فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 30, 2011

وہ دن ہوا ہوئے

Filed under: ادبیات,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 12:17 pm

کرٹکل تھنکنگ بڑی بری بلا ہے کہ زندگی سے افسانویت اور واقعہ سے نقش خیال چھین لیتی ہے۔ اب حکایاتوں و کہانیوں سے مزا اٹھ سا گیا ہے کہ اگر منہ سے آگ اگلتے اژدھوں، بولتے مرغوں یا ڈاکٹر کی ممکنہ ندامت کے خوف سے غلط داڑھ نکلوا لینے والے نوابین کے حسن سلوک کے قصے سنتے ہیں تو فورا لیفٹ برین چلا اٹھتا ہے کہ لو جی یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئ؟ جوے شیر کیا، سلوک کیا، منصور کی سولی کیا۔۔۔یہ استدلالی و عقلی و منطقی و پر مغز سوچ تجرید کا گلا کچھ اس طرح گھونٹنے لگتی ہے کہ تخلیقی فکر کا دم گھٹتا ہے۔

یادش بخیر کیا دن تھے کہ تجسس و تخیل کی اڑانیں غیر مقید ہوا کرتی تھیں۔ جب استفسار سے پہلے جواب معلوم ہونا تو درکنار، معلوم کی سرحد کی موجودگی ہی بے معنی تھی۔ جب منطق و استدلال نے گمان کے پر نا کترے تھے۔ جب اشیا میں نیا پن تھا اور چھنگلی کے کھودنے سے بونے نکل آیا کرتے تھے، جب ہر سفر، ہر عمارت، ہر پہاڑ اور ہر قریہ جدید و بے نظیر و تازہ دکھائ دیتا تھا، مماثل نہیں کہ بین دیر ڈن دیٹ کی مانند ہو۔

 اب تو بس سائنس، ترقی، ہایڈرالکس کے قوانین، حر حرکیات کے قوانین، اس کا نظریہ، اس کا قانون باقی رہ گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں اب عمروعیار کی زنبیل کی کوئ جگہ نہیں، کسی کو عثمان جاہ کے انناسوں کے مرتبانوں سے، افراسیاب سے، صرصر سے، انکا و اقابلا سے کوئ التفات و تلمذ نہیں، ہاں بازرگانی ہے، سرقہ ہے، اور تجارت ہے کہ باقی سب تو لڑکپن کے کھیل ٹھرے، اذہان رشد و پختہ تو فقط استدلال سے کلام رکھتے ہیں۔

Share

9 Comments »

  1. Critical Thinking : تنقیدی سوچ
    کیا میں نے درس ترجمہ کیا ہے ؟

    Comment by محمد منصور — December 30, 2011 @ 12:41 pm

  2. برادرم منصور، ترجمہ تو بالمعنی درست ہے لیکن یہاں مطلوب انگریزی لفظ اور اس سےجڑی سوچ کے مترادفات ہیں اسی وجہ سے ترجمہ استعمال نہیں کیا گیا۔ مبصر کا مصنف کی راے سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن یہ احقر کو اس اتراہٹ میں قطعی کوئ ہچکچاہٹ نہیں کہ اس مضمون میں مستعمل الفاظ کا چناو نہایت دانستگی سے کیا گیا ہے اور ہر گرا پڑا مترادف زینت خامہ نہیں بنا۔

    Comment by ابو عزام — December 30, 2011 @ 12:54 pm

  3. محترم؛ تخیل کی پرواز کی تو ابھی بھی کوئی حد نہیں۔ مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ جو زنبیل کسی وقت تصوارتی تھی تو اب وہ حقیقی ہے۔ آپ خودسر عمروں میں ذرا اٹھیے بیٹھیے تو معلوم ہوکہ تصورات بدل گئے ہیں پرواز وہی ہے۔

    سوال منصور صاحب کا دہرادوں کہ حضرت اس ’معترضانہ تفکر‘ کا کیا بنا جب آپ نے ’کریٹیکل تھنکنگ‘ سے مضمون آلودہ کیا؟

    Comment by راشد کامران — December 30, 2011 @ 3:12 pm

  4. اس عبارت کو ہضم کرنے کيلئے معدے کا کوئی نسخہ حاصل کرنا پڑے گا مگر حکيم محمد اجمل خان تو عرصہ ہوا يہ دنيا چھوڑ گئے اور حکيم سعيد کا رختِ سفر کراچی والوں نے جلد باندھ ديا ۔

    Comment by افتخار اجمل بھوپال — December 30, 2011 @ 8:44 pm

  5. افتخار صاحب، ٓاپ کے پڑھنے اور تبصرے کا شکریہ

    Comment by عدنان مسعود — January 2, 2012 @ 10:58 am

  6. فیری ٹیلز اگر زندگی سے کلی طور پر خارج ہو جائیں تو زندگی بہت خشک، کٹھن ہو جاتی ہے۔ جیسے لبریکینٹ کے بغیر مشین۔

    Comment by احمد عرفان شفقت — December 30, 2011 @ 9:34 pm

  7. احمد عرفان شفقت صاحب، بلکل بجا فرمایا اپنے اور استعارہ بھی خوب ہے۔

    Comment by عدنان مسعود — January 2, 2012 @ 10:59 am

  8. حضرت مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کریٹیکل تھنکنگ کس چڑیا کا نام ہے۔ میرا تو ماننا ہے کہ انسان کریٹیکل تھنکنگ کی صلاحیت سے پیدائشی طور پر عاری ہے۔ انسان کبھی بھی اپنے پسندیدہ نظریات سے اوپر اٹھ کر نہیں دیکھ سکتا

    Comment by ڈاکٹر جواد احمد خان — December 31, 2011 @ 2:43 pm

  9. ڈاکٹر جواد صاحب، قدرتی میلانات یا جس رجحان کو شماریات کی اصطلاح میں بائیس کہا جاتا ہے تو واقعی پائے جاتے ہیں لیکن انسان یقینی طور پر نان کنونشنل یا غیر عرفی سوچ کا حامل ہے ورنہ حالات کا موجودہ منظر نامہ پتھروں کے زمانے سے زیادہ مختلف نا ہوتا۔

    Comment by عدنان مسعود — January 2, 2012 @ 11:03 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress