نہیں جناب ، یہ لقب ہمارا دیا ہوا نہیں بلکہ کئ مغربی ممالک کی سیاست میں ‘لیم ڈک’ یا لنگڑی بطخ ایسے سیاسی فرد یا جماعت کو کہا جاتا ہے جو کہ
.۔1 دوسری مدت کا انتخاب ہار گئے ہوں اور پہلی مدت کے اختتام پر ہوں
.۔2 دوسری مدت کے لئے انتخاب نا لڑنے کا فیصلہ کیا ہو اور موجودہ مدت ختم ہونے والی ہو
.۔ 3 دفتر ی میعاد کی حد کو پہنچ گئے ہوں کہ اب اگلے انتخاب کے لئے نا اہل ہوں
۔4 اس دفتری عہدے کو انکی معیاد پوری ہونے پر ختم ہوجانا ہو۔
ان لنگڑی بطخ حکام کی چونکہ سیاسی قوت کمزور ہوتی ہے کہ چل چلاو کا وقت ہے، لہذا دیگر منتخب عہدے دار ان کے ساتھ تعاون کی طرف راغب کم کم ہی ہوتے ہیں. آج کل کی امریکی کانگریس اپنے لیم ڈک سیشن میں ہے لیکن سنبھالا لیتے ہوئے قوانین پر قوانین پاس کرتی جا رہی ہے کہ سند رہے اور بوقت الیکشن کام آئے۔
برطانوی انداز کی مقننہ میں زیادہ تر تکنیکی طور پر تو لیم ڈک سیشن نہیں ہوا کرتا لیکن اگر دیکھا جائے جائے تو مملکت خداداد، ہمارے وطن عزیز کی لولی لنگڑی جمہوریت اور اس کے مقننہ کے ادارے شازونادر ہی لنگڑی بطخ سیشن سے باہر آتے ہیں۔ کبھی مڈ ٹرم کا خوف، کبھی بھاری بوٹوں کی آواز کا ڈر تو کبھی بیچ منجدھار میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد ٹوٹنے کا خدشہ – اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ایوان زیریں و بالا کا اجتماعی نام ‘مجالس بط بہ لنگ’ رکھ دیا جائے۔ باقی اہم فیصلے تو سب ہی جانتے ہیں کہ کہاں کئے جاتے ہیں۔
خوب تیموری مرض ڈھونڈا آپ نے، “ایوانِ تیمیوریہ” بھی ٹھیک رہے گا۔
🙂
Comment by محمد وارث — December 23, 2010 @ 9:41 pm
I dont think it helps to keep ridiculing (Talking down “as in financial markets” to drop the sentiment) about PK.
Comment by Dr. Khan — January 23, 2011 @ 3:54 am
ایوان تیموریہ لنگ۔
Comment by یاسر خوامخواہ جاپانی — December 23, 2010 @ 11:16 pm
محمد وارث اور یاسر صاحبان، تبصروں کا بہت شکریہ۔ ہم بھی یہی سوچ رہے تھے کہ موضوع لنگ میں جب تک تھوڑی تیموریت نا ہو تو مزا نہیں آتا – آپ حضرات کے عنوانات نے کمی پوری کردی۔
Comment by ابو عزام — December 24, 2010 @ 11:57 pm
ميں تاخير سے لکھ رہا ہوں ۔ ۔ ميں نے اسے اشاعت کے دن پڑھا ہی تھا کہ کچھ پريشانی اچانک نمودار ہوئی اور دو تين دن غارت ہوئے ۔ آپ ن بہت خوبصورت طريقہ سے حالات بيان کئے ہيں ۔ پڑھتے ہوئے محظوظ ہوا
Comment by افتخار اجمل بھوپال — December 27, 2010 @ 10:54 pm