برا ہو نگوڑے نورڈک آنڈرس کا کہ اس نے مجروحیت کے اس چراغ باصفا کی لو کو پھر سے بھڑکا دیا جسے امتداد زمانہ نے کچھ دیر سے ٹھنڈا کر رکھا تھا۔ اک ثقہ وکٹمالجی طبیب مظلومیت کے اس سنڈروم کی علامات بتاتا ہے کہ جب ہر محراب و منبر سے ایک ہی صداغم و الم بلند ہوتی رہے اور آخبارات و رسائل و جرائد، موقر و غیر موقر اسی پر نوحہ کناں ہوں کہ ہم تو اخیر مظلوم ہیں تو سمجھئے کہ مرض جوبن پر ہے۔ جس طرف نگاہ اٹھاو وہیں دیدہ تر سے صدا آتی ہے کہ مسلمانان تحت ستم بودن، چه کاری انجام دهید؟
ہمارا ماننا ہے کہ نشاط ثانیہ میں اگر کوئی چیز سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو ہو ہے یہ مظلومیت سنڈروم یا پھر دوسرا اسٹالکہوم سنڈروم کہ اے اسیرانِ قفس منہ میں زباں ہے کہ نہیں۔
جیسا کہ کفیل بھائی لیفٹ آرم میڈیم فاسٹ بالر کے نیچے لکھا ہوتا ہے، تپڑ ہے تو پاس کرو، ورنہ برداشت کرو، آپ حاسدین کچھ بھی کہیں مگر حقیقت ہے کہ مظلومیت سنڈروم برداشت کا انتہائی درس دیتا ہے، روتے جاو گاتے جاو۔ جب دنیا بھر کے بوگی مین آپ کے پیچھے عفریت کی طرح لگے ہوں تو تبدیلی و انقلاب، اصلاح معاشرہ، ایمان و ایقان، تزکیہ نفس، حسن اخلاق، عدل و انصاف، دعوت دین جیسے خالی خولی الفاظ سے پیٹ تھوڑا ہی بھرتا ہے؟
اے ناصح کیا بکتا ہے، ظالموں مارتے ہو اور رونے بھی نہیں دیتے؟