فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 30, 2011

انـا لله وانـا اليـه راجـعـون

Filed under: خبریں,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 8:18 pm

ابھی اروائن گیارہ کی فرد جرم کی سیاہی خشک نا ہوئی تھی کہ‌ امریکی انتظامیہ نے آج امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا جنازہ نکال دیا گیا جس کے مطابق کسی امریکی شہری کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جا سکتا.  انـا لله وانـا اليـه راجـعـون- امام انورالولاکی کی امریکی حملے میں‌ شہادت کے زمن میں راقم نے سیلون کے کالم نگار گلین گلینوالڈ کے کالم کا ترجمہ کیا ہے جو درج زیل ہے۔

پچھلے سال ماہ جنوری میں‌ یہ بات سامنے آئی تھی کہ ابامہ انتظامیہ نے امریکی شہریوں کی ایک ہٹ لسٹ تیار کی ہےجن کے ماورائے عدالت قتل کا حکم دیا گیا ہے۔  ان میں سے ایک شہری انور الاولاکی بھی ہیں۔ ان کے خلاف فرد جرم دائر کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی حالانکہ اباما انتظامیہ نے ایک سال پہلے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس بارئے میں‌ قومی سلامتی کے یمنی ماہرین کے شدید شک و شبہات ہیں کہ انور اولاکی کا القاعدہ سے آپریشنل یا عملی طور پر کوئی تعلق بھی تھا اور نا کوئی ثبوت ان کے خلاف لایا گیا۔ صرف غیر ثابت شدہ حکومتی الزامات جن کی عدالت میں‌کوئی مصدقہ حیثیت نہیں۔ اولاکی کے والد نے جب صدارتی حکم کے خلاف اپنے بیٹے کی جان بچانے اور قتل کے احکامات کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلینج کیا تو امریکہ محکمہ انصاف نے یہ کہ کر یہ کیس باہر پھینک دیا کہ یہ یہ مملکت کے راز ہیں اوریہ عدلیہ کی دسترس سے باہرہیں۔ اولاکی کو امریکی صدر کی ایما پر قتل کیا گیا جو کہ ان کا منصف بھی ہے، جیوری بھی ہے اور جلاد بھی۔

جب اولاکی کی امریکی شہریوں کی ہٹ لسٹ میں‌موجود ہونے کی تصدیق ہوئی تو نیویارک‌ ٹایمز نے لکھا کہ ‘یہ نہائت غیر معمولی بات ہے اور اس کی تاریخ میں‌ مثل بہت کم ملتی ہے۔ یہ  شاذ و نادر ہئ ہوتا ہے کہ کسی امریکی کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی منظوری دی جائے۔

کئی ناکام کوششوں کے بعد آج امریکی انتظامیہ انور اولاکی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے لئے دیرینہ آمر دوست صدر صالح کی مدد لی گئی جنہوں نے اپنے شہریوں‌کو مارنے سے تھوڑے وقت کی چھٹی لی تاکہ امریکی انتظامیہ کو اس کا اپنا شہری مارنے میں مدد دے سکیں۔ امریکی انتظامیہ نے اس زمن اپنی حماقت سے  ایک معمولی شخص کو شہید کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اپنا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھا دیا۔ ہمیں‌یقین ہے کہ میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لئے اب حکومت اور میڈیا دونوں نے اگلے بن لادن کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ہوگی،

سب سے حیرت ناک بات یہ نہیں کہ امریکی حکومت نے وہی کام کیا جس جس سے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم میں‌یکسر  طور پر منع کیا گیا ہے،یعنی اپنے ہی شہریوں کا قتل، اور اسی دوران پہلی ترمیم یعنی آزادی اظہار کی آزادی پر بھی ضرب لگائی گئی چونکہ عدالت میں ان الزامات پر اب کبھی بحث نا ہوگی۔ اس سے بھی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ہلاکت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ امریکی شہری اس بات پر نا صرف یہ کہ کوئی اعتراض بھی نہیں‌ کریں‌ گے بلکہ کھڑے ہو کر امریکی حکومت کی اپنے ہی شہریوں‌کو قتل کرنے کی نئی طاقت پر تالیاں بجائیں گے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے ذریعے اپنے کسی شہری کو کسی بھی قانونی کاروائی کے بغیر ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ صدر کی مضبوطی، قوت فیصلہ اور سخت جانی کو سراہیں گے ۔ ان میں بہت سے وہ ‘صالحین’  بھی شامل ہونگے جنہوں نے ٹیکساس کے گورنر پیری ،جو آج کل صدارت کے امیدوار ہیں، ان کے ریاست ٹیکساس میں زانیوں اور قاتلوں کے تختہ دار پر لٹکانے کے عمل پر خوش ہونے والے ٹی پارٹی کے اراکین کے رد عمل  کو انسانیت سوز قرار دیا تھا۔ لیکن کم از کم ان قیدیوں‌ کو عدالت کے کٹھرے میں‌ تو لایا گیا تھا اور ان کے قتل سے پہلے انہیں‌ قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا، انو الولاکی کو تو کوئی موقع نہیں‌ دیا گیا ۔



