فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 28, 2011

بارے مستعار لی گئ کتابوں کا بیان – ایک مختصر فکاہیہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:00 pm

ہمارئے جامعہ کے ایک عزیز دوست ہر سوال اسی طرح شروع کیا کرتے تھے مثلا ایک دن پوچھنے لگے، تو کیا کہتے ہیں علمائے دین شرح متین بیچ مستعار لی گئی کتابوں کے مسئلے کے؟

جوابا عرض کی کہ قبلہ، ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کی رائے کا تو چنداں علم نہیں لیکن ہماری ناقص رائے سراسر اس مشہور مقولے پر مبنی ہے جس کے مطابق کتاب دینے والا بے وقوف اور لے کر واپس کرنے والا اس سے بڑا بے وقوف۔ یوسفی نے بھی منٹوانہ لہجے میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ‘کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے – دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لئے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لئے نہیں’ لیکن چونکہ آجکل آیکنوکلاسٹ ہونا تہذیب پسندی کی دلیل ٹہری، تو ان مقولہ جات کو بزبان فرنگ نمک کی چٹکی کے ساتھ لیا جائے۔

خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ ہمارئے تمام دوست کتابیں مستعار دینے کے بارئے میں‌بڑے سخی واقع ہوئے ہیں، انہوں نے خود کبھی یہ بات نہیں کہی لیکن چونکہ بزرگ خاموشی کو نیم رضامندی قرار دیتے ہیں، ان ‘ڈیمسلز ان ڈسٹریس’ پر تہمت سخاوت مہجور ہے۔ کچھ حاسد اسے لوگوں کی فطری شرافت سے فائدہ اٹھانا بھی کہتے ہیں لیکن کراچی کے بیلٹ بکس کی طرح گمان غالب ہے کہ یہ تعداد اسٹیٹسٹکلی سگنیفکنٹ نہیں۔ اب برادرم بن یامین کو ہی دیکھیے، ان کے گھر ہم نے اپاچی لوسین کی دو عدد کاپیاں دیکھیں تو جھٹ مواخات کا تقاضہ یاد دلایا، اگلے ہفتے کتاب ڈاک سے وصول پائی۔ مرد اوقیانوسی کی یہی مثال بار بار برادرم راشد کامران کو دئے کر ان سے کتابیں مستعار لیتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ اسی وجہ سے وہ اب برقی کتب کے بڑے مداح ہوتے چلے ہیں۔

موئی برقی کتب، یہ بھی بڑی بلا ہے اور دور جدید کے فتنوں میں سے ایک فتنہ۔ اب کنڈل یا آئی پیڈ پر کوئی بھلا کیسے بتا سکتا ہے کہ بھلا آپ پارک کی بینچ پر بیٹھے ہکل بیری فن پڑھ رہے ہیں یا وصی شاہ کے الفاظ کا ملغوبہ، نسیم حجازی کی تاریخ دانی کے ڈالڈے پر سر دھن رہے ہیں یامیر کے آہو رم خوردہ کی وحشت سامانی پر تحقیق کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بھلے زمانوں میں تو کتاب کی ضخامت اور جلد سے آدمی کے کردار اور چال چلن کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ حضرت کس قماش کے ہیں۔ میر امن کے مداح ہیں یا رجب علی سرور کی بناوٹی نثر کے اسیر۔نیک بیبیاں ‘پاکیزہ’ چھپا چھپا کر پڑھتی تھیں، اوروں کا کیا کہنا ہم نے خود سب رنگ ہاورڈ اینٹن کی کیلکلس اینڈ انالیٹکل جیومٹری میں چھپا کر پڑھے ہیں شائد اسی وجہ سے انٹیگرل نکالتے ہوئے ہمیں ہمیشہ الیاس سیتا پوری کی یاد آجاتی ہے۔ بہرحال اب اس ‘آئ دور’ میں عوام الناس کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں بلاوجہ زور زور سے کہنا پڑتا ہے کہ ‘ ارے میاں شیکسپیر ، تم کس قدر مزاحیہ ہو اتنا نا ہنسایا کرو ، ہا ہا ہا’ ۔

