فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 2, 2011

فراعنہ کی سرزمیں اور ٹوئٹر انقلابی

Filed under: خبریں,سیاست — ابو عزام @ 12:23 am

انقلابات ٹوئٹر اور فیس بک سے نہیں آتے۔

انقلابات سوشل میڈیا کی آمد سے بہت پہلے سے آ رہے ہیں اور اس وسيلة الاتصال کے ختم ہونے کے بعد بھی آتے رہیں گے۔اسکا کیٹیلسٹ کبھی صدا بہ صحرا سندھ ہوتی ہے تو کبھی ٹوئٹ۔ انقلابات کا منبع  ظلم اور جبر، ناانصافی اور مطلق العنانی کی  مخالفت سے پھوٹتا ہے جس کی ابتدا معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل اور انتہا انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اپنے رب کی بندگی میں‌ دینا قرار پاتی ہے۔
آج سرزمین یوسف کا انقلاب تسلسل ہے اس اذاں کا جو قطب نے دار پر چڑھ کر اور البنا نے سینے پر گولی کھا کر دی ۔ کردار مختلف سہی لیکن آب جبر و استبداد کے پردے ہٹا دیں اور جمہوری طریقے سے لوگوں کو اپنا حق راےدہی استعمال کرنے کا حق دیں تو تونس سے قاہرہ تک غنوشی و الہلباوی و بدیع ہی ابھرتے ہیں۔ ‘روشن خیال’ اس ‘ہائی جیکنگ’ کا منظر فلسطین و الجزائر میں دیکھ چکے ہیں، اب قاہرہ کی گلیوں میں دیکھیں۔
’ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ‘
Share

7 Comments »

  1. بہت خوب

    Comment by افتخار اجمل بھوپال — February 2, 2011 @ 4:11 am

  2. ’’آب جبر و استبداد کے پردے ہٹا دیں اور جمہوری طریقے سے لوگوں کو اپنا حق راےدہی استعمال کرنے کا حق دیں تو تونس سے قاہرہ تک غنوشی و الہلباوی و بدیع ہی ابھرتے ہیں۔‘‘
    مجھے تونسیہ ، مصر اور دیگر ممالک میں انقلابی لہر کے ابھرنے کی خوشی ہے۔ مجھے یہ سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آتا۔ زود یا بدیر پاکستانی اشرافیہ بھی اس کی زد میں آنے کو ہے۔ ان شا اللہ۔
    انقلابی تبدیلی کے لیے ہر زمانے میں دستیاب وسائل اور ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے زمانے کا آخری انقلاب ایران کا تھا۔ اس میں بھی آیت اللہ خمینی کی کیسٹوں کا بڑا کردار رہا۔ فیس بک ، ٹویٹر اور موبائل فون کا بہر حال مصر و تونسیہ کی تحریکوں میں لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ایک کردار ہے۔
    ایک سوال یہ ہے کہ اگر مصر کی موجودہ ہلچل سید قطب اور حسن البنا جیسے قائدین کی قربانیوں کا تسلسل ہے تو اخوانی فدائین اس کی صف اول سے دور رہنے کا عندیہ کیوں دے رہے ہیں؟ کیا یہ مصلحتا ہے یا بدلتی ہوئی معاشرتی حقیقتوں کا ادراک۔
    دوسرے یہ کہ بالفرض جبر واستبداد کے تمام پردے ہٹا دینے کے بعد اسلام پسند برسر اقتدار آبھی گئے تو ان کے پاس مسائل کے حل کا کیا اجینڈا ہے؟ کیا انھوں نے اس کی کوئی تیاری، کوئی ہوم ورک کر رکھا ہے؟ مجھے مصر و تونسیہ کا کچھ خاص علم نہیں البتہ پاکستان میں البنا و قطب کے چاہنے والوں کے پاس جدید مسائل کے حل کی حوالے سے نہ تو کوئی ٹھوس پروگرام ہے، نہ ہی تربیت یافتہ اور واقعی کمٹڈ مردانِ کار۔ یہ زیادہ سے زیادہ جلسے جلوس کر سکتے ہیں۔ جب مسائل مثلا تباہ حال معیشت ، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری ، بد امنی و دہشت گردی، عورتوں کے معاشرتی کردار کا مسئلہ ، سامراجی سازشوں وغیرہ کا حل مانگو تو بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ کرنہیں پاتے۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کے دوران ان کی صلاحیت کی قلعی کھل چکی ہے۔
    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے خطے کے عوام اسلام سے تو بے پناہ جذباتی (عملی نہ سہی) لگاو رکھتے ہیں لیکن مذہبی طبقے کی اکثریت کے کردار و عمل کی بنا پر ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسی بنا پر مذہبی جماعتوں کو کبھی اکثریت نہیں مل سکی نہ ایسا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔
    آپ کے خیال میں ہمارے ہاں نظام کی تبدیلی کا میکنزم کیا ہو سکتا ہے؟

