فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 28, 2011

اینکڈوٹل ایوڈنس، مغالطه منطقی اور سنیتا ولیمز

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:54 am

حکایتی دلیل یا ‘اینکڈوٹل ایوڈنس’ خصوصی طور پر چنے گئے کسی ایسے واقعے کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک نوع عمومی کے رجحان کی صفت کو صحیح طور پر بیان نہیں کرتا۔ اسے بسا اوقات کج بحثی میں دلیل کی مضبوطی کے ثبوت کے لئے خصوصی طور پر چنا جاتا ہے لیکن مزید تحقیق پر یہ منطقی مغالطے کی صورت میں سامنے آکر آپکا منہ چڑانے لگتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اینکڈوٹل ایوڈنس خود تو درست ہو سکتی ہے لیکن اسکا عمومی نوعیت پر کیا جانے والا استدلال درست نہیں ہوتا۔

منطق کی اصطلاح میں‌ ‘فیلیسی’ یا مغالطہ منطقی بھی اسی کے قریب قریب کی چیز ہے۔ مثلا اگر میں تمباکو نوشی کے دفاع میں‌ کہوں کہ میرے ایک عزیز زندگی بھر چمنی کی طرح سگریٹ پیتےرہے لیکن انکی موت 99 سال کی عمر میں‌ایک حادثہ میں ہوئی تو یہ اینکڈوٹل ایوڈنس ہوگی کیونکہ اس کا سیمپل سائز ، اس کی نوع ‘کلاس’ کا ممثل نہیں۔ اسی کو آوٹلائر بھی کہا جاتا ہے۔ فیلیسی تھوڑی سی مختلف ہے کہ جس میں استدلال کی زنجیر میں مغالطہ موجود ہوتا ہے مثلا چونکہ انسان ممالیہ ہے اور وہیل مچھلی بھی ممالیہ ہے لحاظہ انسان وہیل مچھلی ہے۔

آج صبح کی نماز میں ہمارے امام صاحب نے خلاباز سنیتا ولیمز کے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ چونکہ اس نے حرمین کو خلا سے دیکھا اور اس کی روشنی سے وہ اسقدر متاثر ہوئی کہ اس نے ایمان قبول کرلیا۔ یہ بات نا اینکڈوٹل ایوڈنس ہے اور نا ہی فیلیسی، یہ سراسر غلط اطلاع ہے۔ امام صاحب تو خاصے سلجھے ہوئے پڑھے لکھے آدمی ہیں تو ان کو تو یہ بات نہائت آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ میں نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں دیکھا، ہمارے ذرائع ابلاغ سے لے کر عام لوگوں تک اس بات کو کوئی فلٹر موجود نہیں کہ کسی خبر کی تصدیق بھی کی جائے۔ انکی نیت خواہ کتنی ہی اچھی ہو، ان اینکڈوٹل ایوڈنسز، فیلیسیز اور کرامات کے بیان سے اسلام کا کچھ بھلا نہیں ہوتا، ہم صرف اپنی لاعلمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نا آحایث میں احتیاط کرتے ہیں اور نا ہی عام مکالموں میں، اسلام کی بڑائی اس بات میں‌ نہیں کہ ہم کتنی جھوٹی روایات اور کرامات کا تذکرہ کرتے ہیں یا کتنی  اینکڈوٹل ایوڈنسز کو منصوص من اللہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فارورڈڈ ای میلز میں غیر تصیق شدہ فضولیات کا انبار لگا ہوتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو خصوصا ایسی چیزوں سے سے خبردار رہنا چاہئےکہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482
’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔‘‘(مسلم)

رچرڈ فائنمن وہ ماہر طبعیات تھے کہ جنہیں‌ میں البرٹ آئنسٹائین سے بڑا سائنسدان مانتا ہوں۔ ان کا استدلال بڑا خوبصورت ہوا کرتا تھا اور ان کی کتاب ‘یقینا آپ مذاق کر رہے ہیں جناب فاینمین’ ایک نہایت اچھی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ‘اگر سائنس آج کوئی چیز ثابت نہیں کرسکتی تو مجھے اس غیر یقینی کیفیت سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ کچھ لوگ خدا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ وہ غیر یقینی چیزوں کو سمجھا سکیں اور اسکا صورتحال کا تدارک کیا جاسکے، میں اس طرز فکر پر یقین نہیں کرتا، یہ غیر یقینی کیفیت مجھے پریشان نہیں کرتی’

