جیسا کہ آپ ناظرین جانتے ہیں کہ صدر پاکستان جناب آصف علی ترکاری اور روم کے حکمران نیرو کے درمیان پچھلے دو ہزار سال کے سب سے بے حس حکمران ہونے کا مقابلہ زور و شور سے جاری ہے۔ اب ہم آپ کو اپنے خصوصی وقائع نگار / اسپورٹس کاسٹر مرزا کے پاس لے چلتے ہیں جو آپ کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کریں گے۔ جناب، آپ کا کیا خیال ہے، اس دو ہزار سالہ دوڑ میں کون جیتتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟
آپ کا شکریہ مرزا – یہ انتہائی دلچسپ مقابلہ ہے۔ اس سے پہلے ایسی ہی دوڑپال پوٹ، عیدی امین، اسٹالن، اور فرانس کی شہزادی میری نے بھی نیرو کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں کی تھی لیکن ظلم و ستم اور قتل عام کے باوجود وہ نیرو کی بے حسی کا وہ جوہر نہیں پا سکے کہ جو کہ اسکی حکمرانی کا خاصہ تھا۔ فرانسیسی شہزادی میری نے تو غریبوں کی بھوک اور انکے روٹی نا ملنے کا سن کر اپنے شہرہ آفاق جملے
Qu’ils mangent de la brioche
تو انکو کیک اور پیسٹری کھانے دو!
سے تاریخ میں اپنا نام امر کروا لیا تھا لیکن نیرو کی شہرہ آفاق بانسری کا مقابلہ کوئی نہیںکرسکا۔ ہماری خوش قسمتی اور پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہیں کہ آج ہمیں صدر پاکستان آصف علی ترکاری کی صورت میں ایک ایسا نمونہ ملا ہے جس سے قوئ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ نیرو کی بے حسی کی بانسری کا دو ہزار سالہ ریکارڈ توڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
مرزا، جب اتنے بڑے طرم خان لوگ نیرو کا ریکارڈ نہیں توڑ پائے تو آپ یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ میاں ترکاری ایسا کر پائیںگے؟
مرزا، ہم آواگون پر یقین نہیں رکھتے ورنہ اس بات میں کوئی شک نا ہوتا کہ میاں ترکاری نیرو پادشاہ کا اوتار ہیں۔ جیسا کہ آپ سب پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں نیرو پہلی صدی عیسوی کے روم کا ایک ظالم و جابر حکمران تھا جس کی وجہ شہرت اس کا روم کے جلتے ہوئے بانسری بجانا تھا۔لیکن اس سے پہلے اس نے شہنشاہ کی بیٹی کلاڈیا سے شادی کی۔ پھر بادشاہ بننے کےبعد اپنی ماں اگریپینہ اور دوسری بیوی پاپائییہ کو جان سے مار ڈالا۔ اس کو شکائتی لوگوں سے سخت چڑ تھی، جی حضوری کرنے والوں کو بہت سراہتا تھا اور اسی وجہ سے انتیستیس کو مروا ڈالا کہ اس نے نیرو کی شان میںکوئی ادنی بات کی تھی ۔ پھر روم میں بڑی آگ لگی تو سیوتونیس نامی تاریخ نگار لکھتا ہے کہ وہ اپنی گاڑی پر بیٹھ کر بانسری بجاتا رہا۔ شائد اس زمانے میں بیرونی دورے نہیں کئے جایا کرتے ہونگے۔ موے تاریخ دان نا جانے کیا کیا لکھتے رہتے ہیں۔
اب آپ اسی روشنی میں دیکھیں اور بتائیں کیا بادشاہ نیرو کو ہمارئے صدر کی صورت میں ایک صحیح جانشین میسر نہیں آیا؟ ترکاری صاحب نے تو اس بات کا حق ادا کردیا ہے اور ایسے اقدامات کئے ہیں کہ نیرو بھی کہے واہ ترکاری، تجھے لوگ مسٹر ٹین پرسنٹ بلا وجہ نہیں کہتے ۔ نیرو نے غریبوں پر ٹیکس چار فیصد سے کم کرکے دو فیصد کیا تھا، ترکاری صاحب نے ٹیکس بڑھانے کے لئے کوی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا۔ ملک میں سیلاب ہے، کراچی میں آگ لگی ہے، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور صدر ترکاری پرانی جینز میں فوٹو سیشن کرو رہے ہیں۔۔ پاکستان ڈوب رہا ہے، سولہ سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں ، ایک کروڑ بیس لاکھ افراد اس سیلاب بلا سے متاثر ہوئے ہیں اور ترکاری صاحب اپنی بے سری بجا رہے ہیں کہ تاریخ بتائے گی کہ لیلی مرد تھی یا عورت۔صدر اوبامہ نے تو تیل بہنے پر گلف کی ریاستوں کے تین دورے کر ڈالے کہ بش کی کترینا والا انجام نا ہو کہ صدر تیل صاف تو نہیں کرتا لیکن قوم کا قائد دکھ بانٹنے موجود ہو تو حوصلے جوان رہتے ہیں۔اوبامہ اپنا شرق ایشیا کا دورہ دو دفعہ اس وجہ سے منسوخ کیا کہ ملک میں صحت عامہ کا جو بل پاس ہونے جا رہا ہے وہ تعطل کا شکار نا ہو جائے۔ ظاہر سی بات ہے ان کو نیرو سے مقابلہ مقصود نا تھا، ڈرپوک کہیں کے۔ یہ معلوم نہیں کہ نیرو کو کتنے جوتے پڑے تھے اور یہ بات بھی واضع نہیں کہ نیرو نے روم کے دشمنوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا تھا لیکن ہمارے صدر نے کیمرون کے بیانات کو ایک کان سے اندر اور دوسرے سے باہر کیا ‘بیچ کی جگہ سینٹرل جیل کے خیام کے دوران خالی کروا لی گئی تھی’ اور کہتے ہیں کہ ‘ہم انکا پیچھا اتنی آسانی سے تو نہیں چھوڑیں گے’۔ اب بتائیں اس کے بعد بھی اس دو ہزار سالہ دوڑ کے جیتنے والے صدر ترکاری ڈکیت نا ہوئے تو کون ہوگا؟
اور بقول فراز ایس ایم ایس کہ
بلاول : ابا آپ نے اپنی حرکتوں سے خاندان کے نام پربدنما داغ لگا دیا ہے
ترکاری : ہاہا بیٹا، یہ داغ تو چلا جائے گا، یہ وقت پرکبھی نہیں آئے گا!
مرزا: آپ کو اس بات کا ڈر نہیں کہ آپ صدر پاکستان کی ہتک کے جرم میں دھر لئے جائیں گے۔
ارے مرزا وہ کیا کہا تھا نیرو نے، یہ بازو میرے آزمائے ہوے ہیں، (پولیس کی دستک ہوتی ہے اور مرزا کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے جایا جا تا ہے، وہ کراہتے ہوے کچھ آزادی اظہار کی بات کر تے سنائی دے رہی ہیں جو کانسٹیبل کے مکوں تلے دبتی جا رہے ہے۔۔۔۔)
بہر حال نیرو کے بانسری کے مقابلے میں ترکاری کی بے سری کیا رنگ لاتی ہے، اس سلسلے میں دوڑ کی تازہ ترین تفصیلات کے لئے دیکھتے رہئے جیو نیوز۔
ہا ہا ہا، بہت ہی خوب۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ زرداری خاندانی راک بینڈ کے مقابلے میں بانسریوں والے نیرو یا اہل نیرو ڈٹ پائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے تو جدی پشتی سیاست کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کا عہد کررکھا ہے۔
ویسے تحریر کے شروع میں ہم قارئین میں سے تھے، آخر میں ناظرین میں سے ہوگئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں :D۔
Comment by محمداسد — August 7, 2010 @ 11:14 pm
تبصرے اور تصیح کا شکریہ 🙂
Comment by ابو عزام — August 7, 2010 @ 11:44 pm
میں تو جناب ان تاریخی ولنز سے اپنے “ہوم گرون” ولنز کے تقابل کا سخت مخالف ہوں ۔ کم از کم وہ لوگ سائڈ پکڑ کر بانسری بجاتے یا کیک کا مشورہ دے کر اپنی راہ لیتے یہاں تو جی آپ کے گھر کو آگ لگی ہو تو اگلا اس چکر میں ہوگا کہ انشورنس کے پیسے کسطرح ہتھیائے جائیں؛ یا سیلاب کی فوٹیج کو امریکی ڈالر میں کسطرح تبدیل کیا جائے۔۔
Comment by راشد کامران — August 9, 2010 @ 11:33 am
بہت خُوب موازنہ کیا ہے آپ نے۔۔۔۔ واقعی نیرو کا واحد جانشین آصف زرداری ہی ہو سکتا ہے
Comment by نویدظفرکیانی — September 22, 2010 @ 3:14 am