فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 31, 2011

سال نو اور فیض

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 7:24 am

چند گھنٹے اور باقی ہیں اور پھر یہ برس بھی ہمارے گرد آلود کی روز میں مل کر خاک ہو جائے گا۔ شائد اسی وجہ سے اس دن کے لئے کوئی جذبہ دل میں محسوس نہیں ہوتا۔ نہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جادہ وقت میں یہ دن کوئی اہم سنگ میل ہے، یہ دن ویسا ہی ہے جیسے جیل خانے کے باقی دن ہیں جن سے صرف اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ پیمانہ عمر میں بے رونقی کی مہ ایک درجہ اور نیچے اتر آئی ہے۔ جب ساے ڈھلنے لگیں گے تو شائد یہ تاثر بدل جاے اور اس دن کی کچھ اسطرح شناخت ہو سکے کہ یہ آخری درد کے آخری سال کا آخری دن ہے۔ آخری درد اس لئے کہ ہر خوشی کی طرح ہر درد بھی اپنی جگہ آخری ہوتا ہے جو گذر جائے تو پھر پلٹ کر نہیں آتا، پھر یہ درد صرف یاد میں واپس آسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر درد کی یاد سے کچھ محسوس ہو، جیسے یہ ضروری نہیں کہ جو بھی خوشی یاد کی جائے اس سے راحت پہنچے۔

آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زھر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی

حرف نفرت کوئی، شمشیر غضب ہو جیسے
تاابد شہر ستم جس سے تباہ ہوجائیں۔
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیاہ جائیں۔

آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی

فیض احمد فیض

Share

December 30, 2011

وہ دن ہوا ہوئے

Filed under: ادبیات,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 12:17 pm

کرٹکل تھنکنگ بڑی بری بلا ہے کہ زندگی سے افسانویت اور واقعہ سے نقش خیال چھین لیتی ہے۔ اب حکایاتوں و کہانیوں سے مزا اٹھ سا گیا ہے کہ اگر منہ سے آگ اگلتے اژدھوں، بولتے مرغوں یا ڈاکٹر کی ممکنہ ندامت کے خوف سے غلط داڑھ نکلوا لینے والے نوابین کے حسن سلوک کے قصے سنتے ہیں تو فورا لیفٹ برین چلا اٹھتا ہے کہ لو جی یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئ؟ جوے شیر کیا، سلوک کیا، منصور کی سولی کیا۔۔۔یہ استدلالی و عقلی و منطقی و پر مغز سوچ تجرید کا گلا کچھ اس طرح گھونٹنے لگتی ہے کہ تخلیقی فکر کا دم گھٹتا ہے۔

یادش بخیر کیا دن تھے کہ تجسس و تخیل کی اڑانیں غیر مقید ہوا کرتی تھیں۔ جب استفسار سے پہلے جواب معلوم ہونا تو درکنار، معلوم کی سرحد کی موجودگی ہی بے معنی تھی۔ جب منطق و استدلال نے گمان کے پر نا کترے تھے۔ جب اشیا میں نیا پن تھا اور چھنگلی کے کھودنے سے بونے نکل آیا کرتے تھے، جب ہر سفر، ہر عمارت، ہر پہاڑ اور ہر قریہ جدید و بے نظیر و تازہ دکھائ دیتا تھا، مماثل نہیں کہ بین دیر ڈن دیٹ کی مانند ہو۔

 اب تو بس سائنس، ترقی، ہایڈرالکس کے قوانین، حر حرکیات کے قوانین، اس کا نظریہ، اس کا قانون باقی رہ گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں اب عمروعیار کی زنبیل کی کوئ جگہ نہیں، کسی کو عثمان جاہ کے انناسوں کے مرتبانوں سے، افراسیاب سے، صرصر سے، انکا و اقابلا سے کوئ التفات و تلمذ نہیں، ہاں بازرگانی ہے، سرقہ ہے، اور تجارت ہے کہ باقی سب تو لڑکپن کے کھیل ٹھرے، اذہان رشد و پختہ تو فقط استدلال سے کلام رکھتے ہیں۔