کتابیں چوری کرنا سخت بری بات ہے۔ کتاب کبھی چوری نہیں کرنی چاہئے، ہمیشہ مانگ کر پڑھنی چاہیے۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بھی چوری ہی ہے جو بڑی بری بات ہے۔ راشد بھائی تو کاپی رائٹ کے اسقدر کٹر حامی ہیں کہ کبھی کسی بل بورڈ ، رکشے یا بس پر بھی کوئی طویل عبارت پڑھ لیں تو کنڈیکٹر سے آی ایس بی این پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایمیزن سے خرید کر عنداللہ ماجوز ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس استفسار پر کنڈیکٹر انہیں جن الفاظ سے نوازتا ہے وہ یا تو کھوکھر صاحب کی تحریر میں مل سکتے ہیں یا محترمہ ناز کے مضمون پر کئے گئے تبصرہ جات کی چاشنی میں۔

چلیں اب اجازت، باہر لائبرری والے آئے ہیں جن کا اصرار ہے کہ یا تو میں مستعار لی گئی کتابیں واپس کروں یا پھر وہ غریب خانے کو سب لائبرری کا درجہ دیتے ہوئے اس پر بورڈ لگا دیں۔ آپ قارئین کا کیا خیال ہے؟

Share

January 26, 2011

برادرم بن یامین کو اردو بلاگنگ میں‌خوش آمدید

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 12:40 am

ہمارے ایک عزیز دوست اور اردو میں بچوں کے رسائل کے ادیب برادرم بن یامین (قلمی نام) نے بے حد اصرار کے بعد بالآخر اردو بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔

http://www.theurdublog.com

ان کے اردو بلاگز “کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ – بن یامین کے قلم سے” پر پڑھے جاسکتے ہیں۔اپنے پہلے مضمون ‘انقلاب لے لو- انقلاب‘ میں‌وہ لطیف پیرائے میں‌ وطن عزیز کی ‘انقلابی’ صورتحال کو قلمبند کرتے نظر آتے ہیں۔

بن یامین، اردو بلاگستان میں خوش آمدید۔ آپ کی مزید تحاریر کا شدت سے انتظار رہے گا۔

Share

January 22, 2011

تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی

Filed under: تحقیق,سفر وسیلہ ظفر — ابو عزام @ 12:00 am
ہائیں؟ کیا مطلب جیفرسن کا نسخہ قران یہاں موجود نہیں؟
Library of Congress
عالم حیرت میں انگشت بدنداں یہ بات ہم نے لائبرری آف کانگریس میں ہونے والی تھامس جیفرسن کے کتب خانے کی نمائش کی نگرانی پر مامور سیکورٹی گارڈ سے پوچھی ۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع لائبرری آف کانگریس دنیا کی سب سے بڑی لائبرری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر تھامس جیفرسن، امریکہ کے تیسرے صدر کے زیر استعمال ہونے والا وہ تاریخی ترجمہ قران موجود ہے جو برطانوی محقق و مترجم جارج سیل نے 1734 میں کیا تھا۔ اس ترجمہ قران کو پہلا انگریزی علمی ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے الیگزینڈر راس کا ترجمہ قران درحقیقت ایک فرانسیسی ترجمے کا انگریزی ترجمہ تھا۔اسی نادر و نایاب ترجمہ قران پر امریکہ کے پہلے مسلم کانگریس ممبر کیتھ ایلیسن نے حلف اٹھایا تھا اور اسی کی تلاش ہمیں کشاں کشاں اس کتب خانے تک کھینچ لائی تھی.ہماری طرح  صدر تھامس جیفرسن کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک مشہور امریکی سیاستدان جان ایڈمز سے کہا تھا کہ ‘میں .کتابوں کے بغیر نہیں جی سکتا’۔راقم نے بھی راشد بھائی سے ایک دفعہ بلکل یہی بات کہی تھی لیکن جب انہوں نے ہمارا یہی قول حیدرآبادی بریانی پر بھی صادق بتایا تو ہم نے اصرار کرنا مناسب نا سمجھا۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، بہرحال بات ہو رہی تھی کہ اگر یہ ترجمہ اس نمائش میں موجود نہیں تو آخر گیا کہاں؟

Jefferson's Library

۔ کمپیوٹر کے مطابق یہ ترجمہ قران بلکل سامنے والے شیلف کی تیسری دراز میں ہونا چاہئے تھا لیکن ہماری حیرت کی انتہا نا رہی کہ جب کمپیوٹر کے کیٹالاگ کے برخلاف مصحف اس دراز میں نا نظر آیا؟

