہا توروزہ کیوں رکھوں؟ دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف آپکی ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس کے لئے آپ جو چھوٹا سے چھوٹا یا بڑا سے بڑا قدم اٹھائیں گے، اللہ سبحان تعالی آپکو اسکا اجر دیگا۔ دوسروں کو راہ حق کی طرف بلانے کا عمل خود ہی اپنی دعوت اور روش کو درست کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مزید براں اللہ نے آپکو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ آپ کسی ملک میں جہاں آپ نا رہ رہے ہوں‌اسلامی نظام نافذ ہونے تک اپنی دعوت و تبلیغ کو روک دیں۔ اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے میں یہ کیسے ایک امر مانع ہے؟
اس ملک میں تو ہم کھانے کمانے/ پڑھنے کے لئے آئے ہیں، اپنی نسلیں برباد کرنے کے لئے نہیں۔ واپس اپنے وطن جانا ٹھرا تو یہاں کیا کام کرنا؟
یہ بھی شیطان کے وساوس میں سے ایک بڑا وسوسہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ کے دین کی دعوت سے دور رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس غیر مسلم اکثریتی ملک میں آپکے آنے کا کوئ بھی مقصد ہو، یہاں رکنا صرف ایک صورت میں درست ہے اور وہ یہ ہے کہ آپکا بنیادی مقصد دعوت دین ہو۔  ہم سب جانتے ہیں کہ جزائر انڈونیشیا ملایشیا میں اسلام تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جزیرہ عرب اور دیگر ممالک جا کر دین کی دعوت دی۔ اولیاے کرام و مشایخ کا بھی یہ عمل رہا۔ اگر آپ ان غیر مسلموں میں رہ کر، اپنے قول و عمل سے اسلام کی مثال نہیں دکھائیں گے تو اور کون یہ کام کرے گا؟ اللہ نے آپکو اسلام کا سفیر بنایا ہے، اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کرنا آپکا فرض ہے اور اس سے کوتاہ نگاہی یا  عذر تراشی بڑی محرومی۔
لیکن یہ لوگ انتے ترقی یافتہ ہیں، میں انکو کس چیز کی طرف بلاوں؟ اسلام سے انکو کیا فائدہ ہوگا یا انکی زندگی میں کونسی ایسی تبدیلی آجائے گی؟
اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام اس کاینات کی سب سے بڑی سچائی ہے اور یہ لوگ اس سچائ کو نہیں جانتے۔ تمام اسایشوں کے ہوتے ہوے یہ ایک سب سے بڑی محرومی ہے! اور بروز حشر یہ لوگ آپکے خلاف صف آرا ہونگے کہ ہمارے اس مسلمان محلے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والا، ہم جماعت نے ہمیں دعوت دین نہیں دی اور ہم تہی دامن کھڑے ہونگے۔
لیکن یہ انکا ملک ہے، میں ان کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں آنے دیا۔ اب میں یہاں دعوت کا کام کیسے کر سکتا ہوں؟
یہ غالبا مرعوبیت کی انتہا ہے۔ تمام ملک، تمام زمیں، ساری کاینات اللہ کی ہے اور مسلمان ہونے کے تحت یہ آپکا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ مالک اعلی ہے۔ ان غیر مسلم افراد کے احسان کا اس سے بہتر بدلہ کیا ہوگا کہ آپ انہیں اس دین کی طرف دعوت دیں جو انہیں دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابیاں نصیب کرے؟
غیر مسلم ممالک میں دعوت کے طریقے بے شمار اور مختلف النواع ہیں اور ان کے لئے آپکی قریبی دعوت کی تنظیم آپکو اچھی طرح اگاہی دے سکتی ہیں۔مثلا اس زمن میں امریکہ میں ‘واے اسلام’ نامی تنظیم بڑی تندہی‌ سے دعوت دین کا کام کر رہی ہے .اسکولوں کے پروگرام، اوپن مسجد، افراد سے رابطہ، لوکل مارکیٹ، لایبرری، بازار، فئیر،فوڈ بینک، فیسٹیول میں دعوت کے اسٹال جیسے سیکڑوں مواقع میسر ہوتے ہیں جن کو استعمال کرکے دعوت کا کام بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کا خیال رہے کہ دعوت کا کام حکمت سے کیا جاے کہ اگر لوگ آپکی بات نا بھی مانیں تو وہ کم از کم آپ کے رویہ سے اچھا گمان رکہیں۔۔ شروع میں تھوڑی سی جہجک فطری ہے لیکن اللہ کے دین کی دعوت کا کام شروع کیا جاے تو راستے آسان ہوتے جاتے ہیں۔ مذہب سے بیزاری کی وجہ سے مغرب میں ‘پراسلیٹایزیشن’ یا تبدیلی مذہب کی دعوت کوسماجی محفلوں میں برا سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر مذہب پر بات کرنے والا غبی اور ‘آوٹ اف ٹچ’ قرار پاتا ہے۔ ایک داعی کے لئے یہ رکاوٹیں اور خیالات یا رجہانات (پرسیپشن) کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ ان تمام عارضی رکاوٹوں سے ماورا دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بروز حشر ہر فرد کو اپنی استطاعت، صلاحیت  اور کوشش کے لئے جانچا جائے گا۔ کسی پر اسکی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا لیکن اسکے ساتھ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہماری استطاعت کیا ہے۔ ہم ابلاغ کے تمام ذرائع کے ماہر اور دنیاوی معاملات میں ہر قسم کے نت نئے ‘آپٹیمایزڈ’ اصلاح پسند طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جدید انتظامی طریقے استعمال کرکے زیادہ بہتر طریقے سے کام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد اپنی ‘تدابیر’اسٹریٹیجیز کو اینالایز کرتے ہیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہو رہی ہیں‌ اور کس طرح سے پیداوار کو بڑھایا جائے وغیرہ۔ لہذا ہمیں اسی معیار پر دعوت دین کے لئے بھی جانچا جاے گا کہ کیا تم نے اللہ کی طرف بلانے کےلئے اتممام حجت کیا تھا؟ اپنی تمام صلاحیتوں کو بقدر ضرورت برو کار لا ئے تھے؟
کیا بروز حشر ہم اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں؟
Share

