کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ کا طالبعلم ہونے کی بنا پراحباب یہ سوال اکثر پوچھا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویری مثال پی ایچ ڈی کے مرکزی خیال کو بہت اچھے طریقے سے اجاگر کرتی ہے۔ یہ تصویری مضمون ڈاکٹر میٹ مائٹ، اسسٹنٹ پروفیسر دارلعلوم کمپیوٹنگ، جامعہ یوٹاہ کی تحریری اجازت سے ترجمہ کر کے اس بلاگ پر شائع کیا جا رہا ہے۔ انگریزی متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
تصور کریںکہ مندرجہ ذیل دائرہ تمام موجودہ انسانی علم کو ظاہر کرتا ہے۔
جب آپ پرائمری اسکول ختم کرتے ہیں تو آپ کواس علم کا تھوڑا سا حصہ حاصل ہوتا ہے۔
جب آپ کالج کی تعلیم ختم کرتے ہیں تو آپ کا دائرہ علم مزیدبڑھ جاتا ہے۔
بیچلرز کی ڈگری کے ساتھ آپ کسی ایک خصوصی مضمون میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔
ماسٹرز کی ڈگری اس مضمون کی خصوصی مہارت کو مزید بڑھا دیتی ہے
تحقیقی مقالہ جات اور مضامین کا مطالعہ آپ کو اس خصوصی مضمون کے بارے میں موجودہ انسانی معلومات کی حد پر لے جاتا ہے۔
اس نہج پر پہنچ جانے کے بعد آپ اپنی توجہ اس حد پر مرکوز کر دیتے ہیں
آپ اس حد کو پار کرنے کے لیئے کچھ سال تک محنت و مشقت کرتے ہیں۔
کہ ایک دن، وہ حد اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے
پی ایچ ڈی
اور اس دائرہ میں جو نشان پڑتا ہے اسے پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے
اب آپکو دنیا مختلف لگتی ہے، اپنے دائرہ علم کے نشان کی مانند
اسی لئے ‘بگ پکچر’ یا عمومی دائرہ علم کی بڑی حقیقت کو فراموش نا کریں
علوم انسانی کی حدود کو پار کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
شکریہ جناب
آپ خوش قسمت ہیں کہ آپکو کچھ اندازہ ہے کہ پی ایچ ڈی کیا ہوتی ہے اور پی ایچ ڈی کون ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ حالت ہے کہ تیسرا برس جاری ہے اور ٹامک ٹویاں مار رہا ہوں۔
🙁
Comment by فیصل — August 14, 2010 @ 8:59 am
محترم یہاں بھی یہی عالم ہے۔ ‘پرابلم اسٹیٹمینٹ’ کو موثر طریقے سے بیان کرنے کے بہانے پروفیسر صاحب نے ہمارے تین سالہ منصوبے کو سبوتاژ کیا، اب جا کر کچھ امید بندھی ہے کہ اگلے سال کے اواخر میں ڈیفینس کی نوبت آ جائے۔ باقی ‘پبلش اور پیرش’ کا جو سلسلہ ہے وہاںتو راوی پیرش ہی پیرش لکھتا ہے۔
Comment by ابو عزام — August 14, 2010 @ 11:26 pm
پی ایچ ڈی کا دوجا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو محدود کرلیا ہے۔ ننھے سے نکتے پر پی ایچ ڈی ہوجاتی ہے۔ ہاں انسانیت کا علم بڑھ جاتا ہے لیکن فرد کا علم ایک خاص علاقے تک محدود رہ جاتا ہے پھر۔ اسے ہم ایریا کہتے ہین۔ سر جی تہاڈا کی ایریا اے؟ سر جی بتاتے ہیں سماجی لسانیات۔ اور ان سے گرامر کا سوال پوچھو تو کہتے ہیں بچے میرا ایریا یہ نہیں ہے۔
Comment by دوست — August 14, 2010 @ 10:51 am
علوم انسانی کی ہمہ جہت وسعت سے یہ دن تو آنا ہی تھا۔ پی ایچ ڈی اسپیشلازیشن ہے اور تحقیقی مسائل اس قدر ہیں کہ آپ ایک نکتے سے آگے بڑھیں تو پھر کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکتے اور بہت سا کام کرنے کے چکر میں تھوڑے سے معنوی کام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
Comment by ابو عزام — August 14, 2010 @ 11:30 pm
کوئی چھ دہئياں قبل ميں نے پڑھا تھا
عِلم اور عالم کی مثال ہوا اور غُبارے کی ہے ۔ جتنی زيادہ ہوا غبارے ميں بھری جائے اتنی ہی زيادہ ہوا غبارے کو اپنے باہر نظر آتی ہے
Comment by افتخار اجمل بھوپال — August 14, 2010 @ 6:09 pm
بہت خوب مثال اجمل صاحب
Comment by ابو عزام — August 14, 2010 @ 11:56 pm
یعنی خطرے کا لیول کراس ہو جاتا۔
Comment by یاسر خوامخواہ جاپانی — August 14, 2010 @ 9:58 pm
تصویری وضاحت خوب ہے۔
Comment by عمران اشرف — August 15, 2010 @ 6:20 am