Library of Congress Jefferson's Quran

اگر کسی نے اسے پڑھنے کے لئے نکلوایا ہو تو دنیا کی سب سے بڑئی لائبرری سے کم از کم یہ تو توقع کی جاسکتی ہے کے وہ اپنے کیٹالاگ کو درست حالت میں رکھے ۔ اب ہمیں یہ کھٹکا ہوا کہ یہ نسخہ قران کہیں کسی اسلام دشمنی کی وجہ سے تو نہیں‌ہٹا دیا گیا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی کانسپیریسی تھیوری بنانے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ تو پھر کیا تھا، ہم نے اس بات کی ٹھان لی کہ آج اس نسخہ ترجمہ قران کی تلاش کر کر رہیں گے چاہے ہمیں گنتناموبے ہی کیوں نا بھیج دیا جائے، غضب خدا کا۔

Library of Congress Jefferson's Quran

جب سیکیورٹی گارڈ سے کوئی خاص مدد نا مل سکی تو ہم نے کسی ثقہ لائبریرین کی تلاش شروع کی۔ ایک والنٹیر کتب خانے کا نگران نظر آیا تو اس سے اس بابت دریافت کی۔ مرد ابیض بولا کہ شائد یہ مصحف آپکو نایاب کتب کے خصوصی کمرے میں ملے ۔ ہم نے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ نایاب کتب کی دسترس کے لئے محقق ہونا شرط ہے اور ایک کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کانسپریسی تھیوری کے پکوڑوں کی خوشبو اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ہم نے پوچھا اے درویش، کارڈ بنوانے کا پتا بتا، اس نے کہا سڑک پار کرو اور جیمز میڈیسن والی عمارت کے کمرہ نمبر 140 میں جا کر ایک ایشیائی نژاد محققہ سے ملو تو شائد مراد بر آئے ۔

Madison Building

اندھا کیا چاہے لائبرری کارڈ، ہم نے آو دیکھا نا تاو، ظہر و عصر کی قصر ادا کرتے کے ساتھ ہی سیدھا لائبرری آف گانگریس کی دوسری عمارت کی راہ لی۔ چشم تصور میں‌ ہمیں‌ ڈین براون کی کتابوں کے ہیرو رابرٹ لینگڈن سے ہو بہو مشابہت تھی جو کہ لاسٹ سبمل کے دوران ڈی سی کی خاک چھانتا پھرتا ہے، کمرہ نمبر 140 بھاگتے دوڑتے پہنچے

Reading Registration - Madison Building

جب وہاں‌ دیکھا تو لکھا تھا کہ لائبرری کارڈ صرف محققین کو جاری کئے جاتے ہیں۔ ہم پی ایچ ڈی کے ظالبعلم تو ہیں لیکن بایزین بیلیف نیٹورک اور مشین لرننگ کا نادر کتابوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم نے قسمت آزمائی کا سوچا کہ شائد یاوری کرئے۔

Reading Registration - Madison Building 2.JPG

پہلا مرحلہ شناخت کاتھا، پھرکپمیوٹر پر فارم بھرنے کے بعد ایک خاتون نے کتب خانے کے کارڈ کےلئے تصویر لی اور کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے نوید دی کہ اب ہم دو سال تک اب کتب خانے کے بیشتر کمروں میں جانے کے اہل ہیں۔

Registration for Library Card - Madison Building

اتنی جلد تو ہمیں ہماری عزیز لیاقت نیشنل لائبرری کا کارڈ تو کیا بس کا رعایتی کارڈ بھی پرنسپل کے دفتر سے نا ملا

Library Card

. بہرحال، انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے مرحلے کی طرف بڑھے جو ریسرچ اسسٹنٹ سے ملنے کا تھا. ہم نے ریسرچ اسسٹنٹ سے ترجمہ قران کے محل و وقوع کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈھونڈنا شروع کیا اور کچھ دیر میں‌بتایا کہ یہ نادر کتابوں کے کمرئے میں موجود ہے لیکن فون کر کے کنفرم کر لیتے ہیں ۔ محترمہ نے فون گھمایا اور ہمیں تھما دیا ۔ اب جب ہم نے دوسری طرف موجود لایبریرین سے پوچھا کہ کیا ہم جیفرسن کے قران کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم 4:15 کے بعد کتابوں‌کو نہیں نکالنے۔ یاد رہے کہ نادر کتابوں کے کمرے کا وقت 5:00 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ہمیں بڑی مایوسی ہو چلی تھی لیکن آخری حربے کے طور پر التجائی لہجے میں‌درخواست کی کہ جیسے جامعہ میں محتمن سے ایک ایک نمبر کے لئے دست سوال دراز کیا جاتا تھا ۔ گویا ہوئے کہ محترمہ، ہم مغرب کے گرم پانیوں کی سنہری ریاست سے آپ کے اس یخ بستہ برف کے تندور میں‌آئے ہیںاور کل صبح روانگی ہے، اگر آپ کی نظر عنائت ہو توفدوی عمر بھر مشکور رہے گا۔بقول یوسفی خمری کو فون پر ہی ہمارئ مسکین صورت پر رحم آگیا اور بلا سوال و جواب اس نے ہمیں‌ کہا کہ فورا پہنچو۔ ہم نے اسسٹنٹ ریسرچر سے کمرے کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں سرنگ کا شارٹ کٹ بتاتے ہوئے نقشہ دیا اور ہم بھاگتے ہوئے نادر کتابوں کے سیکشن کے طرف روانہ ہوئے۔

