چند گھنٹے اور باقی ہیں اور پھر یہ برس بھی ہمارے گرد آلود کی روز میں مل کر خاک ہو جائے گا۔ شائد اسی وجہ سے اس دن کے لئے کوئی جذبہ دل میں محسوس نہیں ہوتا۔ نہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جادہ وقت میں یہ دن کوئی اہم سنگ میل ہے، یہ دن ویسا ہی ہے جیسے جیل خانے کے باقی دن ہیں جن سے صرف اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ پیمانہ عمر میں بے رونقی کی مہ ایک درجہ اور نیچے اتر آئی ہے۔ جب ساے ڈھلنے لگیں گے تو شائد یہ تاثر بدل جاے اور اس دن کی کچھ اسطرح شناخت ہو سکے کہ یہ آخری درد کے آخری سال کا آخری دن ہے۔ آخری درد اس لئے کہ ہر خوشی کی طرح ہر درد بھی اپنی جگہ آخری ہوتا ہے جو گذر جائے تو پھر پلٹ کر نہیں آتا، پھر یہ درد صرف یاد میں واپس آسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر درد کی یاد سے کچھ محسوس ہو، جیسے یہ ضروری نہیں کہ جو بھی خوشی یاد کی جائے اس سے راحت پہنچے۔
آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زھر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرف نفرت کوئی، شمشیر غضب ہو جیسے
تاابد شہر ستم جس سے تباہ ہوجائیں۔
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیاہ جائیں۔
آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی
فیض احمد فیض