کسی فلاسفر کا ایک گاؤں سے گذر ہوا ۔ اس نے دیکھا کہ ایک آدمی نے رہٹ یعنی کنواں چلا رکھاہے۔ اور پانی کنوئیں سے باہر کھیتوں کو جارہا ہے۔کنوئیں پہ پانی نکالتے ہوئے بیل متواتر گھوم رہے ہیں اور انکے گلے میں بندہی گھنٹیاں متواتر بج رہی ہیں۔ فلاسفر چونکہ ہر بات کو ایک مخصوص نظر سے محسوس کرتے ہیں ۔ اس نے دیہاتی کو جو قریب ہی کھیت کو پانی دے رہا تھا اس سے استفسار کیا کہ یہ بیلوں کہ گلے میں گھنٹیاں کیوں باندھ رکھی ہیں؟۔ دیہاتی نے جواب دیا اسلئیے گھنٹیاں باندھی ہیں کہ اگر بیل رُک جائیں تو گھنٹیوں کی آواز کے تھم جانے سے مجھے بیلوں کے رکنے کا فوری پتہ چل جائے۔ فلاسفر نے دہاتی کو مخاطب ہو کر کہااگر پانی نکالنے کی مشقت سے بچنے کے لئیے ،بیل ایک ہی جگہ پہ رُک کر گردن ہلاتے رہیں اور کنوئیں سے پانی نکالنے کی مشقت سے بچ جائیں تو پھر تمہیں کیسے پتہ چلے گا کہ تمہارے بیل رُک گئے ہیں؟۔ دیہاتی نے جواب دیا کہ بیل ایسا نہیں کریں گے ۔ فلاسفر نے دیہاتی سے استفسار کیا کہ بیل کیوں ایسا نہیں کریں گے؟۔
دیہاتی نے کمال بے نیازی سے جواب دیا اسلئیے کہ وہ بیل ہیں ،فلاسفر نہیں۔
مبینہ اور مسقتبل کے فلاسفی ڈاکٹرز سے معذرت کے ساتھ۔دنیا میں بیل اور دیہاتی جیسے لوگوں کا وجود بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا صاحب علوم کا وجود اہمیت رکھتا ہے۔ ورنہ نظام زندگی ٹھپ ہوسکتا ہے۔
Comment by جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین — August 15, 2010 @ 7:21 pm
میں نے تو یہ سوچ کر اس تحریر پہ قدم رکھا کہ لکھا ہوگا کہ دائرے کے محیط میں سوراخ ہونے کی وجہ سے سارا علم اس راستے لیک ہو جاتا ہے اور دائرہ آخیر میں پھر خالی رہ جاتا ہے۔ مگر آپ نے تو کچھ سنجیدہ بات کہہ ڈالی۔ یا حیرت۔
ابو عزام صاحب، آپکی یہ بات درست نہیں کہ پی ایچ ڈی ایک طرح کی اسپیشلائزیشن ہے۔ یہاں بہت سے لوگ اسی غلط فہمی میں ہیں۔ یہ دراص ایک طرح کی تربیت ہے دماغ کو آزاد روی سے سوچنے کی طرف لے جانے کی۔ اس لئے اسکی تحقیق کے عنوان سے لیکر نتائج کو جمع کرنا اور پھر انکا دفاع کرنا پی ایچ ڈی کرنے والے کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ جبکہ ماسٹرز کی ڈگری تک یہ ٹریننگ نہیں ہوتی۔
پی ایچ ڈی کا مطلب ویژن یا بصیرت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اپنے راستے خود متعین کرنا،امشاہدات سے اپنے ذاتی نتائج نکالنے کی اہلیت رکھنا، اس وقت جب تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ رات نجانے کتنی لمبی ہے اس چیز کی اہلیت رکھنا کہ صبح کے آنے کے آثار ہیں یا نہیں۔
اگر کوئ شخص پی ایچ ڈی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو چاہے وہ کسی بھی میدان سے تعلق رکھتا ہو، ، تمام پی ایچ ڈیز کی طرح اس میں ایک خوبی ہوگی اور وہ یہ کہ وہ ویژن رکھتا ہوگا۔ یہ بات اسی سے سمجھ لینی چاہئیے کہ کیوں کچھ لوگوں کو پی ایچ ڈیز کی اعزازی ڈگری دی جاتی ہے۔
Comment by عنیقہ ناز — August 16, 2010 @ 11:29 am
پی ايچ ڈی کی بہت اچھی اور قوی تعريف لکھی گئی ہے مگر محترمہ نے پی ايچ ڈی کا دفاع کرتے ہوئے اسے کمزور بنا ديا ہے ۔ جو اوصاف پی ايچ ڈی کی بدولت پيدا ہونے کا کہا گيا ہے وہ پہلے سے ہی نہ ہوں تو طالبعلم پی ايچ ڈی کے قابل نہيں ہوتا ۔
فيصل آباد جب اس کا نام لائيلپور تھا اور سندھ ميں غالباً جامشورو ميں 1974ء ميں بی ايس سی اگريکلچر والوں کو يہی کام کرتے ديکھا تھا جو محترمہ نے پی اي ڈی کرنے کے بعد کی خاصيت بيان کی ہے ۔
جن لوگوں نے تحقيق کرکے پھلوں – سبزيوں اور اناج کی عمدہ يا نئی قسميں دريافت کيں انہوں نے بی ايس ای يا ايم ايس ای پر ہی اکتفا کيا
Comment by افتخار اجمل بھوپال — August 17, 2010 @ 12:40 am
Ph.D mean PHIRA HUWA DIMAGH 😀
Comment by BuRi — September 18, 2010 @ 1:43 pm
۔ابو عزام صاحب ، بہترین وضاحت ہے۔ بہت خوب ۔۔
یعنی “جس سے ملے ، جہاں سے ملے، جسقدر ملے” کے مصداق علم حاصل کرنے کا تسلسل جاری رہے۔
Comment by رابعہ مینائی شاہ — September 19, 2010 @ 7:35 pm
پی ایچ ڈی کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ دراصل انسان کو اپنی جہالت سے آگاہ کر دیتی ہے آسان لفظوں میں پی ایچ ڈی کا مطلب اپنی جہالت سے آگاہ ہونا.
شکریہ
Comment by ڈاکٹر نعمان نیر کلاچوی — June 30, 2015 @ 2:46 pm