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم خالصتا توحید اور رسالت کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ سچ فی النفسہ کائنات کی سب سے بڑی مجسم حقیقت ہے۔ اس کو واضع کرنے کے لئے کسی چمکیلی شے کو دکھانے، قران کو سائنسی کتاب بنانے، چاند پر اذان دلوانے اور سنیتا ولیمز کو زبردستی مشرف با اسلام کرانے  کی چنداں کوئی حاجت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب و بالتوفیق

Share

August 24, 2011

ایک مختصر مکالمہ

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 8:00 pm

وہ: مملکت خداداد کے حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کیا بتائیں۔ کرپشن، لوٹ مار، بےامنی، قتل و غارت گری، انسانی جان ارزاں ہے، آپ کچھ حل تجویز کریں۔

میں: حکومت الٰہیہ کا قیام۔ اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنے کا اجتماعی عزم۔  زندگی کانظام جوآج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہاہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔

وہ: ابے ہٹ، ملا کہیں کا!

Share

August 22, 2011

کمپیوٹر سائنس – این پی مسائل کیا ہیں؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 10:14 pm

پی اور این پی بتانے سے پہلے پہلے ایک چھوٹی سی تمہید باندھتے ہیں۔آپ نے وہ کہانی تو ضرور سنی ہوگی کہ ایک بادشاہ نے ایک درباری سے خوش ہوکر کہا مانگ کیا مانگتا ہے۔ وہ درباری بادشاہ کی شومئی قسمت سے ریاضی دان تھا جس نےمسکراتے ہوئے فرمائش کی کہ شطرنج کے پہلے خانے میں ایک اشرفی رکھی جائے پھر دوسرے میں دو  پھر دوسرے خانے میں موجود تعداد کو اسی تعداد سے ضرب دیا جائے ( یعنی ۲ ضرب ۲ =4) اور جواب تعداد ( 4) کو تیسرے خانے میں رکھا جائے پھر چوتھے خانے میں بھی یہی عمل دہرایا جائے ( یعنی ۴ضرب ۴ =16 ) اس حاصل ضرب تعداد کے برابر اشرفیوں کوچوتھے خانے میں رکھا جائےاسی طرح یہ عمل ہر خانے میں دہراتے ہوئے کل چونسٹھ خانے میں اشرفیاں رکھی جائيں اور وہ تمام اشرفیاں مجھے انعام میں دے دیا جائے۔
پہلے تو بادشاہ اس عجیب فرمائشی انعام پر ہنسا کہ اتنی سی مقدار میں خزانہ مانگ رہا ہے تو اس نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ جس حساب سے یہ اشرفیاں مانگ رہا ہے اسے دے دیا جائے۔ خزانچی حساب لگانے اور اشرفیاں دینے کے لئے گیا مگر پھر واپس دوڑا ہوا آیا اور ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اسی طریقے سے جو اشرفیوں کی مقدار بنتی ہے وہ تو ہمارے خزانےیا سلطنت میں تو دور کی بات پوری دنیا میں شائد اتنا سونا نا ہو کے اتنی اشرفیاں بنائی جا سکیں۔

اسے کامبنیٹرل ایکپلوژن کہا جاتا ہے اور یہ بولین سیٹسفایبلٹی پرابلم کی اساس ہے۔ پی اور این پی مسائل کا مطالعہ ایک نہائت مزیدار مضمون اور پی بمقابل این پی کمپیوٹر سائنیس کاایک نہایت دقیق غیر حل شدہ مسئلہ ہے جس کے حل پر ایک ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا ہے۔ اس کو ایک اور کامبینیٹرل ایکپلوژن مثال سے اس طرح بتایا جاسکتا ہے کہ آپ جامعہ کراچی میں انڈر گریجویٹ طالب علموں کے سربراہ  ہیں اور آپ نے 1،000 طالب علموں کو  10 ڈپارٹمنٹوں یا شعبہ جات میں‌ داخلہ دینا ہے۔ ہر طالب علم ایک فہرست پیش کرتا ہے کہ وہ کن دیگر طالبعلموں کے ساتھ پڑھنا پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ اس سادے سے مسئلے میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے طالب علموں کی ترجیحات کو مطمئن کر سکتے ہیں اور کیا  کمپیوٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کو  حل کیا جا سکتا ہے؟

عام سا لگنے والا یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں۔  طالب علموں کے ممکنہ کامبینیشیز کی تعداد ایک نہایت ہی بڑا عدد بن جاتی ہے۔ یہ عدد ہے ایک کے بعد ایک ہزار صفر! یہ تعداد شاید کائنات میں بنیادی ذرات کی تعداد سے بھی ذیادہ ہے اس طرح اندازہ لگایئے کہ اگر ہم ایک ٹرلین کامبنیشنز یا تفاویض کوایک سیکنڈ میں چیک کرتے ہیں پھر بھی تمام اسائنمنٹس دیکھنے میں ٹریلین ، ٹریلین،  ٹریلین  سال لگ جائیں گے۔ اس طرح کی تلاش کو  جامع تلاش کہا جاتا ہے اور یہ کمپیوٹیشنلی بہت مہنگا پڑتا ہے!

 کسی بھی کمپیوٹر الگارتھم کی ایک اہم خصوصیت اس کی کمپلیکسٹی یا پیچیدگی کا پیمانا ہوتا ہے۔ اس پیمانے کو لینیر یا خطی، کواڈریٹک، لاگ، پولینومیل یا متعدد الحدود اور ایکسپونینشیل یا قوت نما کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے۔اس زمن میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ الگارتھم جگہ اور وقت دونوں کے لئے بہتر طریقے سے اصلاح شدہ ہو۔  یعنی کوئی الگارتھم زیادہ میموری استعمال کر کر جلدی جواب لا دے تو اسکا استعمال چھوٹے ڈوایسز میں جن میں‌ میموری کی کمی ہوتی ہے آسانی سے نہیں ہوسکتا۔ یہی حال پراسسنگ پاور کا ہے کہ اگر ایک الگارتھم کم جگہ لیتا ہو لیکن جواب لانے کے لئے ٹیرا فلاپس میں ہدایات کو چلانا مقصود ہو تو اسکا استعمال بھی محدود ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی پرائم نمبر کے حل کی تصدیق تو نہایت آسان کام ہے لیکن اسے ڈھونڈنے کے لئے اس کو لاکھوں کروڑوں اعداد سے تقسیم کرنا ایک بروٹ فورس مرحلہ ہے جو ہر بڑھنے والے پرائم کے ساتھ مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔

پی مسائل ایسےہوتے ہیں جن کا پولینومیل ٹائم میں جواب ڈھونڈا جاسکتا ہے اور اس جواب کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ پولینومیل ٹایم سے عام الفاظ میں مراد اتنا وقت ہے جس کا اوپری باونڈ پولینومیل کلئے سے ظاہر کیا جا سکتا ہو۔  این پی یا ‘نان ڈٹرمنسٹک پولینومیل ٹایم’ مسئلے سے مراد ایسا مسئلہ  ہے جو کہ حل ہونے میں بہت وقت لیتا ہو اور اس کے حل کی تصدیق پولینومیل وقت میں ہوسکتی ہو۔ حل کی تصدیق درحقیقت یہاں تعریف کی اصل حقیقت ہے۔ این پی مسائل ناممکن نہیں ہوتے، صرف بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ان کی فہرست یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

اکثر محققین کی حس مزاح کو گدگدانے والا  ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا پی اور این پی برابر ہیں-یعنی کہ اگر کس مسئلے کی پولینومیل وقت میں تصدیق کی جاسکتی ہے تو کیا مستقبل میں انسانی علم اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس مسئلے کو پولینومیل وقت میں حل بھی کیا جاسکے۔ اگر ہاں‌ تو اسکا حسابی ثبوت کیا ہے؟ یہ مسئلہ ساینسی اذہان کو پواینکیر کنچیکچر اور فرماٹ کے آخری تھیورم کے بعد سب سے ذیادہ مصروف رکھنے والا معمہ ہے۔ محققین کی ایک چھوٹی سی راے شماری کے مطابق ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ پی اور این پی برابر نہیں۔ میرا خیال اسکے برعکس ہے لیکن ڈانلڈ نتھ کی طرح میری راے بھی اقلیتی ہے۔ 🙂

