کل سویرے بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔تکلفات و اداب و تسلیمات کے بعد گویا ہوئے کہ میاں، ہمیں اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ ثنائی تلاش ‘باینری سرچ’ کے طریق عمل / خوارزمية ‘الگارتھم’ کی اوسط پیچیدگی لاگ این کیوں ہے؟ ہم اس کے قطعی قائل نہیں۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ حضور، صبح صبح اس واردات قلب کا کوئی سبب تو کہنے لگے کہ کہ ہمارے تمام پراگرامات اور اعداد و شمار اس سے پیشتر ہی حل ہو جاتے ہیں، لاگ این کی نوبت ہی نہیں آتی۔
آپ اسے کمپیوٹر سائنس کا ایک لطیفہ کہہ لیں لیکن پھر ہماری بحث کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک کنہہ مشق پراگرامر ہونے کے باوجود بٹ صاحب اصول کمپیوٹر سائنس یا تھوری سے کچھ خاص شغف نا رکھتے تھے اور نا ہی علوم الحاسبہ میں انہیں کوئی خاص دخل تھا۔ اب یہی سوال اگر مرزا ہم سے کرتے تو انکے اہل فن ہونے پر ہم اس مسئلہ اثباتی پر نا صرف سنجیدگی سے غور کرتے بلکہ استدلال بھی طلب کرتے کہ ایک اوسط پیچیدگی کو بہترین کیس سے محض کچھ خصوصی ڈیٹا سیٹ کی بنیاد پر تشبیہ دینے کی مبتدیانہ غلطی ان سے ہرگز متوقع نا ہوتی۔
اب اس طویل تمثیل کے بعد امید ہے کہ یہ بات واضع ہو چکی ہوگی کہ اس تحریر سے راقم کا منشا علوم دینیہ میں غیر اہل فن کی تشنیع کا رد ہے۔ جیسا کہ پچھلے دنوں محترمی باذوق (اللہ انہیں جزاے خیر دے) کے بلاگ پر دیکھنے میںآیا کہ ہمارے نام نہاد لبرل افراد دیگر کسی بھی دنیاوی تکنیکی معاملے میںبلا سوچے سمجھے اور بلاتحقیق کے زبان کھولتے تو ڈرتے ہیں لیکن جب دین کی بات آئے تو ہر فرد فقیہ و مجتہد نظر آتا ہے۔ اگر بٹ صاحب علم طبیعیات یا کیمیا کے ماہر ہیں تو ہم نے کبھی یہ دعوی نا کیا کہ ہمیں نظریہ اضافیت کے کلیہ میں مربع پر اعتراض ہے، اسے مکعب ہونا چاہیے تھا۔ یہ لوگ ضعف کا وردان کرتے ہوئے آحادیث پر اعتراضات جڑتے نظر آتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ یا تو وہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم انکے مزاج نازک پر بارگراں ہے یا پھر زمانے کا وہ چلن نہیں۔ ہم جان کی امان پائیں تو ان سے پوچھیں کہ حضور کیا آپ اہل فن ہیں؟ کہ اگر امام احمد یا شیخ البانی اصول روایت و درایت پر یہ اعتراض کریں اور صحیح ابوداود تصنیف کریں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ دین کسی کہ تحقیق کا حق سلب نہیں کرتا شرط صرف اہل فن ہونا ٹہرا۔ اگر آپ کسی محدث کو درء الشبهات حول حديث بول الإبل میں نہیں مبتلا دیکھتے کہ وہ بخاری و مسلم کی اس متفق علیہ روایت پر شبہ کر رہا ہوتو طالبعلم ہونے کا تقاضہ ہے کہ بول الإبل بين الإسلام والعلم الحديث کو پڑھا اور سمجھا جائے نا کہ اپنی مرضی سے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ سماجی و تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے ۔ ہم تو آج کے لبرل حضرات کے اس آیت مبارکہ پر اعتراضات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ عورت کی برابری اور اس کہ فہم و فراست کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ موجودہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے حلق سے تو ہرگز نا اتر پائے۔
أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ -سورة الزخرف 18
کیا (اللہ کے حصے میں وہ اولاد ہے) جو پالی جاتی ہے زیوروں میں اور وہ بحث و حجت میں اپنا مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی؟
اور ایک اور ترجمہ یہ ہے کہ
کیا جو کہ آرائش میں نشونما پائے اور مباحثہ میں قوت بیانیہ نہ رکھے۔
تاویلات تو ہر چیز کی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر ایک طالبعلم اور متلاشی حق بن کر سوچا جائے تو کیا یہ بات اظہر من الشمس نہیں کہ کسی نص کو محض اس بنا پر پر رد کرنا کہ دنیا کیا کہے گی محرومی کی بات ہے؟
لبرلوں کا کوئی بھی الگارتھم ہو، غلامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بس یہی یہی ایمان ہے کہ عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی۔
عدنان صاحب، ؛گتا ہے آپ بھی اسی چحوت کی بیماری کا شکار ہیں جو آجکل لبرلزم کے نام پہ شروع ہوتی ہے اور نتیجے میں اپنے تقلیدزم کو جا کر سجدہ کرتی ہے۔ قبلہ، ہم نے اپنے بلاگ پہ بحیثیت ایک کیمسٹ اونٹ کے پیشاب پہ کچھ اعتراضات کئے ہیں وہ آپکی نظر سے نہیں گذرے ہونگے۔ کیونکہ تقلیدزم کے شکار تما افراد کا نوحہ لبرلزم کی گتھی میں اتنا الجھا ہوتا ہے کہ وہ اس سے باہر نکلتے ہیں تو پھر تقلیدزم میں جا گرتے ہیں۔ یوں یہ ایک سائیکل ہے جس سے باہر انہیں دیکھنا پسند نہِں یا یہ کہ اسی میں انہیں وہ لطف بے پایاں ملتا ہے کہ اسکے بعد کسی لطف کی حاجت نہیں رہتی۔ سو ابھی مِں بھی اس حدیث کے چھوت کے مرض پہ باقاعدہ لکھنا چاہتی ہوں، اپنے بلاگ پہ۔
آج کا اسلام اور اسکے سخت مقلد تو عورت نامی مخلوق کے اوپر اس طرح ریسرچ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں جیسے خدانخواستہ اسلام صرف عورت کو راہ راست پہ رکھنے کے لئے دنیا میں لایا گیا۔ ہم بھی اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب تقلیدزم کے شکار افراد اصل اسلام کی طرف رجوع کریں اور اسے محض عورتوں کے اوپر یا عورتوں کے لئے اتارا ہوا دین نہ سمجھیں اور جہاں مرد مولانا صاحبان بیٹھ کر یہ نہ بتائیں کہ عوروتں کو کسطرح پاک ہونا ہے ۔ میرا خایل ہے کہ آپ لوگوں کو اس طرح اپنے فہم دین پہ تکبر کرتے ہوئے لوگوں کو اس موضوع کی طرف نہیں بلانا چاہئیے جسے خود آپکو جاننے کی بھی ازحد ضرورت ہے۔
Comment by عنیقہ ناز — December 19, 2010 @ 9:27 am
ہاں صاحب یہ ایک اُصولی بات ہے۔ اگر آپ کسی خاص علم یا فن کے ماہر اور جانے مانے عالم ہیں تو اس کی بابت آپ کا فرمایا ہوا مستند مانا جائے گا۔ لیکن اگر آپ بغیر کسی استناد کے ہر علم اور ہر فن میں ٹانگ اڑائیں گے، اور چاہیں گے کہ لوگ خود کو جاہلِ مطلق تسلیم کرکے آپ کی ہر رائے اور تھیوری پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں تو ایسا ہونا محال ہے۔ایک روشن خیال آنجہانی امریکی ہی کے بقول آپ کچھ لوگوں کو کچھ دیر کے لیے اُلّو بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اُلّو نہیں بنا سکتے۔ ویسے بھی بعض لوگوں کے من چاہے نظریہ ارتقا (جو کوئی ثابت شدہ قانون بھی نہیں) کی روشنی میں معمولی جانور ترقی کرتے کرتے اشرف المخلوقات تو بن سکتے ہیں لیکن احسن التقویم کے درجے پر فائز انسان کا جانور(مثلا اُلو) بننا،یعنی ریورس گیئر لگنا ممکن نہیں۔ لگے رہو بھائی لوگو!!!