آمریت کے نقطہ نگاہ سے یہ امریکی سیاسی پس منظر کا کارنامہ عظیم ہے۔ یہ یقینا ایک گراں‌ قدر بات ہے کہ نا صرف ایک ایسا طریقہ نکال جائے کہ آپ عوام کی وہ آئینی انفرادی آزادیاں سلب کرلیں‌ جو انہیں‌ریاست کے جبر سے بچانے کے لئے بنائی گئی تھیں‌۔ لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ یہ  شہری بھیڑ بکریوں کی طرح ان آزادیوں‌ کے چھن جانے پر تالیاں‌ بھی بجائیں۔

میں جب بھی اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہو، مجھے جو بات نہایت پریشان کرتی ہے وہ  ڈیموکریٹس کی بش کی پالیسیوں پر تنقید ہے۔ یاد ہے جب صدر بش نے امریکی شہریوں کو بلا اجازت حراست میں‌ رکھنے اور ان کی گفتگو سننے کی طاقت کا قانون منظور کروایا تھا؟ اس پر ڈیموکریٹس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور کس قدر لے دے ہوئی تھی۔  اب وہی لوگ صرف حکومتی ذرائع کی اطلاع اور کسی عدالتی عمل کے بغیر کسی امریکی شہری کو ہلاک کردینے پر خاموش ہیں کیونکہ انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ دہشتگرد تھا، یہ کونسا انصاف ہے؟

ان دنوں‌ لبرلز کا نعرہ تھا، کیا آپ پسند کریں‌گے کہ ہیلری کلنٹن کے پاس آپ کا فون سننے اور آپ کو ماورائے عدالت قید کرنے کے طاقت ہو؟ آج انہی لوگوں سے  یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ‌ اب آپ کو کیسا لگے کا کہ جب امریکی شہریوں‌کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت رک پیری یا مشیل باکمین کے ہاتھ میں‌ہو؟

گلین گرین والڈ، سیلون ڈاٹ کام۔

وبشر الصابرين الذين اذا اصابتهم مصيبة قالو انـا لله وانـا اليـه راجـعـون.
يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية, فادخلي في عبادي وادخلي جنتي.

 

Share

September 28, 2011

اروائن گیارہ – عہد زباں بندی میں حسینیت کے علمبردار

Filed under: سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 7:27 am

مغرب آزادی اظہار کو انسان کا بنیادی حق گردانتا ہے۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو کہ ‘بل آف رایٹس’ کا حصہ ہے کے مطابق ہر فرد کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے اور امریکی ایوان نمایندگان کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتا جس سے کسی سرکاری مذہب کی رائے ہموار ہوتی ہو ، کسی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنےسے روکا جاتا ہو، عبادات میں خلل ڈالا جا سکتا ہو، کسی فرد یا افراد کے گروہ کی زباں بندی ہوتی ہو، یا انہیں پرامن طور پر اجتماع کرنے کی آزادی سلب کی جاتی ہو یا کوئی ایسا قانون بنایا جا سکے جس کے  ذریعے زرائع ابلاغ پر قدغن لگائی جا سکتی ہو۔

لیکن قوانین تو شائد بنتے ہی اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے کے لئے ہیں، حبس بے جا کے خلاف قانون کی بندش ہو، ایک لاکھ بیس ہزار جاپانی امریکیوں کی انٹرمٹنٹ قفل بندی ہو یا پھر اورینج کاونٹی کی عدالت کی جامعہ اروائن کے گیارہ  طالبعلموں کے خلاف فرد جرم ہو  جنہوں نے اسرائیلی سفیر کی تقریر کے دوران اپنی رائے کا ببانگ دہل اظہار کیا ۔