Jefferson's Library -Rare Books Section - tunnel

واشنگٹن ڈی سی میں بہت سی سرکاری اور وفاقی عمارتوں کو ایک دوسرے سے سرنگوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ یہ سرنگیں واضع نشانیوں کی عدم موجودگی میں تو شائد بھول بھلیوں کا کام دیں لیکن قسمت نے یاوری کی اور ہم نشانات دیکھتے ہوئے بغیر جی پی اسی کی مدد کے آسانی سے نادر کتب کے فلور پر پہنچ گئے

Jefferson's Library -Rare Books Section



Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section - Locker

Jefferson's Library - Rare Books Section - Locker

یہاں پہنچ کہ پتا چلا کہ ابھی تو ایک اور فارم بھرنا ہے اور اپنی ہر چیز کو ایک عدد لاکر میں رکھنا ہے۔ حکمِ صیّاد ہے تا ختم، ایک بڑی سی کنجی والے لاکر میں تمام بوریا بستر ڈالا اور سنہرے دروازے والے نادر کتب کے کمرے تک جا پہنچے

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

وہاں دعا مانگتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ کہیں وقت کو بہانہ بنا کر لائبریرین داغ مفارقت نا دے دے لیکن محترمہ وعدے کی پکی تھیں انہوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا کہ اگر ہم نے کسی نادر کتاب کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا یا کوئی چیز خراب کی تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

ان تمام کاغذی کاروایوں سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ریڈنگ روم میں میز کرسی پر جا بیٹھے۔ لایبریرین ایک رحل لایا اور اس کے ساتھ ترجمہ قران کے دو نسخے، جلد اور اور دوم۔ مرد بیضا کے ہاتھ میں رحل دیکھی تو وہ کچھ مسلمان مسلمان سا لگنے لگا لیکن جب آس پاس نظر دوڑای تو پتا چلا کہ نادر کتب کے لئے یہی رائج طریقہ مطالعہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم ہاتھ لگے۔ اس نے پھر ایک کپڑے کی پٹی سی جس کے دونوں طرف ہلکے اوزان بندھے تھے ترجمہ کھول کر اس پر ڈال دی اور خاموشی سے اپنی میز پر جا کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔

Jefferson's Library - Quran

اس نادر نسخے کو اتنے قریب سے دیکھنے اور آخرکار ہاتھ لگانے سے ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی، اس اولین نسخہ ترجمہ قران میں ایک طویل تمہید ‘پریلمنری ڈسکورس’ کے نام سے موجود ہے جو عرب اور اسلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں ایک مفصل مضمون ہے۔ اس ترجمے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا چکے ہیں جن میں‌سے بنیادی اعتراض اس بات پر ہے کہ اس زمانے کے تراجم نے اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح ایک الہامی مذہب کے بجائے ایک گروہ یا ‘کلٹ’کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔

” محمد نے عربوں کو وہ بہترین‌ دین دیا جو کہ کم از کم ان بت پرستوں کے قانون دانوں کے دئے گئے ضابطوں سے بہت بہتر تھا۔ مجھے علم نہیں کہ انکو اس طرح کی عزت و احترام کے برابر کیوں نا سمجھا جائے جیسا کہ ماینوس اور نوما (یونانی اور رومی فلاسفر بادشاہوں) کو دیا جاتا ہے لیکن یہ عیسی اور موسی کے ہرگز برابر نا ہوگا کہ انکے قوانین الہامی تھے۔ انکو ایک ایسے عالم کے طور پر ضرور ماننا چاہئے کہ جس نے بت پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک خدا کے لئے دین کی داغ بیل ڈالی اور پہلے سےبنے قوانین صنم پرستی کے ذریعے پادشاہت کی آرزو نا کی۔”