اب دیکھتے ہیں کہ صنفِ نازک کے حوالے سے اقتباس کی گئی آیات کی کیا تاویل فرماتے ہیں ہمارے روشن خیال مفسر۔ ویسے انھی جیسے مفسروں کےحوالے سے حکیم الامت تقریبا سو سال قبل فرما گئے ہیں۔۔۔
’’’احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر۔۔۔تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند‘‘‘
Comment by Ghulam Murtaza Ali — December 19, 2010 @ 10:06 am
مجھے لوگ بھالے فوراً منکر حدیث کہ دیتے هیں
حالنکه میں “حدیث” کا منکر نهیں هوں
بلکه حدیث کے نام پر لکھی گئی کتابوں کا منکر هوں
میں ایک مثال دیتا هوں که ایک بندھ اپ کا دوست پیرس سے لندن جاتا هے اور اپ کو معلوم هوا که وھ لندن گیا
اس کے متعلق
قیصر اپ کو بتاتا ہے که اس بندے نے قیصر کو بتایا تھا که وھ یورو سٹار کی ٹرین پر گیا
سلطان بتاتا هے که اس بندے نے سلطان کو بتایا که وھ هوائی جہاز سے گیا
شیخ بتاتا هے که اس بندے نے اس کو بتایا که وھ اپنی کار پر بائی روڈ گیا
اسی طرح پانچ بدو اپ کو بتاتے هیں که اس بندو نے ان کو بتایا که وھ کیسے لندن گیا
اور پانج کو هی مختلف بتایا
تو جی
اس سے کیا ظاهر هوا
یا تو وھ بندھ جھوٹا ہے
یا ذہنی طور پر کمزور که اس کو یاد هی نهیں که کس کو کیا بتایا
یا پھر وھ پانچ بندے جھوٹ بول رهے هیں
یا پھر اخری بات که اپ کو کسی بندے کے لندن جانے کا معلوم هوا تو اپ نے پانچ بندوں کا جھوٹ گھڑ گے اس بندے کو پاگل ثابت کرنے کی کوشش کی
اور اس جھوٹ کو روایت کا نام دیا
اگر مين کھل کر لکھوں که حدیث کے نام پر لکھی جانے والی کتابوں نےرسول صعلم کی کتنی توہین کی هے تو اندھی تقلید کے ماہر میر برا حال کردیں گے
باقی جی
اپ کے اس اس اعتراض پر که جس بات کا علم حاصل نهیں کیا اس پر بحث هی کرنی نهیں بنتی تو جی
یه باتسائنسی علوم کی حد تک تو ٹھیک هے لیکن
معاشرتی اصولوں پر ، جس کو جس جلد پر جیسی چوٹیں لگ رهی هوتی هیں اس کو هی اس درد کا علم هوتا هے ناں که کتابی کیڑوں کو
اب یهاں چاٹنگ کی طرح ایک بحث شروع هو جائے تو جی هر بات کے جواب کے لیے میرے پاس وقت نهیں هوتا ہے ورنہ جواب تو دوں هی اپنی بساط کے مطابق
میرے خیال میں یه کتابیں جو که حدیث نهیں هے
لیکن ان کو حدیث کا نام دے کر جتنی تهین رسالت ان مین کی گئی هے اتنه توهیں کسی بھی محفل میں کسی کافر نے نهں کی هو گی
اور ان توهین امیز باتوں کو صدیوں سے اپنے اپنے دور میں سیانے لوگ ضعیف کے نام پر حذف کرتے رہے هیں
ایک دفعہ پھر یاد رهے که میں حدیث کا منکر نهیں هوں
بلکه حدیث کے نام بر لکھی گئی کتابوں کا منکر هوں که یه حدیث نهیں هیں
حدیث کیا هے ؟
اس کی ڈیفینیشنز کیا هیں ؟؟
ان پر غور کریں
Comment by خاور کھوکھر — December 19, 2010 @ 12:10 pm
تبصرے کی ابتداء میں ہی اس کی طوالت کی معذرت کرنا چاہوں گا کہ ایک جوابی پوسٹ کا ارادہ تھا لیکن بلاگستان کی مناظراتی صورت حال کے پیش نظر، یہ مناسب معلوم نا ہوا۔
فاکس نیوز کا ایک بڑا موثر طریقہ کار رہا ہے کہ جو شخص ان کا ہم خیال نا بن پائے اس کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرلی جائے مثلا “لبرل” اور پھر محض اس بات پر اصرار کیا جائے کہ لبرل ہونا اصل میں مذہب بیزاری کی جڑ ہے جیسا کہ اس پوسٹ سے ظاہر ہے کہ مباحثہ اور تقریر کے جملہ حقوق بحق ہم خیال محفوظ ہیں کیونکہ اس بات پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ کیا “آپ کے ہم خیال” آپ کی وضع کردہ کسوٹی پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ آسان راستہ یہی ہے کہ اگر مخالف کسوٹی پر پورا اترتا ہو مثلا جاوید غامدی تو اسے یہودی ایجنٹ، پرویزی یا گمراہ قرار دے دیا جائے اور اگر کوئی مجھ سا جاہل تو اسے روشن خیال لبرل جو دین سے بیزار ہے (جو دراصل مذہب سے بیزار ہے)۔
بہر حال اس بات کی تعریف نا کرنا بخل ہوگا کہ “تقلید” اور ٹاکنگ پوائنٹ کو بغیر سوچے سمجھے دہرانے میں مذہبی حلقوں کا جواب نہیں چاہے اس کے لیے کیسی ہی غیر فطری اور بسا اوقات قران سے براہ راست متصادم باتوں کو “حدیث” کا درجہ ہی کیوں نا دینا پڑے۔ اس صورت میں اگر امت میں انتشار اور تفرقہ بندی محض احادیث کی تشریحات اور اپنے پسندیدہ یا ہم خیال مؤرخ کے فرمودات پر اصرار کی بدولت ہے تو کیا عجب ہے۔ دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دوسرے مذاہب اور ادیان میں موجود تحدید کا ٹھٹھہ اڑایا جائے اور اُسی سانس میں اپنے “ورژن” کو عین عبادت قرار دیا جائے؛ خیر منافقت اور مذہبی حلقوں کے لائحہ عمل میں تعلق ثابت کرنے کے لیے شاید ہی کسی وکی لیکس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہو۔ شکر ہے کہ کم از کم یہ مباحثہ کا سلسہ شروع ہوا ورنہ صدی دوصدی بعد بہشتی زیور اور فیضان سنت وغیرہ پر ایمان لانا بھی ایمان مفصل کا حصہ ہی بیان کیا جاتا اور منکر فیضان سنت کے لیے وعیدیں بخاری شریف سے ہی فراہم کی جاتیں۔
Comment by راشد کامران — December 20, 2010 @ 11:27 am
آپ خواتین و حضرات کے تبصرہ جات کا بے حد ممنون ہوں۔
محترمہ عنیقہ ، حسب حال یہ ہے کہ سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا ۔اختلاف اس بات پر ٹہرا کہ اولا محض عصری علوم و سماجی اقدار سے متصادم ہونے پر روایت و درایت سے ثابت شدہ حدیث پر کلام نا ہوگا کہ اگر یہ ثابت شدہ قول رسول ہے تو آمنا و صدقنا کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔ ثانیا اگر حدیث کی صحت میں کلام ہے تو اس کے لئے رجال میں ‘نومنکلیچر’ پہلے سے قائم ہے جس سے رجوع کیا جائے اور انہی اصولوں پر اسے مرفوع، موقوف، مقطوع، متصل، مرسل، صحیح، متواتر، ضعیف، حسن، موضوع، منکر، شاذ، معلل، غریب، مستفیض، امالی، مسلسل، محکم، قوی، اثر، خاص، ناسخ یا منسوخ قرار دیا جائے گا جیسا کہ شیخ البانی نے صحیح سنن ابوداود میںکیا۔ اگر مشاہداتی علم پر قول رسول پورا نا بیٹھے تو معراج کی تمثیل سے صدیق اکبر یا ابوجہل میں سے ایک کے ردعمل کا انتخاب کرنا جذبہ ایمانی کا معاملہ ہے۔
خاور صاحب ، فرق بین انکار حدیث و انکار كتب الحديث الصحيح بسیار کم۔ تاریخ تدوین حدیث از غلام جیلانی برق کا مطالعہ ان اشکال کے رد میں نہایت کارآمد ہے۔
راشد بھائی، آپ تو اپنے آدمی تھے آپ کو آخر کیا ہوا 🙂 ؛ بہر حال اسٹیریوٹایپنگ سماجی علوم میں اور لیبلنگ اور کلسٹرنگ مشینی علوم میں ثابت شدہ تکنیک ہے تو مشق ستم جاری رہے گی۔ اہل علم و فن فی علوم دینیہ کے اعتراضات پر اختلاف کی گنجائش ہے کیونکہ کوئی اہل علم کسی نص کو اس بنا پر رد نہیں کرتا کہ وہ ‘کامن سینس’ یا موجودہ سماجی اقدار کے خلاف ہے بلکہ اسکی توجیہ انہی ثقہ علوم سے پیش کرتا ہے بشمول غامدی و البانی و قرضاوی۔ نیزفطری و غیر فطری ‘سبجیکٹو’ ہے، موجودہ سائینس عمل قوم لوط کو فطرت پر پیدا ہونا قرار دیتی ہے اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ نیورو سائنس کے ہرموقر پئر ریویڈ جرنل میںایم آر آئی اور پی ای ٹی سے اس بات پر استدلال موجود ہے کہ یہ میلان ‘ہارڈ وائرڈ’ ہے لیکن یہ بات نا آپ مانیں گے اور نا میں کیونکہ یہ ہماری مذہبی و سماجی اقدار کے خلاف ہے اور آپ اسے شائد کامن سینس اور فطرت کے خلاف بھی قرار دیں۔یہی وہ موبئیس اسٹرپ ہے جس میں احکام خداوندی سے ‘پک اینڈ چوز’ کرنے والا جا پھنستا ہے -کیونکہ انسانی قوانین و علوم میں مستقل تغیر ہے جبکہ از خدا و رسول هستند بدون تغییر۔
Comment by ابو عزام — December 21, 2010 @ 9:34 am