۔ کمپیوٹر کے مطابق یہ ترجمہ قران بلکل سامنے والے شیلف کی تیسری دراز میں ہونا چاہئے تھا لیکن ہماری حیرت کی انتہا نا رہی کہ جب کمپیوٹر کے کیٹالاگ کے برخلاف مصحف اس دراز میں نا نظر آیا؟
اگر کسی نے اسے پڑھنے کے لئے نکلوایا ہو تو دنیا کی سب سے بڑئی لائبرری سے کم از کم یہ تو توقع کی جاسکتی ہے کے وہ اپنے کیٹالاگ کو درست حالت میں رکھے ۔ اب ہمیں یہ کھٹکا ہوا کہ یہ نسخہ قران کہیں کسی اسلام دشمنی کی وجہ سے تو نہیںہٹا دیا گیا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی کانسپیریسی تھیوری بنانے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ تو پھر کیا تھا، ہم نے اس بات کی ٹھان لی کہ آج اس نسخہ ترجمہ قران کی تلاش کر کر رہیں گے چاہے ہمیں گنتناموبے ہی کیوں نا بھیج دیا جائے، غضب خدا کا۔
جب سیکیورٹی گارڈ سے کوئی خاص مدد نا مل سکی تو ہم نے کسی ثقہ لائبریرین کی تلاش شروع کی۔ ایک والنٹیر کتب خانے کا نگران نظر آیا تو اس سے اس بابت دریافت کی۔ مرد ابیض بولا کہ شائد یہ مصحف آپکو نایاب کتب کے خصوصی کمرے میں ملے ۔ ہم نے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ نایاب کتب کی دسترس کے لئے محقق ہونا شرط ہے اور ایک کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کانسپریسی تھیوری کے پکوڑوں کی خوشبو اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ہم نے پوچھا اے درویش، کارڈ بنوانے کا پتا بتا، اس نے کہا سڑک پار کرو اور جیمز میڈیسن والی عمارت کے کمرہ نمبر 140 میں جا کر ایک ایشیائی نژاد محققہ سے ملو تو شائد مراد بر آئے ۔
اندھا کیا چاہے لائبرری کارڈ، ہم نے آو دیکھا نا تاو، ظہر و عصر کی قصر ادا کرتے کے ساتھ ہی سیدھا لائبرری آف گانگریس کی دوسری عمارت کی راہ لی۔ چشم تصور میں ہمیں ڈین براون کی کتابوں کے ہیرو رابرٹ لینگڈن سے ہو بہو مشابہت تھی جو کہ لاسٹ سبمل کے دوران ڈی سی کی خاک چھانتا پھرتا ہے، کمرہ نمبر 140 بھاگتے دوڑتے پہنچے
جب وہاں دیکھا تو لکھا تھا کہ لائبرری کارڈ صرف محققین کو جاری کئے جاتے ہیں۔ ہم پی ایچ ڈی کے ظالبعلم تو ہیں لیکن بایزین بیلیف نیٹورک اور مشین لرننگ کا نادر کتابوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم نے قسمت آزمائی کا سوچا کہ شائد یاوری کرئے۔
پہلا مرحلہ شناخت کاتھا، پھرکپمیوٹر پر فارم بھرنے کے بعد ایک خاتون نے کتب خانے کے کارڈ کےلئے تصویر لی اور کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے نوید دی کہ اب ہم دو سال تک اب کتب خانے کے بیشتر کمروں میں جانے کے اہل ہیں۔
اتنی جلد تو ہمیں ہماری عزیز لیاقت نیشنل لائبرری کا کارڈ تو کیا بس کا رعایتی کارڈ بھی پرنسپل کے دفتر سے نا ملا
. بہرحال، انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے مرحلے کی طرف بڑھے جو ریسرچ اسسٹنٹ سے ملنے کا تھا. ہم نے ریسرچ اسسٹنٹ سے ترجمہ قران کے محل و وقوع کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈھونڈنا شروع کیا اور کچھ دیر میںبتایا کہ یہ نادر کتابوں کے کمرئے میں موجود ہے لیکن فون کر کے کنفرم کر لیتے ہیں ۔ محترمہ نے فون گھمایا اور ہمیں تھما دیا ۔ اب جب ہم نے دوسری طرف موجود لایبریرین سے پوچھا کہ کیا ہم جیفرسن کے قران کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم 4:15 کے بعد کتابوںکو نہیں نکالنے۔ یاد رہے کہ نادر کتابوں کے کمرے کا وقت 5:00 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ہمیں بڑی مایوسی ہو چلی تھی لیکن آخری حربے کے طور پر التجائی لہجے میںدرخواست کی کہ جیسے جامعہ میں محتمن سے ایک ایک نمبر کے لئے دست سوال دراز کیا جاتا تھا ۔ گویا ہوئے کہ محترمہ، ہم مغرب کے گرم پانیوں کی سنہری ریاست سے آپ کے اس یخ بستہ برف کے تندور میںآئے ہیںاور کل صبح روانگی ہے، اگر آپ کی نظر عنائت ہو توفدوی عمر بھر مشکور رہے گا۔بقول یوسفی خمری کو فون پر ہی ہمارئ مسکین صورت پر رحم آگیا اور بلا سوال و جواب اس نے ہمیں کہا کہ فورا پہنچو۔ ہم نے اسسٹنٹ ریسرچر سے کمرے کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں سرنگ کا شارٹ کٹ بتاتے ہوئے نقشہ دیا اور ہم بھاگتے ہوئے نادر کتابوں کے سیکشن کے طرف روانہ ہوئے۔
واشنگٹن ڈی سی میں بہت سی سرکاری اور وفاقی عمارتوں کو ایک دوسرے سے سرنگوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ یہ سرنگیں واضع نشانیوں کی عدم موجودگی میں تو شائد بھول بھلیوں کا کام دیں لیکن قسمت نے یاوری کی اور ہم نشانات دیکھتے ہوئے بغیر جی پی اسی کی مدد کے آسانی سے نادر کتب کے فلور پر پہنچ گئے
وہاں دعا مانگتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ کہیں وقت کو بہانہ بنا کر لائبریرین داغ مفارقت نا دے دے لیکن محترمہ وعدے کی پکی تھیں انہوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا کہ اگر ہم نے کسی نادر کتاب کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا یا کوئی چیز خراب کی تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔
ان تمام کاغذی کاروایوں سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ریڈنگ روم میں میز کرسی پر جا بیٹھے۔ لایبریرین ایک رحل لایا اور اس کے ساتھ ترجمہ قران کے دو نسخے، جلد اور اور دوم۔ مرد بیضا کے ہاتھ میں رحل دیکھی تو وہ کچھ مسلمان مسلمان سا لگنے لگا لیکن جب آس پاس نظر دوڑای تو پتا چلا کہ نادر کتب کے لئے یہی رائج طریقہ مطالعہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم ہاتھ لگے۔ اس نے پھر ایک کپڑے کی پٹی سی جس کے دونوں طرف ہلکے اوزان بندھے تھے ترجمہ کھول کر اس پر ڈال دی اور خاموشی سے اپنی میز پر جا کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔
اس نادر نسخے کو اتنے قریب سے دیکھنے اور آخرکار ہاتھ لگانے سے ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی، اس اولین نسخہ ترجمہ قران میں ایک طویل تمہید ‘پریلمنری ڈسکورس’ کے نام سے موجود ہے جو عرب اور اسلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں ایک مفصل مضمون ہے۔ اس ترجمے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا چکے ہیں جن میںسے بنیادی اعتراض اس بات پر ہے کہ اس زمانے کے تراجم نے اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح ایک الہامی مذہب کے بجائے ایک گروہ یا ‘کلٹ’کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔
” محمد نے عربوں کو وہ بہترین دین دیا جو کہ کم از کم ان بت پرستوں کے قانون دانوں کے دئے گئے ضابطوں سے بہت بہتر تھا۔ مجھے علم نہیں کہ انکو اس طرح کی عزت و احترام کے برابر کیوں نا سمجھا جائے جیسا کہ ماینوس اور نوما (یونانی اور رومی فلاسفر بادشاہوں) کو دیا جاتا ہے لیکن یہ عیسی اور موسی کے ہرگز برابر نا ہوگا کہ انکے قوانین الہامی تھے۔ انکو ایک ایسے عالم کے طور پر ضرور ماننا چاہئے کہ جس نے بت پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک خدا کے لئے دین کی داغ بیل ڈالی اور پہلے سےبنے قوانین صنم پرستی کے ذریعے پادشاہت کی آرزو نا کی۔”