July 3, 2010

دور جدید کا انسان – سطحیت کا فروغ اور ارتکاز کا تنزل

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 11:23 pm

نکولس کار اپنی نئی کتاب ‘انٹرنیٹ ہمارے دماغوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے- سطحی پن‘ میں اطلاعاتی دور کے انسانی ذہنوں پر ہونے والے اثرات پرگفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے اسی زمن میں اپنے ایک مقالے، ‘کیا گوگل ہمیں کم عقل بنا رہا ہے’ کے عنوان سے انٹرنیٹ کے انسانی زہن کی غوروفکر اور سمجھ بوجھ ‘کاگنیٹیو صلاحیتوں’ پر ہونے والے مضر اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ نکولس کار انٹرنیٹ اور ورلڈ وائڈ ویب کو ارتکازی کمی کا موجب قرار دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ‘ہم نے تنہائی میں ، مکمل یکسوی و توجہ کی علمی روایت کو جھٹلا دیا ہےجو کہ مطالعہ کتب سے حاصل ہوتی ہے’۔ وہ ارتکاز کی اس کمی کو ایک بڑی معذوری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘نیٹ ہماری ارتکاز، معلومات کو یکسوئی سے ذہن میں جمع کرنے اور غورو فکر کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے’۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تخلیق کے اس دور میں ایک بہت بڑی کمی موجود ہے کہ ہم اتلے، سطحی یا کم گہرے بن رہے ہیں’۔

نکولس اس سوچ میں تنہا نہیں۔ ترقیاتی ماہر نفسیات میری این ولف شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچوں کے ، جو انٹرنیٹ کی بھاری صارفین ہوں،’ وہ صرف ‘ڈیکوڈر’ ہیںجن میں اس بات کی کوئی جستجو نہیں پائی جاتی کہ وہ محض ان معلومات سے جو انکی گوگل کائنات میں موجود ہوں،آگے سوچیں’ ڈاکٹر ولف کہتی ہیں کہ ‘فوری طور پر بہت سی معلومات کی دستیابی کا مقابلہ صحیح علم سے نہیں کیا جانا چاہئے’۔