Share

August 21, 2011

اسٹار بخش اور بابو صاحب

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

چینی بلاگستان میں آجکل دھوم مچی ہے اس تصویر کی جس میں ایک شخص کو کافی کی دکان پر اپنا ‘بیک پیک’ بستہ پہنے، آرڈر دیتے دکھائی دیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک عام سا منظر ہے لیکن یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں۔ سیاٹل ٹکوما ایرپورٹ پر کھینچی گئی یہ تصویر چین کے لئے امریکہ کےسفیر گیری لاک کی ہے جو ریاست واشنگٹن کے سابق گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ہماری طرح چینیوں کو بھی بڑی حیرت ہے کہ سابق گورنر اور سفیر صاحب نے اپنا سامان خود کیوں اٹھایا ہوا ہے اور بابو صاحب کے ملازموں کی فوج ظفر موج کہاں ہے جو کہ صاحب کے ایک اشارے پر دوڑی چلی جائے اور چاے، کافی و لوازمات لے کر آے۔ چینی بلاگروں اور میڈیا نے افسر شاہی کو لاک صاحب سے سبق سیکھنے کا کہا لیکن صاحبوں نے نا صرف اسے ‘کلچرل تھنگ’ کہ کر نظر انداز کرنے کا عندیہ دیا بلکہ اسے امریکہ کی ممکنہ غربت پر بھی محمول کیا ہے ۔ نیز یہ کہ ایک بلین کی آبادی میں سب اپنے کام کرنے لگے تو ‘چھوٹوں’ کی نوکری کا کیا ہوگا، آپ تو کلاس وار فیر شروع کرنے لگ گئے، کمیونسٹ کہیں کے۔

اب اس کار با دست پر متوازیات کی باری آے تو اسلاف سے بیسیوں مثالیں دے ڈالوں لیکن شائد یہی مسئلہ ہے، تاریخ سے مثالیں اور نوسٹیلجیا۔

Share

August 10, 2011

اندھا اعتقاد

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 6:55 am

گذشتہ شب صلوۃ القیام سے قبل ہماری مسجد میں والڑ سانچیز نےشہادت حق ادا کی۔ برادر والٹر نے ایمان کی اس حلاوت کو محسوس کیا جس کو ایک دہریہ اور نیچری نوعی اختلال خلقی پر منظبق کرتا , ہاے کمبخت تو نے پی ہی نہیں.

تمام مسلمانوں کی طرح میرا اپنے رب کی ربوبیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین شعوری ہے، میں نے اپنے رب کو اس کی نشانیوں سےحق الیقین کے درجے میں پہچانا۔

لیکن اس ایمان کو کوئی موجودہ سائینسی آلہ نہیں ناپ سکتا، ان نشانیوں کی کوئی مقداری پیمایش یا کوانٹیٹیٹو میشر نہیں، وجود خداوندی کو کسی تھیورم سے پروف نہیں کیا جا سکتا، غیب پر ایمان کی حقانیت کا ثبوت کسی لیب میں ری پروڈیوس نہیں ہو سکا لیکن اس سے میرے اور کروڑوں مسلمانوں کے ایمان و ایقان میں بال برابر فرق نہیں آتا۔

اندھا اعتقاد ایک ثقیل اور ناپسندیدہ سی اصطلاح ہے لیکن اس کا کیا کہیں کہ ارتقا اور آدم کی عدم مصالحت کے باوجود خدا واحد پر ہمارے اس یقین کاملہ پر کوئی چوٹ نہیں پڑتی- فتنہ خلق القران ہو کہ صفت کے قدیم ہونے کا مسئلہ، محکمات اور متشابہات کی بحث ہو، حیات بعد الموت ہو کہ قطار اندر قطار ملائکہ کی آمد، ،سبع سماوات کا ذکر ہو یا اسرٰی کا سفر، یہ یقین اسی طرح واثق ہے جیسے آنکھ نے دیکھا ہو اور کانوں نے سنا ہو۔

اس ایمان کو کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں، کسی ساینسی ثبوت کی حاجت نہیں، اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر نہیں، مذہب کو افیون قرار دینے والے اور خدا کی موت کا اعلان کرنے والے انٹیلیکچوالز کا خوف نہیں،  یہ سمعنا و اطعانا پر قائم ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے صادق و امین ہونے پر گواہ ہے، یہ ایمان توجیحات نہیں مانگتا، یہ یقین جانتا ہے کہ اگر الوہیت لیبارٹری میں ثابت ہو سکتی تو غیب کا پردہ نا رہتا، یہ ایمان حق کا گواہ ہے، یہ اندھا اعتقاد تمام بینائوں کی بنا ہے۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئِ قَدِیرُ

Share

Powered by WordPress