فروری 2010 میں غزہ کے محاصرے اور حملوں کے دوران اسرائیلی سفیر مائکل اورن نے جامعہ اروائن کیلیفورنیا میں خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے اراکین گیارہ طالبعلموں نے رفتہ رفتہ کھڑے ہوکر زبانی احتجاج کیا اور سفیر کو فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت پر ظالم، جارح اور قاتل کے القابات سے نوازا۔ صدائے احتجاج بلند کرنے پر جب پولیس نے ان طالبعلموں کو باہر نکالا تو وہ کسی مزاحمت کے بغیر کمرے سے باہر چلے گئے جو کہ ان کی امن پسندی کا واضع پیغام تھا۔ اس تمام واقعے کے تصویری و وڈیو ثبوت موجود ہیں۔ اس واقعے پر یونیورسٹی نے انہیں ایک سیمسٹر کے لئے معطل کر دیا اور ایم ایس اے کو پروبیشن پر رکھ دیا۔

تقریبا ایک سال بعد اورینج کاونٹی کے پبلک پراسیکیوٹر کو اس بات کا خیال آیا کہ اسرائیل کے سفیر کے خلاف مسلمان طالبعلموں کا ایسا جرم کیسے معاف کیا جاسکتا ہے، ان صاحب نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان طالبعلموں کے خلاف مقدمہ دائر کیا اورپچھلے جمعے کے روز عدالت نے انہیں مجرم قرار دے دیا۔ ان کو تین سال کی پروبیشن یا چھپن گھنٹے کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی اور تقریبا دو سو ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پڑئے گا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ہی لڑا گیا۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ ان طالبعلموں نے سفیر کے اظہار رائے کے حق کو چھینا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر اس قانونی موشگافی کو مان لیا جائے تو ٹاون ہال کی میٹنگوں میں ہونے والے شور و غوغا اور اختلاف رائے جو کہ نہائت معمول کی بات ہے بھی غیر قانونی قرار پائے گا اورٹی پارٹی کے ان تمام افراد کے خلاف بھی مقدمہ کرنا چاہئے جنہوں‌ نے حالیہ دور میں ٹاون ہال میٹنگوں کو ثبوتاژ کرنے کہ منصوبہ بندی کی تھی۔ امریکی کانگریس کے اس رکن کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے جس نے صدر اوبامہ کو سرعام ان کے خطاب کے دوران با آواز بلند ‘تم جھوٹ بولتے ہو‘ کہا تھا۔ دور کیوں جائیں ابھی ویسٹ بارو چرچ کے اراکین کو امریکی فوجیوں کے جنازوں پر نفرت انگیز بورڈز اور نعروں سے بھرپور مظاہروں کی اجازت سپریم کورٹ‌ نے دی ہے کہ یہ آزادی رائے کی اجازت ہے۔‌ پادری جیری جونز کا واقعہ تو کوئی بھی مسلمان نہیں‌ بھول سکتا۔ لیکن اگر یہ سب بھی آپ کو دور کی کوڑیاں لگتی ہوں تو چلیں ایک بلکل مماثل واقعہ ہی دیکھ لیں جب پچھلے سال نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دورے کے دوران ‘جیوز فار پیس’ نامی تنظیم کے پانچ یہودی مظاہرین نے بلکل اسی طرح سے صدائے احتجاج بلند کی تو انہیں بے دخلی کے سوا کسی اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس تمام گفتگو سے مدعا یہ ہے کہ اس قسم کا امتیازی سلوک مسلمان طالبعلموں کے ساتھ ہی کیوں‌روا رکھا گیا۔ جامعہ اروائن کے شعبہ قانون کے ڈین ارون چرمنسکی کا خود یہی کہنا ہے کہ جامعہ کی اپنی نظم و ضبط کے خلاف دی گئیں سزائیں اور پابندیاں ان طالبعلموں کے لئے کافی تھیں، کسی فوجداری مجرمانہ مقدمے کا اطلاق  اس مظاہرے  پر نہیں ہوتا۔ کئیر، اے سی ایل یو اور کئی یہودی تنظیموں اور ربیوں نے بھی اس شرمناک سزا پر صدائے احتجاج بلند کی اور اروائن گیارہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس زمن میں‌ کئیر کی محترمہ امینہ قاضی کا اورینج کاونٹی رجسٹر میں‌ لکھا گیا کالم ڈسٹرکٹ اٹارنی کے منہ پر دلایل و براہین و قاطعین کا ایک بھرپور طمانچہ ہے۔

