فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 29, 2010

لاس اینجلس کے ساحل سے لے کر تابہ خاک نیویارک

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,مشاہدات — ابو عزام @ 1:50 pm
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہے، کل شام بروز جمعرات، برادرم راشد کامران اور بندہ ناچیز ایک طویل سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ ارادہ ہے کہ براعظم شمالی امریکہ کے ایک ساحل بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس تک کا تقریبا 4000 میل کا سفر کم و بیش پانچ دن میں طے کیا جائے ۔درمیان میں جنوبی ریاستوں سے گذرتے ہوئے اس مختصر وقت میں بائبل بیلٹ اور قدامت  و جدت کے تقابل کا ارادہ ہے ۔دوستوں کے ہاں قیام کا ارادہ ہے اور چونکہ ایک عددایس ایل آر کیمرہ بھی ساتھ ہوگا تو کچھ تصویر کشی کا  شوق بھی پورا کیا جائے گا ۔  گرم پانیوں سے برفیلے طوفانوں کے اس سفر میں تقریبا سولہ ریاستوں سے گذر ہوگا جن میں بلا ترتیب کیلیفورنیا، ایریزونا،نیو میکسیکو، ٹیکساس، لوزیانا، مسیسپی، الاباما، جارجیا، ٹینیسی، کینٹکی، ورجینیا، میری لینڈ، واشنگٹن، ڈی سی، نیو یارک، نیو جرسی اور کنیکٹیکٹ شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں سے کچھ میں برفانی طوفانوں کی وجہ سے ہنگامی حالات کا اعلان ہے۔ راشد بھائی کا کہنا ہے کہ گاڑی میں چینوں ‘پہیوں کے سلاسل ‘  کے بغیر سفر کچھ ایسا ہوگا کہ
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دیکر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
اس روٹ کی لمبائی کا اندازہ آپ اسطرح لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم کراچی سے یہ سفر شروع کرتے تو اختتام مشرقی یورپ کے ملک سلوینیا،اٹلی کے شہر یودین یاجنوب مشرق میں رنگون برما  تک ہو سکتا تھا۔ اس سفر کا نقشہ آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔
میری کوشش ہوگی کہ اس سفر میں آنے والی دلچسپ چیزوں کو قلمبند کر سکوں، خصوصا ارادہ یہ ہے کہ راستے میں آنے والی ہر ریاست کی کم از کم ایک مسجد میں‌نماز ادا کی جائے، مقامی مطبخ میں کھانا کھایا جائے اور ہر ریاست کے ستار بخش (اسٹار بکس کا اسم مستعمل) کے ذائقے کی درجہ بندی کی جائے۔ راشد بھائی کا مزید خیال ہے کہ ساوتھ میں اسکارلٹ او ہیرا کی تلاش بھی بعید از امکان نہیں تاہم ہم اس سلسلے میں مہر بہ لب ہیں۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں


View Larger Map

Share

December 23, 2010

لنگڑی بطخ کانگریس

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 3:16 pm
نہیں‌ جناب ، یہ لقب ہمارا دیا ہوا نہیں بلکہ کئ مغربی ممالک کی سیاست میں ‘لیم ڈک’ یا لنگڑی بطخ ایسے سیاسی فرد یا جماعت کو کہا جاتا ہے جو کہ
.۔1 دوسری مدت کا انتخاب ہار گئے ہوں اور پہلی مدت کے اختتام پر ہوں
.۔2 دوسری مدت کے لئے انتخاب نا لڑنے کا فیصلہ کیا ہو اور موجودہ مدت ختم ہونے والی ہو
.۔ 3 دفتر ی میعاد کی حد کو پہنچ گئے ہوں کہ اب اگلے انتخاب کے لئے نا اہل ہوں
۔4 اس دفتری عہدے کو  انکی معیاد پوری ہونے پر ختم ہوجانا ہو۔
 
ان لنگڑی بطخ حکام کی چونکہ  سیاسی قوت کمزور ہوتی ہے کہ چل چلاو کا وقت ہے،  لہذا دیگر منتخب عہدے دار  ان کے ساتھ تعاون کی طرف راغب کم کم ہی ہوتے ہیں. آج کل کی امریکی کانگریس اپنے لیم ڈک سیشن میں ہے لیکن سنبھالا لیتے ہوئے قوانین پر قوانین پاس کرتی جا رہی ہے کہ سند رہے اور بوقت الیکشن کام آئے۔
 
برطانوی انداز کی مقننہ میں زیادہ تر تکنیکی طور پر تو لیم ڈک سیشن نہیں ہوا کرتا لیکن اگر دیکھا جائے جائے تو  مملکت خداداد، ہمارے وطن عزیز کی لولی لنگڑی جمہوریت اور اس کے مقننہ کے ادارے شازونادر ہی لنگڑی بطخ سیشن سے باہر آتے ہیں۔ کبھی مڈ ٹرم کا خوف، کبھی بھاری بوٹوں کی آواز کا ڈر تو کبھی بیچ منجدھار میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد ٹوٹنے کا خدشہ – اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ایوان زیریں و بالا کا اجتماعی نام ‘مجالس بط بہ لنگ’ رکھ دیا جائے۔ باقی اہم فیصلے تو سب ہی جانتے ہیں کہ کہاں کئے جاتے ہیں۔
Share

December 19, 2010

لبرلزم کا الگارتھم

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 8:50 am
کل سویرے بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔تکلفات و اداب و تسلیمات کے بعد گویا ہوئے کہ میاں، ہمیں اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ ثنائی تلاش ‘باینری سرچ’ کے طریق عمل / خوارزمية  ‘الگارتھم’ کی اوسط پیچیدگی لاگ این کیوں ہے؟ ہم اس کے قطعی قائل نہیں۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ حضور، صبح صبح اس واردات قلب کا کوئی سبب تو کہنے لگے کہ کہ ہمارے تمام پراگرامات اور اعداد و شمار اس سے پیشتر ہی حل ہو جاتے ہیں، لاگ این کی نوبت ہی نہیں آتی۔
آپ اسے کمپیوٹر سائنس کا ایک لطیفہ کہہ لیں لیکن پھر ہماری بحث کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک کنہہ مشق پراگرامر ہونے کے باوجود بٹ صاحب اصول کمپیوٹر سائنس یا تھوری سے کچھ خاص شغف نا رکھتے تھے اور نا ہی علوم الحاسبہ میں انہیں کوئی خاص دخل تھا۔ اب یہی سوال اگر مرزا ہم سے کرتے تو انکے اہل فن ہونے پر ہم اس مسئلہ اثباتی پر نا صرف سنجیدگی سے غور کرتے بلکہ استدلال بھی طلب کرتے کہ ایک اوسط پیچیدگی کو بہترین کیس سے محض کچھ خصوصی ڈیٹا سیٹ کی بنیاد پر تشبیہ دینے کی مبتدیانہ غلطی ان سے ہرگز متوقع نا ہوتی۔
اب اس طویل تمثیل کے بعد امید ہے کہ یہ بات واضع ہو چکی ہوگی کہ اس تحریر سے  راقم کا منشا علوم دینیہ میں غیر اہل فن کی تشنیع کا رد ہے۔ جیسا کہ پچھلے دنوں محترمی باذوق (اللہ انہیں جزاے خیر دے) کے بلاگ پر دیکھنے میں‌آیا کہ ہمارے نام نہاد لبرل افراد دیگر کسی بھی دنیاوی تکنیکی معاملے میں‌بلا سوچے سمجھے اور بلاتحقیق کے زبان کھولتے تو ڈرتے ہیں‌ لیکن جب دین کی بات آئے تو ہر فرد فقیہ و مجتہد نظر آتا ہے۔ اگر بٹ صاحب علم طبیعیات یا کیمیا کے ماہر ہیں تو ہم نے کبھی یہ دعوی نا کیا کہ ہمیں نظریہ اضافیت کے کلیہ میں مربع پر اعتراض ہے، اسے مکعب ہونا چاہیے تھا۔ یہ لوگ ضعف کا وردان کرتے ہوئے آحادیث پر اعتراضات جڑتے نظر آتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ یا تو وہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم انکے مزاج نازک پر بارگراں ہے یا پھر زمانے کا وہ چلن نہیں‌۔ ہم جان کی امان پائیں تو ان سے پوچھیں کہ حضور کیا آپ اہل فن ہیں؟ کہ اگر امام احمد یا  شیخ البانی اصول روایت و درایت پر  یہ اعتراض کریں اور صحیح ابوداود تصنیف کریں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ دین کسی کہ تحقیق کا حق سلب نہیں کرتا شرط صرف اہل فن ہونا ٹہرا۔ اگر آپ کسی محدث کو درء الشبهات حول حديث بول الإبل میں نہیں مبتلا دیکھتے کہ وہ بخاری و مسلم کی اس متفق علیہ روایت پر شبہ کر رہا ہوتو طالبعلم ہونے کا تقاضہ ہے کہ بول الإبل بين الإسلام والعلم الحديث کو پڑھا اور سمجھا جائے نا کہ اپنی مرضی سے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ سماجی و تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے ۔ ہم تو آج کے لبرل حضرات کے اس آیت مبارکہ پر اعتراضات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ عورت کی برابری اور اس کہ فہم و فراست کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ موجودہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے حلق سے تو ہرگز نا اتر پائے۔

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ -سورة الزخرف 18
کیا (اللہ کے حصے میں وہ اولاد ہے) جو پالی جاتی ہے زیوروں میں اور وہ بحث و حجت میں اپنا مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی؟
اور ایک اور ترجمہ یہ ہے کہ
کیا جو کہ آرائش میں نشونما پائے اور مباحثہ میں قوت بیانیہ  نہ رکھے۔
تاویلات تو ہر چیز کی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر ایک طالبعلم اور متلاشی حق بن کر سوچا جائے تو کیا یہ بات اظہر من الشمس نہیں کہ کسی نص کو محض اس بنا پر پر رد کرنا کہ دنیا کیا کہے گی محرومی کی بات ہے؟
لبرلوں کا کوئی بھی الگارتھم ہو، غلامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بس یہی یہی ایمان ہے کہ عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی۔
Share

Powered by WordPress