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

بہرطور، جارج سیل کے ترجمے پر کئی رائے ہو سکتی ہیں جو کہ ایک ماہر تراجم اور ایک اور مضمون کی متقاضی ہیں لیکن ہمیں اسکی تلاش اور مطالعے میں بے حد لطف آیا۔ باہر نکلے تو شام کا وقت تھا اور کیپٹل بلڈنگ کی عمارت پر سے سورج اپنی روشنی سمیٹتا نظر آیا۔ ہم نے ستارئے سفر کے ڈھونڈنا شروع کئے کہ ایمسٹرڈم فلافل پر رش نا بڑھ جائے۔بھوک زوروں پر ہے۔

Jefferson's Library -Capitol Building

مضمون کے حوالہ جات

قران کے انگریزی تراجم کا علمی جائزہ

جارج سیل

جارج سیل کا ترجمہ قران – گٹن برگ پراجیکٹ

مسلم کانگریسمین کا قران پر حلف – این پی آر

ایلیسن کا قران پر حلف – اسنوپس

لایبرری آف کانگریس – جیفرسن کا ترجمہ قران

Share

January 11, 2011

تعصبانہ القابات اور مکارم اخلاق

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:06 pm

چپکے سے کھانا کھاتے ہو یا بلاوں اس چپٹے کو؟

ہیوسٹن شہر کے اس حلال چاینیز ریسٹورانٹ میں جب یہ آواز میرے کان میں پڑی تو پہلے تو کچھ لمحوں کے لئے اپنی سماعت پر یقین نا آیا لیکن بعد میں صاحب گفتگو کو دیکھا تو ایک والد بزرگوار اپنے جگر گوشے کو کھانا نا کھانے پر ایک ایشیائی بیرے سے پٹوانے کی دھمکی دئے رہے تھے جو کہ اس پوری صورتحال سے بے خبر بفے میں رکابیاں درست کر رہا تھا۔

کلا، ہبلا، چنا، چینا، مکسا، چپٹا وغیرہ ان تعصبانہ اور غیر اخلاقی الفاظ میں سے کچھ ہیں جو کہ بیرون ملک پاکستانی حضرات بلا سوچے سمجھے مختلف قومیتوں کے افراد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان تضحیک آمیز نسلی القابات ‘ریشیل سلرز’ کا استعمال مغربی معاشروں میں تو برا سمجھا ہی جاتا ہے لیکن یہ ہمارے اپنے مذہبی و معاشرتی اقدار کے بھی یکسر خلاف ہے۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا

لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے (28)

اور مزید فرمایا کۓ

آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو(21) اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو(22)۔

خطبہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے پر۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی میعار ہے تو وہ تقوی ہے۔ انسان سارے ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی حقیقت اسکے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی کے بناۓ گۓ۔ اب فضیلت اور برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبےاور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں

اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تضحیک آمیز الفاظ تھوڑا ہی ہیں، یہ تو ایک گروہ کی علامت کے طور پر کہاجا رہا ہے۔ تو پھر ان سے پوچھا جائے کہ جب انگلستان میں آپکو ‘پاکی ‘ کہ کر بلایا جاتا ہےتو آپکا خون کیوں کھولنے لگتا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نسلی تضحیک کےکیا معنی ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ الفاظ اس نسل کے فرد کے سامنے کہیں گے تو اسے برا لگے گا اور یہی نسل پرستانہ رویہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ نیگرو کے معنی سیاہ فام ہی کے ہوتے ہیں مگر اس کا مترادف استعمال لفظ ‘نگر’ جسے این ورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک نہایت معیوب گالی سمجھی جاتی ہے اور اسی وجہ سے لفظ نیگرو کا استعمال بھی تقریبا متروک ہو چلا ہے۔ اس لمبی تمہید سے میرا مقصد اس اخلاقی تنزل کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں ہماری قوم مبتلا ہے لہذا اگلی دفعہ اگر آپ کسی کو اسکی رنگ و نسل اور قومیت کی نسبت سے حوالہ دینے کے لئے منہ کھولنے لگیں تو یہ ضرور سوچئے گا کہ اگر وہ آپکی بات سمجھ سکے تو اسکے دل پر کیا گذرئے گی اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ

Share

Powered by WordPress