اس نظریے کے نقاد کہتے ہیں کہ انسان کبھی تبدیلی کو پسند نہیں کرتا اور حیلے بہانوں سے اس پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد پرپندرہویں صدی عیسوی میں وینس کا ایک مدیر ہایرونیمو کہتا تھا کہ کتابوں کی بہتات انسان کو کم علم بنا دیتی ہے۔ کیا یہ جنگ کثرت یا بہتات کے نئے رجہان خلاف ایک فطری عمل ہے یا اس کا کوئی حقیقی نقصان بھی ہے؟ ایک اکیڈمک ہونے کی حیثیت سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں بتاتا چلوں کہ نکولس کار اور ولف وغیرہ کے نظریات ساینسی طور پر ثابت شدہ نہیں اور محض خیالات کا درجہ رکھتے ہیں لیکن راقم الحروف کے اپنے مشاہدات بھی کچھ اس سے مختلف نہیں جن کو برسبیل تذکرہ لکھتا جاتا ہوں۔ ہم انسانی ترقی کو عموما تین بنیادی انقلابی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

١ ۔ ساینسی طریقے کا انقلاب جب انسان نے ‘ساینٹفک میتھڈ’ سے چیزوں کو پرکھنا سیکھا

٢ ۔ صنعتی و میکانیکی انقلاب جب کہ انسان کے طرز حیات میں پہیے اور مشینوں سے بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔

٣ ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی یا علم اطلاعات کا انقلاب جب دینا کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک عالمی گاوں بنانے کی سعی کی گئی اور دنیا بھر کی متنوع اقسام کی معلومات آسان دسترس میں آ گئیں۔

لیکن کیا معلومات کا یہ سمندر واقعی کسی با معنی علمی اہمیت کا حامل ہے؟ یہ سوال سنجیدہ ساینسی تحقیق کا متقاضی ہے۔ لیکن، کیا ایسا نہیں لگتا کہ آج کے ارتکازی قوت سے محروم انسان کے پاس گفتگو کرنے کے لاکھوں ذرائع موجود ہیں لیکن مکالمے کی صلاحیت نہیں۔ مین بکر انعامات سے لبریز کتب خانے تو موجود ہیں لیکن قاری نہیں، کسی کو صریر خامہ کے نوائے سروش ہونے کی نوید دیں تو وہ منہ تکے اور جذبات سے لبریز نفوس سے نظریات پر گفتگوکی جائے تو نہ انہیں قدیمی خلق القران کے فتنے کا علم ہو اور نہ جدیدی اشتراکیت پر سیر حاصل معلومات، گوگل لیکن جتنا چاہے کروالو لیکن ‘اینکڈوتل ایوڈنس’ یا سطحی معلومات سے اوپر سوچ کے دریچے بند ہیں۔ مستعار عقل و نظریات کے حامل ان طفیلیوں’پیسٹس’ کے لئے ذندگی ایک میکانیکی حرکات کا مجموعہ ہے جس میں کسی قسم کی گہری سوچ اور نظریات کی موجودگی شجر ممنعوعہ ہے۔

عصر حاضر کے انسان کے پاس ذرائع علم تو ہیں لیکن علم نہیں- وکیپیڈیا اور گوگل سے مستعار لی گئی عقل کے ڈانڈے ‘ہائو مائنڈ’ یا ‘چھتے کی سوچ’ سے جا ملتے ہیں جہاں اتباع تو ہے، انفرادیت نہیں۔ کسی مباحثے کا رد اس امر میں پنہاں ہے کہ اس کو کس قدر مہارت سے گوگل کیا جاسکتا ہے۔ یوں تنقیدی سوچ اور معلومات کو ‘آوٹ سورس’ کرکے دور جدید کے انسان نے اپنے لئے مذہب، روحانیت، علم الکلام، کاگنیشن، ارتکاز، ادب، آرٹ، فلسفہ، منطق اور دیگر کئی علوم و فنون کے دروازے بند کرنا شروع کر دئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذہنی ارتقا کی ہزاروں سالہ ‘تجرباتی’ روش کو تبدیل کرنا انسانی مفاد میں ہے؟ کیا اب کوئی ورڈسورتھ، ٹینیسن، حافظ اور ولی دکنی غزل سرا نا ہونگے۔ موجودہ تجزیہ نگاری بھی اسی طوفان ‘معلومات’ علم بود کا شاخسانہ ہے تو کیا ہم ‘اوور انیلازیشن’ یا بے معنی تجزیوں کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے جہاں قرار واقعی خیالات نا پید ہوں اور بولنے کو مواد کی کوئ کمی نا ہو۔ جاس وھیڈن ، دس امریکن لایف کے ایک پروگرام میں اس تجزیہ نگاری اور قصہ خوانی کی موت پر بہت بہترین طنز کرتا ہے۔ انگریزی میں سننے میں بہتر لگتا ہے لیکن ہم اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک غار کے انسان نے دیوار پر تصویر بنائی
تھا یہ ایک بائسن ‘نیل گاے’
دوسرے غار کے لوگوں نے اسے پسند کیا
اس سے نہیں پوچھا کہ بایسن کیوں بنایا؟
اگر یہ مر چکا ہے تو اسے کیوں بنایا؟
آپ نے رنگ سرخ کیوں منتخب کیا؟
تمہارے دماغ سوچ و بچار کاعمل کیا گیا؟
اس نے کہانی سنائی
اس سے قبل کیا ہوا اور بعد میں کیا ہوا نہیں بتایا
بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔

ہومر کی اوڈسی کا تھا اپنا رنگ
کچھ دوستوں کی کہانی
جنہوں نے بہت ہی مشقت کے سفر کئے
ہومر نےکہانی سنائی لیکن اس نے نہیں بتایا
کی اس کا کیا مطلب ہے؟
اور یہ کچھ خارج کردہ ‘سینز’ ہیں۔
اس کہانی کو کم عمر کے لوگوں نے پسند کیا ہے
لیکن وہ صرف ایک کہانی ہے
وہ صرف ایک دروازہ ہے جو ہم کھولتے ہیں اگر
ہماری زندگی کو اسکی ضرورت ہو

لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل

قصہ بار بار دکھاے جانے کے بوجھ سے ٹوٹ چکا ہے
انٹرنیٹ کی اقساط سے
پہلے اور بعد کے تجزیات سے،
کھیلوں سے اور کوڈز سے
قصہ مر جاتا ہے
کھنچ کھنچ کر، شکستہ و بوسیدہ
ارے ، اس مزے کو بگاڑنے کا انتباہ

لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل

جیڈ کہتا ہے۔

جاش، تم بزنز کے خلاف باتیں کیوں کر رہے ہو
یہاں سب اسی طرح چلتا ہے
تم ہر شخص کو پریشان کر رہے ہو

جیک کہتا ہے۔

یہ تو پرانا آؤٹ آف ڈیٹ فلسفہ ہے دوست
کھانے کی میز کے لئے ، براہ مہربانی وہیں یہ باتیں کیا کرو
ہم نے یہاں ڈی وی ڈی بیچنی ہے۔

تم جن چیزوں کو لات مار رہے ہو انکے بغیر
کوئ شو بز میں تمہارا نام لیوا نہ ہوگا۔
تم نظر انداز کردئے جاو گے، ہر موڑ پر

جاس دوبارہ گاتا ہے:

میں نے کچھ غلط چیزوں کے بارے میں گایا تھا،
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا
ٹھیک ہے ، چلواب اس اداکار کے انداز کلام کے بارے میں بات کریں
اوہ یہ ہے اچھا نہیں ہے
چلو اس سین کا خوب تجزیہ کریں

اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل

دل کے..

Share

Powered by WordPress