یہ فیصلہ امریکی روایات کے خلاف ہے، آزادی اظہار پر حملہ ہے، جمہوری اقدار پر دست درازی ہے۔ مجھے اروائن گیارہ کو آکیسویں صدی کے روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ  ماننے میں‌کوئی مظائقہ نہیں اور  واثق یقین ہے کہ ہیبیس کورپس کی معطلی کی طرح ایک دن اس فیصلے کو بھی تاریخ کے سیاہ صفحات میں‌درج کیا جائے گا۔

سلام اروائن کے ان گیارہ طالبعلموں‌پر جنہوں نے اپنے کیرئر کی قربانی دے کر غزہ کے مظلوموں کے حق میں‌آواز بلند کی۔ اب ان کے ریکارڈ‌ پر ایک ‘مس ڈیمینر’ کا دھبہ ہے جو کہ مٹائے نہیں مٹ‌ سکتا۔ فارغ‌التحصیل ہونے کے بعد جب یہ کہیں‌ نوکری کے لئے جائیں‌ گے تو بیک گراونڈ چیک میں‌ یہ سزا دور سے دکھائی دے گی۔ لیکن انہیں اس بات کی پروا نہیں، انہیں‌فکر تو اس بات کی ہے کہ غزہ کے بے آواز لوگوں کو آواز مل جائے.

مبارک ہو ان طالبعلموں کو کہ انہوں نے اسرائیل کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا کر رسم حسینیت کی لاج رکھی اور کسی ملامت کرنے والے کا خوف ان کو اپنے مشن سے دور نا کرسکا۔ سلام ہو ان ماوں پر جنہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ کہنے کا درس دیا۔ ظالم و جابر کے خلاف آواز حق بلند کرنا افضل جہاد ہے، آج اروائین کے ان گیارہ طلبعلوں نے اس روایت کا پاس رکھا جو کہ امت مسلمہ کا ہی خاصہ ہے۔

حسین تو نا رہا اور تیرا گھر نا رہا
تیرے بعد مگر ظالموں کا ڈر نا رہا

Share

September 25, 2011

کمپیوٹر سائنس – مشین لرننگ کس چڑیا کا نام ہے؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 12:20 am

اکثر احباب پوچھا کرتے ہیں کہ میرے پی ایچ ڈی کی تحقیق کا موضوع کیا ہے۔جب میں‌ بتاتا ہوں‌ کہ میری تحقیق کا دائرہ کار مشین لرننگ سے ملتا ہے تو کمپیوٹر سائنس سے نا آشنا افراد کے لئے یہ اکثر ایک نیا لفظ ہوتا ہے اور وہ نا دانستگی میں اسے میکینکل انجینئرنگ سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس  تحریر میں‌ یہ کوشش کی گئی ہے کہ عام فہم طریقے سے مشین لرننگ کے شعبے کو بیان کیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت حوالہ دینے کے کام آسکے۔

مشین لرننگ کمپیوٹر سائنس کا ایک شعبہ ہے جس کو شماریات اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کا اتصال کہا جاتا ہے۔ مشین لرننگ کی ایک سادہ اور جامع سی تعریف ہے کہ یہ وہ الگارتھم بنانے کا علم ہے جس کے ذریعے نامعلوم سے معلوم کو اخذ کیا جاتا ہے۔ ڈیٹا مایننگ کی تعریف بھی خاصی ملتی جلتی ہے لیکن بنیادی فرق دونوں میں یہ ہے کہ مشین لرننگ کے شعبے کی الگارتھم پر خصوصی توجہ ہوتی ہے جبکہ ڈیٹا مائننگ ایک خاصہ جامع موضوع ہے جو بزنس انٹیلیجنس سے لے کر ڈیٹا کی پیش پردازش تک کے بے شمار مضامین اپنے اندر سموے ہوئے ہے۔

الگارتھم کمپیوٹر سائنس کی اصطلاح میں‌ اوامر کے ایسےترتیبی مجموعے کو کہا جاتا ہے کہ جس میں کسی مسئلے کے حل یا کسی کام کو کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہو۔ مثلا اگر آپ کسی ڈکشنری میں ایک لفظ ڈھونڈنا چاہتے ہوں‌ تو کونسا طریقہ استعمال کیا جائے گا، کتنی مرتبہ صفحات کو پلٹنے کے ضرورت پیش آئے گی اور لفظ ڈھونڈنے کا سب سے موثر ‘آپٹمائزڈ’ طریقہ کیا ہوگا، اسی طرح کے بنیادی سوالات و جوابات کی تلاش الگارتھم بنانے اور سمجھنے کے علم میں‌ کی جاتی ہے۔