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
بہرطور، جارج سیل کے ترجمے پر کئی رائے ہو سکتی ہیں جو کہ ایک ماہر تراجم اور ایک اور مضمون کی متقاضی ہیں لیکن ہمیں اسکی تلاش اور مطالعے میں بے حد لطف آیا۔ باہر نکلے تو شام کا وقت تھا اور کیپٹل بلڈنگ کی عمارت پر سے سورج اپنی روشنی سمیٹتا نظر آیا۔ ہم نے ستارئے سفر کے ڈھونڈنا شروع کئے کہ ایمسٹرڈم فلافل پر رش نا بڑھ جائے۔بھوک زوروں پر ہے۔
مضمون کے حوالہ جات
قران کے انگریزی تراجم کا علمی جائزہ
جارج سیل کا ترجمہ قران – گٹن برگ پراجیکٹ
مسلم کانگریسمین کا قران پر حلف – این پی آر
[…] This post was mentioned on Twitter by UrduFeed and UrduFeed, Urdublogz.com. Urdublogz.com said: UrduBlogz-: تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری… http://bit.ly/i8HL2u […]
Pingback by Tweets that mention تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ ب — January 22, 2011 @ 1:39 am
کم از کم ایک بات واضح ہے آپ نے ایک کام کی ٹھانی جو ایک دوسرے شہر اور کم وقت میں اسقدر ضوابط کی تکمیل ی موجودگی میں ایک مہم سے کسی طور پہ کم نہیں۔ اور اسمیں اللہ تعالٰی نے آپ کو کامیابی دی۔ آپکی محنت اور اسلام سے عقیدت قابل تحسین ہے۔
واللہ یہ پاکستانی کنسپرینسی پکوڑوں کی تھوری نہیں بلکہ عملا یوں ہے مجھے دوسری مغربی زبانوں میں عیسائی متراجم کے ترجمہ جات دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ترجمے سے قبل مترجم کے اس تبصرے سے ملتے جلتے تبصرئے اور رائے دیگر مغربی زبانوں کے تراجم پہ متراجم کے تبصروں سے ملتے جلتے ہیں۔ خاصکر جب متراجم عیسائی وغیرہ ہوں۔جن پہ انکی رائے کے الفاظ کم بیش اس سے ملتے جلتے ہوئے ہیں۔ اور عصری لحاظ سے کچھ ترجموں میں کئی دہائیوں کا فرق ہے اور وہ مختلف ممالک میں کئیے گئے تھے۔
اس بارے اس موضوع پہ ایک محقق سے ایک دفعہ رائے مانگی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ یوں ہی ہے کہ آپ کسی محفل میں کسی صاحب اوصاف و قدرت خطیب ،جو ہر لحاظ سے ممتاز ہو اسکا تعارف باقی محفل سے اسکی تعاریف کے ساتھ کروانے کے بعد ردِ بلا کے طور پہ آخر میں یوں کہہ دیں۔ بے شک یہ صاحب اوصاف ہیں مگر کمال وصف میں یہ صاحب وہاں تک نہیں پہنچ پائےجس کمال وصف پہ ہم پہلے سے موجود ہیں ۔
اور اسکی ایک وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ ترجمہ کرتے ہوئے متراجم قرآن کریم سے شدید متاثر ہوتے ہیں اور ان ک دل میں یہ چور ہوتا ہے کہ اگر ترجمے کو جوں توں پیش کر دیا گیا تو بہت ممکن ہے (اور اسطرح عموما ہوتا ہے) کہ لوگ اسلام کی طرف راغب ہو ں۔ اسلئیے اسطرح کے تبصرہ جات کو پیش لفظ کی صورت میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ واللہ علم بالغیب۔
Comment by جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین — January 22, 2011 @ 1:53 am
مضمون اور طرز تحریر دونوں بہت اچھے لگے، شکریہ
Comment by عامر شہزاد — January 22, 2011 @ 4:46 am