Share

December 19, 2011

تارکین وطن کے نام

Filed under: پاکستان,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 7:25 pm

ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آنکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لئے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

فیض احمد فیض

Share

December 18, 2011

انسٹنٹ سٹی از اسٹیو انسکی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 11:55 am

این پی آر، پبلک ریڈیو اور بیرونی میڈیا کے سامعین کے لئے اسٹیو انسکی کا نام نیا نہیں۔ مارننگ شو جو امریکہ میں‌ سب سے زیادہ سننے والا خبروں‌ کا پروگرام ہے، اسکے کو ہوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیو این پی آر کے مستقل معاون بھی ہیں۔ اسٹیو کی صحافتی زمہ داریوں میں‌افغانستان کی جنگ کی کوریج کے علاوہ پاکستان اور عراق کے اہم واقعات کی خبروں کو پیش کرنا شامل ہے۔ انہیں ‘افریقی تیل کی قیمت’ کے نام سے نایجیریا میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک سیریز کرنے پر رابرٹ ایف کینیڈی ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔

انسٹنٹ سٹی یا فوری شہر نامی یہ تقریبا تین سو صفحات کی کتاب پینگوئن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ کراچی کے بارے میں اسٹیو انسکی کی یہ تصنیف کسی لاعلم فرد کا ڈرائنگ روم سے لکھا گیا مکالمہ نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ اکثر بہت قریب ہونے کی وجہ سے ہم وہ چیزیں نہیں دیکھ پاتےجس کو بیرونی رائے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔تقریبا تیس صفحات پر ذرائع اور نوٹس کی شکل میں کتاب کے تمام مواد کے بارے میں تحقیقی معلومات اکھٹی کر دی گئی ہیں جن سے کتاب کی صداقت کو جانچا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں انسکی نے ایک تحقیقاتی صحافی کی طرح اپنے قلم کو زمینی حقائق سے قریب رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ یہ ایک بیزار کردینے والے مقالے کے بجائے ایک دلچسپ پیج ٹرنر وجود میں آگئی ہے۔

انسکی نے اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جناح روڈ، مقامات، نیو کراچی اور تجدید کراچی جو کتاب کے مضمون و ترکیب کو بہت اچھے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ انسٹنٹ سٹی کل پندرہ ابواب پر مشتمل ہے جو پاکستان بننے سےلے کر آج کے کراچی تک کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کو اینکڈوٹس کا ایک خوبصورت مجموعہ کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ تاریخ کے بیان کے باوجود یہ تاریخ کی کتاب نہیں، معاشی ناہمواریوں، فسادات و خونریزیوں کی داستانوں کے باوجود یہ سماجی تفسیر ہونے کا دعوی نہیں کرتی۔ اس کتاب میں ایدھی بھی ہیں اور ایوب خان بھی، شیعہ زائر محمد رضا زیدی بھی ہیں اور اردشیر کاوس جی بھی، سوات کا افریدی بھی اور مصطفی کمال بھی، جلتی ہوئی بولٹن مارکٹ بھی اور ستر کلفٹن بھی، لینڈ مافیا کے قصے بھی ۔ غرضیکہ کہ گٹر باغیچہ سے ڈریم ورلڈ کے درمیان بستے کراچی کی طرح یہ کتاب بھی بڑی مختلف النوع اور کوسموپولیٹن ہے۔