مشین لرننگ کا علم الگارتھم کے ذریعے کسی ڈیٹا سیٹ سے معلومات اخذ کرنے، اور اس کے بعد اس کا تجزیہ کر کر الگارتھم کے ذریعے معلومات سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے سے بحث کرتا ہے۔ اس کی ایک آسان سی مثال سادہ بیزین ترشيح ہے جس کو بہت سارے کمپیوٹر استعمال کرنے والے لوگ نا جاننے کے باوجود بھی روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ سادہ بیزین ترشيح ایک ایسا الگارتھم ہے جس کے مطابق آپ اشیا کا رجحان معلوم کرسکتے ہیں۔ اس کی روز مرہ کے استعمال کی صورت ای میل میں‌سے اسپیم یا اشتہاری مواد کو چھانٹنے کا خودکار عمل ہے۔ مائکروسافٹ کی 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق 97 فیصد ای میل جو انٹرنیٹ کے ذریعے بھیجی جاتی ہے، غیر مطلوب یا اسپیم کے زمرے میں آتی ہے۔ اس میں فارمیسی یعنی جعلی دواوں، جعلی یا دو نمبر اشیا، جنسی ، معاشی استحصالی، جعلی ڈگریوں، جوا وغیرہ سے متعلق مواد شامل ہوتا ہے۔ اتنی ساری ای میل کو پڑھنا اور اس میں سے اچھی اور خراب ای میل کو الگ کرنا انسانی وقت کا ضیاع ہے بلکہ بیشتر حالات میں‌ وقت کے لحاظ سے نا ممکنات میں شمار ہوتا ہے لہذا سادہ بیزین ترشيح کے الگارتھم کے ذریعے کمپیوٹر یہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے غیر مطلوب ای میل کس طرح کی ہوتی ہے، اس میں کس طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اس کا منبع و ماخذ کیا ہوتا ہے، اس میں‌استعمال ہونے والے حوالہ جات کی کیا شکل ہوتی ہے وغیرہ۔ جب سادہ بیزین ترشيح کا الگارتھم بہت سارے ایسے ای میل پیغامات کو پڑھ کر اس کا خلاصہ اپنی یادداشت میں‌بٹھا لیتا ہے تو جب وہ اس طرح کا کوئ بھی پیغام دیکھتا ہے مثلا ‘فوری ڈگری حاصل کریں’ یا ‘سستی گھڑیاں’ یا ‘آپ کا لاکھوں ڈالر کا انعام نکل آیا ہے’  تو اس کی درجہ بندی کرنا اس الگارتھم کے لئے ممکن ہوجاتا ہے اور یہی وہ سیکھنے کا عمل ہے جس کو مشین لرننگ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔

۔ مشین لرننگ کا کوئی بھی الگارتھم غلطی سے مبرا نہیں ہوتا اور اسی لئے اسے مستقل سیکھنے یا لرننگ کا عمل کہا جاتا ہے۔ اسپیمرز کو اس الگارتھم سے لڑنے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں مثلا نئے الفاظ کا استعمال، مبھم و پوشیدہ لنکس وغیرہ لیکن اس مستقل جنگ میں زیادہ تر فتح الگارتھم کی ہی ہوتی ہے۔

یہ تو تھی مشین لرننگ الگارتھم کی ایک مثال۔ مشین لرننگ کے الگارتھمز کو بنیادی طور پر دو حصوں میں‌تقسیم کیا جاتا ہے، نگراں سیکھنے والے اور بغیر نگرانی کے سیکھنے والے الگارتھ۔ ان دونوں‌کے درمیاں ایک سیمی سپروائزڈ حالت بھی پائی جاتی ہے۔ نگراں معرفت والے الگارتھم کسی انسانی ماہر یا ماہرانہ ڈیٹا سیٹ سے مدد لے کر اپنے آپ سیکھنے کے عمل کو بہتر بناتے ہیں۔ غیر نگراں‌معرفت والے الگارتھم خود سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلا مجموعات بنانے کے زیادہ تر الگارتھم جس میں اشیا کے درمیان تعلق کے فاصلے کو ناپا جاتا ہے۔

مشین لرننگ کمپیوٹر سائنس کا ایک نہائت تیز رفتاری سے آگے بڑھنے والا شعبہ ہے۔ سرچ انجن، ٹیکسٹ مایننگ، سیاق الکلام میں الفاظ کی تلاش، سیاق و سباق سے جوابات تلاش کرنا، ہاتھ کی لکھائی اور آواز کو پہچاننا، کتابوں کی پسندیدگی کا مشورہ و سفارش ، بینک کے خرچہ جات میں تعلق اور فراڈ کی تلاش وغیرہ کچھ ایسے عام استعمال کی چیزوں کی مثالیں ہیں جن میں مشین لرننگ کے الگارتھمز کا وافر استعمال ہوتا ہے۔

مشین لرننگ، کمپیوٹر سائنس کا ایک بڑا شعبہ ہے اور ایک بلاگ میں اس کا  احاطہ کرنانہائت مشکل کام ہے لیکن امید ہے کہ یہ مختصر سا بنیادی تعارف آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنا ہوگا۔ اگر آپ کا مشین لرننگ یا اس سے ملحقہ کسی تکنیکی مضمون کے بارے میں کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھئے،  راقم اس کا سیر حاصل جواب دینے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

Share

September 17, 2011

شائڈنفرائڈا، شماتت اور ٹیورنگ تعادل کا باہمی تعلق

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 8:43 am

مختلف زبانوں میں  تصورات کو متنوع طریقے سے بیان کیا جاتا ہے۔ لسانیات کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ افکار کا الفاظ سےتعلق راست متناسب ہوتا ہے۔ کسی زبان میں لفظ کی عدم موجودگی یا کثرت اسکے بولنے والوں کے سماجی رجحانات کا پتا دیتی ہے۔ مثلا ایسکیمو کے لئے برف  یا عربوں میں‌ گھوڑے کے لئے مستعمل الفاظ کا زخیرہ ان معاشروں کے سماجی میلانات کی طرف واضع اشارہ کرتا ہے۔ ہم معنویت یا ترادف کو لسانیات میں ‘سینونیمی’ کے نام سے جانا ہے جو کہ کسی لفظ کی برابری، نزدیکی اور مفتود ہونےکا علم ہے۔

کل دفتر سے واپسی پر اسکاٹ ہینسلمین کا پاڈکاسٹ برائے پولیگاٹ پراگرامنگ سن رہا تھا کہ اس میں‌اسی موضوع پر بات شروع ہوئی اور مثال کے طور پر لفظ شائڈنفرائڈا استعمال ہوا ۔ فراز کے دیوان میں بہت پہلے شماتت کا لفظ پڑھا تھا جو کہ اردو میں‌ فارسی سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی اور کی مصیبت پر خوش ہونا یا شاد شدن به خرابی کسی۔ اس لفظ کا جرمن زبان میں‌ مترادف شائڈنفرائڈا ہے جو بلکل اسی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے لیکن انگریزی زبان میں اسکا لفظ واحد میں‌مترادف نہیں۔ اس طرح کے بہت سے الفاظ ہیں جن کی تفصیل میں‌جانا اس مختصر تحریر میں ممکن نا ہوگا۔

مقصود یہ بتانا تھا کہ اسی  اصول کا اطلاق کمپیوٹر کی زبانوں پر بھی ہوتا ہے۔ ہر وہ زبان جو ٹیورنگ کمپلیٹ ہو اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں‌ ٹیورنگ تعادل پایا جاتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں‌ کہ فنکشنل ‘فعالی’ اور اٹریٹو ‘تکراری’ زبانیں بہت مختلف صیغہ جات پر کام کرتی ہیں لہذا اگر ایک زبان میں کوئی تصريح موجود ہو جو کسی کام کو نہائت آسانی سے کرسکتی ہو تو ضروری نہیں ہے کہ وہ دوسری زبان میں بھی موجود ہو۔ لیکن، ٹیورنگ کمپلیٹ ہونے کے ناتے دوسری زبان میں متنوع تصریحات، چاہے وہ ایک سے زیادہ ہوں، یہ کام کیا جا سکے گا۔