جزاک اللہ خيراً ۔ ايسی لگن اگر ہماری قوم کے بيس فيصد جوانوں ميں پيدا ہو جائے حُبِ دين کی تو وارے نيارے و جايں ہماری قوم کے ۔
ان تراجم پر جملہ معترضہ کے متعلق مجھے ياد آيا وہ يہودی عالم جس نے سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت اور رُتبہ کی پيش گوئی کی اور پھر جب بعثت ہوئی تو مخالف ہو گيا ۔ اُس کے يہودی شاگرد نے پوچھا “کيا يہ وہی نہيں جس کی آپ نے پيش گوئی کی تھی ؟” اُس نے جواب ديا “ہاں ۔ وہی ہيں ۔ اسی لئے مخالفت کر رہا ہوں کہ ميرا وقار ختم ہو جائے گا”
Comment by افتخار اجمل بھوپال — January 22, 2011 @ 5:25 am
I have not read something that good in Urdu for like months now. The post was lengthy but it had a flow and the clever use of phrases made it interesting. Yes it was very similar to Robert Langdon and National Treasure Book of Secrets only things missing were a smart blonde woman helping you find that book and a genius villain who wanted to get there first so that he could rule the planet.
Comment by Noumaan Yaqoob — January 22, 2011 @ 6:56 am
ویسے تو آپ کی زبانی یہ قصہ سننے کا زیادہ لطف آیا تھا لیکن نثر میں بھی آپ نے کمال کا بیان کیا ہے۔۔ یہ عمدہ بات ہے کہ ایک نایاب کتاب نا صرف یہ کہ اچھی طرح رکھی گئی ہے بلکہ عام لوگوں تک اس کی رسائ بھی ممکن ہے۔۔
کچھ تبصرے باعث مسکراہٹ ہوئے کہ لوگ پوپ سے اسلام کے حق میں فتوی اور خطیب مسجد سے عیسائیت کا پرچار سننے کے خواہاں ہیں بلکہ ایسا نا ہونے پر اپنی متوازی بلکہ مجازی دنیا میں نالاں بھی رہتے ہیں
🙂
Comment by راشد کامران — January 22, 2011 @ 10:44 am
لوگ پوپ سے اسلام کے حق میں فتوی اور خطیب مسجد سے عیسائیت کا پرچار سننے کے خواہاں ہیں بلکہ ایسا نا ہونے پر اپنی متوازی بلکہ مجازی دنیا میں نالاں بھی رہتے ہیں۔راشد کامران
@۔ اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے عالم ہونا ضروری نہیں کہ ایک غیر مذھب مترجم اپنے جزبات کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم کا ترجمہ کرے گا اور اس پہ اپنی جانبدارانہ رائے دے گا ۔ لیکن ایک مسلمان ہونے کی صورت میں ہمیں اس جانبدارانہ رائے پہ قلق ہوتا ہے یہی بات عدنان مسعود نے اس جملے میں بیان کی ہے ” جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے” اسکی ایک عام سی وضاحت سر راہ میں نے کی ہے اور غالبا افتخار اجمل صاحب نے بھی اسے بیان کیا ہے۔ اور آپ چونکہ متوازی یا حجازی دنیا سے باہر ہشاش بشاش رہتے ہیں اسلئیے دیانتداری سے بتائیے گا کہ ایک عام سی بات پہ بغیر کسی پیشگی وجہ کے دوسروں کی ٹانگ کھینچھا کیا آپ کی غیر متوازی اور غیر حجازی دنیا میں جائز ہے؟۔
یا آپ کے ہاں پندہ نصائح صرف دوسروں کو جاری کی جاتی ہیں۔؟
Comment by جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین — January 22, 2011 @ 12:28 pm
Both Ghani Bhai ( your Grand Father’s Brother) and I obtained our degrees from the Osmania University of Hyderabad Deccan.Quite frankly none of us could write as well and as interestingly as you have done.Your sternous efforts in tracing and reading the rare Quoran , even very briefly, speaks volumes of your dedication to Islam
May Allah bless your efforts.