اس کتاب کا مرکزی خیال کراچی کے مسائل پر تحقیق اور اس کی دیرینہ وجوہات کی تلاش ہے۔ انسکی نےان مسائل کی بنیادی وجوہات کو مختلف نظریات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر مسئلے کو تہ دل سے بنیادی مسئلہ سمجھتے رہے ہیں۔ انہیں بانی پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے دو قومی نظریے پر بننے والے ملک میں اقلیتوں کےلئے حقوق کا ایک واضع فریم ورک نہیں دیا جس کی وجہ سے کراچی جس میں آزادی کے وقت اقلیتوں کے تعداد اکیاون فیصد سے زیادہ تھی، آج ان کی املاک اور آبادی ایک مارجنالائز طبقہ بن کر رہ گئی ہے۔ انہیں ایوب خان سے شکایت ہے، کراچی کی بلا منصوبہ بندی بڑھنے سے شکایت ہے اور سب سے بڑھ کر عوام سے شکایت ہے کہ وہ وسیع ترین عوامی مفاد پر انفرادی مفادات کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن کراچی کے لوگوں میں ریزییلینس یا لچک و استحکام کو موضوع بحث رکھتے ہوئے اسٹیو ان مسائل و شکائتوں کو اس طرح الفاظ کے جامے میں‌‌ ڈھالتے ہیں کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی صاف دکھائی دیتی ہے۔

اس کتاب کے کلف نوٹس یا خلاصہ نہایت مشکل امر ہے، آپ مصنف کی باتوں سے اختلاف کریں یا اتفاق، اسکی تحقیقی جانفشانی کی داد ضرور دیں گے۔ میں نے یہ کتاب لبرٹی پر دیکھی تھی، اگر موقع ملے تو ضرور پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

Share

December 16, 2011

!دوروست ترک

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 9:41 pm

یہ واقعہ ہمارے ساتھ تقریبا ایک ماہ پہلے استنبول میں پیش آیا، جب سے ہم دوستوں کو سنا کر انہیں‌ بور کر رہے ہیں، اب آپ قارئین کی دلچسپی کے لئے بلاگ کی نظر کرتے ہیں۔

سلطان احمد کا‌ ضلع استنبول کے انتالیس اضلاع میں سے ایک ہے۔ مشہور زمانہ نیلی مسجد جامع سلطان احمد، کلیسہ آیاصوفیہ اور توپ کاپی کا عجائب گھراسی ضلع کا حصہ ہیں۔ ہمارے ترک دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے قیام کے دوران رہائش سلطان احمد میں رکھنا تاکہ سفر میں‌وقت ضائع نا ہو، یہ مشورہ بڑا کارآمد ثابت ہوا اور ہم نے چار روز میں سلطان احمد کی بڑی خاک چھانی۔

اس سفر کا تذکرہ تو کبھی اور سہی، اہم بات یہاں یہ تھی کہ ہم جس اپارٹمنٹ میں بمعہ اہل و عیال ٹھرے، وہ کوچک یعنی چھوٹی آیاصوفیہ نامی مسجد کے بلکل برابر میں‌ تھا۔ ایرولواپارٹمنٹ کمپلکس کے نگہبان روحان اور اس کے ایک ساتھی نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ہمارے اپارٹمنٹ کی چابی تھما دی اور ہمارے اصرار کے باوجود سامان گاڑی سے اتار کر اندر پہنچایا۔ روایتی ترکی گرمجوشی، مہمان نوازی اور بچوں سے ترکوں کے خصوصی لگاو کا مشاہدہ ہم نے پورے سفر کے دوران کیا۔ اس حسن سلوک سے ہم سب خاصے متاثر ہوئے۔

 

خیر، جب جانے کا وقت قریب آیا اور ہم نے اپنے الیکٹرانک گیجٹ سمیٹنا شروع کئے تواہلیہ کو تحفتا دیا ہوا آی پاڈ ٹچ، جو اس وقت ہمارے استعمال میں‌ تھا، شومئی قسمت سے اپارٹمنٹ میں‌ رہ گیا۔ یہ عقدہ کراچی پہنچ کر کھلا کہ ہم آئی پاڈ وہیں بھول آئے ہیں۔ اس ڈوائس کی قیمت اس اپارٹمنٹ میں ہمارے چار روزہ قیام کے کرائے سے زیادہ تھی اور ہمیں یقین واثق تھا کہ کہ جس نے بھی آئ پاڈ کو پڑا پایا، وہ کسی صورت اسے واپس نہیں کرئے گا۔ صلواتیں سننے کے لئے تیار ہم نے اس ڈوائس کے نقصان پر اناللہ پڑھی ہی تھی کی ایک ای میل وصول ہوئی۔

