حکایتی دلیل یا ‘اینکڈوٹل ایوڈنس’ خصوصی طور پر چنے گئے کسی ایسے واقعے کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک نوع عمومی کے رجحان کی صفت کو صحیح طور پر بیان نہیں کرتا۔ اسے بسا اوقات کج بحثی میں دلیل کی مضبوطی کے ثبوت کے لئے خصوصی طور پر چنا جاتا ہے لیکن مزید تحقیق پر یہ منطقی مغالطے کی صورت میں سامنے آکر آپکا منہ چڑانے لگتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اینکڈوٹل ایوڈنس خود تو درست ہو سکتی ہے لیکن اسکا عمومی نوعیت پر کیا جانے والا استدلال درست نہیں ہوتا۔
منطق کی اصطلاح میں ‘فیلیسی’ یا مغالطہ منطقی بھی اسی کے قریب قریب کی چیز ہے۔ مثلا اگر میں تمباکو نوشی کے دفاع میں کہوں کہ میرے ایک عزیز زندگی بھر چمنی کی طرح سگریٹ پیتےرہے لیکن انکی موت 99 سال کی عمر میںایک حادثہ میں ہوئی تو یہ اینکڈوٹل ایوڈنس ہوگی کیونکہ اس کا سیمپل سائز ، اس کی نوع ‘کلاس’ کا ممثل نہیں۔ اسی کو آوٹلائر بھی کہا جاتا ہے۔ فیلیسی تھوڑی سی مختلف ہے کہ جس میں استدلال کی زنجیر میں مغالطہ موجود ہوتا ہے مثلا چونکہ انسان ممالیہ ہے اور وہیل مچھلی بھی ممالیہ ہے لحاظہ انسان وہیل مچھلی ہے۔
آج صبح کی نماز میں ہمارے امام صاحب نے خلاباز سنیتا ولیمز کے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ چونکہ اس نے حرمین کو خلا سے دیکھا اور اس کی روشنی سے وہ اسقدر متاثر ہوئی کہ اس نے ایمان قبول کرلیا۔ یہ بات نا اینکڈوٹل ایوڈنس ہے اور نا ہی فیلیسی، یہ سراسر غلط اطلاع ہے۔ امام صاحب تو خاصے سلجھے ہوئے پڑھے لکھے آدمی ہیں تو ان کو تو یہ بات نہائت آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ میں نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں دیکھا، ہمارے ذرائع ابلاغ سے لے کر عام لوگوں تک اس بات کو کوئی فلٹر موجود نہیں کہ کسی خبر کی تصدیق بھی کی جائے۔ انکی نیت خواہ کتنی ہی اچھی ہو، ان اینکڈوٹل ایوڈنسز، فیلیسیز اور کرامات کے بیان سے اسلام کا کچھ بھلا نہیں ہوتا، ہم صرف اپنی لاعلمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نا آحایث میں احتیاط کرتے ہیں اور نا ہی عام مکالموں میں، اسلام کی بڑائی اس بات میں نہیں کہ ہم کتنی جھوٹی روایات اور کرامات کا تذکرہ کرتے ہیں یا کتنی اینکڈوٹل ایوڈنسز کو منصوص من اللہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فارورڈڈ ای میلز میں غیر تصیق شدہ فضولیات کا انبار لگا ہوتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو خصوصا ایسی چیزوں سے سے خبردار رہنا چاہئےکہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482
’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔‘‘(مسلم)
رچرڈ فائنمن وہ ماہر طبعیات تھے کہ جنہیں میں البرٹ آئنسٹائین سے بڑا سائنسدان مانتا ہوں۔ ان کا استدلال بڑا خوبصورت ہوا کرتا تھا اور ان کی کتاب ‘یقینا آپ مذاق کر رہے ہیں جناب فاینمین’ ایک نہایت اچھی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ‘اگر سائنس آج کوئی چیز ثابت نہیں کرسکتی تو مجھے اس غیر یقینی کیفیت سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ کچھ لوگ خدا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ وہ غیر یقینی چیزوں کو سمجھا سکیں اور اسکا صورتحال کا تدارک کیا جاسکے، میں اس طرز فکر پر یقین نہیں کرتا، یہ غیر یقینی کیفیت مجھے پریشان نہیں کرتی’
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم خالصتا توحید اور رسالت کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ سچ فی النفسہ کائنات کی سب سے بڑی مجسم حقیقت ہے۔ اس کو واضع کرنے کے لئے کسی چمکیلی شے کو دکھانے، قران کو سائنسی کتاب بنانے، چاند پر اذان دلوانے اور سنیتا ولیمز کو زبردستی مشرف با اسلام کرانے کی چنداں کوئی حاجت نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب و بالتوفیق