ابھی اروائن گیارہ کی فرد جرم کی سیاہی خشک نا ہوئی تھی کہ امریکی انتظامیہ نے آج امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا جنازہ نکال دیا گیا جس کے مطابق کسی امریکی شہری کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جا سکتا. انـا لله وانـا اليـه راجـعـون- امام انورالولاکی کی امریکی حملے میں شہادت کے زمن میں راقم نے سیلون کے کالم نگار گلین گلینوالڈ کے کالم کا ترجمہ کیا ہے جو درج زیل ہے۔
پچھلے سال ماہ جنوری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ابامہ انتظامیہ نے امریکی شہریوں کی ایک ہٹ لسٹ تیار کی ہےجن کے ماورائے عدالت قتل کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک شہری انور الاولاکی بھی ہیں۔ ان کے خلاف فرد جرم دائر کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی حالانکہ اباما انتظامیہ نے ایک سال پہلے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس بارئے میں قومی سلامتی کے یمنی ماہرین کے شدید شک و شبہات ہیں کہ انور اولاکی کا القاعدہ سے آپریشنل یا عملی طور پر کوئی تعلق بھی تھا اور نا کوئی ثبوت ان کے خلاف لایا گیا۔ صرف غیر ثابت شدہ حکومتی الزامات جن کی عدالت میںکوئی مصدقہ حیثیت نہیں۔ اولاکی کے والد نے جب صدارتی حکم کے خلاف اپنے بیٹے کی جان بچانے اور قتل کے احکامات کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلینج کیا تو امریکہ محکمہ انصاف نے یہ کہ کر یہ کیس باہر پھینک دیا کہ یہ یہ مملکت کے راز ہیں اوریہ عدلیہ کی دسترس سے باہرہیں۔ اولاکی کو امریکی صدر کی ایما پر قتل کیا گیا جو کہ ان کا منصف بھی ہے، جیوری بھی ہے اور جلاد بھی۔
جب اولاکی کی امریکی شہریوں کی ہٹ لسٹ میںموجود ہونے کی تصدیق ہوئی تو نیویارک ٹایمز نے لکھا کہ ‘یہ نہائت غیر معمولی بات ہے اور اس کی تاریخ میں مثل بہت کم ملتی ہے۔ یہ شاذ و نادر ہئ ہوتا ہے کہ کسی امریکی کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی منظوری دی جائے۔
کئی ناکام کوششوں کے بعد آج امریکی انتظامیہ انور اولاکی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے لئے دیرینہ آمر دوست صدر صالح کی مدد لی گئی جنہوں نے اپنے شہریوںکو مارنے سے تھوڑے وقت کی چھٹی لی تاکہ امریکی انتظامیہ کو اس کا اپنا شہری مارنے میں مدد دے سکیں۔ امریکی انتظامیہ نے اس زمن اپنی حماقت سے ایک معمولی شخص کو شہید کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اپنا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھا دیا۔ ہمیںیقین ہے کہ میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لئے اب حکومت اور میڈیا دونوں نے اگلے بن لادن کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ہوگی،
سب سے حیرت ناک بات یہ نہیں کہ امریکی حکومت نے وہی کام کیا جس جس سے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم میںیکسر طور پر منع کیا گیا ہے،یعنی اپنے ہی شہریوں کا قتل، اور اسی دوران پہلی ترمیم یعنی آزادی اظہار کی آزادی پر بھی ضرب لگائی گئی چونکہ عدالت میں ان الزامات پر اب کبھی بحث نا ہوگی۔ اس سے بھی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ہلاکت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ امریکی شہری اس بات پر نا صرف یہ کہ کوئی اعتراض بھی نہیں کریں گے بلکہ کھڑے ہو کر امریکی حکومت کی اپنے ہی شہریوںکو قتل کرنے کی نئی طاقت پر تالیاں بجائیں گے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے ذریعے اپنے کسی شہری کو کسی بھی قانونی کاروائی کے بغیر ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ صدر کی مضبوطی، قوت فیصلہ اور سخت جانی کو سراہیں گے ۔ ان میں بہت سے وہ ‘صالحین’ بھی شامل ہونگے جنہوں نے ٹیکساس کے گورنر پیری ،جو آج کل صدارت کے امیدوار ہیں، ان کے ریاست ٹیکساس میں زانیوں اور قاتلوں کے تختہ دار پر لٹکانے کے عمل پر خوش ہونے والے ٹی پارٹی کے اراکین کے رد عمل کو انسانیت سوز قرار دیا تھا۔ لیکن کم از کم ان قیدیوں کو عدالت کے کٹھرے میں تو لایا گیا تھا اور ان کے قتل سے پہلے انہیں قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا، انو الولاکی کو تو کوئی موقع نہیں دیا گیا ۔
آمریت کے نقطہ نگاہ سے یہ امریکی سیاسی پس منظر کا کارنامہ عظیم ہے۔ یہ یقینا ایک گراں قدر بات ہے کہ نا صرف ایک ایسا طریقہ نکال جائے کہ آپ عوام کی وہ آئینی انفرادی آزادیاں سلب کرلیں جو انہیںریاست کے جبر سے بچانے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ یہ شہری بھیڑ بکریوں کی طرح ان آزادیوں کے چھن جانے پر تالیاں بھی بجائیں۔
میں جب بھی اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہو، مجھے جو بات نہایت پریشان کرتی ہے وہ ڈیموکریٹس کی بش کی پالیسیوں پر تنقید ہے۔ یاد ہے جب صدر بش نے امریکی شہریوں کو بلا اجازت حراست میں رکھنے اور ان کی گفتگو سننے کی طاقت کا قانون منظور کروایا تھا؟ اس پر ڈیموکریٹس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور کس قدر لے دے ہوئی تھی۔ اب وہی لوگ صرف حکومتی ذرائع کی اطلاع اور کسی عدالتی عمل کے بغیر کسی امریکی شہری کو ہلاک کردینے پر خاموش ہیں کیونکہ انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ دہشتگرد تھا، یہ کونسا انصاف ہے؟
ان دنوں لبرلز کا نعرہ تھا، کیا آپ پسند کریںگے کہ ہیلری کلنٹن کے پاس آپ کا فون سننے اور آپ کو ماورائے عدالت قید کرنے کے طاقت ہو؟ آج انہی لوگوں سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اب آپ کو کیسا لگے کا کہ جب امریکی شہریوںکو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت رک پیری یا مشیل باکمین کے ہاتھ میںہو؟
گلین گرین والڈ، سیلون ڈاٹ کام۔
وبشر الصابرين الذين اذا اصابتهم مصيبة قالو انـا لله وانـا اليـه راجـعـون.
يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية, فادخلي في عبادي وادخلي جنتي.