آپ اپنا فون اپارٹمنٹ میں‌بھول گئے ہیں، آکر لے جائیں، آپکی امانت ہمارے یہاں محفوظ ہے۔ روحان از ایرولو اپارٹ

اس پر آشوب دور میں ایمانداری کے اس نادر مظاہرے پر بڑی دلی مسرت ہوئی ۔ ہم نے انہیں‌ جواب دیا کہ انشاللہ ہم ایک ماہ بعد آ کر اپنی امانت لے جائیں گے۔ تقریبا ایک ماہ بعد جب ہمارا دوبارہ استنبول جانا ہوا تو ہم نے صبح سویرے اپارٹمنٹ کا چکر لگایا اور روحان کے ساتھی نے فورا ہی ہمیں‌ ہمارا آئی پوڈ لا دیا۔ اس کی فارمیٹنگ اور ڈیفالٹ زبان کو مشرف با ترکی کرنے کے علاوہ اور کوئی خاص تبدیلی نہ تھی۔  ہم نے اپنے میزبان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنی راہ لی۔

جب آپ نیلی مسجد سے نکلنے لگتے ہیں تو باہر جانے کے دروازے پر یہ بڑا طغرہ نظر آتا ہے۔ ترکوں کے قول و عمل میں اس کا بڑا ہاتھ دکھائی دیا۔ الکاسب حبیب اللہ۔


Share

December 13, 2011

آج نہیں تو کبھی نہیں از بشیر جمعہ کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 7:08 am

 طارق روڈ پر واقع دارالسلام کے دفتر کے ایک تازہ چکر کے دوران ہم نے جہاں کئی دوسری کتابیں خریدیں وہاں محمد بشیر جمعہ صاحب کی

آج نہیں تو کبھی نہیں،
سستی کاہلی اور تن آسانی، تعارف وجوہات اور علاج

 کے نام سے موجود ایک کتاب بھی لے لی۔ اردو میں ٹائم مینیجمنٹ اور سیلف ہیلپ کی اچھی کتابیں‌ شاز و نادر ہی نظر آتی ہیں، انگریزی کتابوں کے تراجم البتہ مل جایا کرتے ہیں ۔ اس تقریبا ستر صفحات کی کتاب جسے کتابچہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا نے خاصا متاثر کیا۔ اپنی مدد آپ یا سیلف ہیلپ کی کتابوں کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب مختصر تجاویز، حکایات، عملی منصوبہ جات سے مزین ایک ورک بک ہے جو کہ تساہل کی کئی بنیادی وجوہات پر نا صرف روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس سے نبرد آزما ہونے کے طریقے بھی بتاتی ہے۔

اس میں ایک پیراگراف بڑاحسب حال تھا، اقتباس کے لئے موزوں لگا لہذا درج زیل ہے۔

چونکہ ہماری قومی زندگی میں بنیادی فلسفے۔ تصور حیات، پالیسی، متعلقہ منصوبہ بندی اور افرادکار کے بہتر استعمال کی صلاحیت کی کمی ہے، لہذا قومی مزاج ہنگامی اور ایڈہاک ازم کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومتیں‌اور ادارے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اجتماعی قومی نقصان کو نظر انداز کرتے اہم اقدامات کرلیتے ہیں جو ان کے وجود کو فوری طور پر قائم رکھتے بحیثیت قوم ہم اپنی بنیادوں کو تباہ کر لیتے ہیں۔

 اس کتاب کی قیمت ستر روپے ہے۔ جن اصحاب کو ڈیوڈ ایلن کی گیٹنگ تھنگس ڈن پسند ہے انہیں یہ مختصر اور پر اثر کتابچہ ضرور پسند آئے گا۔

Share

Powered by WordPress