    Comment by غلام مرتضیٰ علی Ghulam Murtaza Ali — February 2, 2011 @ 5:40 am

  3. تاریخ اور واقعات کو ان کے منہ پر جھٹلانے کے لیے بڑی ہمت جٹانی پڑتی ہے میں اپنے اتنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتا کہ سبحان اللہ کہہ کر چلتا بنوں۔ جابر ہمیشہ اپنے لیے جس چیز سے خطرہ محسوس کرتا ہے سب سے پہلے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ مزید کچھ کہنے کی شاید ضرورت نہیں۔
    اگر آپ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ ٹوئٹر اور فیس بک کہیں حسن البنہ کی جگہ نہ لے لیں تو خاطر جمع رکھیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔ یہ صرف اور صرف ذرائع مواصلات ہیں جنہوں نے برسوں کا سفر لمحوں میں طے کرنے کی سہولت فراہم کردی ہے۔۔ میں آپ کا دوسرا دکھ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ یہ کیا نا کوئی مسیحا، نا کوئی دھواں دھار تقریر۔ تو زمانے کے انداز بدل گئے ہیں؛ بغیر گاندھی بھی لوگ سول نافرمانی کرسکتے ہیں۔۔ جس طرح ان مظاہروں کو اب مسلمان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جس طرح امریکی عمال سامنے نظر آتی جمہوریت سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوامی رائے امریکی ریپبلیکن اور اسلامی ریپبلیکن دونوں کے لیے ڈراؤنا خواب بنی ہوئی ہے۔۔ آنکھ کھلنے پر اگر منظر خوشگوار ہوا تو تسلیم ورنہ نہیں۔۔

    Comment by راشد کامران — February 2, 2011 @ 9:07 am

  4. یہ بات سمجھ میں نہیں آئ کہ روشن خیال کیا دیکھیں گے۔ سو آپکی تحریر کی آخری سطر انتہائ بے معنی سی ہے۔
    کو ن سا روشن خیال ہے جو جبر و استعداد کا حامی ہے۔ اگر کوئ ایسا ہو تو اسے روشن خیال نہیں کہنا چاہئیے بلکہ جبر و استعداد کی قوتوں کا آلہ ء کار کہنا چاہئیے۔ سو محض روشن خیالی پہ لعنت بھیجنے کے اس جملے کا کوئ مقصد نہیں۔
    روشن خیالی ہی ہے یہ کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک میں صرف مسلمان ہی نہیں عیسائ بھی شامل ہیں۔ اور اہل فلسطین کے اندر صرف فلسطینی مسلمان ہی نہیں بلکہ فلسطینی عیسائ بھی آتے ہیں۔
    مصر میں چلنے والی یہ تحریک کسی مذپبی ترغیب پہ نہیں چلائ جا رہی ہے بلکہ اس تحریک میں وہاں کے سیکولر اور مذہبی دونوں عناصر اکٹھا کام کر رہے ہیں۔ سو یہ ایک اور غلط فہمی ہے جو پحیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    البتہ، مصر میں چلنے والی اس تحریک کے نتائج ممکنہ طور پہ امریکہ اور اسرائیل کے حق میں شاید نہ نکل پائیں یا شاید وہ اس پہ قابو پا لیں۔ یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن ایک دفعہ اگر عوام میں یہ شعور پیدا ہو جائے کہ وہ تبدیلی کی اصل میزان ہیں اور وہ چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں تو انہیں دوبارہ، سہہ بارہ ایسا کرنے سے کوئ نہیں روک سکتا۔
    انقلاب عوام کے لئے ایک آسان زندگی اگر پیدا نہیں کر پایا تو یہ انقلاب نہیں بن پائے گا صرف راستے کا سنگ میل بن جائے گا۔

    Comment by عنیقہ ناز — February 2, 2011 @ 9:51 pm

  5. انقلاب کچھـ بھی تونہیں دیکھتاہےیہ جب آتاہےتوحکمرانوں کوخش وخاک کےطرح اڑاکرلےجاتاہےاورجولیڈرہوتاہےوہ سمجھدارہوتوقوم منظم ہوجاتی ہےنہیں توخانہ جنگی کی حالت بھی ہوسکتی ہے۔