Sharafat Walajahi
Sharafat Walajahi
Comment by Sharafat Walajahi — January 22, 2011 @ 11:03 am
بیان خوب ہے۔ وائس آف امریکہ کے زیف سید جو کہ اردو محفل کے بھی رکن ہے ان کا ایک مراسلہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جو اسی لائبریری میں ان کی دن بھر کی کارگزاری کے متعلق ہے۔
ملاحضہ فرمائیں
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?2332-%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%AF%DB%8C%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%A8%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%88-%DA%AF%DA%BE%D9%86%D9%B9%DB%92
باقی بات تو برادرم راشد کامران نے کہہ ڈالی ۔
Comment by عثمان — January 22, 2011 @ 11:39 am
آپ نے تو ہر چیز بڑی چابی والے لاکر میں جمع کروا دی تھی تو پھر کیمرا کہاں سے آگیا؟
Comment by عبدالقدوس — January 23, 2011 @ 12:55 am
یہ عدنان بھائی کا خاص ٹیلنٹ اور فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کی عملی شکل ہے
🙂
Comment by راشد کامران — January 23, 2011 @ 9:29 am
آپ تمام قارئین کے تبصرہ جات کا بہت مشکور ہوں۔ اس قرانی ترجمے کے مکمل متن کا مطالعہ پراجیکٹ گٹنبرگ کی ویب سایٹ سے کیا جاسکتا ہے جو حوالہ جات میں موجود ہے۔
جاوید گوندل صاحب، آپ نے پیش لفظ کے بارے میںجو فرمایا وہ آپ کے وسیع المطالعہ ہونے پر دلالت کرتا ہے، بلکل یہی صورتحال جارج سیل کی تمہید کے ساتھ بھی تھی۔
عامر شہزاد اور افتخارصاحب، پسندیدگی کا شکریہ۔ ایسے لوگوں کے کتمان حق پر وعیدیں آئیں تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹوں کے طرح(یعنی بلکل واضع طور پر) نبی جانتے تھے لیکن حق چھپایا کرتے تھے۔
نعمان یعقوب صاحب، خوشی ہوئی کہ آپ نے ہمارا ڈین براون حوالہ پہچانا۔ ہمیں اسسٹنٹ ریسرچر کو ڈاکٹر کیتھرین اور خرانٹ لایبریرین کو ملخ کے کردار میں پیش کرنا چاہیے تھا، توجہ کا شکریہ ، اگلی مرتبہ خیال رکھیں گے۔ 🙂
راشد بھائی ، آپکی پسندیدگی کا شکریہ- میرے ناقص خیال میں تو آپ اور گوندل صاحب ایک ہی بات کو دو رخوں سے پیش کر رہے ہیں۔ وہ غیر مسلم مترجمین کے تعصب ‘بائیس’ کو اظہر من الشمس کہ رہے ہیں اور آپ کا خیال ہے کہ یہ رجہان ‘امپلایڈ’ ہے اور غیر جانبدارانہ ترجمے کی امید عبث ہے۔ واللہ اعلم
شرافت انکل، آپ کی بلاگ پر آمد اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن جس نے ڈاکٹر حمیداللہ جیسے عظیم علما پیدا کئے ، اسکے فارغٍ التحصیل افراد کی نثر سے مجھ جیسے مبتدی کا کیا مسابقہ، لیکن آپ کی عزت افزائی پر ممنون ہوں۔
عثمان صاحب، زیف سید کے مضمون سے آگاہی دلانے کا شکریہ، بہت خوب لکھتے ہیں۔ اسے پڑھ کر اپنا وہاں گذارا ہوا دن نگاہ میںگھوم گیا، انشااللہ اس لائبرری پر ایک تصویری مضمون لکھنے کا ارادہ ہے، دیکھیں کب موقع ملتا ہے
عبدلقدوس صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔ کیمرہ اور کالی بیری میرے ساتھ ہی رہی، بیک پیک البتہ جمع ہو گیا تھا۔ عموما نادر کتب کی تصاویر کھینچنے پر پابندی ہوتی ہے کہ فلیش کی روشنی کی حدت سے اس کی روشنائی یا قرطاس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لائبریرین نے لیکن میرے استفسار پر بغیر فلیش کے ایک تصویر کھینچنے کی اجازت دے دی تھی۔
Comment by ابو عزام — January 23, 2011 @ 10:05 am
بہت خوب عدنان بھائی، تحریر بہت ہی اعلی ہے۔
Comment by ابوشامل — January 24, 2011 @ 7:58 am
بہت شکر یہ۔ خدا همیں بھی کسی کی چیزوں کو اس طرح سمبھالنے کی توففیق دے
Comment by سلیمان — January 24, 2011 @ 8:09 am
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
کانگريس کے پہلے مسلم رکن کيتھ ايليسن کی حلف برداری کی تقريب کے حوالے سے کچھ باتيں جو آپ کے ليے دلچسپی کا باعث ہوں گی۔
کيتھ ايليسن نے اپنی حلف برداری کی تقريب سے پہلے يہ درخواست کی تھی کہ وہ بائبل کی بجاۓ قرآن پاک پر حلف اٹھانا چاہتے ہيں۔ صرف يہی نہيں بلکہ انھوں نے حلف اٹھانے کے ليے قرآن پاک کے اس ناياب نسخے کا انتخاب کيا جو امريکہ کے تيسرے صدر تھامس جيفرسن کی ذاتی لائيبريری کا حصہ تھا۔ قرآن پاک کا يہ نسخہ 1764 ميں لندن سے دو جلدوں ميں شائع ہوا تھا۔ اس وقت قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ کانگريس کی لائيبريری کا حصہ ہے۔ کانگريس لائيبريری کے ناياب کتابوں کے انچارج مارک ڈی مینيونيشن کے مطابق قرآن پاک کے اس نسخے کی حفاظت کے ليے 1919 ميں چمڑے کی خاص جلد تيار کی گئ۔ تھامس جيفرسن نے قرآن پاک کا يہ نسخہ 1815 ميں حاصل کيا تھا اور يہ انکی ذاتی لائيبريری کا حصہ رہا۔ تھامس جيفرسن کی لائيبريری ميں مجموعی طور پر 6400 کتابيں تھيں۔ 1812 کی جنگ ميں جب برطانوی فوجيوں کے ہاتھوں کانگريس لائيبريری راکھ کا ڈھير بن گئ تو اس کی ازسرنو تعمير کے ليے تھامس جيفرسن نے 24 ہزار ڈالرز کے علاوہ جن ناياب کتابوں کا عطيہ ديا اس ميں قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ بھی شامل تھا۔
منی سوٹا سے تعلق رکھنے والے کيتھ ايليسن ڈی ٹروائٹ ميں پيدا ہوۓ اور انھوں نے کالج کے زمانے ميں اسلام قبول کيا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حلف برداری کی تقريب کے ليے تھامس جيفرسن کے ذاتی قرآن پاک کے نسخے کا انتخاب اس ليے کيا کيونکہ وہ لوگوں کو يہ باور کروانا چاہتے تھے کہ امريکہ کے آئين کی تشکيل کے ليے جن متعدد ذرائع سے رہنمائ حاصل کی گئ اس ميں قرآن پاک بھی شامل تھا۔
اگرچہ کا نگريس لائيبريری کی عمارت کيپيٹل کی عمارت کے کافی قريب ہے ليکن اس کے باوجود لائيبريری کے اہلکاروں نے قرآن پاک کی حفاظت اور اسے گرد وغبار کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے لکڑی کے ايک چوکور ڈبے کا انتظام کيا اور اسے ہاتھوں کے نشانات سے بچانے کے ليے سبز رنگ کے ايک خاص کپڑے کا انتظام کيا گيا۔ اس کے بعد قرآن پاک کے اس نادر نسخے کو زير زمين سرنگوں کے ذريعے سيکورٹی کے انتظامات کے ساتھ حلف برادری کی تقريب ميں منتقل کيا گيا۔
