چینی بلاگستان میں آجکل دھوم مچی ہے اس تصویر کی جس میں ایک شخص کو کافی کی دکان پر اپنا ‘بیک پیک’ بستہ پہنے، آرڈر دیتے دکھائی دیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک عام سا منظر ہے لیکن یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں۔ سیاٹل ٹکوما ایرپورٹ پر کھینچی گئی یہ تصویر چین کے لئے امریکہ کےسفیر گیری لاک کی ہے جو ریاست واشنگٹن کے سابق گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ہماری طرح چینیوں کو بھی بڑی حیرت ہے کہ سابق گورنر اور سفیر صاحب نے اپنا سامان خود کیوں اٹھایا ہوا ہے اور بابو صاحب کے ملازموں کی فوج ظفر موج کہاں ہے جو کہ صاحب کے ایک اشارے پر دوڑی چلی جائے اور چاے، کافی و لوازمات لے کر آے۔ چینی بلاگروں اور میڈیا نے افسر شاہی کو لاک صاحب سے سبق سیکھنے کا کہا لیکن صاحبوں نے نا صرف اسے ‘کلچرل تھنگ’ کہ کر نظر انداز کرنے کا عندیہ دیا بلکہ اسے امریکہ کی ممکنہ غربت پر بھی محمول کیا ہے ۔ نیز یہ کہ ایک بلین کی آبادی میں سب اپنے کام کرنے لگے تو ‘چھوٹوں’ کی نوکری کا کیا ہوگا، آپ تو کلاس وار فیر شروع کرنے لگ گئے، کمیونسٹ کہیں کے۔
اب اس کار با دست پر متوازیات کی باری آے تو اسلاف سے بیسیوں مثالیں دے ڈالوں لیکن شائد یہی مسئلہ ہے، تاریخ سے مثالیں اور نوسٹیلجیا۔
یہ ایک ثقافتی چیز تو ہے ہی ۔ امریکن سماج کی بنیادیں جن اصولوں پر قائم ہیں اس کے حساب سے تو یہ کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں لیکن چینی بلکہ اکثر ایشیائی اور کئی یورپی ملکوں یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جہاں سماج کے محض چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی حق حکمرانی حاصل ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک ایشیائ ملک کے صدر اپنی نماز خود پڑھ رہے تھے تو لوگوں کے لیے ایک غیر معمولی صورتحال بن گئی تھی :ڈ
Comment by راشد کامران — August 21, 2011 @ 10:59 am
راشد بھائی، بہت اعلی، اپنی نماز خود پڑھ رہے تھے، کیا سخن نژاد بات کی آپ نے!
اس نے تو تبصرے میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاوں میں سارا بلاگ رکھ دیا
Comment by ابو عزام — August 22, 2011 @ 5:17 pm
یہ سٹار بکس کو خوب سٹار بخش کہا آپ نے، پڑھ کر مزا آیا-
اسلام آباد میں جس امریکی ایلچی کیلئے پورے شہر کو جام کرکے سڑکوں سے گزارا جاتا ہے وہ نیو یارک میں ٹیکسی حاصل کرنے عام آدمی کی طرح ہی لائن میں ہوتا ہے۔
بیجنگ اولمپکس کے دوران بڑے بش صاحب ایک دکان مین خریدری کرتے ہوئے پہچان لیئے گئے تھے تو لوگوں نے خوب اُن کے ساتھ تصویریں بنوائی تھیں۔ اور اتنی زیادہ حیرت کا اظہار بھی تو نہیں کیا گیا تھا۔
Comment by محمد سلیم — August 21, 2011 @ 8:36 pm
محمد سلیم صاحب، تبصرے کا شکریہ۔ درست فرمایا آپ نے، معاشی اعتبار سے طبقہ وارانہ مساوات تو خیر دور دور تک نہیں موجود لیکن معاشرتی مساوات کا تصور ابھی کافی حد تک زندہ ہے۔
Comment by ابو عزام — August 22, 2011 @ 5:15 pm
janaab aap ne hamaare tabsereh ko dhutkaar diya aor shaa’e naheen kiya.
yeh bhi aik khaas farq hai mashriq aor maGHrib mein.
Comment by urdudaan — August 22, 2011 @ 3:19 pm
ًمحترم، ہماری کیا مجال ۔میرے خیال میںآپ نے یہ تبصرہ غلطی سے پچھلی پوسٹ پر کر دیا ہے۔
Comment by ابو عزام — August 22, 2011 @ 5:11 pm