Share

September 11, 2011

یہودی سازشیں اور قانون مسعودی

Filed under: طنزومزاح — ابو عزام @ 10:55 pm

انٹرنیٹ کے تبصروں کے لئے گوڈون کا قانون ایک دلچسپ مشاہدے پر مبنی ہے۔ اس فکاہیہ قانون کی رو سے جیسے جیسے کسی بھی موضوع پر تبصروں کا حجم طویل ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس بات کا امکان بڑھتا جائے گا کہ صاحب تبصرہ ، صاحب مضمون کو یا کسی تبصرہ نگار کو ہٹلر یا نازیوں سے ممثل کردیں گے(اس کی پرابلیٹی ایک کے قریب ہوتی جاتی ہے)۔

اس قانون کی ایک کورلری یہ ہے کہ ایسا کرنے والا صارف گوڈون قانون کی رو سے اپنی بحث خود بخود ہار جائے گا چونکہ اسکا مشاہدہ نازی تمثیل پر مبنی ہے نا کہ کسی دلیل پر۔ اس طرح آپ کسی بحث کے دوران منطقی استدلال کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ جہاں کسی نے نازی تمثیل قائم کی اور وہاں آپ نے گوڈون کا قانون استعمال کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کردیا۔

اسی سے متاثر ہو کر ہم نے اردو بلاگستان کے لئے ایک قانون بنام قانون مسعودی جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون کی رو سے کسی بھی بحث میں اگر مدعا ‘یہودی سازش’ پر رکھا جائے گا تو ہو عدم دلیل کی بنا پر بحث کے ابطال کا باعث ہوگا اور مخالف کی خودبخود جیت کا باعث قرار دیا جائے گا۔ یہ قانون اس بحث کی دیگر حالتوں مثلا ‘صیہونی سازشوں’ پر بھی لاگو ہوگا۔

مجھے امید ہے کہ اردو بلاگستان اتنا بالغ النظر ہے کہ اس مضمون کی ظرافت کو جانتے ہوئے قانون مسعودی کو مستعمل کرا نے کہ لئے  بھرپور سعی کرئے گا۔

Share

September 9, 2011

تجریدی خیال اور پکاسو

Filed under: ادبیات,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:06 am

سیتھ گوڈن کو دور جدید کا ڈیل کارنیگی قرار دیا جائےتو کچھ غلط نا ہوگا۔ان کی نئی ٹکنالوجی اور جدید کاروباری نظریات پر گہری نظر ہے جس کا اثر ان کی تحاریر میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ سیتھ ایک متاثر کن مصنف اور مقرر ہیں‌ جن  کی ندرت خیال اور صاف سیدھی بات کرنے کا ہنر انہیں دور جدید کے دیگر ‘بزنس آف سافٹویر’ اور مارکٹنگ کے مصنفین سے جدا کرتا ہے۔ ان کی ایک نئی کتاب ‘لنچ پن’ راقم کے زیر مطالعہ ہے جس میں‌ سے ایک مختصر اقتباس کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ یہ پرسپشن یا کسی چیز کے حسی ادراک کے بارے میں ایک بڑا اثر انگیز نظریہ ہے ۔

ایک شخص اسپین میں‌ٹرین کے درجہ اول کے ڈبے میں سفر کر رہا تھا۔ ٹرین اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھی کہ جب اس نے دیکھا کہ ڈبے میں اس کا ہمسفر کوئی اور نہیں مشہور زمانہ مصور پابلو پکاسو ہے۔ اس شخص نے اپنی تمام ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا کہ،

” محترم پکاسو، آپ ایک عظیم مصور ہیں۔ تو پھر آپ ایسی مخدوش و مسخ شدہ تصویریں‌ کیوں بناتے ہیں جن پر تحریف کا گمان ہوتا ہے۔ جدید آرٹ اتنا عجیب و غریب کیوں ہے؟ آپ صحیح طور پر حقیقی تصویریں کیوں نہیں بناتے؟”

پکاسو نے ایک لمحے کے سکوت کے بعد پوچھا، “تمہارا کیا خیال ہے، حقیقت کیسی ہوتی ہے؟”

اس شخص نے اپنے بٹوے سے بیوی کی تصویر نکالی اور کہا، “یہ دیکھئے، یہ میری اہلیہ ہیں “۔

پکاسو نے مسکرا کر کہا، “اچھا، یہ آپ کی اہلیہ تو بہت چھوٹی اور سپاٹ ہیں”۔

حقیقت اور اسکے مادی ادراک کی یہ ایک اچھی تمثیل ہے۔ سیتھ گوڈن کی کتاب یہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

Share

Powered by WordPress