دلچسپ بات يہ ہے کہ کيتھ ايليسن کی والدہ کليڈا ايليسن عيسائ ہيں اور باقاعدگی سے روزانہ چرچ جاتی ہيں۔ جب ان سے اپنے بيٹے کے قرآن پاک پر حلف لينے کے فيصلے پر راۓ دينے کے ليے کہا گيا تو ان کا جواب يہ تھا
“مجھے بہت خوشی ہے کہ ميرے بيٹے نے قرآن پاک پر حلف ليا ہے۔ اس بات سے بہت لوگوں کو يہ جان لينا چاہيے کہ امريکہ ميں مذہب کی مکمل آزادی ہے اور مختلف تہذيبوں کا امتزاج ہی امريکی معاشرے کا حسن ہے”۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
Comment by Fawad – Digital Outreach Team – US State Department — January 24, 2011 @ 11:58 am
برادرم ابوشامل، پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ سے کم کم لکھنے کا گلہ تو رہے گا۔
سلیمان صاحب، بلاگ پر خوش آمدید اور آپ کی دعا پر آمین۔
فواد صاحب، کیتھ ایلیسن کی حلف برداری کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کا شکریہ
Comment by عدنان مسعود — January 24, 2011 @ 8:37 pm
ماہ نومبر کا اردو ڈایجسٹ ہاتھ آیا اورمضمون “امریکی صدر تھامس جیفرسن نے قرآن پاک کیوں خریدا” پڑھا تو خیال آیا کہ اس سے ملتا جلتا مضمون ذرا دوسرے انداز میں جنا ب عدنان مسعود لکھ چکے ہیں
“نام پر غور کیا تو نام بھی ملتا جلتا تھا یعنی کہ “ع-محمود
بہرحال آپ نے لکھا یا نہیں لکھا یہاں اس لیے لنک درج کر رہا ہوں کہ دونوں مضامین متعلقہ ہیں
http://urdudigest.pk/2011/11/%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%85%D8%B3-%D8%AC%DB%8C%D9%81%D8%B1%D8%B3%D9%86/
شکریہ
Comment by ارسلان — November 21, 2011 @ 11:36 pm
ہمارے معیاری ترین رسالوں کا اب یہ حال ہے کہ وہ مقالہ جات دیگر جرائد سے ترجمہ کرتے ہیں، ان کا حوالہ بھی نہیں دیتے اور مصنف کا نام بھی جعلی ہوتا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
اردو ڈائجسٹ والا مضمون پڑھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ یہ مضمون سعودی ارامکو میگزین کے گزشتہ سال ایک شمارے سے نہ صرف نقل شدہ ہے بلکہ نامکمل بھی ہے۔ اصل مضمون اس سے کم از کم تین گنا بڑا ہے اور اس میں بات کو مکمل کیا گیا ہے۔ بہرحال، ایک مرتبہ تو اردو ڈائجسٹ میں ایسا ہو چکا ہے کہ میرے ماموں عبید اللہ کیہر کا سفرنامۂ حیدرآباد کسی اور نے اپنے نام سے بھیج دیا اور وہ چھپ بھی گیا 🙂
اللہ سمجھائے انہیں۔
Comment by ابوشامل — June 2, 2012 @ 1:53 am
[…] کا حصہ رہنے والے قرآن مجید کے ایک قدیم نسخے کے بارے میں تحریر لکھی۔ 18 ویں صدی کے اوائل میں برطانوی مترجم جارج سیل کی […]
Pingback by تھامس جیفرسن کا نسخۂ قرآن – پہلی قسط | ابوشامل — July 16, 2012 @ 2:14 am