    Comment by جاویداقبال — February 2, 2011 @ 9:53 pm

  6. ماشاءاللہ۔
    آپ نے مختصر مگر بہت خوب لکھا ہے۔ جس پہ آپ کو داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔
    ہمارے کچھ لوگوں کوشاید اس بات کا علم نہیں کہ فلسطین میں ، نسبتا بہت کم تعداد میں عیسائی فلسطینی محض اس لئیے مسلمان فلسطینی جو واضح اکچریت ہے انکے ساتھ نہیں کہ انھیں یہودیوں کے مقابلے پہ مسلمان فلسطینیوں سے ہمدردی ہے۔ یہ بات نہیں بلکہ مزھبا عیسائی فلسطینی بھی اسے ستم کے ستائے ہوئے ہیں ۔ انھی لوگوں کے ھاتھوں ستائے ہوئے جن کے ہاتھوں مسلمان فلسطینی ستائے ہوئے ہیں۔ دوسری بات جس پہ انہوں نے اعتراض کیا ہے ۔ وہ ہے روشن خیالی جبکہ اسلام سے بڑھ کر کوئی ازم یا مذھب روشن خیال نہیں۔ اسلام مزاھب میں سے جدید ترین مذھب ہے۔ البتہ پاکستان میں مغربی مقاصد کے لئیے روشن خیالی کی ڈگڈگی بجانے والے نام نہاد روشن خیالوں کے لئیے ایک اصطلاح وجود میں آگئی ہے جسے “روشن خیالی” کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاس قسم کا طبقہ ہے جس پہ بحث یہاں مطلوب نہیں۔ مگر انک اطلاع کے لئیے صرف اتنا عرض ہے کہ مصر ہو یا تیونس وہاں عام آدمی صرف اسی طبقے سے ستایا ہوا جسے پاکستان میں روشن خیالی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی نام نہاد روشن خیال طبقہ عالمی استعمار کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اور پاکستان کے تامام وسائل پہ بلا شرکت غیرے قابض ہے۔ اور اس قبضے کو جاری و ساری رکھنے کے لئیے نت نئے ھتکھنڈوں سے جمہور کو دھوکہ دیتا ہے، جس میں انکے روشن خیالی بھی ایک تاریک جال ہے۔

    انقلاب ایک تحریک کی مانند ہوتا ہے جو اپنے مخصوص وقت پہ جوبن پہ آکر عیاں ہوجاتا ہے۔ جسے سید قطب و البنا جیسے لوگ دنیائے عرب میں کئی دہائیوں سے سینچتے آئے ہیں۔

    ٹوئٹر ، فیس بک، بلاگز، انٹرنیٹ یا موبائل تیلیفون وغیرہ اسمیں خبر رسانی کا محض ایک “میڈیم” ہے۔ وسلیہ ہے۔

    Comment by جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین — February 4, 2011 @ 4:01 pm

  7. کیا ہو گیا ہے آپ کو عدنان بھائی
    کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم جمہوری تماشوں کے کھیل کو سمجھیں
    مغرب جائیں ضرور لیکن مغربی فکر سے گریز لازمی ہے
    دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
    تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
    ہمیں انقلاب کی نہیں اسلام کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور وہ صرف جہاد فی سبیل اللہ سے ہی ممکن ہے ۔۔۔۔
    أم حسبتم أن تدخلوا الجنة ولما يعلم الله الذين جاهدوا منكم ويعلم الصابرين
    آل عمران 142
    Or do you think that you will enter Paradise while Allah has not yet made evident those of you who fight in His cause and made evident those who are steadfast?

    کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون لوگ اس کے راستے میں جنگ کرنے والے ہیں اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں

    مصرمیں بظاہر جو تبدیلی رونما ہونے والی ہے ، اس سے اسلام پسند صرف عارضی فائدے اٹھا سکیں گے ، جب تبدیلی کا عمل مکمل ہوگا تو بڑی طاقتیں اسے ہائی جیک کرلیں گی ۔ اخوان نے صرف خاک ملنی ہے۔میں مایوسی کی باتیں نہیں کرتا ۔ ہم تو بہت پر امید ہیں ۔۔ مصر میں ان شاء اللہ اسلام اور مسلمان عزت مند ضرور ہوں گے لیکن اس وقت جب اخوان ہتھیار اٹھائیں گے ۔۔۔ اور اللہ کے راستے میں نکل کھڑے ہوں گے ۔۔۔اور وقت عنیقہ کی محبوب روشن خیالی نیل کے پانیوں میں ڈبو دی جائے گی ۔۔۔ آپ پوچھیں گے یہ کب ہوگا ؟؟؟؟ عسی ان یکون قریبا

    Comment by عرفان بلوچ — February 9, 2011 @ 10:46 pm

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress